سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44)کیا خاوند اختیار کرنے میں لڑکی کا بھی کوئی حق ہے؟

  • 15501
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1030

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

والد صاحب چاہتے ہیں کہ بیٹی کے لیے خاوند بھی اپنی شہریت کاہو، وہ ہمارے ہر قسم کے معاملات میں حکم چلانا پسند کرتے ہیں، کیا آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ آپ کوئی ایسی دلیل پیش کریں کہ لڑکی کو خاوند اختیار کرنے کا حق ہے خواہ وہ کسی بھی ملک کی شہریت رکھتا ہو صرف یہ ہے کہ وہ صالح، نیک اور اچھی طبیعت کا مالک ہونا چاہیے۔

میرے والد صاحب کا خیال ہے کہ بچی  کو خاوند کے اختیار میں کوئی حق نہیں، یہ حق صرف بچی کے والد کو ہے، اس لیے میرے خیال میں وہ صرف اسی کو اختیار کریں گے جو ان کے ملک کی شہریت رکھتا ہو۔ کیا بچی کے لیے جائز ہے کہ اگر مناسب شخص پا لے تو اسے اپنا خاوند اختیار کر لے جب کہ وہ کفو بھی ہو خواہ والد صاحب شہریت  کی وجہ سے  موافق نہ بھی ہوں؟ اور پھر والد صاحب دین  کے معاملے میں بھی ایسا شخص اختیار کریں گے جو کہ ان کی خواہش کے مطابق ہو، وہ لوگوں کو اپنی طاقت ودولت اور نام دکھانا پسند کرتے ہیں، تو کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ کوئی  ایسی دعا بتائیں جسے پڑھنے سے والد صاحب کا اخلاق بہتر ہو جائے اور ایک سہل پسند بن جائیں تاکہ معاملات طے کرنے میں آسانی پیدا ہو؟ تعاون کی درخواست کی جاتی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمہور علماے کرام کے نزدیک صحیح یہی ہے کہ نکاح کی شروط میں ولی کا ہونا بھی ایک شرط ہے، عورت کا نکاح  ولی کے بغیر ثابت ہو جائے کہ والد ولی بننے کا اہل نہیں تو پھر ولایت اقرب رشتہ دار میں منتقل ہو جائے گی مثلاً دادا وغیرہ میں۔

دوسری بات یہ ہے کہ شرعی صفات وشروط جو کہ خاوند میں ہونا ضروری ہیں ان میں سب سے اہم دین ہے جس کے بارے میں نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:

’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔‘‘

(حسن، إرواء الغلل: 1868، ترمذي: 1084، كتاب النكاح، باب ماجاء إذا جاء كم من ترضون دينه فزوجوه، ابن ماجة: 1967، كتاب النكاح: باب الأكفاء)

تیسری بات یہ ہے کہ نکاح کی شرعی شروط میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ ہونے والی بیوی کی رضامندی بھی شامل  ہونی چاہیے۔ اس کی دلیل نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ہے:

’’کسی شوہر دیدہ کی شادی اس کے مشورے کے بغیر نہ کی جائے اور نہ ہی کسی کنواری کی شادی اس کی اجازت کے بغیر کی جائے۔ صحابہ کرام نےعرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس کی اجازت کیسے ہو گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کہ وہ خاموش رہے۔‘‘

(بخاري: 5136، كتاب النكاح، باب لاينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاها، مسلم: 1419)

اس لیے کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اسے کسی بھی شخص سے شادی کرنے پر مجبور کرے اور اسی طرح لڑکی کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ ولی کی اجازت کے بغیر خود ہی شادی کر لے۔ صحت نکاح کے لیے ولی کی موجودگی شرط ہے اور لڑکی جس سے نکاح نہیں کرنا چاہتی اسے اس کے ساتھ نکاح کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور ایسا کرنے سے اسے نافرمان شمار نہیں کیا جائے گا۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ  نے کہا ہے کہ

’’والدین کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ بچے کا اس سے نکاح کریں جسے وہ نہیں چاہتا، اگر وہ نکاح رک جاتا ہے تو اس سے وہ نافرمان شمار نہیں ہو گا۔‘‘

چوتھی بات یہ ہے کہ ہم آپ کے والد کے متعلق یہ نصیحت کرتے ہیں کہ ان کی غیر موجودگی میں آپ ان کے لیے دعا کریں، اس ضمن میں کوئی خاص دعا تو نہیں البتہ یہ دعا کر سکتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح فرمائے۔ اسی طرح والد صاحب کے کچھ دوست احباب سے تعاون لیں یا پھر ان رشتہ داروں کے ذریعے جن پر وہ بھروسہ کرتے ہیں کہ وہ ان کی اصلاح کی کوشش کریں۔ نیز حسب استطاعت اپنی زبان میں تقاریر کی کیسٹیں اور کتابیں حاصل کریں جن میں اخلاق حسنہ اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہو اور برے اخلاق کے نقصانات بیان کیے گئے ہوں اور  پھر یہ اپنے والد صاحب کو کسی اچھے سے اسلوب کے ساتھ بطور ہدیہ پیش کریں، ممکن ہے اللہ تعالیٰ اسے ان کی اصلاح کا سبب بنا دے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کو اپنے پسندیدہ اور محبوب کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔

....(شیخ محمد المنجد)...

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 91

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