ہر مسلمان شخص پر واجب ہے کہ وہ عادات اور رسم ورواج پر اعتماد نہ کرے بلکہ انہیں شریعت مطہرہ پر پیش کرے پھر جو شریعت کے مطابق ہوں ان پر عمل کرے اور جو اس کے خلاف ہوں انہیں چھوڑ دے۔اگر لوگ کسی کام کو عادت بنالیتے ہیں تو یہ اس کے حلال ہونے کی دلیل نہیں۔بلکہ لوگوں نے جتنی بھی اپنے خاندانوں ،قبیلوں ملکوں اور معاشروں میں رسوم وعادات بنا رکھی ہیں انہیں کتاب اللہ اور سنت رسول پر پیش کرنا واجب ہے پھر جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے مباح کیا ہو وہ مباح ہے اور جس سے منع کیا ہو اس پر عمل جائز نہیں اور اسے چھوڑنا واجب ہے خواہ وہ کام لوگوں کی عادات میں شامل ہو۔
لہذا جب لوگوں نے کسی اجنبی عورت سے خلوت یا غیر محرم سے پردہ نہ کرنے کی عادت اپنا لی ہو اور اس میں تساہل سے کام لیں۔تو ان کی یہ عادت باطل ہے اسے ترک کرنا واجب ہے اسی طرح اگر کچھ لوگ زنا یا لواطت یا شراب نوشی یانشہ وغیرہ جیسے کاموں کو عادت بنا لیں تو ان پر ان عادات کو چھوڑنا واجب ہوگا اور عادت ہونا ان کے لیے دلیل نہیں بن سکتا۔کیونکہ شریعت مطہرہ کا درجہ سب سے اوپر ہے اس لیے جسے بھی اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ہدایت نصیب فرمائی ہے اسے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کاموں سے اجتناب کرناچاہیے اور اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے واجبات کا التزام کرے۔
چنانچہ خاندان والوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات کا احترام کریں اور ان کے حرام کردہ کاموں سے بچیں۔تو جب ان کی عورتوں کی یہ عادت ہو کہ وہ غیر محرموں سے پردہ نہیں کرتیں یا پھر ان سے خلوت کر تی ہیں تو انہیں یہ عادت ترک کرنی چاہیے بلکہ ان پر اسے چھوڑنا واجب ہے۔کیونکہ عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے چچا زاد،خالہ زاد،پھوپھی زاد،بہنوئی،دیوروں،خاوند کے چچا اور ماموں کے سامنے چہرہ ننگا کرے بلک اس پر واجب ہے کہ وہ ان سب سے پردہ کرے اور ان سے اپنا سر چہرہ اور باقی بدن چھپائے کیونکہ وہ اس کے محرم نہیں۔
رہا مسئلہ کلام یعنی سلام کرنے یا سلام کاجواب وغیرہ دینے کا تو پردے کے اندر رہتے ہوئے اور خلوت کے بغیر اس میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"اور جب تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردےکے پیچھے سے طلب کرو ان کے دلوں کے لیے کامل پاکیزگی یہی ہے۔"( الاحزاب ۔53)
اور ایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا:
"اےنبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویو!تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگرتم پرہیز گار ی اختیار کروتو نرم لہجے سے بات مت کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو۔"( الاحزاب ۔32)
اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو نرم لہجہ اختیارکرنے سے منع فرمایاہے کہ وہ ا پنی بات میں نرمی اختیار نہ کریں تاکہ دل میں(شہوت کی) بیماری رکھنےوالا یہ خیال نہ کرنے لگے کہ یہ کمزور ہے اور اسے(برائی کرنے میں) کوئی رکاوٹ نہیں۔بلکہ اس سے درمیانے لہجے میں بات کرنی چاہیے جس میں نہ تو نرمی ہو اور نہ ہی درشتی وسختی۔مزید اللہ تعالیٰ نے یہ بھی وضاحت فرمادی ہے کہ پردہ کے ذریعے ہی سب کے دل پاکیزہ رہیں گے اور اسی میں مسلمانوں کی بہتری ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )!اپنی بیویوں،بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکالیاکریں اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجایاکرے گی پھروہ ستائی نہ جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔"( الاحزاب ۔59)
جلباب ایسے کپڑے کو کہاجاتا ہے جو سر پر ڈالا جائے اور اس سے سارا بدن چھپ جائے اور عورت اسے اپنے سرپر ڈال کر لباس کے اوپر سے اپنے سارے جسم کوچھپاتی ہے اور ایک مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان کچھ اس طرح ہے:
"اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور ا پنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اسکے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور ا پنی زیب وزینت کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا ا پنے لڑکوں کے یااپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا ا پنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کی پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔۔۔"( النور۔31)
عورتیں اس آیت میں مذکور اشخاص کے علاوہ کسی اور کے سامنے اپنی زینت ظاہر نہیں کرسکتیں۔لہذا سب مسلمان عورتوں پر واجب اورضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کریں اور جن کے سامنے زینت ظاہر کرنے سے منع کیا ہے ان کے سامنے زیب وزینت کے ساتھ بغیر حجاب کے مت آئیں۔(شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )