جب تمہارے خاوند کا حال یہ ہے جو تم نے ذکر کیا ہے تواس حال میں طلاق طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں اوراس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ خواہ اسے کچھ مال ہی کیوں نہ دینا پڑے تاکہ وہ تمہیں طلاق دے دے کیونکہ وہ زندگی بھی اچھے طریقے سے بسر نہیں کرتا اورپھر گندی زبان استعمال کرکے تم پر ظلم بھی کرتا ہے لیکن اگر تم ان حالات میں صبر کرسکو،اسے اچھا اندازواسلوب اختیار کرنے کی تلقین کرتی رہو اوراس کی ہدایت کے لئے اللہ تعالی سے دعا کرتی رہو تویہ تمہارے بچوں کے حوالے سے اوراس حوالے سے کہ تمہیں اورتمہاے بچوں کو خرچہ کی ضرورت ہوگی ،بہتر ہے اورامید ہے کہ اس سے اللہ تعالی تمہیں اجر اورحسن عاقبت سے نوازے گا۔ہم بھی اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اسے ہدایت اورسلامت روی عطافرمائے۔۔۔لیکن یہ سب کچھ اس صورت میں ہے جب وہ نماز پڑھتا ہواوردین کو برابھلا نہ کہتا ہواوراگروہ نماز نہیں پڑھتا یا دین کو گالی دیتا ہے تووہ کافر ہے،اس کے ساتھ زندگی بسر کرنا جائز نہیں اورنہ یہ جائز ہےکہ تم اپنا نفس اس کے لئے پیش کرو کیونکہ دین اسلام کو گالی دینا اوراس کا مذاق اڑانا اہل علم کے اجماع کے مطابق کفر وضلالت اوراسلام سے ارتدادہے ارشادباری تعالی ہے
‘‘کہوکیا تم اللہ اوراس کی آیتوں اوراس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ؟بہانے مت بناوتم ایمان لانے کے بعدکافرہوچکے ہو۔’’
اورعلماء کے صحیح قول کے مطابق ترک نماز کفر اکبر ہے خواہ اس کے وجوب کاانکار نہ بھی کرے کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ‘‘آدمی اورکفر وشرک کے درمیا رفرق ترک نماز ہے۔’’اسی طرح امام احمد اوراہل سنن رحمۃ اللہ علیہم نے صحیح سند کے ساتھ حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ‘‘وہ عہد جو ہمارے اوران کے درمیا ن ہے ،وہ نماز ہے ،جس نے اسے ترک کردیا ا س نے کفرکیا’’علاوہ ازیں کتاب وسنت کے دیگر دلائل سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے ،