وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!باپ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے مہر سے کچھ یا اس کا اکثر حصہ لے لے کیونکہ جب وہ اس کے ذاتی مال کا مالک بن سکتا ہے(جیسا کہ حدیث میں ہے کہ تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے )تو مہر کاکیوں نہیں(مگر شرط یہ ہے بیٹی مہر میں سے باپ کوکچھ دینے پر راضی ہوورنہ جبری طور پر بیٹی سے مہر لینا یا یہ سمجھنا کہ بیٹی کے مہر میں والدین کا بھی حق ہے جائز نہیں کیونکہ مہر خالصتاً لڑکی کا ہی حق ہے اس میں والدین کا کوئی حق نہیں ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے کچھ دینے پر راضی ہو تو اور بات ہے مرتب)(واللہ اعلم)(شیخ عبدالرحمان سعدی)