مجھے نبی کریمﷺکی کوئی ایسی حدیث معلوم نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ عورت کو یا کسی اور کو طلاق کے لئے اپنا وکیل بنایا جاسکتا ہے ۔لیکن علماء نے اسے
کتاب وسنت کے ان دلائل سے اخذکیا ہے جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مالی حقوق اوران سے مشابہہ دیگر حقوق میں سے کسی اچھے آدمی کو اپنا وکیل بنایا جاسکتا ہے ۔طلاق شوہر کا حق ہے لہذا اگر وہ اس حق کے استعمال کرنے کے لئے اپنی بیوی یا کسی اورکو وکیل بنالے اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ قاعدہ شریعت سے وکالت ثابت ہے لیکن یہ جائز نہیں کہ وہ وکیل کو طلاق ثلاثہ کے وقوع پذیر ہونے کا وکالت نامہ بھی دے کیونکہ ایسا کرنا تو خاوند کے لئے بھی جائز نہیں لہذا وکیل کے لئے یہ بالاولی جائز نہیں ہوگا کیونکہ امام نسائی نے جید سند کے ساتھ محمود بن لبیدرضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺکو جب یہ بتایا گیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں تو نبی کریمﷺنے ناراضگی کا اظہار کیا اورفرمایا وہ اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلتا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔۔۔۔۔۔الحدیث۔صحیحین میں حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اس شخص سے کہا جس نے طلاق کے بارے میں سوال کیا تھا کہ ‘‘اگر تم نے تین طلاقیں دی ہیں تو تم نے اپنے رب کے اس حکم کی نافرمانی کی ہے جو اس نے عورت کو طلاق دینے کے سلسلہ میں دیا ہے۔’’