سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(91)نکاح حلالہ کی تعریف اور حکم

  • 15599
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2416

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ کی نظر میں نکاح حلالہ کے متعلق شریعت کی کیا رائے ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے یہ سمجھ لینا بہتر ہے کہ نکاح حلالہ کیا چیز ہے؟ نکاح حلالہ یہ ہے کہ کو ئی آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیتا ہے یعنی اسے طلاق دیتا ہے پھر رجوع کرلیتا ہے پھر طلاق دیتا ہے پھر رجوع کر لیتا ہے پھر تیسری مرتبہ طلاق دے دیتا ہے۔ اب یہ عورت جسے اس کے شوہر نے تین طلاقیں دی ہیں اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے بسنے کی نیت سے نکاح نہ کر لے وہ اس سے ہم بستری کرے اور پھر موت طلاق یا فسخ کے ذریعے اس سے جدا ہو جا ئے ۔ تب یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو گی کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ۔

﴿الطَّلـٰقُ مَرَّتانِ فَإِمساكٌ بِمَعروفٍ أَو تَسريحٌ بِإِحسـٰنٍ وَلا يَحِلُّ لَكُم أَن تَأخُذوا مِمّا ءاتَيتُموهُنَّ شَيـًٔا إِلّا أَن يَخافا أَلّا يُقيما حُدودَ اللَّـهِ فَإِن خِفتُم أَلّا يُقيما حُدودَ اللَّـهِ فَلا جُناحَ عَلَيهِما فيمَا افتَدَت بِهِ تِلكَ حُدودُ اللَّـهِ ... ﴿٢٢٩﴾...البقرة

"یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی کے ساتھ روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے"َ۔۔۔پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب (وہ عورت) اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک وہ اس کے سوا کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے"پھر اگر وہ بھی (کبھی اپنی مرضی سے) طلاق دے دے تو ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملنے میں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ وہ یہ جان لیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے۔"اب اگر لوگوں میں سے کوئی شخص تیسری طلاق یا فتہ عورت سے اس نیت سے نکاح کرے کہ جب وہ اسے پہلے شوہر کے لیے حلال کردے گا تو اسے طلاق دے دے گا یعنی جب اس سے (نکاح کے بعد) ہم بستری کر لے گا تو اسے طلاق دے دے گا اور پھر وہ عورت عدت پوری کر کے پہلے شوہر کی طرف لوٹ جائے گی تو ایسا نکاح فاسد و باطل ہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے حلالہ کرنے اور کرانے دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور حلالہ کرنے والے کو ادہارکے سانڈ کا نام دیا ہے ۔

یہ نکاح حلالہ دو صورتوں پر مشتمل ہے۔

پہلی صورت یہ ہے کہ عقد نکاح پر حلالے کی شرط لگائی جائے شوہر کے لیے کہا جا ئے کہ ہم اپنی بیٹی کی تیرے ساتھ اس شرط پر شادی کر رہے ہیں کہ تم اس سے ہم بستری کر کے اسے طلاق دے دو گے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ (نکاح سے پہلے ) ایسی کوئی شرط تو نہ لگائی جائے البتہ حلالے کی صرف نیت موجود ہواور نیت بعض اوقات شوہر کی طرف سے ہوتی اور بعض اوقات شوہر اور اس کے اولیاء کی طرف سے۔پس جب نیت شوہر کی طرف سے ہوگی اور بے شک شوہر کے ہاتھ میں ہی جدائی (یعنی طلاق دینے) کا اختیار ہے تو ایسے نکاح سے عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو گی۔کیونکہ اس نے وہ نیت ہی نہیں کی جو نکاح سے مقصود ہے اور وہ ہے بیوی کے ساتھ الفت و محبت اور طلب عفت و اولاد وغیرہ سمیت زندگی گزارنا ۔ اس نکاح میں اس کی نیت نکاح کے بنیادی مقصد کے ہی خلاف ہے لہٰذایہ نکاح صحیح نہیں ہو گا۔

اور اگر (شوہر کے بر خلاف )بیوی یا اس کے اولیاء کی (حلالے کی) نیت ہو تو (پھر نکاح کا کیا حکم ہے) یہ مسئلہ اختلاف ہےاور ابھی تک مجھے دونوں اقوال میں سے زیادہ صحیح کا علم نہیں ہو سکا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ نکاح حلالہ حرام نکاح ہے اور یہ (عورت کو) پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے کا فائدہ نہیں دیتا کیونکہ یہ صحیح نہیں ہے۔(شیخ ابن عثیمین )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 153

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