دین اسلام تو مکمل طور پر اعتدال کا دین ہے اور اسلامی تعلیمات پر عمل اور حرام کاموں سے اجتناب ایک ایسا امر ہے جس میں کسی بھی مسلمان کوکوئی اختیار نہیں کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے مسلمان پر واجب کیا ہے ۔موجودہ دور میں فتنے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں اور بات یہاں تک جاپہنچی ہے کہ جو شخص کچھ حرام کردہ اشیاء کو ترک کرتا اور بعض واجبات پر عمل کرتا ہواسے سنجیدہ اور متشدد شمار کیا جا تا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا صرف اور صرف لوگوں میں دینی انحراف اور کثرت سے گناہ میں پڑنے اور شرعی واجبات ترک کرنے کی وجہ سے ہواہے۔
ہم تو آپ کے بہت زیادہ شکر گزار ہیں اور یہ لائق صد تحسین ہے کہ آپ اس گندے(یورپی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں آپ کے علم میں ہو نا چاہیے کہ آپ جو کچھ کر رہی ہیں وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے اولیاء مومن لوگوں کو بہت زیادہ پسند ہے لیکن یہ کام شیطان کو بہت ہی برااور غصہ دلانے والا ہے اور اسی طرح شیطانی انسان بھی اس سے نفرت کرتے ہیں۔آپ کا صالح خاوند اختیار کرنا بھی ایک شرعاً مطلوب کام ہے لیکن ایسا کرنا آپ کے لائق نہیں کہ جس کے دین اور اچھے اخلاق کا علم ہو جائے مگر اس کا ماضی خراب ہونے کی وجہ سے اسے رد کردینا اور اس سے شادی نہ کرنا۔ کیونکہ جس انسان نے اپنے ماضی سے توبہ کر لی ہو اسے اس کے ماضی کی عار نہیں دلائی جا سکتی اور نہ ہی اس پر ماضی کی وجہ سے کوئی عیب لگایا جا سکتا ہے اور پھر اگر وہ شادی کی رغبت کے ساتھ آپ کو شادی کا پیغام دیتا ہے تو اسے رد نہیں کیا جا سکتا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تو فرمان ہے۔
"گناہوں سے توبہ کرنے والا تو ایسے ہے جیسے اس کا کوئی گناہ ہی نہ ہو۔"( حسن : صحیح ابن ماجہ ابن ماجہ 4250۔کتاب الذھد : باب ذکر التوبہ صحیح الجامع الصغیر 3008۔صحیح الترغیب 3145۔کتاب التوبہ والزھد: باب الترغیب فی التوبہ والمباد رۃ بہا۔)
لیکن اگر کسی کے بارے میں یہ علم ہو کہ اس کا ماضی بہت ہی برا گزرا ہے اور وہ معاصی کا مرتکب رہا ہے اور اب اس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ وہ اپنے ماضی میں کیے ہوئے گناہوں سے توبہ کر چکا ہے یا نہیں اور اس نے اپنے گناہ چھوڑے ہیں یا نہیں تو اس طرح کے شخص پر اس کے دین اور اخلاق میں بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور ایسے شخص کے ساتھ شادی کرنے کی موافقت نہیں کرنی چاہیے ۔
کسی انسان کا اپنی منگیتر یا اس کے اولیاء کو یہ کہنا کہ وہ اپنے ماضی سے توبہ کر چکا ہے اور اب اس میں تبدیلی پیدا ہو چکی ہے اس پر بھروسے کے لیے کافی نہیں بلکہ اس قول و فعل کی تحقیق کی جائے گی کہ آیا واقعتاً وہ اپنے قول میں سچا ہے۔جب اس کے بارے میں پختہ علم ہو جائے کہ وہ اپنے ماضی سے توبہ کر چکا ہے پھر یہ یقین ہو جائے کہ برائی ترک کر چکا ہے تو پھر اس سے شادی کی جائے ۔ اس لیے آپ کوئی نیک اور صالح شخص تلاش کریں خواہ اس کا ماضی کیسا ہی ہو۔ آپ اسے ردنہ کریں اور ہر اس شخص کو جس کے بارے میں یہ علم ہو جائے کہ اس کا ماضی شروفساد میں گزراہے اور ابھی تک اس نے ایسے کاموں کو ترک نہیں کیا قبول نہ کریں اور اس سے شادی کرنے سے انکار کردیں۔
اس لیے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ دین دار عورت کو ترجیح دے اسی طرح عورت کے اولیاء کو بھی یہ حکم دیا ہے کہ:
"جب تمھارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کردو۔اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہوگا۔"( حسن ارواء الغلل 1868۔ترمذی 1084۔کتاب النکاح باب ماجاء اذا جاء کم من ترضون دینہ فزوجوہ ابن ماجہ 1967کتاب النکاح : باب الاکفاء)
فساد سے مراد یہی ہے کہ اگر تم اپنی بچی کے لیے صرف مالدار حسب نسب والا اور خوبصورت لڑکا ہی تلاش کرو گے تو پھر تمھاری اکثر عورتیں بغیر شادی کے ہی بیٹھی رہیں گی۔اور اکثر مرد بغیر عورتوں کے رہیں گے جس سے زنا کا فتنہ زیادہ پھیلے گا۔
مزید برآں آپ یہ بھی دیکھیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے اکثر تو دورجاہلیت میں مشرک تھے اور پھر بعد میں مسلمان ہوئے اور اپنے اسلام پر اچھی طرح کار بند رہے اور شادیاں بھی کیں لیکن انہیں اس دلیل کی وجہ سے رد نہیں کیا گیا کہ ان کا ماضی اچھا نہیں تھا لہٰذا مرد کی حالت وہ معتبر ہو گی جس پر وہ موجودہ وقت میں کار بند ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کو صالح اور نیک خاوند عطا فرمائے اور اس میں آپ کے لیے آسانی پیدا کرے۔(آمین یا رب العالمین) (شیخ محمد المنجد)