سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(280) استمناء بالید

  • 15525
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2644

سوال

(280) استمناء بالید
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
استمناءبالید(مشت زنی)کے بارے میں شیخ قرضاوی لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل سے روایت ہے کہ منی بھی دیگر فضلات کی طرح ایک فضلہ ہے لہذا فصدکی طرح اسے خارج کرنا بھی جائز ہے،ابن حزم نے بھی اسی کی تائید وحمایت کی ہے ۔(ص۱۶۶،المکتب الاسلامی)کیا یہ صحیح ہے کہ امام احمدرحمۃ اللہ علیہ نے مشت زنی کو عام جائز قراردیا ہے؟ان کی دلیل کیا ہے؟یہ بات بہت ہی افسوس ناک ہے کہ آج ہمارے نوجوان اس (انتہائی بری)عادت میں مبتلاہوچکے ہیں اوروہ اس بات کو بھول چکے ہیں کہ اس حالت کے علاج کے لئے نبی کریمﷺنے روزہ تجویز فرمایاتھا۔ایک نوجوان نے ہمیں بتایا کہ وہ کپڑے یہ روئی وغیرہ کے ذریعے جائے مخصوصہ بناکرمنی خارج کرتا  ہے۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علماءکےصحیح ترین قول کے مطابق مشت زنی حرام ہے،جمہور کا بھی یہی قول ہے اوراس کی دلیل حسب ذیل ارشادباری تعالی کاعموم ہے:

﴿وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ﴿٦ فَمَنِ ابتَغىٰ وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورة المؤمنون

‘‘اورجو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے  ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے)جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ (ان سے مباشرت کرنے سے)انہیں ملامت نہیں اورجو ان کے سوااورروں کے طالب ہوں ،وہ (اللہ کی مقررکی ہوئی)حد سے نکل جانے والے ہیں۔’’

ان آیات میں اللہ تعالی نے ان لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اورصرف اپنی بیویوں یا لونڈیوں ہی کو اپنی جنسی تسکین کے لئے استعمال کرتے ہیں اورفرمایاکہ جو شخص اس کے علاو ہ کوئی اورطریقہ اختیار کرتا ہے خواہ وہ کوئی طریقہ بھی ہو تووہ حد سے گزرنے والااوراللہ تعالی کے حلال کردہ امر سے تجاوز کرنے والاہے،

چنانچہ ان آیات کے عموم میں مشت زنی بھی شامل ہے جیساکہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اورکئی دیگر ائمہ نے اس کی نشاندہی فرمائی ہے ۔مشت زنی کے نقصانات بہت زیادہ اوراس کا انجام بھی بے حد خطرناک ہے مثلااس سے جسمانی قوتیں ختم اوراعصاب کمزورہوجاتے ہیں اوراسلامی شریعت نے ہر اس کام کو ممنوع قراردیا ہے جو انسان کے دین ،جسم ،مال اورعزت وآبروکے لئے نقصان دہ ہو۔ موفق ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب‘‘المغنی’’میں فرماتے ہیں:

‘‘اگر کسی نے مشت زنی کی تو اس نے ایک حرام فعل کا ارتکاب کیا ،اگر اس سے انزال نہ ہو تو روزہ فاسد نہیں ہوگااوراگرانزال ہوگیا توروزہ فاسدہوجائے گا،اس لئے کہ یہ فعل بوسہ کی طرح ہے۔’’

یعنی جس طرح بوسہ لینے سے انزال نہ ہو توروزہ فاسد نہیں ہوتااوراگرانزال ہوجائے توروزہ فاسد ہوجائے گا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ‘‘مجموع الفتوی ص۳۲۹ ج۳۴’’ میں فرماتے ہیں:

‘‘جمہورعلماءکے نزدیک مشت زنی حرام ہے ،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں بھی صحیح ترین قول یہی ہے کہ جس نے اس فعل کا ارتکا ب کیا اسے تعزیری سزادی جائے گی،امام احمد کے مذہب میں دوسرے قول کے مطابق یہ فعل  حرام نہیں بلکہ مکروہ ہے،اکثر ائمہ زنا وغیرہ کے خوف کی صورت میں بھی اسے جائز قرارنہیں دیتے۔’’

