السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا مشکل سا سوال ہے، میری سالی کی عنقریب شادی ہونے والی ہے اور وہ اپنے ہونے والے خاوند کی شخصیت سے خوفزدہ ہے۔ میں آپ سے وضاحت کے ساتھ یہ کہوں گا کہ اس نے مجھے پوچھا کہ کیا جو شخص میلاد النبی ﷺ مناتا ہو اور اس کی تائید کرتا ہو اس سے شادی کرنا صحیح ہے؟ مجھے یہ علم ہے کہ ایسا عمل اسلام میں بدعت ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ آیا میلاد منانے والوں سے مسلمان لڑکی کی شادی ممکن ہے۔ میں جس ملک میں رہائش پذیر ہوں وہاں پر لوگ میلاد النبی ﷺ کو عید اور عبادت سمجھ کر مناتے ہیں اور اس تقریب میں لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے اور پھر اس کی فضیلت میں کچھ احادیث بھی سنائی جاتی ہیں اور نعتیں اور اشعار پڑھے جاتے ہیں اور دعائیں مانگی جاتی ہیں اور لوگ حقیقتاً کھڑے ہو کر گاتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کسی مسلمان لڑکی کے لیے میلاد منانے والے سے شادی کرنا جائز ہے؟ اور اس سے بھی مشکل سوال جسے کرنے سے میں خوف محسوس کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایسا فعل کرنے والے کو مسلمان شمار کیا جائے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو لوگ میلاد مناتے ہیں ان کی بہت سی اقسام ہیں اس لیے وہ جس طرح کے افعال کریں گے اسی طرح کان ان پر حکم لگایا جائے گا۔ اگرچہ میلاد منانا بذات خود ایک بدعت ہے لیکن جس طرح کی مخالفت کا کوئی مرتکب ہو گا اس بر اسی طرح کا حکم ہو گا۔ اس طرح بعض اوقات معاملہ شرک اور اسلام سے خروج تک جا پہنچتا ہے جیسا کہ جب میلاد میں کوئی ایسا کام کیا جائے جو کفریہ ہو مثلاً غیر اللہ سے دعا کرنا یا نبی کریم ﷺ کو ربوبیت کی صفات سے متصف کرنا وغیرہ جیسے دوسرے شرکیہ کام۔
لیکن اگر وہ اس حد تک نہیں پہنچتا تو وہ کافر نہیں بلکہ اسے فاسق کہا جائے گا اور پھر اس میلاد میں بدعات ومخالفات کے ارتکاب کے حساب سے فسق بھی کم اور زیادہ ہو گا۔
میلاد منانے والے شخص سے شادی کا حکم بھی اس شخص کی حالت کے اعتبار سے مختلف ہو گا۔ اگر وہ کفریہ کام کرتا ہے تو اس سے کسی بھی حالت میں شادی کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’تم شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو مت دو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں، ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے، گو مشرک تمہیں اچھا لگے۔‘‘(البقرۃ:221)
اہل علم کے اجماع کے مطابق اس شخص سے عقد نکاح باطل شمار ہو گا۔
لیکن اگر وہ ایسا بدعتی ہے جس کی بدعت کفر کی حد تک نہیں پہنچتی تو اہل علم نے اس شخص سے بھی نکاح کرنے سے بچنے کا کہا ہے اور اس میں بہت سختی کی ہے۔ امام مالک احمد رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ
’’بدعتی سے نہ نکاح کیا جائے اور نہ ہی اس کے نکاح میں اپنی لڑکی دی جائے گی اور نہ ہی ایسے لوگوں کو سلام کیا جائے گا....‘‘
(1)
امام احمد رحمہ اللہ علیہ کا بھی اس جیسا ہی قول ہے۔ ائمہ اربعہ کا فیصلہ ہے کہ مرد عورت کے درمیان نکاح میں دینی کفائت معتبر ہے اور فاسق مرد کسی بھی دیندار اور مستقیم عورت کا کفو (یعنی برابر وہمسر) نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿أَفَمَن كانَ مُؤمِنًا كَمَن كانَ فاسِقًا ۚ لا يَستَوۥنَ ﴿١٨﴾...السجدة
’’کیا جو مومن ہے وہ فاسق کی طرح ہو سکتا ہے، یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔‘‘
(2)
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دین میں بدعات پیدا کرنا سب سے بڑا فسق وگناہ ہے۔ واضح رہے کہ دین میں کفائت کے معتبر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر عقد نکاح کے بعد عورت پر یہ انکشاف ہو جائے کہ اس کا خاوند فاسق ہے یا پھر اولیاء کے علم میں یہ بات آ جائے کہ خاوند فاسق ہے تو عورت یا اولیاء کو اس عقد نکاح پر اعتراض کا حق حاصل ہے اور وہ اس کے فسخ کا مطالبہ کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ اپنے اس حق کو ساقط کر دیں اور اس خاوند پر راضی ہو جائیں تو یہ عقد نکاح صحیح ہو گا۔اس لیے اس طرح کے نکاح سےبچنا ضروری ہے اور بالخصوص اس لیے بھی کہ مرد کو عورت پر سربراہی حاصل ہے جس کی بنا پر ہو سکتا ہے عورت کو تنگی اٹھانی پڑے اور اور خاوند اسے ایسی بدعات اختیار کرنے پر مجبور کرے یا اسے کچھ معاملات میں سنت نبوی کی مخالفت کرنے کا کہے۔ مزید برآں اولاد کا معاملہ تو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ والد انہیں بدعات وخرافات کا ہی عادی بنائے گا اور ان کی پرورش بھی اسی طریقہ پر کرے گا۔ یوں وہ بھی صحابہ کرام کے طریقے کے مخالف پرورش پائیں گے اور اس طرح والدہ جو صحیح سنت کے مطابق چلنے والی تھی اس پربھی تنگی ہو گی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اہل سنت (سلفی عقیدہ کے حاملین) کے ہاں کسی بدعتی سے نکاح کرنا بہت شدید قسم کا مکروہ ہے کیونکہ اس پر بہت سی خرابیاں اور فساد مرتب ہوتے ہیں اور بہت سی مصلحتیں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں اور پھر جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے لیے کسی چیز کو ترک کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کا نعم البدل عطا فرماتے ہیں۔ آپ مزید تفصیل کے لیے ڈاکٹر ابراہیم الرحیلی کی کتاب ’موقف اہل السنۃ والجماعۃ من اہل الاہواء والبدع‘ کا بھی مطالعہ کریں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب