سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34)والد کے بغیر لڑکے اور لڑکی کی شادی

  • 15491
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2607

سوال

(34)والد کے بغیر لڑکے اور لڑکی کی شادی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اجنبی ملک میں رہائش پذیر ہوں اور کسی اور ملک کی نصرانی لڑکی سے شادی کی ہے، ہم دونوں کا کوئی بھی قریبی اس ملک میں رہائش پذیر نہیں۔ میں نے اسے شادی کا پیغام دیا اور وہ رضا مند ہو گئی، بعد میں ہمارا ایجاب وقبول  بھی ہوا لیکن میں مہر دینا بھول گیا اور بعد میں اسے کچھ رقم دے دی۔ تو کیا یہ شادی صحیح ہے۔ ہم نے معاشرے کے رسم ورواج سے ہٹ کر صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے شادی کی تھی، پھر اس خدشہ سے کہ کہیں ہماری یہ شادی غلط نہ ہو ایک دوسرے کو طلاق دے دی، تو کیا ایسا کرنا صحیح تھا اور کیا اب گواہوں اور اس کے کسی ولی کی  موجودگی میں عقد نکاح کرنا واجب ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمہور علمائے کرام جن میں امام شافعی، امام احمد اور امام مالک رحمہ اللہ شامل ہیں، کا مسلک یہ ہے کہ کسی بھی مرد  کے لیے حلال نہیں  کہ وہ عورت سے اس  کے ولی کے بغیر شادی کرے خواہ وہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ۔

ان کے دلائل میں مندرجہ ذیل آیات شامل ہیں:

1۔ ’’تم انہیں اپنے خاوندوں سے شادی کرنے سے مت روکو۔‘‘ (البقرة: 232)

2۔ ’’مشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو مت دو۔‘‘ (البقرة: 221)

3۔ ’ اور اپنے میں سے بے نکاح مرد وعورت کا نکاح کر دو۔‘‘ (النور: 32)

ان آیات میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ نکاح میں ولی کا ہونا شرط ہے اور اس کی وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب آیات میں عورت کے ولی کو عقدِ نکاح کے بارے میں مخاطب کیا ہے اور اگر (نکاح کا) معاملہ ولی کے  ہاتھ میں نہیں بلکہ عورت کے ہاتھ میں ہوتا تو پھر اس کے ولی کو مخاطب کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ان آیات پر یہ کہتے ہوئے باب باندھا ہے کہ "باب من قال: لا نكاح إلا بولي" ’’بغیر  ولی کے نکاح نہ ہونے کے قول کے بارے میں باب۔‘‘

اور حدیث میں بھی یہ وارد ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

(صحيح: صحيح أبو داؤد: 1836، كتاب النكاح: باب في الولي، أبودؤاد: 2085، ترمذي: 1101، كتاب النكاح: باب ما جاء لا نكاح إلا بولي، دارمي، 137/2، أحمد: 394/4، ابن ماجة: 1881، كتاب النكاح: باب لا نكاح إلا بولي، ابن الجارود: 701، أبو يعلى: 195/13، ابن حبان: 1243- الموارد، دار قطني: 218/3، حاكم: 170/2، بيهقي: 7/107)

اور حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے۔ آپ ﷺ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔ (پھر اس ممنوع نکاح کے بعد) اگر مرد اس عورت کے ساتھ ہمبستری کر لے تو اس پر مہر کی ادائیگی واجب ہے کہ جس کے بدلے اس نے عورت کی شرمگاہ کو چھوا۔ اگر اولیاء کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی  حکمران ہے۔‘‘

(صحيح: صحيح ابو داؤد: 1835، كتاب النكاح، باب في الولي، أبوداؤد: 2083، أحمد: 47/6، ترمذي: 1102، كتاب النكاح: باب ما جاء لا نكاح الا بولي، ابن ماجة: 1879، كتاب النكاح: باب لا نكاح إلا بولي، ابن الجارود: 700، دارمي: 7/3، دارقطني: 3/221، حاكم: 168/2، بيهقي:7/105، أبو يعلى: 147/8)

دوسری بات یہ ہے کہ اگر عورت کا ولی اسے اپنی پسند کی شادی بغیر کسی عذر کے نہیں کرنے دیتا تو اس کی ولایت ختم ہو کر اس کے قریبی رشتہ داروں کی طرف منتقل ہو جائے گی مثلاً باپ کی بجائے دادا  ولی بن جائے گا۔

تیسری بات یہ ہے کہ اگر اس کے تمام اولیاء اسے بلاعذرِ رشرعی شادی کرنے سے روکیں تو سابقہ حدیث کی وجہ سے حکمران  ولی بن جائے گا کیونکہ حدیث میں ہے کہ

