جب کسی کی چار بیویاں ہوں اور ایک کو طلاق دے تو کیا اس کی عدت میں کسی اور سے شادی کر سکتا ہے؟جب اوپر والے سوال کا جواب یہ ہو کہ چوتھی کی عدت میں پانچویں سے شادی کرنا جائز نہیں تو اس کی دلیل کیا ہے؟اور کیا اس کی آخری شادی صحیح ہو گی اور اس کی تصحیح کے لیے قرآن و سنت کے مطابق کیا کرنا ہو گا؟
اگر تو آپ نے اپنی چوتھی بیوی کو طلاق رجعی دی ہے یعنی یہ اس کی پہلی یا دوسری طلاق ہے تو علمائے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ عدت کے ختم ہو نے تک رجعی طلاق والی عورت بیوی شمار ہو گی۔[1]
تو جب یہ ثابت ہو گیا کہ وہ ابھی تک آپ کی بیوی ہی ہے تو آپ کے علم میں ہو نا چاہئے کہ علمائے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ کسی بھی آزاد شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ چار سے زیادہ بیویاں رکھے(یعنی ایک ہی وقت میں وہ سب اس کے نکاح میں ہوں) اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث میں بھی ملتی ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:
"غیلان بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ان میں سے چار رکھ لو۔"[2]
مندرجہ بالا سطور سے یہ واضح ہوا کہ مرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ طلاق رجعی کی حالت میں پانچویں سے شادی کرے اس لیے کہ اس طرح وہ پانچ عورتوں کو جمع کر لےگا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آئمہ اربعہ اور سارے اہل سنت علماء کا قولی اور عملی اجماع ہے کہ کسی بھی مرد کے لیے اپنے نکاح میں چار بیویوں سے زیادہ رکھنا جائز نہیں صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مستثنیٰ ہیں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے جلیل القدر تابعی عبیدہ سلمانی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے۔کہ انھوں نے فرمایا :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کسی بھی چیز پر اس طرح متفق نہیں ہو ئے جس طرح کہ ان کا چوتھی کی عدت میں پانچویں سے نکاح کی ممانعت اور بہن کی عدت میں دوسری بہن سے نکاح کی ممانعت "پر اتفاق ہے۔"[3]
پس جو بھی اس کی مخالفت کرتے ہوئے چار بیویوں سے زیادہ جمع کرتا ہے اس نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی اور اہل سنت والجماعت سے علیحدگی اختیار کر لی۔[4]
اور اگر ایسا ہو جا ئے تو عقد نکاح باطل ہو گا اور آپ پر واجب ہے کہ آپ اس سے علیحدگی اختیار کرلیں حتی کہ طلاق شدہ بیوی کی عدت ختم ہو جائے اور اگر آپ نے اس پانچویں سے دخول بھی کر لیا ہے تو پھر آپ اسے مہر مثل دیں اور وہ بھی آپ سے مطلقہ کی عدت گزارے گی پھر آپ اس سے نکاح کرنا چاہیں تو مکمل شروط کے ساتھ اسے عقد نکاح میں لائیں۔
اگر آپ نے چوتھی طلاق بائنہ دی ہے (یعنی اس کی یہ طلاق تیسری طلاق تھی) تو پھر پانچویں سے نکاح کے جواز میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ حناملہ اور احناف کے ہاں یہ جا ئز نہیں اور فضیلۃ الشیخ علامہ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی کو راجح کہا ہے۔[5]
لہٰذااس کا حکم بھی وہی ہو گا جو کہ طلاق رجعی میں گزر چکا ہے کہ اگر تیسری طلاق کی عدت ختم ہو جا ئے تو پھر آپ کے لیے پانچویں سے نکاح کرنا ناجائز ہو گا۔ (واللہ اعلم)
اور چوتھی بیوی کی وفات کی صورت میں یہ جائز ہے کہ اس کی وفات کے بعد پانچویں سے شادی کر لے کیونکہ اس حالت میں زوجیت قائم نہیں رہتی۔
(شیخ محمد المنجد )[1] ۔دیکھیں : المغنی لا بن قدامۃ 104/7۔
[2] ۔صحیح :صحیح ابن ماجہ 1989کتاب النکاح : باب الرجل یسلم وعندہ اکثر من اربع نسوۃ ارواء الغلیل 1883ابن ماجہ 1953،احمد 14/2۔ترمذی 1128کتاب النکاح : باب ماجاء فی الرجل یسلم و عندہ عشر نسوۃ ابن حبان 4156،الاحسان حاکم 192/2بیہقی 149/7،شرح السنۃ 2288،ابن شیۃ 317/4ترتیب المسند للشافعی 16/2۔
[3] ۔الفتاوی الکبری 154/4۔
[4] ۔مزید دیکھئے : الفتاوی للمراۃ المسلۃ 641/2۔
[5] ۔دیکھیں : فتاوی الطلا ق للشیخ ابن باز 278/1۔