عورت اپنے محرم مردوں سے پردہ نہیں کرے گی اور عورت کا محرم وہ ہے جس سے قرابت داری کیوجہ سے اس کا نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہومثلاً باب۔دادا اور اس سے اوپر والے بیٹا پوتا اور اس کی نسل،چچا ،ماموں بھائی بھتیجا اور بھانجا۔یا پھر رضاعت کے سبب سے نکاح حرام ہو۔مثلا رضاعی بھائی اور رضاعی باپ۔یا پھر مصاہرت(یعنی شادی) کیوجہ سے نکاح حرام ہو مثلاً والدہ کا خاوند،سسر اور خاوند کا بیٹا۔
ذیل میں ہم سائلہ کے سامنے یہ موضوع بالتفصیل پیش کرتے ہیں:
نسبی طور پر عورت کے محارم کی تفصیل کا بیان اس آیت میں ہے:
"اور مسلمانوں عورتوں سے کہہ د یجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور ا پنی زیب وزینت کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں ،سوائے اپنے خاوندوں کے یااپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوندکے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکرمردوں جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کی پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔۔۔"( النور ۔31)
مفسرین کا کہناہے کہ نسب کی وجہ سے عورت کے لیے جو محرم حضرات ہیں ان کی تفصیل اس آیت میں بیان ہوئی ہے اور وہ یہ ہیں:
یعنی عورتوں کے والدین کے آباء اور اوپر کی نسل مثلاً والد ،دادا،نانا،اور اس کے والد اور ان سے اوپر والی نسل۔تاہم سسر اس میں شامل نہیں کیونکہ وہ مصاہرت(شادی) کی وجہ سے حرام رشتوں میں شامل ہے نسب کی وجہ سے نہیں ہم اسے آگے بیان کریں گے۔
یعنی عورتوں کے بیتے جس میں بیٹے ،پوتے اور اسی طرح دھوتے یعنی بیٹی کے بیتے اور ان کی نسل اور آیت کریمہ میں جو(خاوند کے بیٹوں) کا ذکر ہے وہ خاوند کے دوسری بیوی کے بیٹے ہیں جو کہ محرم مصاہرت میں شامل ہیں اور اسی طرح سسر بھی محرم مصاہرت میں شامل ہے نہ کہ محرم نسبی میں ہم اسے بھی آگے چل کر بیان کریں گے۔
خواہ وہ سگے بھائی ہوں یاوالد کی طرف سے یا والدہ کی طرف سے۔
یعنی بھائی اور بہن کے بیتے اور ان کی نسلیں۔
یہ دونوں بھی نسبی محرم میں سے ہیں ان کا آیت میں ذکر نہیں اس لیے کہ انہیں والدین کا قائم مقام سمجھاگیا ہے اور لوگوں میں بھی والدین کی جگہ شمار ہوتے ہیں اور بعض اوقات چچا کو بھی والد کہہ دیا جاتاہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"کیا تم یعقوب(علیہ السلام) کی موت کے وقت موجود تھے؟جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟تو سب نے جواب دیا کہ آ پ کے معبود کی اور آپ کے آباءواجداد ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق(علیہ السلام) کے معبود کی،جو ایک ہی معبود ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔"( البقرہ:133)
اس آیت میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے آباء میں شمار کیا ہے۔ حالانکہ وہ ان کے چچا تھے۔( تفصیل کے لیے دیکھئے۔تفسیر الرازی(23/206) تفسیر قرطبی(12/232) تفسیر آلوسی(18/143) فتح البیان فی مقاصد القرآن(6/352)
عورت کے لیے رضاعت کی وجہ سے محرم رشتہ دار بن جاتے ہیں تفسیر آلوسی میں ہے:
"جس طرح نسبی محرم کے سامنے عورت کے لیے پردہ نہ کرنا مباح ہے اسی طرح رضاعت کی وجہ سے محرم بننے ولے شخص کے سامنے بھی اس کے لیے پردہ نہ کرنا مباح ہے اسی طرح عورت کے لیے اس کے رضاعی بھائی اور والدہ سے بھی پردہ نہ کرنا جائز ہے۔"( تفسیر آلوسی(18/143)
اس لیے کے رضاعت کی وجہ سے محرم ہونا بھی نسبی محرم کی طرح ہی ہے جس سے ابدی طورپر نکاح حرام ہے۔اما م جصاص رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی کو ثابت کیا ہے۔ (احکام القرآن للجصاص(3/317)
سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اس کی دلیل ملتی ہے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:
"جیسے خون ملنے سے حرمت ہوتی ہے ویسے ہی دودھ پینے سے بھی حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔"( بخاری(5099) کتاب النکاح باب قول اللہ تعالیٰ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ موطا (2/601)مسلم(1444) کتاب الرضاع:باب يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة "نسائی(6/102) دارمی (2/155) وغیرہ)
ایک دوسرا فرمان یوں ہے:
"اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی ان رشتوں کو حرام کردیا ہے جنھیں نسب کی وجہ سے حرام کیا ہے۔"( صحیح ارواء الغلیل(6/284) ترمذی(1146)
اس سے ثابت ہوا کہ عورت کے جس طرح نسبی محرم ہوں گے اسی طرح رضاعت کے سبب سے بھی محرم ہوں گے۔صحیح بخاری میں مندرجہ ذیل حدیث وارد ہے:
"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابو قعیس کے بھائی افلح نے پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد آکراندر آنے اجازت طلب کی جو ان کا رضاعی چچا تھا تو میں نے اجازت دینے سے انکار کردیا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو میں نے جو کچھ کیاتھا آپ کوبتایا۔یہ سن کر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اسے ا پنے پا س آنے کی اجازت دے دوں۔"( بخاری مع الفتح (9/150)
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو روایت کیاہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
"عروہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں بتایا ان کے رضاعی چچا کا نام افلح تھا آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے انہیں اجازت دے دی اور پردہ کرلیا۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے متعلق بتایا تو آ پ نے فرمایا،اس سے پردہ نہ کرو،اس لیے کہ رضاعت سے بھی وہی حرمت ثابت ہوتی ہے جو نسب کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے۔"( مسلم مع الشرح للنووی(10/22)
عورت کے لیے مصاہرت کی وجہ سے محرم وہ ہیں جن سے اس کا ابدی طور پر نکاح حرام ہو جا تا ہے جیسا کہ والدکی بیوی بیٹے کی بیوی اور ساس یعنی بیوی کی والدہ ہے ۔ والد کی بیوی کے لیے محرم مصاہرت وہ بیٹا ہو گا جو اس کی دوسری بیوی سے ہو، بیٹے کی بیوی یعنی بہو کے لیے اس (لڑکے ) کا باپ یعنی سسر محرم ہو گا اور بیوی کی ماں یعنی ساتھ کے لیے خاوند یعنی اس کا داماد محرم ہو گا۔چنانچہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے۔
"اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی اور اپنی زیب و زینت کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا پنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی میل جول کی عورتوں کے غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کی پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔( النور:31)
اس آیت سے ثابت ہو تا ہے کہ سسراور خاوند کے( دوسری بیوی سے) بیٹے عورت کے لیے مصاہرت (یعنی شادی) کی وجہ سے محرم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے باپوں اور بیٹوں کے سا ذکر کیا ہے اور انہیں (پردہ نہ ہونے کے) حکم میں بھی برابر قراردیاہے۔( مزید تفصل کے لیے دیکھئے : المغنی لابن قدامۃ 555/6۔) (شیخ محمد المنجد)