مجھے آپ کی نصیحت کی ضرورت ہے میں پانچ برس قبل مسلمان ہوا ہوں۔میرا اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے اور پانچوں نمازیں پڑھتا اور رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہوں اور شادی کے لیے لڑکی تلاش کر رہا ہوں لیکن جن میں نے اپنی پسند کی لڑکی دیکھی تو وہ میری برادری کی نہیں تھی اس لیے اس کے گھر والے اس کی میرے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتے ۔
مذکورہ لڑکی اسلامی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل پیرا ہے اور اصلاًبرصغیر سے تعلق رکھتی ہے اور ایک ایشیائی لڑکی ہے۔ یہ معروف ہے کہ ان ممالک کے لوگ اپنے بچوں کی شادی بالخصوص لڑکیوں کی غیر برادری میں نہیں کرتے کیونکہ ان کی ثقافت مختلف ہوتی ہے اگرچہ لڑکا کتنا ہی دین دار کیوں نہ ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ میری اس لڑکی سے شادی نہیں ہو سکی کیونکہ میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور اس علاقے میں بسنے والے صحیح اور مستقیم قسم کے مسلمانوں کی اکثریت بھی برصغیر کے مسلمانوں کی ہی ہے یہاں پر میرا مندرجہ ذیل سوال ہے۔
1۔میرے جیسے ایک نئے مسلمان کے لیے شادی کرنا کیسے ممکن ہے؟
2۔کیا جو شخص اسلام میں داخل ہوا ہے وہ اسی عورت سے شادی کر سکتا ہے جس نے نیا اسلام قبول کیا ہو اور کیا اسلامی ثقافت میں اس طرح کے فرق کی کوئی اساس پائی جاتی ہے؟گزارش ہے کہ آپ کے اسلام میں داخل ہونے سے آپ مسلمانوں کے ایک فرد کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں اس طرح جو حقوق مسلمانوں کے ہیں وہی آپ کے ہیں اور جو چیز ان پر واجب ہوتی ہے وہی آپ پر بھی واجب ہوتی ہے لہٰذا اب آپ پر ضروری ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کے لیے کوئی اچھی سی دین دار عورت تلاش کر کے شادی کر لیں۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔
"تیرے ہاتھ خاک میں ملیں دین والی عورت کو اختیار کر۔"[1]
خواہ یہ عورت ایک نئی مسلمان ہو یا پھر خاندانی طور پر پہلے سے ہی مسلمان ہو۔ اس میں اہم چیز یہ ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونی چاہیے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے پھر دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ کسی دین والی لڑکی کو شادی کا پیغام بھیجیں اور وہ قبول نہ کرے یا اس کے گھروالے شادی کرنے سے انکار کر دیں تو آپ صبر و تحمل سے کام لیں اور تلاش کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں کہ وہ آپ کو نیک اور صالحہ بیوی عطا فرمائے جو آپ کے لیے اپنے پروردگار کی اطاعت میں معاون ومددگار ثابت ہو۔
اور جس تفریق کے بارے میں آپ نے اشارہ کیا ہے اس کے متعلق اسلام میں ایسی کوئی چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
"اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچا نوتمھارے کنبے قبیلے بنا دئیے ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہے"یقین جانو اللہ تعالیٰ بڑا دانا اور باخبر ہے۔"[2]
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"اے لوگو! تمھارا رب ایک ہے اور تمھاراباپ بھی ایک ہے خبردار!کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر اور نہ ہی کسی سرخ کو سیاہ پر اور نہ کسی سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت ہے لیکن صرف تقویٰ کی بنیاد پر فضیلت حاصل ہے۔[3]
اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :
"اپنے آباؤ اجداد میں فخر کرنے والے لوگ باز آجائیں ۔۔۔یا پھر وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنی ناک سے گندگی دھکیلنے والے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہوں گے بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آباؤاجداد میں جاہلیت کے تکبر و فخر کو ختم کردیا ہے ۔یا تو وہ مومن متقی ہے یا پھر فاجراور لوگوں میں سب سے بد بخت سب کے سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔[4]
مذکورہ دلائل سے آپ کے سامنے بالکل اچھی طرح یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ اسلام مسلمانوں میں فرق نہیں کرنا چاہتا وہ زمین کے کسی بھی ٹکڑے میں بسنے والا ہی کیوں نہ ہو اس کا رنگ ونسل کوئی بھی ہو یا پھر مالدار اور غنی ہی کیوں نہ ہو بلکہ اسلام میں اللہ تعالیٰ کے ہاں فضیلت کا معیار تو تقویٰ و پرہیز گاری ہے۔ بلکہ شریعت اسلامیہ میں تو عورت کے ولی کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب اس کے پاس کوئی ایسا رشتہ آئے جس کا دین اور اخلاق اچھا ہو اور عورت کے بارے میں وہ امین ہو تو اسے اس کے ساتھ شادی کر دینے میں جلدی کرنی چاہئے اور اس رشتہ کو رد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمان نبوی ہے کہ
"جب تمھارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کردو ۔اگرتم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔[5]
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گوہیں کہ وہ آپ کی شادی ایسی عورت سے کرنے میں آسانی پیدا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں آپ کا تعاون کرنے والی ہو۔ (واللہ اعلم ) (شیخ سعد الحمید )[1] ۔بخاری (5090)کتاب النکاح : باب الاکفاء فی الدین مسلم (1466)کتاب الرضاع : باب استحباب نکاح ذات الدین احمد (428/2)دارمی (133/2)ابو داؤد (2047)کتاب النکاح : باب مابومروبہ من تزویج ذات الدین ابن ماجہ (1858)کتاب النکاح :باب تزویج ذوات الدین ابو یعلی (6578) الحلیۃالابی نعیم (383/8دارقطنی (302/3)
[2] ۔(الحجرات:13)
[3] ۔(صحیح : غایۃالمرام (313)مسند احمد (411/5)
[4] ۔(صحیح :صحیح ترمذی (3100)ترمذی (3890)غایۃالمرام (312)
[5] ۔حسن ارواء الغلل(1868)ترمذی (1084)کتاب النکاح : باب ماجاء اذا جاءکم من ترضون دینۃ ووجوہ ابن ماجہ (1967)کتاب النکاح :باب الاکفاء)