یہ معاملہ اسراف کے علاوہ اور کچھ نہیں۔مہر میں مسنون یہ ہے کہ وہ تھوڑاہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر اپنی بیویوں کے لیے پانچ سودرہم تھا۔ (مسلم(1426) کتاب النکاح باب الصداق وجواز کونہ تعلیم القرآن)
اور جب بھی مہر کم ہوگا نکاح میں برکت اور زوجین کے درمیان محبت زیادہ ہوگی اور سب سے زیادہ برکت والانکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو۔
اور جب مہرزیادہ ہوگا تو یہ بہت سے مفاسد کا ذریعہ بنے گا مثلاً اس سے جوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی معطل ہوکر رہ جائے گی کیونکہ ہر ایک میں مہر ادا کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔اور اگر مہر کم ہونے کی وجہ سے سب کے لیے آسان ہوگا تو مفاسد ختم ہوجائیں گے شادیاں کثرت سے ہوں گی،امت کے افراد میں کثرت ہوگی اور اس طرح افراد اورمعاشرے میں بہت زیادہ برکت ہوجائے گی۔
لہذا میری اپنے بھائیوں کو یہ نصیحت ہے کہ مہر کو کم سے کم مقرر کیا کریں۔حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے لیے کہ جس نے اپنے نفس کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کردیا تھا مگر آپ نے اس میں رغبت کااظہار نہیں کیا تھا ایک صحابی کو کہا کہ جاؤ تلاش کرو اگر لوہے کی ایک انگوٹھی مل جائے وہ(اسے بطور مہر دینے کے لیے) لے آؤ۔( بخاری(5126) کتاب النکاح باب النظر الی المراۃ قبل التزویج مسلم(1425) کتاب النکاح باب الصداق وجواز کونہ تعلیم القرآن)
لہذا خیر وبرکت کم مہر میں ہی ہے۔اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والاہے۔(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ )