ایک لڑکی کے والد نے فوری طور پر تو قر آن مجید بطور مہر طلب کیا لیکن بعد میں یہ شرط لگائی کہ 20 ہزار ڈالر دینا ہوں گے۔شادی کرنے والا بھائی اتنی بڑی رقم اداکرنے کی استطاعت نہیں ر کھتا اور بیوی اس رقم کو معاف کرنا چاہتی ہے تو کیا ایساس کرناجائز ہے؟
اوراگربیوی اس رقم کو معاف نہ کرے اور کچھ مدت بعداس کو طلاق ہوجائے توکیاخاوند پر طلاق کے بعد یہ رقم اداکرنی واجب ہوگی؟نیز کیا اس بھائی کے لیے یہ جائز ہے کہ اتنے مہر کی ادائیگی کا وعدہ کرلے جتنا اس کی ملکیت میں نہ ہو؟بیوی پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنا حق مہر معاف کردے اس کی دلیل مندرجہ ذیل آیت ہے:
"اگر وہ خوداپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہوکرکھالو۔"(النساء:4)
ہم بستری کے بعد طلاق کی صورت میں بیوی مہر کی حقدارہوگی خواہ وہ طلاق شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد ہو جائے،لیکن خلع کی صورت میں شوہر اس کے مہر کے مال کے عوض میں خلع دے تو کوئی حرج نہیں لیکن اس میں یہ شرط ہے کہ اگر کوئی شرعی سبب ہوتو پھر خلع ہوسکتا ہے صرف مال حاصل کرنے کے لیے نہیں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"اور تم انھیں اس لیے مت روکو کہ جو تم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ واپس لے لو یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی اور واضح بے حیائی کریں۔"(النساء:19) (شیخ محمدالمنجد)