میرا سوال شادی کے متعلق ہے ۔میرا ایک بہت ہی عزیز دوست اور بھائی اپنی ممانی سے شادی کرنے والاہے۔کیونکہ میرے دوست کا ماموں اپنی بیوی سے انتہائی برا سلوک روا رکھتاہے جس کااس کے دونوں بچوں پر بہت ہی غلط قسم کا اثر ہواہے اور اب وہ اپنے خاوند سے طلاق لے کر میرے دوست سے شادی کرنا چاہتی ہے؟
میرا دوست اس عورت اور اس کے دونوں بچوں کا تعاون کرنا چاہتا ہے اور جو کچھ سختی سے مصیبت اس کے ماموں سے پہنچی ہے وہ اس کے عوض ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا خواہش مند ہے تاکہ وہ اسے بھول جائیں تو میرا سوال یہ ہے کہ:
1۔کیاشریعت اسلامیہ میں یہ شادی جائز ہے۔
2۔میرے دوست کے ان دو بچوں کے بارے میں کیا حقوق وواجبات ہوں گے؟
میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس اشکال کاکافی وشافی جواب دیں اگر یہ شادی شرعی احکام سے متفق نہیں تو میں اسے ر وک سکتا ہوں۔ آپ اس سوال کا جواب جلد عنائیت فرمائیں آپ کی بہت مہربانی ہوگی؟جب کسی شخص کا ماموں اپنی بیوی کو طلاق بائن دے کر اسے ا پنے آپ سے علیحدہ کردے تو وہ شخص اپنی مامی سے نکاح کرسکتاہے کیونکہ حرام کردہ عورتوں میں سے نہیں اس لیے اس سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
لیکن بھانجے کے لیے اپنی مامی سے کسی بھی قسم کا حرام تعلق قائم کرنا صحیح نہیں بلکہ ایسا کرنا حرام ہے ہوسکتا ہے کہ شیطان ان دونوں کی برائی کسی اچھی شکل میں دکھائے لہذا اسے بچنا ضروری ہے اسی طرح بھانجے کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اسے ا پنے ماموں سے متنفر کرے تاکہ وہ اسے طلاق دے اور پھر وہ خود اس سے شادی کرلے۔
بلکہ اسے تو ان دونوں کے درمیان اصلاح اورخیر وبھلائی کا کردار کرنا چاہیے نہ کہ نفرت پھیلانے اور گھرانے کو تباہ کرنے والے کا اصل مصلحت تو اسی میں ہے کہ اولاد اپنے والد کے ساتھ ایک ہی گھرانے اور خاندان میں رہے لیکن جب شرعی مصلحت کا تقاضا اس کے خلاف ہو تو پھر ان میں علیحدگی ہوسکتی ہے اور جب کوئی ناپسندیدہ چیز پیدا ہوجائے اور ان دونوں کے درمیان طلاق تک معاملہ پہنچ جائے اور وہاں اس کے بارے میں کوئی کسی قسم کا شک وشبہ بی نہ ہوتو پھر اس طلاق یافتہ ممانی سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔اور جب ماموں کے بچے اس کی پرورش میں آجائیں تو ان سے اچھا اور احسن سلوک کرنا ہوگا تاکہ صلہ رحمی قائم رہے اور جب وہ ان کی پرورش میں اخلاص نیت رکھے گا تو اسے اللہ تعالیٰ سے بھی اجر عظیم حاصل ہوگا۔