سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(173) مہر لینا مرد کا حق ہے یا بیوی کا؟

  • 15691
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1631

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک والدین کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے اور بہت کوشش کے بعد انہیں بیٹی کے لیے رشتہ ملا ہے۔لیکن ہونے والا داماد مہر کا مطالبہ کررہاہے جبکہ لڑکی کے والدین کے پاس مہر ادا کرنے کی طاقت نہیں۔اسلیے اب وہ یہ کوشش کررہے ہیں کہ انہیں ان کے بیٹے کا مہر مل جائے تاکہ وہ اپنی بیٹی کا مہر ادا کریں۔وہ اپنے بیٹے کے مہر کو صرف اپنی بیٹی کا مہر دینے میں ہی استعمال کررہے ہیں میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالیں تاکہ ہم اس مشکل سے نکل سکیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ تو بہت ہی عجیب سی بات ہے کہ بعض ممالک میں مہر لڑکی یا اس کے والدین کو ادا کرنا  پڑتا ہے اور خاوند مہر لیتاہے۔یہ تو بالکل کتاب وسنت کے خلاف ہے بلکہ حدیث میں تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ مہر دینے کے لیے کوئی چیز تلاش کرے  خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو اور جب اسے لوہے کی انگوٹھی بھی نہ ملی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے عورت کا مہر یہ قرار دیا کہ خاوند کو جتنا قرآن یادہے وہ بیوی کو حفظ کرائے۔

حضرت سہل بن سعد  ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ    بیان کرتے ہیں کہ:

"ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ! میں آپ کی خدمت میں اپنے آپ کو آپ کے لیے وقف کرنے حاضر ہوئی ہوں۔راوی نے بیان کیا کہ  پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا،پھر آپ نے اپنی نظر کو نیچا کیا اور پھر اپنا سر جھکالیا۔جب اس عورت نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تووہ بیٹھ گئی۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !اگر آپ کو ان سے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہے تو میرا ان سے نکاح کردیجئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس(حق مہر کی ادائیگی کے لیے) کچھ ہے؟انہوں نے عرض کیا کہ نہیں اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے ان سےفرمایا کہ اپنے گھر جاؤ اور دیکھو  ممکن ہے تمھیں کوئی چیز مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آگئے اور عرض کیا کہ اللہ کی قسم!میں نے کچھ نہیں پایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا  تلاش کرو اگر لوہے کی ایک انگوٹھی بھی مل جائے تو لے آؤ۔وہ گئے اور واپس آگئے اور عرض کیا کہ اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ! میرے پاس لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ہے البتہ میرے پاس یہ تہبند ہے۔انہیں(یعنی اس عورت کو) اس میں آدھا دے دیجئے۔راوی نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس تہبند کا کیا کرے گی۔اگر تم اسے پہنو گے تو ان کے لیے اس میں سے کچھ نہیں بچے گا اور اگر وہ پہن لے گی تو تمہارے لیے کچھ نہیں رہے گا۔اس کے بعد وہ  صحابی بیٹھ گئے۔کافی دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد جب وہ کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے انہیں دیکھا کہ وہ واپس جارہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے انہیں بلوایا۔جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے دریافت فرمایا کہ تمھیں قرآن مجید کتنا یاد ہے؟انہوں نے کہا کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں  انہوں نے  گن کر بتائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے پوچھا کیا تم انہیں بغیر دیکھے پڑھ سکتے ہو؟انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا،پھر جاؤ  میں نے ان سورتوں کے بدلے جو تمھیں یاد ہیں انہیں تمہارے نکاح میں دیا ۔"( بخاری (5087۔5130) کتاب النکاح باب تزویج المعسر،مسلم(1425) احمد(5/330)ابو داود(2111)ترمذی(1114)

اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   بغیر مہر کے اس  مرد سے شادی پر رضا مند نہیں ہوئے اور مہر کے بارے میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے عورت سے کچھ بھی نہیں پوچھا بلکہ اس میں یہ بھی ہے کہ عورت کو  کچھ نہ کچھ مہر لازمی  ادا کیا جائے گا۔پھر اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر جو فوقیت اور سربراہی عطا فرمائی ہے اس کامفہوم بھی یہی ہے کہ مرد ہی عورت کو کچھ نہ کچھ ادا کرے گا کیونکہ وہ عورت کا ذمہ دار ہے اور عورت کے پاس کمزور وناتواں ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

"مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔"( النساء۔34)

پھر یہ بھی ہے کہ عورت کا یہ حق ہے کہ وہ مرد سے مہرحاصل کرے کیونکہ مرد اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور یہ مہر اس کے بدلے میں ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہراداکردو اورمہر مقرر ہوجانے کے بعد تم آپس کی  رضا مندی سے جو طے کرلو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں بلا شبہ اللہ تعالیٰ علم وحکمت والا ہے۔"( النساء۔24)

اس آیت کی  تفسیر میں امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں کہ:

"اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم ان سے نفع حاصل کرتے ہو اس کے بدلے میں انہیں مہر ادا کرو۔جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح ارشاد ہے کہ"اور تم اسے(یعنی مہر کوطلاق دیتے وقت) کیسے لوگے حالانکہ  تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور ان عورتوں سے تم نے مضبوط اور پختہ عہد وپیمان لے رکھے ہیں۔"اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا ہے کہ"اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوش دے دو۔"اسی طرح یہ بھی فرمایا کہ"اور جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ بھی واپس لینا تمہارے لیے حلال نہیں۔"( تفسیر ابن کثیر(1/475)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا      فرماتی ہیں کہ:

"جس عورت نے ا پنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیااس کا نکاح باطل ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔(پھر اس ممنوع نکاح کے بعد) اگر مرد اس عورت کے ساتھ ہم بستری کرلے تواس پر مہر کی ادائیگی واجب ہے کہ جس کے بدلے اس نے عورت کی شرمگاہ کو چھوا۔اگر اولیاء کا آپس میں اختلاف ہوجائے تو جس کاکوئی ولی نہ ہو اس کا ولی حکمران ہے۔"( صحیح۔صحیح ابو داود(1835) کتاب النکاح باب فی الولی ابو داود(2083) احمد(6/47) ترمذی(1102) کتاب النکاح باب ما جاء لا نکاح الابولی ابن ماجہ(1879) کتاب النکاح:باب لا نکاح الا بولی ابن المحاردود(700) دارمی(3/7) دارقطنی(3/221) حاکم(2/168) بیہقی (7/105) ابو یعلیٰ(8/147)

مندرجہ بالاسطور سے معلوم ہواکہ مرد عورت کو مہر ادا کرے گا عورت اپنے خاوند کومہر اداد نہیں کرے گی۔شیخ عبداللہ بن قعود کہتے ہیں کہ:

"مہر لینا بیوی کا حق ہے اسے مقرر کرنا واجب اورضروری ہے۔ بیوی اور اس کے گھر والوں  پر کوئی چیز دینا واجب نہیں لیکن وہ(اپنی خوشی سے) کچھ دینا چاہیں تو ان کی مرضی۔"

اس بنا پر یہ جائز نہیں کہ آپ بیتے کا مہر لے کر بیٹی کا مہر ادا کریں۔

ہماری آپ سے گزارش ہے کہ جب  آ پ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ  اختیار کریں گے تو وہ آپ کی بچی کے لیے اس مشکل کو آسان کردے گا اس لیے لڑکی کو بھی چاہیے کہ صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے اجروثواب کی نیت کرے اور اللہ تعالیٰ سے التجا کرے کہ وہ اس کی مشکل دور کرے۔یقیناً اللہ اپنے بندوں کے بے حد قریب ہے۔

آپ کے ملک میں بسنے والے علمائے کرام اورعقل ودانش رکھنے والوں اور اسی طرح عام لوگوں پر بھی ضروری ہے کہ وہ اس برے رواج کو تبدیل کرکے سنت نبوی کی اتباع کریں کیونکہ یہی  صحیح وقابل  عمل ہے اور اس کی مخالفت جائز نہیں۔(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص244

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