’’اگبر وہ جھگڑا کریں تو جس کا ولی نہ ہو  حکمران  اس کا ولی ہے۔‘‘

چوتھی بات یہ ہے کہ اگر نہ ولی ہو اور نہ ہی حکمران تو پھر اس کی شادی وہ شخص کرے گا جسے سلطہ اور اختیار حاصل ہو گا مثلاً گاؤں کا نمبردار یا گورنر وغیرہ  اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو وہ عورت اپنی شادی کے لیے کسی بھی مسلمان امین شخص کو اپنا وکیل بنا لے۔

شیخ الاسلام امام ابن  تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ

’’اگر نکاح کا ولی نہ ہو تو ایسی حالت میں ولایت اس شخص کی طرف منتقل ہو گی جسے نکاح کے علاوہ  دوسرے معاملات میں ولایت حاصل ہو مثلاً گاؤں کا نمبردار یا قافلے کا امیر وغیرہ۔‘‘

(الاختيارات الفقهية: ص 350)

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ

’’اگر عورت کا ولی نہ ہو او رنہ ہی حکمران ملے تو امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس عورت کی اجازت سے کوئی عادل شخص اس کی شادی کر دے۔‘‘

(المغني لابن قدامة: 9/362)

اور شیخ عمر الاشقر کہتے ہیں کہ

’’جب مسلمانوں کی طاقت ختم ہو جائے اور انہیں سلطہ حاصل نہ ہویا پھر عورت کسی ایسی جگہ رہتی ہو جہاں پر مسلمان اقلیت میں ہوں اور انہیں کوئی اختیار نہ ہو، ان کا حکمران بھی نہ ہو او رنہ ہی عورت کا ولی موجود ہو مثلاً امریکہ وغیرہ اور ایسے ممالک میں اسلامی تنظیمیں ہوں جو مسلمانوں کے حالات کا خیال رکھتی ہوں تو ان میں سے کوئی ایک تنظیم اس عورت کی شادی کر دے گی۔ اسی طرح اگر مسلمانوں کا کوئی امیر ہو جس کی  بات تسلیم کی جاتی ہو اور اس کی طاقت ہوتی ہو یا کوئی مسؤل جو اس کے حالات کی دیکھ بھال کرتا ہو، وہ عورت کا ولی بنے گا۔‘‘

(الواضع في شرح قانون الأحوال الشخصية الأردني: ص 70)

نيز  عقدِ نکاح میں واجب اور ضروری ہے کہ دو عدد عاقل بالغ مسلمان اس عقدِ نکاح کی گواہی دیں، اس لیے آپ کی پہلی شادی باطل تھی۔ اب آپ کو دوبارہ نکاح کرنا چاہیے اور اس میں عورت کے ولی اور دو گواہوں کا ہونا ضر وری ہے جیسا کہ پیچھے گذر چکا ہے۔

(شیخ محمد المنجد)

شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ سے دریافت کیا گیا کہ کیا بالغ لڑکی کا نکاح بغیر ولی کے کیا جا سکتا ہے؟

تو ان کا جواب یہ تھا:

یہ علم میں ہونا چاہیے کہ بغیر ولی کے عورت کی شادی صحیح نہیں، صحابہ وتابعین اور ان کے بعد کے جمہور علماء  کا یہی مذہب ہے اور اسی پر کتاب وسنت اور آثار سلف دلالت کرتے ہیں۔

(شیخ محمد آل شیخ)

شیخ صالح بن فوزان رحمہ اللہ سے والد کی اجازت کے بغیر کنواری لڑکی کی شادی کے متعلق دریافت کیا گیا؟

تو ان کا جواب یہ تھا:

عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے والد کی اجازت کے بغیر شادی کرے کیونکہ وہ اس کا ولی وسرپرست ہے اور اس سے زیادہ اچھی نگاح رکھنے والا ہے، لیکن والد کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ صالح وکفو رشتہ ملنے کے باوجود  بھی اپنی بیٹی کو شادی سے روکتا پھرے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تمہارے پاس ایسا شخص رشتہ لے کر آئے جو باخلاق اور امین ہو تو اس سے شادی کر دو ورنہ زمین میں فتنہ وفساد ہو گا۔

اور بیٹی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس شخص سے شادی  پر اصرار کرے جس سے شادی پر اس کا والد راضی نہیں کیونکہ والد اس سے زیادہ دور تک نگاہ رکھنے والا ہے اور اس لیے بھی کہ وہ نہیں جانتی شاید اس سے شادی نہ کرنے میں ہی  خیر ہو اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَعَسىٰ أَن تُحِبّوا شَيـًٔا وَهُوَ شَرٌّ لَكُم ۗ وَاللَّـهُ يَعلَمُ وَأَنتُم لا تَعلَمونَ ﴿٢١٦﴾...البقرة

’’اور قریب ہے کہ تم کسی کو چیز پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بری ہو۔‘‘

اور اس پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے سوال کرتی رہے کہ وہ اس کے لیے نیک شوہر اختیافر مائے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 81

محدث فتویٰ

تبصرے