میں اس وقت ایک برطانوی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہوں یونیورسٹی میں ایک لڑکی نے مجھے اپنے آپ پر فریفتہ کر لیا ہے میری اس سے مطلق طور پر کبھی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی عورتوں سے کلام کرنا میری عادت ہی ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ کبھی کبھار ہم ایک دوسرے کو سلام کر لیتے ہیں میرا اس سے شادی کا پیغام کس طرح ممکن ہے مسئلہ یہ ہے کہ میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتا ہوں اور عورتوں سے بات چیت نہیں کرتا لہٰذااس کے لیے سب سے بہتر اور افضل طریقہ کیا ہے؟
کیا میں اس کے پاس جاکر اس سے بات چیت کروں اور پہلے اس سے تعارف کی کوشش کروں جس میں شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جا ئے یا کہ اس سے سیدھے ہی شادی کی بات کی جائے؟مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نےاس سے بغیر کسی تعارف کے شادی کی بات کی تو وہ انکار ہی نہ کردے کیونکہ وہ مجھے اچھی طرح نہیں جانتی اور اس لیے بھی کہ اس کی ثقافت اور معاشرہ میرے معاشرے اور ثقافت سے مختلف ہے۔ مزید برآں میں اس سے تعارف کے لیے بات چیت کرنے سے بھی خوفزدہ ہوں کہ کہیں میرا ایسا کرنا خلاف اسلام نہ ہو۔ میں بہت ہی مشکل حالت میں ہوں میرے لیے افضل عمل کیا ہے؟اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آپ کے علم میں ہو نا چاہیے کہ اجنبی عورت سے بات چیت کرنے کے شریعت اسلامیہ نے کچھ ضوابط اور قانون مقرر کیے ہیں اور کچھ اہم قسم کی شروط رکھی ہیں اگر یہ ضوابط اور شروط پائی جائیں تو پھر اجنبی عورت سے کلام کرنا جائز ہے ایسا کرنے کا مقصد اور غرض یہ ہے کہ فتنہ اور فساد کا سد باب ہوسکے اور معصیت میں پڑنے سے روکاجاسکے ۔
ذیل میں ان شروط کا ذکرکرتے ہیں۔
1۔مرد عورت تک اس کے محرم یا پھر اپنی محرم عورت کے ذریعے بات نہ پہنچا سکتا ہو۔
2۔یہ کلام خلوت و تنہائی کے بغیر ہو۔
3۔فتنہ کا خدشہ نہ ہو۔ اگر کلام کی وجہ سے اس کی شہوت انگخیت ہو یا پھر وہ کلام سے لذت حاصل کرنے لگے تویہ کلام کرنا حرام ہوگا۔
5۔عورت کی طرف سے کلام میں نرم لہجہ اختیار نہ ہو۔
6۔عورت مکمل پردہ اور شرم و حیاء کی پیکربن کر رہے یا پھر دروازے اور پردے کے پیچھے سے مخاطب ہو۔ بہتر اور احسن تویہ ہے کہ یہ بات ٹیلی فون کے ذریعے ہو۔ البتہ یہ بھی عمدہ طریقہ ہے۔کہ خط لکھ کر یا پھر ای میل کے ذریعے پیغام پہنچا دیا جائے۔
7۔یہ کلام ضرورت سے زیادہ نہ ہو بلکہ حسب ضرورت ہی رہے۔
شیخ صالح فوزان نے لڑکوں اور لڑکیوں کی ٹیلی فون پر ایک دوسرے سے بات چیت کے حکم کے متعلق کہا :نوجوانوں کی لڑکیوں سے بات چیت کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں فتنہ ہے لیکن اگر لڑکی اپنے منگیتر سے بات چیت کرے اور کلام بھی صرف منگنی کی مصلحت کو سمجھنے سمجھانے کی ہو تو پھر کوئی حرج نہیں لیکن افضل و بہتر اور احواط تو یہی ہے کہ لڑکی کے ولی سے بات کی جائے۔( المنتقی من فتاوی الشیخ صالح الفوزان 163/3۔164)
اور آپ نے تو ابھی اس لڑکی سے منگنی بھی نہیں کی اس لیے آپ پر ضروری ہے کہ آپ فتنہ میں مبتلا کر دینے والے اسباب سے بچ کر رہیں اور انتہائی احتیاط سے کام لیں اور اپنے مقصد کو ہراس طریقے سے حل کریں جو اس لڑکی کے قریب جانے کے علاوہ ہو۔اس مسئلے میں مندرجہ ذیل دو آیتیں بطور دلیل پیش کی کی جاسکتی ہیں۔
1۔"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو!تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہواگر تم پرہیز گاری اختیار کرو تونرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی براخیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو۔"( الاحزاب:32)
2۔"اور جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کروتو پردے کے پیچھے سے طلب کرو۔یہ تمھارے اور ان کے دلوں کے لیے کامل پاکیزگی وطہارت ہے۔"( الاحزاب:53)
اس کے بعد میں چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ یاد دلاتا چلوں کہ بیوی اختیار کرتے ہوئے مسلمان کا معیار وہ ہونا چاہیے جس کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ اور رغبت دلائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہےکہ:
"تم دین والی لڑکی اختیارکرو تمھارے ہاتھ خاک میں ملیں۔"( بخاری 5090۔کتاب النکاح : باب الاکفاء فی الدین مسلم 1466کتاب الرضاع :باب استحباب نکاح ذات الدین احمد 428/2۔ابو داؤد 2047۔کتاب النکاح باب مایوئمر به من تزویج ذات الدین ابن ماجة 1858۔کتاب النکاح : باب تزویج ذوات الدین ابو یعلی 6578۔الحلیہ لا بی نعیم 383/8دارقطنی 302/3)
آخر میں آپ سے یہ گزراش ہے کہ آپ ہر اس چیز سے بچیں اور دور رہیں اور دور رہیں جو آپ کو حرام کام کی طرف لے جانے والی ہو یا حرام کے قریب کرنے والی ہو۔ مثلاً لڑکی سے خلوت یا اس کے ساتھ باہر کہیں سیر وتفریح کے لیے نکلنا وغیرہ میں اللہ تعالیٰ سے دعاکرتا ہوں کہ وہ آپ کے لیے کوئی ایسی لڑکی مہیا کردے جو آپ کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت پر مدد گار ثابت ہو۔ (شیخ محمد المنجد )