السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے پرورش نصرانی معاشرہ میں ہوئی ہے اور میں نے اسلام کو پڑھنے کے بعد اسلام قبول کیا ہے۔ قبول اسلام سے قبل میں نے ایک گناہگار اور نافرمان شخص کو اپنے آپ سے کھیلنے کی اجازت دے رکھی تھی لیکن اس کے بعد میں نے اس سے توبہ کر لی ہے اور میں نے اسے اپنے ساتھ لگنے یا پھر غیر مناسب کلام کرنے کی بھی اجازت نہیں دی اور اب وہ بھی اس سے توبہ کر چکا ہے۔
اس کے گھر والے اسلام سمجھنے اور قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے میں میری معاونت کر رہے ہیں، اس شخص نے مجھ سے شادی کرنے کا کہا ہے لیکن اس کے گھر والے کہتے ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے تک انتظار کرو، توکیا ہمیں اس کی گریجویشن مکمل ہونے تک منگنی مؤخر کر دینی چاہیے یا کہ اسی حالت میں منگنی کر لینی چاہیے؟
میرے علم کے مطابق افضل اور بہتر تو یہی ہے کہ کہیں حرام کام میں نہ پڑ جاؤں کیونکہ شیطان ہمارے ذہنوں میں یہ کام مزین کر کے رکھ دے گا۔ میں اس مسلمان گھرانے کا احترام بھی کرتی ہوں کیونکہ یہی ایک مسلمان گھرانہ ہے جسے میں جانتی ہوں، میرے آپ سے گزارش ہے کہ آپ میرا تعاون کریں، میں حرام کام میں نہیں پڑنا چاہتی۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس اللہ رب العزت کی تعریف اور شکر ہے جس نے آپ کو دین اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور آپ پر یہ عظیم نعمت کی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے آپ کی ثابت قدمی کے لیے دعا گو ہیں، آپ پر یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے کہ اسلام سے پہلے جو بھی گناہ ہیں وہ اسلام قبول کرنے کے بعد معاف ہو جاتے ہیں اور اسلام انہیں ختم کر دیتا ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کی اور ہر توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرمائے۔
منگنی اور شادی کے بارے میں ہماری آپ اور اس نوجوان کو یہی نصیحت ہے کہ آپ جتنی جلدی ہو سکے شادی کر لیں اور خاص کر جب آپ کو حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہے، تو اس حالت میں یقیناً شادی تعلیم پر مقدم ہو گی اور پھر جب آپ دونوں کی رغبت بھی یہی ہے۔ اس لیے نوجوان کو چاہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو اس پر راضی کرنے کی کوشش کرے۔ اور انہیں نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان یاد دلائے کہ نبی کریم ﷺ نے نوجوانوں کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ
’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہے وہ شادی کرے اور جس میں اس کی طاقت نہیں وہ روزے رکھے کیونکہ وہ اس کے لیے ڈھال ہیں۔‘‘
(بخاري: 5065؛ مسلم: 1400)
اور وہ اپنے گھر والوں کو یہ بھی یاد دلائے کہ اس وقت فتنہ بہت زیادہ ہے جس وجہ سے مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ہر شرعی ذریعہ استعمال کرتے ہوئے ان فتنوں سے بچنے کی کوشش کرے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان فتنوں سے بچنے کے لیے مشروع ذرائع میں سے سب سے افضل ترین ذریعہ شادی ہی ہے، بلکہ علمائے کرام نے تو بالنص یہ کہا ہے کہ ایسی حالت میں شادی واجب ہو جاتی ہے۔
(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: المغنی لابن قدامہ: 9؍341)
اور اس کے لیے بھی یہ کافی ہے کہ ابھی آپ شرعی طور پر مکمل شروط اور گواہوں کی موجودگی میں عقدِ نکاح پر ہی اکتفاء کر لیں اور رخصتی اور ولیمہ کو مؤخر کر دیں، اس لیے کہ عقدِ نکاح کی بنا پر آپ دونوں خاوند اور بیوی بن جائیں گے جس سے آپ کے لیے خلوت وغیرہ جائز ہو گی۔ اگر ایسا ہو جائے تو بہتر ہے اور اگر پھر بھی اس کے گھر والے انکار پر مصر ہوں اور اس نوجوان کو حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ اگر وہ طاقت رکھتا ہے تو شادی کر ا لے چاہے اس میں وہ اپنے والدین کی اجازت نہ بھی حاصل کرے، البتہ اسے اپنے گھر والوں کو اس شادی پر راضی کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن اگر وہ ایسا (یعنی خود شادی) کرنے سے عاجز ہو تو آپ صبر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی وصیت پر عمل کریں اور روزے رکھیں اور فتنے اور شہوات والی اشیاء سے اجتناب کرتے ہوئے ایک دوسرے سے دور رہیں حتی کہ اللہ تعالیٰ آپ دونوں کو خیر اور بھلائی پر جمع کر دے اور اگر آپ ایسا نہیں کر سکتیں تو آپ کے شرعی ولی پر واجب ہے کہ وہ کوئی اور صالح شخص تلاش کر کے آپ کی شادی کر دے تاکہ آپ حرام کام میں پڑنے سے بچ سکیں۔
یہاں پر ایک تنبیہ ضروری ہے کہ جب تمہاری شرعی طور پر منگنی ہو چکی ہو تو اس وجہ سے آپ ونوں کا خلوت میں بیٹھنا یا ایک دوسرے کو چھونا اور اکٹھے گھومنے پھرنے کے لیے نکلنا یا پھر بغیر کسی ضرورت کے بات چیت کرنا جائز نہیں کیونکہ آپ کا عقدِ نکاح نہیں ہوا، جس وجہ سے آپ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں لیکن جب نکاح ہو جائے تو پھر آپ ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں چاہیے رخصتی نہ بھی ہوئی ہو۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کے لیے بھلائی اور خیر میں آسانی پیدا کرے اور آپ دونوں سے برائی اور فحاشی کو دور رکھے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب