نکاح میں مہر کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ کتاب وسنت اور اجماع کے دلائل اس کے وجوب پر ہی دلالت کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
"عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی ادا کرو۔"
اور فرمایا ہے:
"اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تم پر حلال کی گئی ہیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لیے نہ کہ شہوت رانی کے لیے اس لیے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو اور مہر مقرر ہوجانے کے بعد تم آپس کی رضا مندی سے جو طے کرلو اس میں تم پر کوئی حرج نہیں۔"
اوریہ بھی ثابت ہے کہ ایک عورت نے حاضر ہوکر اپنے نفس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کردیا مگر آپ کو اس کی حاجت نہ تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ساتھی نے اس سے شادی کا ارادہ کیا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مہر لانے کو کہا،جب اس نے فقروفاقے کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جاؤ تلاش کرو خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔اس نے تلاش کیا لیکن انگوٹھی بھی نہ ملی،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کے ساتھ اس کی شادی کرنے سے انکار کردیا الا کہ وہ کوئی ایسی چیز اس پر خرچ کرے جس میں اس کا کوئی فائدہ ہو۔بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس عورت کے ساتھ قرآن کی ان سورتوں کے بدلے میں شادی کردی جو اسے یاد تھیں کہ وہ اسے سکھائے گا۔
اور امت کا اجماع ہے کہ نکاح میں مہر ضروری ہے اور جس نے کسی عورت سے بغیر مہر کے شادی کی اس نکاح کے متعلق کہاگیا ہے کہ ان دونوں کا نکاح باطل ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نکاح صحیح ہے البتہ شرط باطل ہے اور اس عورت کے لیے ہم بستری یا شوہر کی وفات کے ساتھ مہر مثل(جتنا اس خاندان کی عورتوں کو عام طور ر دیاجاتا ہے) واجب ہے۔یہی دوسرا قول ہی راجح ہے۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)
شیخ صالح بن فوزان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مہر کے حکم کے متعلق دریافت کیا گیا تو ان کا جواب تھا: نکاح میں مہر واجب ہے اور یہ عورت کا حق ہے۔(شیخ صالح فوزان)