۔ کیا اسلام میں مؤقت شادی کی کوئی اصطلاح پائی جاتی ہے؟ میرے ایک دوست نے پروفیسر ابو القاسم جورجی کی کتاب پڑھی اور اس سے بہت ہی متاثر ہوا ۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ متعہ کرنے میں ان دونوں پر کوئی حرج نہیں کیونکہ اسلام مؤقت شادی کے لیے ایک شرعی اصطلاح ہے۔
مؤقت شادی کی تعریف یہ ہے کہ جب کسی کوکوئی اچھا لگے تو اس کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ تھوڑی مدت کے لیے اس سے شادی کر لے۔تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ مجھے متعہ کے بارےمیں مزید معلومات دیں؟گزارش ہے کہ قرآن و حدیث کے دلائل کے ساتھ وضاحت کریں۔؟متعہ یا مؤقت شادی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی عورت سے معین وقت کے لیے کچھ مال کے عوض شادی کرے۔شادی میں اصل تو یہ ہے کہ اس میں استمراراور ہمیشگی ہواور مؤقت شادی یعنی متعہ ابتدائے اسلام میں مباح تھا لیکن بعد میں اسے حرام کردیا گیا اور قیامت تک یہ حرام ہی رہے گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح متعہ اور گھر یلو گدھے کے گوشت کو خیبر کے دور میں منع فرمایا تھا۔"
اور ایک روایت میں ہے۔کہ:"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے روز عورتوں سے متعہ کرنے اور گھریلو گدھوں کے گوشت (کھانے)سے روک دیا۔"[1]
ربیع بن سبرہ جہنی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں حدیث بیان کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"اے لوگو!میں نے تمھیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کردیا ہے اب جس کے پاس بھی ان( عورتوں) میں سے کوئی ہو وہ انہیں چھوڑدے اور جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔"[2]
اللہ تعالیٰ نے شادی کو اپنی نشانی قراردیا ہے جو غور و فکر اور تدبرکی دعوت دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے خاوند اور بیوی کے درمیان محبت و مودت اور رحمت و شفقت پیدا کی ہےاور خاوند کے لیے بیوی کو سکون و اطمینان کا باعث بنایا ہے اور اولاد پیدا کرنے کی رغبت پیدا کی ہے اور اسی طرح عورت کے لیے عدت اور وراثت بھی مقرر فرمائی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اس حرام فعل "متعہ "میں نہیں پا یا جا تا۔
رافضوں (یعنی شیعہ حضرات) کے ہاں متعہ کی جانے والی عورت نہ تو بیوی ہے اور نہ ہی لونڈی اور اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے ۔
"اور (فلاح پانے والے مومن وہ ہیں) جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے یقیناًیہ لوگ ملامت کے قابل ہیں ۔جو اس (یعنی بیوی اور لونڈی ) کے سوا کچھ اور چاہیں تو وہی حد سے تجاوزکرنے والے ہیں۔"[3]
شیعہ حضرات نے متعہ کی اباحت پر ایسے دلائل سے استدلال کیا ہے جن میں سے کوئی دلیل بھی صحیح نہیں جیسا کہ چند ایک کا بیان حسب ذیل ہے۔
1۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
"اس لیے جن عورتوں سے تم فائدہ اٹھاؤ ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو۔"[4]
ان کا کہنا ہے کہ:
اس آیت میں متعہ کے مباح ہونے کی دلیل ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان "ان کے مہر" کو اللہ تعالیٰ کے فرمان "استمتعتم"سے متعہ مراد لینے کا قرینہ بنایا ہے کہ یہاں سے مراد متعہ ہے۔ اس کا ردیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیت میں ذکر کیا ہے کہ مرد پر کون سی عورتوں سے نکاح حرام ہے اور اس آیت میں مرد کے نکاح کے لیے حلال عورتوں کا ذکر ہے اور شادی شدہ عورت کو اس کا مہر دینے کا حکم دیا ہے۔ شادی کی لذت کو اللہ تعالیٰ نے استمتاع سے تعبیر کیا ہے اور حدیث شریف میں بھی اسی طرح وارد ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"عورت پسلی کی مانند ہے اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو توڑبیٹھو گے۔اور اگراس سے فائدہ لینے کی کوشش کرو گے فائدہ اٹھاؤ گے اور اس میں کچھ ٹیڑھا پن ہوگا۔[5]
