سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42)کیا بیٹا یابیٹی والدین کے منتخب کردہ رشتے کا انکار کر سکتے ہیں؟

  • 15499
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1431

سوال

(42)کیا بیٹا یابیٹی والدین کے منتخب کردہ رشتے کا انکار کر سکتے ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

والدین کو اپنے بچے کا رفیق حیات اختیار کرنے کا کہاں تک حق حاصل ہے اور کیا اگر وہ بیٹی کو اپنے کسی رشتہ داری سے شادی پر مجبور کریں جسے بیٹی نہیں چاہتی تو اس کا کیا حکم ہو گا؟ او راگر بیٹی انکار کر دے تو وہ کس حد تک  گناہ گار ہو گی، کیا والدین کے اختیار کردہ شخص سے شادی نہ کرنے کا بیٹی کو اختیار ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شروط نکاح میں یہ شامل ہے کہ خاوند اور بیوی دونوں کی عقد نکاح پر رضامندی ہو جس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث میں موجود ہے:

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’کسی شوہر دیدہ کی شادی اس کے مشورے کے بغیر نہ کی جائے اور نہ ہی کسی کنواری کی شادی  اس کی اجازت کے بغیر کی جائے۔ صحابہ کرام نے عرض  کیا، اے اللہ کے رسول! اس کی اجازت کیسے ہو گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کہ وہ خاموش ہو جائے۔‘‘

(بخاري: 5136، كتاب النكاح، باب لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاها، مسلم: 1419، كتاب النكاح، باب استئذان الثيب في النكاح بالنطق والبكبر بالسكوت، أبوداؤد: 2094، كتاب النكاح ، باب في الاستئمار، ترمذي: 1109، نسائي: 8716، ابن ماجة: 1871، بيهقي: 7/120)

معلوم ہوا کہ جس طرح لڑکے کی رضا مندی ضروری ہے اسی طرح لڑکی کی رضا مندی ہونا بھی لازمی ہے، لہٰذا والدین کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی اس سے کر دیں جسے وہ ناپسند کرتے ہوں۔ لیکن اگر والدین نے شادی کے لیے ایسا رشتہ اختیار کیا جو نیک صالح اور اخلاقی لحاظ سے بھی صحیح ہو تو پھر بیٹے یا بیتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس میں اپنے والدین کی اطاعت کرے، اس لیے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے:

(إذا أتاكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إلا تكن في الأرض فتنة وفساد كبير)(حسن: إرواء الغليل: 1867، ترمذي: 1084، كتاب النكاح: باب ما جاء إذا جاء كم من ترضون دينه فزوجوه، ابن ماجة: 1967، كتاب النكاح، باب الأكفاء)

’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔‘‘

تاہم اگر والدین کا انتخاب ایسا ہو کہ جو بعد مین (دونوں کی باہمی رضا مندی نہ ہونے کی وجہ سے) علیحدگی کا باعث بن سکتا ہو تو پھر اس میں والدین کی اطاعت لازمی نہیں، اس لیے کہ ازدواجی زندگی کی اساس ہی رضا مندی رہے اور پھر یہ رضامندی شریعت کے مطابق ہونی چاہیے، وہ اس طرح کہ لڑکے اور لڑکی دین واخلاق والے شریک حیات پر راضی ہونا چاہیے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کا کہنا ہے کہ والدین کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بچے کو اس سے نکاح کرنے پر مجبور کریں جس سے وہ نکاح نہیں کرنا چاہتا اور اگر وہ نکاح نہیں کرتا تو اس سے وہ نافرمان نہیں ہو گا جس طرح کہ اگر چیز نہ کھانا چاہے (تو  نہ کھانے سے نافرمان نہیں ہوتا)

(الاختیارات الفقہیۃ: ص 344)(شیخ محمد المنجد)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 89

محدث فتویٰ

تبصرے