اس قسم کے کلام کے بارے میں خاوند کی نیت کے لحاظ سے حکم مختلف ہوتا ہے ،اگر اس سے اس کا مقصود اس سودے کے خریدنے پر اپنے آپ کو رغبت دینا اورانگخیت کرنا ہے اورسودانہ خریدنے کی صورت میں اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرنا مقصود نہ ہوتواہل علم کے صحیح قول کے مطابق یہ طلاق قسم کے حکم میں ہوگی اوراسے قسم ہی کا کفارہ دینا ہوگاجوکہ دس مسکینوں کونصف صاع ہرمسکین کے حساب سے کھجوریا جواس علاقے کی خوراک ہو،کھلانااورنصف صاع کی مقدارتقریباڈیڑھ کلوہےلہٰذااگروہ دس مسکینوں کواس حساب سےصبح یاشام کاکھاناکھلادےیاانہیں ایسالباس پہنادےجس میں نمازجائزہوتویہ اس کاکفارہ ہوجائےگا۔
اگرچیزنہ خریدنےکی صورت میں اس کامقصودطلاق ہی ہےتواس سےطلاق واقع ہوجائےگی اوراگراس نےواقعی وہی الفاظ استعمال کئےہیں جوسوال میں مذکورہیں تواس سےایک طلاق واقع ہوجائےگیلیکن مردمومن کوچاہئےکہ اس طرح کےالفاظ کےاستعمال سےاجتناب کرےکیونکہ بہت سےاہل علم کےنزدیک اس طرح کےالفاظ استعمال کرنےسےمطلقاطلاق واقع ہوجاتی ہےخواہ مقصودکچھ بھی ہواورنبی کریمﷺکابھی ارشادہےکہ‘‘جوشخص شبہات سےبچ گیااس نےاپنےدین وعزت کوبچالیا’’(متفق علیہ)