السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عقد نکاح کے ارکان اور اس کی شروط کیا ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔ خاوند اور بیوی کی موجودگی، جن میں کوئی ایسا انع نہ پایا جائے جو صحت نکاح میں رکاوٹ ہو مثلاً نسب یا رضاعت کی وجہ سے محرم رشتہ دار ہونا، اسی طرح مرد کا کافر ہونا اور عورت کا مسلمان ہونا ، وغیرہ وغیرہ۔
2۔ حصول ایجاب، ایجاب کے الفاظ عورت کے ولی یا اس کے قائم مقام کی طرف سے اس طرح ادا ہوں کہ وہ خاوند کو یہ کہے کہ میں نے تیری شادی فلاں لڑکی سے کر دی یا اسی طرح کے کوئی اور الفاظ۔
3۔ حصول قبول، قبولیت کے الفاظ خاوند یا اس کے قائم مقام کی طرف سے ادا ہوں مثلاً یہ کہے کہ میں نے قبول کیا یا اسی طرح کے کچھ اور الفاظ۔
1۔ زوجین کی تعیین، خواہ یہ تعیین اشارہ، نام یا پھر صفت بیان کر کے کی جائے۔
2۔ خاوند اور بیوی کی ایک دوسرے سے رضا مندی، کیونکہ ارشاد نبوی ہے کہ
’’کسی شوہر دیدہ کی شادی اس کے مشورے کے بغیر نہ کی جائے اور نہ ہی کسی کنواری کی شادی اس کی اجازت کے بغیر کی جائے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اس کی اجازت کیسے ہو گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کہ وہ خاموش ہو جائے۔‘‘
(1)
3۔ عورت کا نکاح اس کا ولی کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے نکاح میں ولی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’اور اپنے میں سے بے نکاح عورتوں اور مردوں کا نکاح کر دو۔‘‘
(2)
اور نبی کریم ﷺ نے بھی فرمایا ہے:
’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے۔ آپ ﷺ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔‘‘
(1)
4۔ عقد نکاح کے لیے گواہ، اس لیے کہ فرمان نبوی ﷺ ہے:
’’ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘
(2)
نیز نکاح کا اعلان بھی ہونا چاہیے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
’’نکاح کا اعلان کرو۔‘‘
(3)
1۔ عقل، یعنی عقل مند ہو بے وقوف ولی نہیں بن سکتا۔
2۔ بلوغت، یعنی بالغ ہو بچہ نہ ہو۔
3۔ حریت، یعنی آزاد ہو غلام نہ ہو۔
4۔ دین ایک ہو، اس لیے کہ کافر کو مسلمان پر ولایت حاصل نہیں ہو سکتی اور اسی طرح مسلمان کسی کافر یا کافرہ کا ولی نہیں بن سکتا۔
کافر مرد کو کافرہ عورت پر شادی کی ولایت مل سکتی ہے، خواہ ان کا دین مختلف ہی ہو اور اسی طرح مرتد شخص کو بھی کسی مسلمان پر ولایت حاصل نہیں ہو سکتی۔
5۔ عدالت، یعنی عادل ہونا چاہیے۔ یہ عدل فسق کے منافی ہے، جو بعض علماء کے نزدیک تو شرط ہے اور بعض علماء اسے شرط قرار نہیں دیتے۔
6۔ ذکورۃ، یعنی وہ مرد ہو۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
’’کوئی عورت کسی دوسری عورت کا (ولی بن کر) نکاح نہ کرے اور نہ ہی خود اپنا نکاح کرے بلاشبہ وہ عورت زانیہ ہے جس نے اپنا نکاح خود کر لیا۔‘‘
(4)
7۔ رشد، ایسی قدرت جس سے نکاح کی مصلحت اور کفو کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔
فقہائے کرام کے نزدیک تو ترتیب ضروری ہے اس لیے ولی کے نہ ہونے یا اس کی نااہلی کی بنا پر یا پھر اس میں شروط نہ پائی جانے کی صورت میں قریبی ولی کو چھوڑ کر دور والے کو ولی بنانا جائز نہیں۔
عورت کا ولی اس کا والد ہے، اس کے بعد جس کے بارے میں وہ وصیت کرے، پھر اس کا دادا، پڑدادا اور اس کے اوپر تک، پھر اس کے بعد عورت کا بیٹا، پھر پوتا اور اس سے نیچے تک، پھر اس کے بعد عورت کا سگا بھائی، پھر والد کی طرف سے بھائی، پھر ان دونوں کے بیٹے، پھر عورت کا سگا چچا، پھر والد کی طرف سے چچا، پھر چچا کے بیٹے، پھر نسب کے قریبی شخص جو عصبہ ہو ولی بنے گا جس طرح کہ وراثت میں ہے اور پھر جس کا کوئی ولی نہیں اس کا ولی مسلمان حکمران یا پھر اس کا قائم مقام قاضی بنے گا۔
شیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی سے دریافت کیا کیا کہ ولایت نکاح میں کیا عدالت شرط ہے؟
تو انکا جواب تھا:
ولایت نکاح میں عدالت کی شرط ایسا قول ہے کہ جس کا عمل سلف اور دلائل رد کرتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب