سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11)دوسرے ملک کی لڑکی سے شادی کرنے میں والدین کی اطاعت

  • 15453
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 998

سوال

(11)دوسرے ملک کی لڑکی سے شادی کرنے میں والدین کی اطاعت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری ایک بہت ہی اچھی دوست دو ماہ قبل مسلمان ہوئی ہے، وہ پہلے بھی شادی شدہ تھی اور اس کا نصرانی خاوند سے ایک بچہ بھی ہے، اس کے قبول اسلام کے بعد کی شادی باطل ہے اور اسلام قبول کرنے کے بعد اسے اپنے بچے کی دیکھ بھال کا بھی حق حاصل ہے۔ میں اس سے شادی اور اس کے بچے کی دیکھ بھال کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے والدین ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے، میں فخر سے یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس عورت کو ہدایت دینے میں مجھے استعمال کیا، لیکن  اب مجھے مشکلات کا سامنا ہے۔

ایک طرف تو میرے والدین اس عورت سے شادی کرنے کی مکمل طور پر مخالفت کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ کسی  اور ملک کی ہے اور اس کی عادات اور رسم ورواج بھی مختلف ہیں اور پھر پہلے خاوند سے ایک بچہ بھی ہے اور دوسری طرف مجھے یہ بھی علم ہے کہ  اس عورت کی زندگی اور اس کے دین میں بہت زیادہ تعاون کی ضرورت ہے اور اس میں اس سے شادی کر کے اس کا تعاون کرنا اور اس کا مددگار بننا اور اس کے بچے کی پرورش اور  دیکھ بھال کرنا چاہتا ہوں۔

میری گذارش ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں آپ یہ بتائیں کہ کیا میں شادی کر لوں یا کہ اپنے والدین کے کہنے مطابق شادی نہ کروں، والدین  کے اس شادی سے انکا کا صرف ایک ہی سبب ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھتی ہے اور اس کی ثقافت اور رواج مختلف ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

والدین کا اپنی اولاد پر بہت ہی عظیم حق ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے والدین سے حسن سلوک کرنے کا حکم اپنی عبادت کے حکم کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت میں ہے کہ

﴿وَإِذ أَخَذنا ميثـٰقَ بَنى إِسرٰءيلَ لا تَعبُدونَ إِلَّا اللَّـهَ وَبِالوٰلِدَينِ إِحسانًا ...﴿٨٣﴾...البقرة

’’ یاد کرو، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔‘‘

﴿وَاعبُدُوا اللَّـهَ وَلا تُشرِكوا بِهِ شَيـًٔا ۖ وَبِالوٰلِدَينِ إِحسـٰنًا ...﴿٣٦﴾...النساء

’’ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو۔‘‘

اور ایک جگہ پر ارشاد باری تعالیٰ کچھ اس طرح ہوتا ہے:

﴿قُل تَعالَوا أَتلُ ما حَرَّمَ رَبُّكُم عَلَيكُم ۖ أَلّا تُشرِكوا بِهِ شَيـًٔا ۖ وَبِالوٰلِدَينِ إِحسـٰنًا... ﴿١٥١﴾...الأنعام

’’ اے محمدؐ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے:

﴿وَقَضىٰ رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ وَبِالوٰلِدَينِ إِحسـٰنًا ۚ إِمّا يَبلُغَنَّ عِندَكَ الكِبَرَ أَحَدُهُما أَو كِلاهُما فَلا تَقُل لَهُما أُفٍّ وَلا تَنهَرهُما وَقُل لَهُما قَولًا كَريمًا ﴿٢٣﴾...الإسراء

’’  تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ: تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُس کی والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک، یا دونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔‘‘ (الاسراء: 23)

اس لیے والدین  کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا اور ان کی رضا مندی حاصل کرنے کی کوشش کرنا سب سے عظیم اعمال میں سے ہے اور ایسا کرنا سب سے اچھی اور افضل خصلت ہے۔

یہ تو معلوم ہی ہے کہ کسی معین عورت سے شادی کرنا واجب نہیں۔ جب کسی عورت سے شادی کی رغبت  اور اس کے والدین کی مرضی اور رضا مندی میں اختلاف پیدا ہو جائے تو پھر بلاشک وشبہ والدین کی رضا مندی کو ترجیح دینی چاہیے۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آ کر کہنے لگا، میں شادی شدہ ہوں اور میری والدہ اسے (یعنی میری بیوی و) طلاق دینے کا مطالبہ کرتی ہے۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، والد جنت کا درمیانہ دروازہ ہے اگر تو چاہے تو اس دروازے کو ضائع کر دے یا اس کی حفاظت کر۔ ( ترمذی: 1900؛ ابن ماجہ: 2089)

ابو درداء رضی اللہ عنہ کا تو طلاق کے متعلق یہ کہنا تھا جو کہ ہمارے اس مسئلے سے بھی کئی درجے اوپر ہے کیونکہ طلاق ایک عظیم اور بڑا مسئلہ ہے۔ البتہ اتنا یاد رہے کہ اس (طلاق کے مسئلے) میں صحیح قول یہی ہے کہ اس میں  ان کی اطاعت واجب نہیں ہے۔ (الآداب الشرعية لابن مفلح: 447/1)

درج بال سطور  میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کی بنا پر اس عورت سے شادی کرنے کی متعلق اپنے والدین کو راضی کریں، لیکن اگر وہ پھر بھی اس سے شادی نہ کرنے پر اصرار کریں تو پھر ہماری نصیحت یہ ہے کہ آپ ان کی اطاعت کر لیں او ران شاء اللہ اس عورت کو کوئی اور اچھا اور صالح خاوند مل جائے گا وہ محروم نہیں رہے گی، اور الحمد للہ آپ کو اس کی ہدایت اور قبول اسلام کا اجر ملے گا۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 46

محدث فتویٰ

تبصرے