جب میں گھر میں ہونے والی خاندانی تقریبات یا پھر عید کے موقع پر ہونے والے اجتماعات میں خاوند کے خاندان والوں سے پردہ کرتی ہوں تو وہ میرا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے خاندان والوں کے سامنے آپ کا پردہ کرنا ضروری نہیں غیر محرم کے سامنے عورت کے لیے اسلام نے جو ضوابط مقرر کیے ہیں مجھے ان کا علم ہے اور میں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔مجھے ان کی باتوں کاسامنا کس طرح کرنا چاہیے تاکہ ان کے جذبات بھی محروم نہ ہوں۔مجھے یہ بھی علم ہے کہ ان میں صحیح اسلام کی اتباع کرنے کی صفات بھی پائی جاتی ہیں تو کیا خاوند کے بھائی اور بہن کے بیٹے بیوی کے لیے مجرم ہیں؟
میں نے کچھ اساتذہ سے اس بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا وہ محرم نہیں لیکن خاندانی اسباب اور خاوند کے اصرار پر ان سے ہاتھ کے ساتھ سلام لیتی ہوں اور ابھی تک یہ ہوریا ہے اور یہ معاملہ خاندان میں عادی ہے۔لیکن مجھے اس معاملے میں اطمینان نہیں۔میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میری خیروبھلائی کے راستے کی طرف رہنمائی کرے اور میرے گناہ معاف فرمائے۔ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ خیر وبھلائی میں آپ کی مدد فرمائے اور آپ کے معاملے میں آسانی پیدا فرمائے تاکہ آپ کی پریشانی اور غم دور ہو۔جو لوگ تقویٰ وپرہیز گاری میں کم درجہ کے ہوتے ہیں ان سے مسلمان عورت کو بہت کچھ سننا اور دیکھنا پڑتا ہے۔جس پر اسے صبر کرنا چاہیے اور اسے جو بھی تکلیف پہنچے اس میں اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی نیت رکھنی چاہیے اور اسے اپنے رب سے اچھی امید رکھنی چاہیے۔
مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان(خاندان والوں) کے مطالبات تسلیم کرے اور نہی ہی یہ جائز ہے۔کہ وہ ان کو مصافحہ کرنے اور پر دہ چھوڑنے جیسی خواہشات پوری کرے اس لیے کہ اگر اس نے ان اشیاء کے ذریعے سے لوگوں کو راضی کرلیا تو وہ اپنے رب کو ناراض کر بیٹھے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ خاوند کے بھتیجے اور بھانجے محرم نہیں بلکہ ان سے تو زیادہ احتیاط واجب ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں موت کے برابر قرار دیا ہے۔جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عورتوں کے پاس جانے سے بچو،ایک انصاری شخص کہنے لگا،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ذرا خاوند کے عزیز واقارب کے بارے میں تو بتائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،خاوند کے عزیز واقارب تو موت ہیں۔"( مسلم(2172) کتاب السلام ۔باب تحریم الخلوۃ بالااجنبیۃ والدخول علیھا،بخاری(5232) کتاب النکاح باب لابخلون رجل بامراۃ الاذو محرم ترمذی(1171) کتاب الرضاع باب ما جاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیات احمد(17352)وغیرہ۔)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:۔
اہل لغت اس پر متفق ہیں کہ"الاحماء" خاوند کے عزیز واقارب کو کہا جاتا ہے مثلاً اس کاباپ ،چچا،بھائی بھتیجا اور چچا زاد وغیرہ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان"عزیز واقارب تو موت ہیں"کا معنی یہ ہے کہ دوسروں کی بہ نسبت ان سے زیادہ فتنہ وشر متوقع ہے کیونکہ اس کے لیے بغیر کسی رکاوٹ کے عورت تک پہنچنا اور اس سے خلوت کرنا ممکن ہے جبکہ اجنبی کے لیے ایسا ممکن نہیں۔یہاں حمو سے مراد خاوند کے والد اور بیٹوں کے علاوہ باقی عزیز واقارب مرد ہیں۔کیونکہ خاوند کے آباءاجداد اور اسکے بیٹے تو اس کی بیوی کے لیے محرم ہیں جن سے اس کی خلوت جائز ہے۔جنھیں موت قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس سے مراد خاوند کے بھائی یعنی دیور،بھتیجا چچا اور چچا زاد وغیرہ جومحرم نہیں مرادہیں۔
