سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(108) کیا سالی کے شوہر کی اولاد میرے لیے محرم ہے؟

  • 15626
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1560

سوال

(108) کیا سالی کے شوہر کی اولاد میرے لیے محرم ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری سالی نے ایک بھائی سے شادی کی جس کے پہلی بیوی سے بھی دو بچے تھے وہ ان بچوں کی تعلیم وتربیت اور پرورش اپنی اولاد کی طرح کرتی رہی میرا گمان ہے کہ انہیں یہ بھی علم نہیں ہوگا کہ ان کی حقیقی ماں نہیں۔البتہ یہ بات یقینی ہے کہ انہوں نے بچپن میں میری سالی کا دودھ نہیں پیا۔میری بیوی کے خاندانوں والے حتی کہ میری بیوی بھی ان کے ساتھ ایسے ہی سلوک کرتی ہے گویا کہ سالی کی اولاد ہو اب وہ بچہ اور بچی بلوغت کے قریب ہیں۔میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا میری بیوی کو اس بچے سے پردہ کرنا واجب ہے اور کیا اس بچی پر واجب ہے کہ وہ مجھ سے پردہ کرے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کی بیوی کا آپ کی سالی کے خاوند کے بچوں سے کوئی تعلق وواسطہ نہیں کیونکہ وہ نہ تو آ پ کی سالی کی نسبی اولاد ہے اور نہ ہی رضاعی۔اس بناء پر آپ کی بیوی  پر اس بچے سے پردہ کرنا واجب ہے کیونکہ وہ اسکے لیے اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے۔

اسی طرح آپ بھی اس بچی کے لیے اجنبی ہیں آ پ کے لیے اس کے ساتھ خلوت کرناحلال نہیں اور نہ ہی آپ اس کے ساتھ سفر کرسکتے ہیں اور بچی کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ  آپ سے پردہ نہ کرے بلکہ اس پر آپ سے پردہ کرنا واجب ہے۔رہامسئلہ ان کےوالد کی بیوی(یعنی آپ کی سالی) کاتو اس پر ان سے پردہ کرنا واجب نہیں کیونکہ وہ اس کے محرم ہیں۔اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

"اور تم ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیے ہیں۔" النساء۔22۔

اس آیت سے  پتہ چلا کہ انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے والد  یا اپنے دادا کی منکوحہ سے شادی کرے خواہ وہ آباواجداد کی جانب سے ہوں یا والدہ کی جانب سے اور چاہے اس نے عورت سے دخول کیا ہو یا نہ کیا ہو۔

جب مرد اپنی بیوی سے عقد صحیح کرلیتا ہے تو وہ عورت صرف اس عقد کی وجہ سے ہی اس کی اولاد اور اسی طرح اولاد کی اولاد پر بھی حرام ہوجاتی ہے خواہ وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں(یعنی بیٹے بیٹیاں،پوتے پوتیاں اور دھوتے دھوتیاں) اور اس سے بھی نیچے کی نسل۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص168

محدث فتویٰ

تبصرے