اسلام نے عورت کی پاکدامنی اور عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے سفر میں محرم کی شرط لگائی ہے تاکہ وہ اسے شہوانی اغراض اور غلط مقاصد کے حامل لوگوں سے محفوظ رکھے اور سفر جوکہ عذاب کا ایک ٹکڑا ہے میں عورت کی معاونت کرے۔ اس لیے عورت کے لیے بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:
"کوئی بھی عورت ہر گز محرم کے بغیر سفر نہ کرے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں تو فلاں غزوے میں جا رہا ہوں اور میری بیوی حج پر جارہی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جاؤ۔"( بخاری 3006۔کتاب الجہاد والسیر : باب من اکتب فی جیش فخرجت امراتہ حاجۃ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس صحابی کو جہاد چھوڑ کر بیوی کے ساتھ جانے کا کہنا سفر میں محرم کے وجوب پر دلالت کرتا ہے حالانکہ اس صحابی کا ایک غزوے میں جانے کے لیے نام لکھا جا چکا تھا اور پھر عورت کا وہ سفر بھی حج جیسی عظیم اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تھا سیرو سیاحت اور تفریح کے لیے نہیں تھا اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا کہ وہ جہاد چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جائے۔ اس سے اس مسئلے کی اہمیت عیاں ہے۔
اہل علم نے کسی محرم ہونے کے لیے پانچ شرائط لگائی ہیں۔
1۔مرد ہو۔۔۔2۔مسلمان ہو۔۔۔3۔بالغ ہو۔۔۔4۔عاقل ہو۔5۔وہ اس عورت پر ابدی طور پر حرام ہو۔
مثلاً والد بھائی چچا ماموں سسر والدہ کا خاوند اور رضاعی بھائی وغیرہ واضح رہے کہ جن رشتہ داروں سے وقتی طور پر نکاح حرام ہے مثلاً بہنوئی اور پھوپھا وغیرہ وہ محرم نہیں ہیں معلوم ہوا کہ عورت کا دیور اس کا چچا زاد اور اس کا ماموں زاد اس کا محرم نہیں جس وجہ سے اس کا ان کے ساتھ سفر پر جانا جائز نہیں۔(شیخ محمد المنجد)