علامہ محمد امین  شنقیطی اپنی تفسیر‘‘اضواءالبیان ج ۵ ص ۷۶۹’’ میں فرماتے ہیں:

‘‘(مسئلہ سوم) بے شک سورہ المومنون کی یہ آیت کریمہ‘‘فمن ابتغی’’۔۔۔۔۔کا عموم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مشت زنی(جسے عربی میں جلد عمیرہ اورالخضخضۃ بھی کہا جاتا ہے)ممنوع ہے کیونکہ جس شخص نے ہاتھ سےتلذذحاصل کیا حتی کہ اسے انزال ہوگیا تواس نے اللہ تعالی کے حلال کردہ طریقے کے علاوہ اورطریقہ اختیار کیاہے لہذا وہ سورۂ المومنون کی اس آیت کریمہ اورسورۂ المعارج کی آیت کریمہ کی روشنی میں حدسےبڑھ جانےوالوں میں سےہے۔حافظ ابن کثیررحمۃاللہ علیہ نےذکرکیاہےکہ امام شافعیؒ اوران کےمتبعین نےاس آیت کریمہ سےاستدلال کیاہےکہ مشت زنی ممنوع ہے۔’’

امام قرطبی رحمۃاللہ علیہ بیان فرماتےہیں کہ محمدبن عبدالحکیم نےکہاہےکہ میں نےحرملہ بن عبدالعزیزسےسناکہ میں نےامام مالک رحمۃاللہ علیہ سےمشت زنی کرنےوالےکےبارےمیں پوچھاتوانہوں نےوالذين هم لفروجهم حافظون سےلےکرالعادون تک کی آیات تلاوت فرمادیں۔

علامہ قرطبی فرماتےہیں کہ مجھےبظاہریوں معلوم ہوتاہےکہ امام مالک رحمۃاللہ علیہ،امام شافعی رحمۃاللہ علیہ اوردیگراہل علم کااس آیت کریمہ سےمشت زنی کی ممانعت کےبارےمیں استدلال صحیح ہے۔قرآن مجیدسےبظاہریہی معلوم ہوتاہےاورپھرقرآن مجیداورسنت سےاس کےخلاف بھی کوئی بات ثابت نہیں ہےحضرت الامام احمد رحمۃاللہ علیہ کی جلالت علمی اوران کےورع وتقوی کےاعتراف کےباوجودہم یہ عرض کریں گےکہ انہوں نےقیاس کےذریعہ مشت زنی کوجوجائزقراردیاہےتویہ صحیح نہیں ہے،چنانچہ امام احمد رحمۃاللہ علیہ فرماتےہیں:

‘‘مشت زنی بھی وقت ضرورت جسم سےفضلہ نکالناہےلہٰذایہ بھی فصداورسینگی پرقیاس کی وجہ سےجائزہےجیساکہ ایک شاعرنےبھی کہاہے؎

اذا   حللت   بواد   لا   انيس   به
فاجلد عميرة  لا  عار  ولا  حرج

‘‘جب تم کسی ایسی وادی میں فروکش ہوجہاں دوست(بیوی)نہ ہوتومشت زنی کرلواس میں کوئی عاریاحرج نہیں ہے۔’’

امام احمدرحمۃاللہ علیہ کا مقام ومرتبہ اگرچہ مسلم  لیکن آپ کا یہ قیاس عموم قرآن کے خلاف ہے اورجو قیاس اس طرح کا ہواسے فساداعتبارکی  وجہ سے ردکردیا جاتا ہےجیساکہ  ہم نے اس کتاب مبارک (تفسیر قرطبی)میں کئی بارذکر کیا اورصاحب ‘‘مراقی السعود’’کے اس قول کا حوالہ بھی دیا ہے کہ

والخلف للنص او اجماع دعا
فساد الاعبباركل من وعي

‘‘نص اوراجماع کے خلاف جو قیاس ہواسے تمام اہل علم نے فسادالاعتبارکے نام سے موسوم کیاہے۔’’

اللہ تعالی کا ارشادگررامی ہے:

﴿وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥﴾... سورة المؤمنون

‘‘اورجو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے  ہیں۔’’

