سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(110) کیا عیسائی ماموں محرم ہے؟

  • 15628
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1003

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری والدہ نصرانی تھی۔ اور تقریباً سولہ برس سے وہ مسلمان ہوچکی ہے لیکن اس کا سارا خاندان ابھی تک نصرانیت پر قائم ہے اور میں فی الحال ان کے ساتھ رہائش پذیر ہوں جہاں پر میرا ماموں بھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہائش  پذیر ہے یعنی اسی  گھر میں جس  میں رہتی ہوں۔میں نے اپنے سہیلیوں سے اس کا ذکر کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی موجودگی میں مجھے  پردہ کرنا چاہیے لیکن میں ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتی کیونکہ وہ میرا محرم ہے خواہ وہ نصرانیت پر ہی قائم ہو میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کاماموں آپ کامحرم ہے اس بنا پر آپ کے لیے جائز ہے کہ اس سے پردہ نہ کریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے عورتوں کو ان کے کافررشتہ داروں سے پردہ کرنے کا حکم دیا ہو۔لیکن علمائے کرام نے یہ شرط لگائی ہے کہ جس سے عورت پردہ نہ کرتی ہو اس کا امین ہونا ضروری ہے اور یہ شرط عام ہے خواہ وہ رشتہ دار مسلمان ہو یا کافر۔نیز اہل علم نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اس کا محرم امین نہ ہو مثلاً وہ اس عورت کی صفات کسی دوسرے شخص سے بیان کرے یا اس کے دیکھنے سے کسی قسم کے فتنے کاڈر ہو تو  پھر اس سے بھی پردہ کیا جائے گا خواہ وہ مسلمان ہویا کافر۔

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کے تفردات میں یہ بھی ہے کہ:

انہوں نے مسلمان عورت کے ساتھ سفر میں محرم کے مسلمان ہونے کی شرط لگائی ہے لیکن ان کے بعض اصحاب نے اس مسئلے میں ان کی موافقت نہیں کی۔سفر میں مسلمان عورت کے ساتھ کافر محرم کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ وہ امین نہیں ہے اور خاص کر جب وہ مجوسی ہو۔امام محمد رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ ذکر کیا ہے کہ مجوسی اپنی والدہ کا بھی محرم نہیں کیونکہ وہ اس سے ہم بستری کو جائز سمجھتا ہے۔

اور بعض حنابلہ کا کہنا ہے :

ممکن ہے یہودی یا عیسائی رشتہ دار اسے فروخت کردے یا پھر اسے قتل کردے۔لیکن جب ہم اس علت کو  پیش نظر رکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ علت تو بعض فاسق قسم کے مسلمانوں پربھی منطبق ہوتی ہے۔لہذا اس کا کافر ہونا محرم ہونے میں رکاوٹ نہیں البتہ امانت دار ہونا بہرحال ضروری ہے۔

اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ آیا کافروہ عورت کسی مسلمان عورت کو دیکھ سکتی ہے یا نہیں؟تو زیادہ راجح بات یہ ہے کہ ایسی عورت سے پردہ نہ کرنا درست ہے جس سے یہ خدشہ نہ ہوکہ وہ اس کی صفات کسی اور کو بتائے گی چاہے وہ مسلمان ہو یاکافرہ۔

شیخ ابن عثمین  رحمۃ اللہ علیہ  سے یہ سوال کیا گیا:

کیا مسلمان عورت کے لیے کسی کافر عورت کے سامنے اپنے بال ننگے کرناجائز ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ عورت اپنے عزیز واقارب مردوں کے سامنے اس کی صفات بیان کریں گی اور وہ سب غیر مسلم ہیں؟

تو شیخ نے جواب دیا:

یہ معاملہ مندرجہ ذیل آیت کی  تفسیر میں علمائے کرام کے اختلاف پر مبنی ہے:

"اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھاکریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی  عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کوظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیب وزینت کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا ا پنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کی پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان  کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے۔اے مسلمانو! تم سب   اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کروتاکہ تم نجات اور کامیابی حاصل کرو۔" النور۔31۔

اللہ تعالیٰ کے فرمانأو نسائهن کی ضمیر میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔کچھ تو یہ کہتے ہیں کہ اس سے  عمومی جنس عورت مراد ہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ ا سے صرف مومن عورتیں ہی مراد ہیں۔پہلے قول کی بنا پر عورت کے لیے غیر مسلم کے سامنے اپنے بال ننگے رکھنا جائز ہے اور دوسرے قول کی بنا پر جائز نہیں۔

ہم پہلی رائے کی  طرف ہی مائل ہیں اور یہی اقرب معلوم ہوتی ہے اسلیے کہ عورت عورت کے ساتھ ہے۔جس میں مسلم اور غیر مسلم کافرق نہیں اور یہ اجازت اس وقت ہے جب کوئی فتنہ نہ ہو لیکن اگر فتنے کا خدشہ ہو مثلاً اگر عورت اپنے عزیز واقارب مردوں کو اس کی صفات بیان کرے گی تو اس وقت  فتنے سے بچنا ضروری ہے اس لیے ایسی صورت میں کسی بھی مسلمان عورت کو اپنے جسم  کا کوئی بھی حصہ مثلاً ٹانگیں یا بال وغیرہ کچھ بھی کسی عورت کے سامنے ظاہر نہیں کرنے چاہیں خواہ وہ مسلمان ہو یا کافرہ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص170

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