عورت کااپنےآپ کواپنےشوہرکےلئتحرام قراردینایااسےاپنےکسی محرم کےساتھ تشبیہہ دیناقسم کےحکم میں ہےاوراس کاحکم ظہارکانہیں ہےکیونکہ ظہارتونردوں کی طرف سےاپنی عورتوں کےلئےہوتاہےجیساکہ قرآن کریم کی نص سےثابت ہے۔
اس صورت میں عورت کےلئےقسم کاکفارہ ہوگااوروہ یہ ہےکہ دس مسکینوں کونصف صاع فی مسکین کےحساب سےوہ کھاناکھلادیاجائےجوشہرمیں معروف خوراک ہو۔نصف صاع موجودہ پیمانےکےحساب سےتقریباڈیڑھ کلوکےبرابرہے،اگراس حساب سےدن یارات کاکھاناکھلادےیاان کوایسےکپڑےپہنادےجن میں نمازجائزہوتویہ کافی ہوگا،ارشادباری تعالیٰ ہے:
‘‘اللہ تعالیٰ تمہاری بےارادہ قسموں پرتم سےمؤاخذہ نہیں کرےگالیکن پختہ قسموں پر(جن کاخلاف کروگے)مواخذہ کرےگاتواس کاکفارہ دس محتاجوں کواوسط درجےکاکھاناکھلاناہےجوتم اپنےاہل وعیال کوکھلاتےہویاان کوکپڑےدینایاایک غلام آزادکرنااورجس کویہ میسرنہ ہووہ تین روزےرکھے۔یہ تمہاری قسموں کاکفارہ ہےجب تم قسم کھالو(اوراسےتوڑدو)اور(تم کو)چاہئےکہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔’’
عورت اگرکسی ایسی چیزکوحرام قراردےلےجسےاللہ تعالیٰ نےحلال قراردیاہےےواس کاحکم قسم کاہوگا،اسی طرح مرداگرکسی حلال چیزکوحرام قراردےلےتواس کاحکم بھی قسم کاہوگاسوائےاس کےکہ وہ اپنی بیوی کوحرام قراردےلے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
‘‘اےنبی!جوچیزاللہ نےتمہارےلئےحلال کی ہےتم اسےحرام کیوں کرتےہو؟(کیااس سے)اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتےہواوراللہ بخشنےوالامہربان ہےاللہ نےتم لوگوں کےلئےتمہاری قسموں کاکفارہ مقررکردیاہےاوراللہ ہی تمہاراکارسازہےاوروہ دانا(اور)حکمت والاہے۔’’
اگرمرداپنی بیوی کوحرام قراردےلےتواس کاحکم ظہارکاہے،اہل علم کاصحیح قول یہی ہےکہ جب تحریم ہویاایسی شرط کےساتھ معلق ہوجس سےترغیب یاممانعت یاتصدیق یاتکذیب مقصودنہ ہومثلایہ کہناکہ‘‘تومجھ پرحرام ہے’’یا‘‘میری بیوی نجھ پرحرام ہے۔’’یا ‘‘جب رمضان شروع ہوگاتومیری بیوی مجھ پرحرام ہوگی۔’’وغیرہ تواس کاحکم اسی طرح ہےجیسےاس قول کاحکم ہےکہ‘‘تومجھ پرمیری ماں کی پشت کی طرح ہے۔’’چنانچہ اس ،سئلہ میں علماءکاصحیح قول یہی ہےجیساکہ قبل ازیں بیان کیاجاچکاہے۔یہ کہنا،حرام،نامعقول اورجھوٹی بات ہے،اس بات کےکہنےوالےکواللہ تعالیٰ کےہاں توبہ کرنی چاہئےارشادباری تعالیٰ ہے:
‘‘جولوگ تم میں سے اپنی عورتوں کو ماں کہہ دیتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں ہوجاتیں ان کی مائیں تووہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے،بے شک وہ نامعقول اورجھوٹی بات کہتے ہیں اوراللہ بڑا معاف کرنے والا(اور)بخشنے والاہے۔’’پھرفرمایا:
‘‘اورجولوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھیں پھر اپنے قول سے رجوع کرلیں تو (ان کو )ہم بستر ہونے سے پہلے ایک غلام آزادکرنا (ضروری)ہے (اے ایمان والو!)اس (حکم)سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اورجو کچھ تم کرتے ہواللہ اس سے باخبرہے ،جس کو غلام نہ ملے وہ مجامعت سے پہلے متواتردومہینے کے روزے رکھے پس جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تواس کا ذمہ ساٹھ مسکینوں (محتاجوں)کو کھانا کھلانا ہے۔’’
اگر غلام آزادکرنا اورروزے رکھنا ممکن نہ ہو توپھر واجب یہ ہے کہ اپنے علاقے کی خوراک کے مطابق ساٹھ مساکین کو نصف صاع کے حساب سےکھانا کھلایا جائے۔
عورت کا اپنے خاوند پر لعنت کرنا یا اس سے پناہ مانگنا حرام ہے ۔عورت کو اس سے توبہ کرنی اوراپنے خاوند سے بھی معافی طلب کرنی چاہئے،اس سے اس کا شوہر اس پر حرام نہیں ہوگا،اس کلام کا کوئی کفارہ بھی نہیں ہے ۔اسی طرح اگر کوئی خاوند اپنی بیوی پر لعنت بھیجے یا اس سے پناہ چاہے تو اس سے وہ اس پر حرام نہیں ہوگی ہاں البتہ اسےاس بات سے توبہ کرنی اور بیوی پر لعنت کرنے کی وجہ سے اس سے معاف کروالینا چاہئے کیونکہ کسی مسلمان مرد یا عورت پر لعنت کرنا جائز نہیں خواہ وہ اس کی بیوی ہو یا کوئی اور۔لعنت کبیرہ گناہ ہے ،اسی طرح عورت کے لئے اپنے خاوند یا کسی اورمسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں کیونکہ نبی کریمﷺنے فرمایاہے کہ‘‘مومن پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی طرح ہے۔’’اسی طرح نبی کریمﷺنے فرمایا ہے کہ‘‘لعنت کرنے والے قیامت کے دن گواہی دینے والے اورشفاعت کرنے والے نہ بن سکیں گے۔’’نیزآپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ‘‘مسلمان کو گالی دینا فسق اوراسے قتل کرنا کفر ہے ۔’’ہم اللہ تعالی سے ہر اس چیز سے عافیت وسلامتی کی دعا کرتے ہیں جو اسے ناراض کرنے والی ہو!