اوراس سے صرف ان دوصورتوں کو مستثنی قراردیا ہےجوحسب ذیل ہیں:

﴿إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ﴿٦﴾... سورة المؤمنون

‘‘مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے)جو ان کی ملک ہوتی ہیں۔’’

اللہ تعالی نے صرف ان لوگوں کو ملامت سے مستثنی قراردیا ہے جو صرف اورصرف بیوی یا لونڈی کی جنسی تسکین کا ذریعہ بناتے ہیں اورپھر ان ان دو صورتوں کے سوا دیگر تمام طریقوں اورصورتوں سے منع کرتے ہوئے بے  حد جامع الفاظ استعمال کرتے ہوئے فرمایا:

﴿فَمَنِ ابتَغىٰ وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورة المؤمنون

‘‘اورجو ان کے سوااورروں کے طالب ہوں وہ (اللہ کی مقررکی ہوئی)حد سے نکل جانے والے ہیں۔’’

اوربلاشک وشبہ یہ  عموم مشت زنی کرنے والے کو بھی شامل ہے ۔عموم قرآن کے ظاہرسےاعراض صرف اسی صورت میں کیا جاسکتا ہے جب کتاب اللہ یا سنت رسول اللہﷺسےکوئی ایسی دلیل موجودہوجس کی طرف رجوع کرناواجب ہواوروہ قیاس جونص کےخلاف ہووہ ساسدالاعتبارہےجیساکہ ہم نےقبل ازیں واضح کرادیاہے،والعلم عندالله تعاليٰ_

ابوالفضل عبداللہ بن محمدصدیق حسنی ادریسی اپنی کتاب الاستقصاءلادلةتحريم الاستماءاوالعادةلسريةمیں لکھتےہیں کہ مالکیہ،شافعیہ،حنفیہ اورجمہورعلماکامذہب یہ ہےکہ مشت زنی حرام ہےاوریہی مذہب صحیح ہے،اس مذہب کےخلاف کوئی بات کہناجائزنہیں ہےجیساکہ ان دلائل سےواضح ہوتاہے،جنہیں بتوفیق الہٰی ذیل میں٘ پیش کیاجاتاہے:

دلیل اول:

ارشادباری تعالیٰ ہے:

﴿وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ﴿٦ فَمَنِ ابتَغىٰ وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورةالمؤمنون

‘‘اورجولوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتےہیں مگراپنی بیویوں سےیا(کنیزوں سے)جوان کی ملک ہوتی ہیں کہ(ان سےمباشرت کرنےمیں)انہیں ملامت نہیں اورجوان کےسوااوروں کےطالب ہوں وہ(اللہ کی مقررکی ہوئی)حدسےنکل جانےوالےہیں۔’’

ان آیات کریمہ سےاستدلال ظاہرہےاوروہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نےمومنوں کی تعریف فرمائی ہےکہ وہ حرام کاموں سےاپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتےہیں،نیزاللہ سبحانہ وتعالیٰ نےفرمایاہےکہ وہ قابل ملامت نہیں ہیں جواپنی بیویوں اورمملوکہ لونذیوں کےقریب جاتےہیں یعنی شرم گاہوں کی حفاظت کےعموم سےصرف ان دوصورتوں ہی کومستثنیٰ قراردیااورپھرفرمایاکہ ان دوصورتوں یعنی بیویوں اورلونڈیوں سےجنسی عمل کےسواجولوگ کوئی اورطریقہ اختیارکرتےہیں تووہ ظالم اورحلال سےتجاوزکرکےحرام کاارتکاب کرنےوالےہیں۔‘‘العادی’’اس کوکہتےہیں جوحدسےتجاوزکرجائےاورجواللہ تعالیٰ کی مقررکردہ حدسےتجاوزکرجائےوہ ظالم ہےاوراس کی دلیل یہ ارشادباری ہے:

﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٢٢٩﴾... سورة البقرة

‘‘اورجولوگ اللہ کی حدوں سےباہرنکل جائیں گے،وہ ظالم ہوں گے۔’’

