کیا میرے لیے اپنےوالد کی بیوی کی بیٹی(جو کہ اس کے پہلے خاوند سے ہے) سے شادی کرنا جائز ہے۔جسے میرے والد نے اپنی گود میں پالا ہے مجھے اس میں کوئی حرج محسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ میرے والد کی بیوی کی بیٹی ہے اگر ہم شادی کرلیں اور بچے پیدا ہوں تو کیا حکم ہوگا،کیا ایسا کوئی واقعہ سلف صالحین کے دور میں ملتاہے؟
آپ کی سوتیلی والدہ کی پہلے خاوند سے جو بیٹی ہے اسے آ پ کے والد کی ربیبہ کہا جائے گا اس لڑکی کی والدہ سے جب آپ کے والد نے شادی کرلی اور ہم بستری بھی کرلی تو یہ لڑکی صرف آپ کے والد پر حرام ہوگی خواہ اس نے اس لڑکی کی پرورش کی ہو یا نہ کی ہو۔
سلف اور خلف میں سے جمہور علمائے کرام اور ائمہ اربعہ کایہی مسلک ہے اور اللہ تعالیٰ نے جب حرام کردہ عورتوں کا ذکر کیا تو فرمایا:
"ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جوگزرچکاہے یہ بے حیائی کا کام اوربغض کا سبب ہے اور بڑی بُری راہ ہے۔حرام کی گئی ہیں تم پر تمہاری مائیں،تمہاری لڑکیاں ،تمہاری بہنیں،تمہاری پھوپھیاں،تمہاری خالائیں ،بھائی کی لڑکیاں ،بہن کی لڑکیاں ،تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہے،تمہاری دودھ شریک بہنیں تمہاری ساس،تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جوتمہاری گود میں ہیں تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکےہو۔ ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہوتو تم پر گناہ نہیں تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں،تمہارا دو بہنوں کو جمع کرلینا،ہاں جو گزر چکا سو گزرچکا۔اور شوہر والی عورتیں الا کہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں۔اللہ تعالیٰ نے یہ احکام تم پر فرض کردیے ہیں اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تم پر حلال کی گئی ہیں کہ انے مال کے مہرسے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لیے نہ کہ شہوت رانی کے لیے۔"[1]
لہذا ثابت ہوا کہ ر بیبہ آپ پر حرام نہیں کیونکہ وہ آپ کے والد کی بیوی کی وہ بیٹی ہے جو اس کے پہلے خاوند سے ہے اور آپ سے اس کاکوئی تعلق نہیں اس لیے آپ اس سے بغیر کسی حرج کے شادی کرسکتے ہیں۔
سعودی مستقل فتویٰ کمیٹی سے جب والد کی بیوی کی بیٹی سے شادی کے متعلق سوال کیاگیا تو کمیٹی نے جواب دیا:
مذکورہ بچے کے لیے اس لڑکی سے شادی کرنا جائز ہے خواہ اس کے والد نے اس لڑکی کی والدہ سے شادی ہی کی ہو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
"اور اس کے علاوہ باقی عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں۔"
اور مذکورہ(ربیبہ) لڑکی ان عورتوں میں شامل نہیں جو اس سے پہلے آیت میں بالنص(حرام) ذکر کی گئی ہیں۔اور نہ ہی اس کی حرمت کا سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی ذکر ملتاہے۔[2](شیخ محمد المنجد)