نکاح متعہ کا کیاحکم ہے؟
نکاح متعہ یا اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی مسلمان یا پھر کتابی عورت سے مقررہ مدت تک کے لیے شادی کرے۔ وہ اس طرح کہ اس میں پانچ دن یا دو ماہ یا چھ ماہ یا کچھ سال مدت مقرر کی جائے جس کی ابتدا ء اور انتہا ء دونوں معلوم ہوں اور اسے کچھ تھوڑا سا مہر بھی ادا کیا جا ئے اور مقرر کردہ مدت ختم ہو جا ئے تو وہ عورت اس شادی سے نکل جائے۔ نکاح کی یہ قسم فتح مکہ کے سال تین دن کے لیے جائز کی گئی تھی بعد میں اس سے منع کر دیا گیا اور قیامت تک حرام کردی گئی۔[1]
اور یہ حرام اس لیے بھی ہے کہ بیوی سے تو معاشرت اور بودوباش ایک لمبے عرصے تک ہو تی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
"اور ان عورتوں سے اچھے اور احسن انداز میں بودوباش اختیار کرو۔"[2]
اور نکاح متعہ میں اس سے یہ معاشرت لمبی مدت تک نہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ بیوی کو ہی شرعی طور پر بیوی اور زوجہ کا نام دیا جا تا ہے اور اس کی صحبت بھی ہمیشہ اور لمبی ہوتی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہوا ہے۔
"سوائے اپنی بیویو ں کے اور پھر اپنی لونڈیوں کے (یعنی صرف ان سے تم اپنی شہوت پوری کرسکتے ہو)۔"[3]
اور نکاح متعہ والی عورت شرعی بیوی نہیں اس لیے کہ اس کا باقی رہنا مؤقت اور تھوڑی سی مدت کے لیے ہے پھر یہ بھی ہے کہ بیوی تو اپنے خاوند کی وارث ہے اور خاوند بیوی کا۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے۔
"اور جو کچھ تمھاری بیویاں چھوڑیں اگر ان کی اولاد نہ ہو تو تمھارے لیے نصف ہوگا۔[4]
لیکن نکاح متعہ والی عورت وارث نہیں بنتی کیونکہ یہ عورت مرد کے ساتھ تھوڑی سی مدت گزارنے کی وجہ سے اس کی بیوی ہی نہیں بنی۔
لہذا اس بنا پر نکاح متعہ زنا شمار ہو گا اگرچہ مرد اور عورت دونوں اس پر رضا مند بھی ہوں اور مدت بھی لمبی ہو جائے اور مہر بھی ادا کردیا جائے۔اس نکاح کی اباحت شریعت اسلامیہ میں فتح مکہ کے علاوہ نہیں ملتی جہاں پر بہت سارے نئے نئے مسلمان بھی جمع تھے کہ جن کے مرتد ہو جانے کا بھی خوف تھا کیونکہ وہ جاہلیت میں زنا بدکاری کے عدی تھے تو ان کے لیے صرف یہ نکاح تین دن تک کے لیے مباح کیا گیا اور اس کے بعد قیامت تک کے لیے حرام قراردے دیا گیا۔(شیخ محمد المنجد )