ہمیں یہ تو علم ہے کہ شریعت اسلامیہ کے مطابق عورت کی ولی کی رضامندی کے بغیر شادی نہیں ہوسکتی۔ بہت سے ایسے واقعات ہیں کہ لڑکا اور لڑکی آپس میں رضا مند ہوتے ہیں اور لڑکی گھر سے بھاگ کر اس کے ساتھ شادی کر لیتی ہے، تو میرا سوال یہ ہے کہ
جب یہ شادی صحیح نہیں تو یہ لوگ اپنی اس شادی کو کس طرح صحیح کریں، جبکہ اس شادی کو پانچ یا دس برس گزر چکے ہوں اور ان کے بچے بھی ہوں؟ ایک دوسرا سوال بھی ہے کہ جب لڑکا اور لڑکی بھاگ کر شادی کر لیں اور دو یا چار سال بعد والدین اس شادی پر رضامندی کا اظہار کر دیں تو کیا یہ شادی صحیح ہو گی اور اس شادی کو کس طرح صحیح کیا جا سکتا ہے؟: جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر شادی کرے اس کا نکاح باطل ہے خواہ اسے دس برس بھی گزر جائیں، یہ صحیح نہیں ہو گا اور خواہ ان کی اولاد بھی ہو بلکہ ولی کی رضا مندی کے ساتھ اس کا دوبارہ نکاح کرنا واجب ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’ ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘
(صحیح: ارواء الغلیل: 1858، صحیح الجامع الصغیر: 7298)
جو عورت اپنے ولی کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر شادی کرے اس کا نکاح باطل سے خواہ اسے دس برس بھی گزر جائیں ،یہ صحیح نہیں ہوگا۔اور خواہ ان کی اولاد بھی ہو بلکہ ولی کی رضا مندی کے ساتھ ا س کا دوبارہ نکاح کرنا واجب ہے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ"ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔"[1]
جو عورت خود ہی اپنا نکاح کرلے اس کے لیے حدیث میں بہت سخت وعید وارد ہوئی ہے۔حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورت کو زانیہ قرار دیاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا تُزَوِّجِ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ ، وَلا تُزَوِّجِ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا "
"کوئی عورت کسی دوسری عورت کا(ولی بن کر) نکاح نہ کرے اور نہ ہی خود اپنا نکاح کرے بلاشبہ وہ عورت زانیہ ہے جس نے ا پنا نکاح خود کریا۔"[2]
اور دو سرا سوال کے بارے میں ہم گزارش کریں گے کہ اگر ولی اس شادی سے موافقت کرلے تو واجب یہ ہے کہ نکاح دوبارہ کیا جائے کیونکہ پہلا عقد نکاح صحیح نہیں تھا۔اور خاوند اور بیوی کو اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے کیے کی خالص اور سچی توبہ کرنی چاہے۔اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