السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آدمی نے اپنی کنواری بیٹی کی شادی کر دی حالانکہ وہ مرد کو ناپسند کرتی تھی، پھر بیٹی شوہر کی اطاعت سے رک گئی اور یہ دھمکی دی کہ اگر اسے اس پر مجبور کیا گیا تو وہ خود کشی کر لے گی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب معاشرت، ازدواجی حالات کی خرابی اور دونوں کے درمیان اصلاح کی ناامیدی کی حالت یہاں تک پہنچ جائے کہ جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے بالخصوص جب لڑکی کو (شادی پر) مجبور کیا گیا ہو تو بہتر یہ ہے کہ خلع یا کسی اور ذریعے سے دونوں کے تفریق کرانے کی کوشش کی جائے اور شوہر کے لیے بھی اس حالت میں بہتر یہی ہے کہ وہ خلع پر راضی ہو جائے ...... اسی طرح یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ کسی سے مخفی نہیں کہ صحت نکاح کی شرائط میں سے ایک (لڑکے اور لڑکی کی) رضا مندی بھی ہے اور اگر لڑکی کنواری ہو تو والد کو اسے مجبو کرنے کا کوئی حق نہیں اور اس قول کے دلائل واضح ہیں جن میں سے ایک وہ حدیث ہے جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ
’’شوہر دیدہ کی شادی اس کے مشورہ کے بغیر نہ کی جائے اور کنواری کی شادی اس سے اجازت لیے بغیر نہ کی جائے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اس کی اجازت کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا، خاموش رہنا۔‘‘
(1)
اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
’’ایک کنواری لڑکی کے والد نے اس کی شادی کر دی لیکن وہ ناپسند کرتی تھی تو وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور ذکر کیا کہ اس کے والد نے اس کی شادی کر دی ہے لیکن وہ ناپسند کرتی ہے تو آپﷺ نے اسے اختیار دے دیا ہے۔‘‘
(2)
اسی قول کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم اور ابوبکر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے ... اور امام اوزاعی، امام ثوری، امام ابو ثور، اصحاب الرائے اور امام ابن منذر کا بھی یہی مذہب ہے اور یہی قول صحیح ہے۔
(شیخ محمد آل شیخ)
شیخ عبد الرحمن سعدی سے دریافت کیا گیا کہ کیا بیٹی کو ایسے شخص کے ساتھ شادی پر مجبور کیا جا سکتا ہے جسے وہ ناپسند کرتی ہو؟ تو ان کا جواب تھا:
نہ تو لڑکی کا باپ اسے اس شادی پر مجبور کر سکتا ہے اور نہ ہی ماں، خواہ وہ دونوں اس (لڑکے) کو اس کے دین کی وجہ سے ہی پسند کرتے ہوں۔
(شیخ عبد الرحمن سعدی)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب