کیا کوئی شخص چار سے زیادہ عورتیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے؟
آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ بیک وقت ایک سے زیادہ عورتیں اپنے نکاح میں رکھے لیکن ایک سے زیادہ کی حد چار ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے کہ:
"اگر تمھیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمھیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو۔ دودو تین تین چار چار سے لیکن اگر تمھیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمھاری ملکیت کی لو نڈی یہ زیادہ قریب ہے کہ (ایسا کرنے سے ناانصافی اور)ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ۔" [1]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے کہ خواہ وہ دو شادیاں کرے تین کرے یا چار بشرطیکہ اسے کسی پر ظلم کا خدشہ نہ ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے چار سے زیادہ کی اجازت نہیں دی۔اور شرمگاہوں کے بارے میں اصل حرمت ہی ہے لہٰذا صرف اتنی ہی جائز ہوں گی جتنی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے اور اللہ تعالیٰ بے بیک وقت چار سے زیادہ بیویوں کی اجازت نہیں دی اس لیے جو بھی چار سے زیادہ ہوں گی ان کی اصل تحریم ہی ہے۔
اسی طرح یہ بات مختلف احادیث سے بھی ثابت ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آئمہ اربعہ اور تمام اہل حدیث والجماعت کا قولاً اور عملاً اجماع ہے کہ کسی بھی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے نکاح میں چار سے زیادہ عورتوں کو رکھے سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور جو بھی چار سے زیادہ عورتیں اپنے نکاح میں رکھے گا وہ کتاب و سنت کا مخالف ہو گا۔(سعودی فتویٰ کمیٹی )