اس عبارت میں اجمال واحتمال ہے،اگراس سے مراد یہ ہے کہ متاخرین پر بھی یہ واجب ہے کہ وہ اللہ کے دین کی نصر ت اورشریعت کی تحکیم کے بارے میں اجتہادسےکام لیں اورسلف صالحین کےعقیدہ واخلاق کی تائیدوحمایت کریں تویہ بات حق ہےکیونکہ تمام مسلمانوں پرواجب ہےکہ وہ اتباع کتاب وسنت اورہرچیزمیں ان کےمطابق عمل کےبارےمیں سلف صالح کےنقش قدم پرچلیں اورجس مسئلہ میں لوگوں میں اختلاف ہوتواس کےحل کےلئےکتاب وسنت ہی کی طرف رجوع کریں تاکہ مندرجہ ذیل ارشادات باری تعالیٰ پرعمل ہوسکے۔
‘‘اوراگرکسی بات (مسئلہ)میں تمھاراآپس میں اختلاف پیدا ہوجائے تواس میں اللہ اوراس کے رسول (کے حکم)کی طرف رجوع کرو۔’’
اورفرمان باری تعالی ہے:
‘‘اورتم جس بات (مسئلہ) میں اختلا ف کرتے ہو،اس کا فیصلہ اللہ کی طرف سے (ہوگا)’’
اوراگراس قول سے مراد یہ ہے کہ متاخرین دین میں ایسی تجدید کر یں جو عقیدہ واخلاق یا احکام میں سلف کے طرز عمل کے مخالف ہو تو یہ جائز نہیں کیونکہ یہ حسب ذیل ارشادباری تعالی کے خلاف ہے:
‘‘اورسب مل کراللہ کی(ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنااور،متفرق نہ ہونا’’
نیز یہ طرز عمل حسب ذیل فرمان باری تعالی کے بھی خلاف ہوگا:
‘‘اورجو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبرکی مخالفت کرے اورمومنوں کے راستے کے سوادوسرے راستے پر چلےتوجدھر وہ چلتا ہے ،ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گےاور(قیامت کے دن)جہنم میں داخل کریں گے اوروہ بری جگہ ہے۔’’
سلف صالح کے نقش قدم پر چلنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے )پہلے(ایمان لائے)مہاجرین میں سے بھی اورانصار میں سے بھی اورجنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ ان کی پیروی کی ،اللہ ان سب سے خوش (راضی)ہوگیااوروہ اللہ سے خوش ہیں اوراس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں،جن ک ےنیچے نہریں بہہ رہی ہیں(اور)وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے،یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔’’
جو سلف صالح کی مخالفت کرے اوران کے راستے پر نہ چلے تواس نے ان کی پیروی نہ کی تووہ ان کے ان متبعین میں شامل نہ ہوگا جن سے اللہ خوش ہے متاخرین کو اس بات کا بھی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس بات کی مخالفت کریں،جس پر پہلے علماء کا اجماع ہوچکا ہو کیونکہ اجماع حق ہے اوران اصول ثلاثہ میں سے ایک ہے جن کی طرف رجو ع کرنا واجب ہےاورجن کی مخالفت کرنا ہرگز ہرگز جائز نہیں۔یہ اصول ثلاثہ ہیں(۱)کتاب اللہ (۲)سنت رسول اللہ اور(۳)اجماع ۔علماءجب کسی مسئلہ پر اجماع کرلیں تویہ اس طائفہ منصورہ میں شامل ہوجاتے ہیں جس کے بارے میں نبی کریمﷺنے یہ خبر دی ہے کہ وہ ہمیشہ حق پر رہے گا۔دین میں تفقہ(سمجھ بوجھ)سے کام لینااورمسلمانوں میں پیش آنے والے ایسے نئے نئے مسائل کا شرعی طریقوں کے مطابق حکل تلاش کرنا،جن کے بارے میں پہلے علماء نے کلام نہیں کیا ،یہ بھی حق ہے اوراس میں سابقہ علماء کی کوئی مخالفت بھی نہیں کیونکہ سابق ولاحق تمام علماء کی یہی وصیت ہے کہ کتاب وسنت پر تدبر کرکے ان سے مسائل کا استنباط کیا جائے اورپیش آنے والے نئے مسائل کا کتاب وسنت کی روشنی میں اجتہاد کرکے حل تلاش کیا جائے۔
یہ تجدید سابقہ علماء کی مخالفت نہیں ہے بلکہ یہ تجدید تو انہی کے نقش قدم پر چلنے اوران کے اصولوں پر عمل کرنے کے مترادف ہے ،اسی سلسلہ میں نبی کریمﷺکا یہ ارشادگرامی بھی ہے کہ ‘‘جس شخص کے ساتھ اللہ تعالی خیرو بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تواسے دین میں فقاہت عطافرمادیتا ہے ’’(متفق علیہ)نیز یہ بھی آپؐ کا ارشاد گرامی ہے ‘‘جو شخص علم حاصل کرنے کے لئے کسی راستہ پر چلے تواللہ تعالی اس کے لئے جنت کے راستہ کو آسان بنادیتا ہے ۔(صحیح مسلم)