گویایہ آیت عام ہےاوراس میں جنسی عمل کے لئے بیویوں اورلونڈیوں کے استعمال کے سوا دیگر تمام طریقوں کو حرام قراردیا گیا ہے۔مشت زنی بھی بلاشبہ ان دوصورتوں کے علاوہ ہے لہذا یہ بھی حرام ہے اوراس فعل کا مرتکب نص قرآن کی روشنی میں ظالم ہے۔اس کتاب کے فاضل مصنف نے اس کے بعد دیگر دلائل ذکرکئے ہیں،جن میں سے چھٹی دلیل حسب ذیل ہے:

علم طب کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ مشت زنی سے کئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں مثلا اس سے(۱)نظر بے حد کمزورہوجاتی ہے(۲)عضو تناسل کمزورہوکراس میں جزوی طور پر ڈھیلا پن پیدا ہوجاتا ہے یا وہ کلی طورپرہی اس قدر ڈھیلا ہوجاتا ہے کہ مشت زنی کرنے والاعورت کے مشابہہ ہوجاتا ہے کیونکہ اس میں رجولیت کا وہ اہم امتیاز ختم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے مر دکو عورت پر فضیلت عطافرمائی ہے اوراس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا مرد شادی کے قابل نہیں رہتا اوراگر وہ شادی کر بھی لے تو وہ صحیح طورپروظیفہ زوجیت ادانہیں کرسکتا اورجب یہ صحیح طورپر وظیفہ زوجیت ادانہیں کرسکے گاتواس کی بیوی دوسرے مردوں کی طرف دیکھے گی اورپھر اس میں جو مفاسد اورخرابیاں ہیں،وہ محتاج بیان نہیں ہیں (۳)مشت زنی کے نتیجہ میں اعصاب بھی کمزورہوجاتے ہیں(۴)اس سے معدہ پر  بھی بہت برا اثر پڑتا ہےاورنظام ہضم کمزورہوجاتا ہے (۵)اس سے اعضاء  بدن خصوصا جنسی اعضاء آلہ تناسل اورخصیتیں کی نشوونمارک جاتی ہے اوروہ اپنی طبعی حد تک نہیں پہنچ سکتے ۔(۶)اس سے مادہ منویہ بہت پتلا ہوجاتا ہےاورمشت زنی کرنے والاسرعت انزال کا اس حد تک مریض ہوجاتا ہے کہ اس کے آلی تناسل سے اگر کوئی ذرا سی چیز بھی لگے تواسے فوراانزال ہوجاتاہے۔(۷)اس سے کمر کی ہڈیوں میں درد شروع ہوجاتا ہے کیونکہ منی پشت ہی سے نکلتی ہے اورپھر اس دردکی وجہ سے کمرٹیٹرھی ہوجاتی ہے۔(۸)مشت زنی کرنے والے کی منی بہت پتلی ہوجاتی  ہے اوراس کے جراثیم بالکل مرجاتے ہیں یا اس قدرکمزور ہوجاتے ہیں کہ ان سے حمل قرارنہیں پاتااوراگر حمل قرارپابھی جائے تواولاد بہت کمزوراورنحیف وناتواں ہوتی ہے اورصحت مند نہیں ہوتی جس طرح ایک طبعی اورصحیح منی سے پید اہونے والی اولاد ہوتی ہے (۹)مشت زنی سےبعض اعضاء مثلا پاوں وغیرہ کو رعشہ بھی لاحق ہوسکتا ہے (۱۰)اس سے دماغی غدودکمزور ہوجاتے ہیں جس سے عقل وفہم میں کمی ہوآجاتی ہے خواہ انسان پہلے کتنا ہی عقل مند کیوں نہ ہواس عادت سے پیدا ہونے والے ضعف دماغ سے دماغی توازن میں خلل بھی پیدا ہوسکتا ہے۔’’

اس تفصیل سے سائل کے سامنے بلاشک وشبہ یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ ان مذکورہ دلائل اوراس عادت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے نقصانات کی وجہ سے مشت زنی حرام ہے ،منی ہاتھ سے خارج کی  جائے یا روئی وغیرہ سے شرم گاہ کی شکل بنا کر ہر طرح (طبعی عمل کے سوا)حرام ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مقالات و فتاویٰ

ص399

محدث فتویٰ

تبصرے