ان کے بارے میں لوگوں کی عادت یہ ہے کہ وہ اس تساہل برتتے ہیں اور دیور بھابھی سے خلوت کرتا ہے حالانکہ اسے موت سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے خلوت وتنہائی اجنبی سے بھی زیادہ ممنوع ہونی چاہیے اس کی وجہ ہم نے اوپر ذکر کردی ہے جو کچھ میں نے ذکر کیا ہے وہی حدیث کا صحیح معنی ہے۔ (شرح مسلم للنووی (154/14)
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:۔
جب عورت مکمل طور پر شرعی پردہ میں ہو اوراس کا چہرہ بال اور باقی بدن چھپا ہوا ہوتو وہ اپنے دیوروں یا اپنے چچازادکے ساتھ بیٹھ سکتی ہے۔لیکن یہ بیٹھنا بھی صرف اسی وقت جائز ہے جب اس میں کسی قسم کا خدشہ نہ ہو اور جس بیٹھنے میں شرکی تہمت کا خطرہ ہو وہاں بیٹھنا جائز نہیں مثلاً ان کے ساتھ بیٹھ کر موسیقی اور گانے سنے جائیں ۔ان میں سے کسی ایک یا پھر کسی اور غیر محرم کے ساتھ عورت کا تنہائی اختیار کرنا جائز نہیں اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"کوئی عورت بھی کسی مرد سے محرم کی موجودگی کے بغیر خلوت نہ کرے۔"( حیح ارواء الغلیل(1813) احمد(3/339)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"خبردار!جو آدمی بھی کسی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرتا ہے ان دونوں کا تیسرا(ساتھی) شیطان ہوتا ہے۔"( صحیح:صحیح الجامع الصغیر(2546) ترمذی(2165) کتاب الفتن باب ماجاء فی لزوم الجماعۃ(1171) کتاب الرضاع باب ما جاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیات المشکاۃ(3118) السلسلۃ الصحیحہ(430)
تیسری بات یہ ہے کہ عورت کا کسی اجنبی مرد سے مصافحہ کرنا حرام ہے آپ کے لیے جائز نہیں کہ اپنے یا خاوند کے رشتہ داروں کی رغبت پر اس میں سستی کریں۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان کرتی ہیں کہ:
"آپ نے کبھی کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا۔البتہ آپ زبان سے عہد ومیثاق لیتے اور جب خواتین زبان سے(قبول اسلام اور دیگر شرائط کا) عہد کرلیتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے،جاؤ بے شک میں نے تم سے بیعت کرلی۔"( مسلم(1866) کتاب لامارۃ باب کیفیۃ بیعۃ النساء بخاری(2713) وغیرہ)
جب ہمارے پیارے نبی جو معصوم خیر البشر اور روز قیامت بنو آدم کے سردار ہوں گے،وہ بیعت میں بھی عورتوں کے ہاتھ نہیں چھوتے(حالانکہ اصل میں بیعت تو ہاتھ سے ہی ہوتی ہے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے مردوں سے کس طرح مصافحہ کیا جاسکتا ہے؟حضرت اُمیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔ (صحیح۔صحیح الجامع الصغیر(2513) السلسلۃ الصحیحۃ (529) ابن ماجہ(2874)
شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
پردے کے پیچھے سے عورتوں کے ساتھ مصافحہ کرنے میں بھی نظر ہے اور ظاہر یہ ہوتا ہے کہ حدیث شریف کے عموم اور سد ذریعہ پر عمل کرتے ہوئے سے مصافحہ کرنا مطلقاً منع ہے۔فرمان نبوی ہے کہ:
"میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔"( دیکھیں حاشیہ محموعۃ رسائل فی الحجاب السفور(69) (شیخ محمد المنجد)
اجنبی عورت سے مصافحہ کرنے کے بارے میں شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا تو ان کا جواب تھا:
ہر ہو چیز جو مرد اور عورت کے د رمیان فتنہ کا باعث جو حرام ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :
"میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر(نقصان دہ) کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔"(بخاری(5096) کتاب النکاح باب ما یتقی من الثوم مسلم(2740)وغیرہ)
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مرد کے چمڑے کا(اجنبی) عورت کے چمڑے کو چھونا فتنہ کا باعث ہوگا الا کہ شاذ ونادر ہی ایسا نہیں ہوتا اور نادر کے لیے حکم نہیں ہوتا جیسا کہ اہل علم فرماتے ہیں اور علماء نے اس مسئلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ مرد کے لیے اجنبی عورت سے مصافحہ کرنا حلال نہیں،یہی بات برحق ہے کہ اس کے لیے ایسا کرنا حلال نہیں خوااہ کسی حائل(مثلا کپڑے وغیرہ) کے ساتھ مصافحہ کیاجائے یا کسی حائل کے بغیر۔