اوپر والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مہر کو اجرت سے تعبیر کیا ہے یہاں سے وہ مال مراد نہیں جو متعہ کرنے والا متعہ کی جانی والی عورت کو عقد متعہ میں دیتا ہے کتاب اللہ میں ایک اور جگہ پر بھی مہر کو اجرت کہا گیا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے کہ :
"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے تیرے لیے تیری وہ بیویاں حلال کی ہیں جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہے۔[6]
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ کے الفاظ بولے ہیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ شیعہ جس آیت سے متعہ کا استدلال کر رہے ہیں اس میں متعہ کی اباحت کی نہ ہو کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی ایسا قرینہ پا یا جا تا ہے اور اگر بالفرض ہم یہ کہیں کہ آیت اباحت متعہ پر دلالت کرتی ہے توپھر بھی یہ دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ یہ منسوخ ہو چکی ہے جس کا ثبوت سنت صحیحہ میں مو جود ہے کہ متعہ قیامت تک کے لیے حرام کردیا گیا ہے۔
2۔ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اس کے جائز ہونے کی روایت ملتی ہے بالخصوص حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کا ردیہ ہے کہ شیعہ حضرات اپنی خواہشات پر چلتے ہوئے اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ نعوذ باللہ ) سب صحابہ کو ہی کافر قرار دیتے ہیں لیکن پھر اپنے مؤقف کے اثبات کے لیے ان کے افعال سے استدلال بھی کرتے ہیں جیسا کہ یہاں اور اس کے علاوہ بھی کئی ایک مواقع پر کیا ہے یاد رہے کہ جن صحابہ سے متعہ کے جواز کا قول ملتا ہے انہیں حرمت متعہ کی دلیل نہیں پہنچی اس لیے وہ جواز کا ہی فتویٰ دیتے رہے (کیونکہ ابتدا میں یہ جائز ہی تھا) نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اباحت متعہ کے متعلق فتوے کا تو کئی ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ( جن میں حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل ہیں) نے رد بھی کیا ہے ۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں سنا کہ وہ عورتوں سے متعہ کے متعلق نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے۔
"اے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذرا ٹھہرو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے روز اس سے اور گھریلو گدھوں سے روک دیا تھا۔[7]
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صراط مستقیم عطا فرمائے اور ہماری اصلاح فرمائے۔(شیخ محمد المنجد)[1] ۔بخاری 5115کتاب النکاح :باب نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن النکاح المتعة اخیرامسلم 1407۔کتاب النکاح باب النکاح المتعة و بیان انه ابیح ثم نسخ مؤطا 542/2۔نسائی 125/6۔ترمذی کتاب النکاح : باب ماجاء فی تحریم النکاح المتعة ابن ماجه 1961۔کتاب النکاح : باب النكاح عن نکاح المتعة دارمی 140/2۔حمید ی 22/1۔
[2] ۔مسلم 140/6۔کتاب النکاح : باب النکاح المتعة و بیان انه ابیح ابو داؤد 2072۔کتاب النکاح : باب فی نکاح المتعة نسائی126/6ابن ماجہ 1922۔ کتاب النکاح : باب التسترعند الجماع حمیدی 846۔احمد 404/3۔
[3] ۔المؤمنون : 5۔7۔
[4] ۔النساء :24۔
[5] ۔مسلم 1468۔کتاب الرضاع : باب الوصیۃ بالنساء
[6] ۔الاحزاب :5۔
[7] ۔مسلم 1407۔کتاب النکاح : باب نکاح المتعۃ و بیان انہ ابیح ثم نسخ