کسی شخص کےلئےیہ جائزنہیں کہ وہ اپنی بیٹی یابہن یااپنی خواتین میں سےکسی دوسری خاتون کارشتہ اس شرط پردےکہ وہ اسےیااس کےوارثوں میں سےکسی اورکورشتہ دےگاکیونکہ رسول اللہﷺنےاس سےمنع فرمایاہےاوراس کانام شغار(وٹہ سٹہ)رکساہے۔بعض لوگ اسےنکاح بدل کےنام سےموسوم کرتےہیں،اس میں خواہ مہرہویانہ ہویہ نکاح جائزنہیں ہےکیونکہ رسول اللہﷺنےاس نکاح سےمنع فرمایاہےاوراس کانام شغاررکھاہےاورنبیﷺنےاس کی صورت یہی بیان فرمائی ہےکہ آدمی اپنی بیٹی یابہن کاکسی شخص کواسشرط پررشتہ دےکہ وہ اپنی بیٹی یابہن کااس کورشتہ دےگااوراس موقعہ پرآپ نےمہرکاذکرنہیں فرمایاتواس سےمعلوم ہواکہ یہ ممانعت مہرہونےیانہ ہونےکی دونوں صورتوں کےلئےہے،علماءکےاقوال میں سےصحیح ترین قول یہی ہے۔مسند(احمد)اورسنن ابی داؤدمیں جیدسندکےساتھ حضرت معاویہؓ کی یہ حدیث موجودہےکہ امیرمدینہ نےان کی خدمت میں ایک خط ارسال کیاجس میں لکھاکہ دوآدمیوں نےنکاح شغارکیاہےاوردونوں نےمہربھی مقررکیاہےتواس خط کےجواب میں معاویہؓ نےامیرمدینہ کویہ لکھاکہ ان دونوں کےنکاح کوختم کردوکیونکہ یہی وہ نکاح شغارہے،جس سےنبی کریمﷺنےمنع فرمایاہے۔اس نکاح کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ اس صورت میں عورتوں پر ظلم ہوتا ہے انہیں ان لوگوں سے شادی پر مجبورکیا جاتا ہے،جنہیں وہ ناپسند کرتی ہیں اورانہیں محض ایک دنیوی سامان سمجھ لیا جاتا ہے کہ ان کے بارے میں وارث جس طرح چاہیں اپنی رغبت ومصلحت کے مطابق تصرف کریں جیسا کہ آج کل وٹہ سٹہ کا نکاح کرنے والوں کے عمل سے ثابت ہوتاہے الامن شاء اللہ !
حدیث ابن عمر میں شغارکی تشریح میں جو یہ آیا ہے کہ ‘‘آدمی اپنی بیٹی کا رشتہ کسی شخص کو ا س شرط پر دے کہ وہ اپنی بیٹی کا رشتہ اسے دے گااوردونوں کے لئے حق مہر بھی نہ ہو۔’’تویہ تشریح نافع کی ہے ،یہ نبی ﷺکا کلام نہیں ہے کہ‘‘دونوں کے لئے حق مہر بھی نہ ہو۔’’نبی ﷺنے شغار کی جو تشریح فرمائی ہے اس میں مہر کا ذکر نہیں ہے جیسا کہ قبل ازیں اس حدیث کو بیان کیا جاچکا ہے اورظاہر ہے کہ نبی ﷺکا فرمان نافع کے کلام سے مقدم ہے۔