سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(196) سودی بینکوں کے ذریعہ رقوم کی منتقلی

  • 15391
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 797

سوال

(196) سودی بینکوں کے ذریعہ رقوم کی منتقلی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم ترک کارکن ہیں اورسعودی عرب میں کام کرتے ہیں ہماراملک ترکی جیسا کہ آپ سے مخفی نہیں ہےحکومت  اورنظام کے اعتبار سے ایک سیکولرملک ہے اوراس میں سود بدترین طریقے سے پھیلا ہوا ہے حتی کہ سود کی شرح پچاس فی  صد سالانہ ہے ۔ہم ترکی میں اپنے اہل عیال کے پاس ان بینکوں کی معرفت رقوم بھیجنے پر مجبور ہیں جو کہ سود کا سب سے بڑا سرچشمہ ہیں ،اسی طرح ہم چوری ،نقصان یا بعض دیگر خطرات کی وجہ سے بینکوں میں اپنی رقوم رکھنے پر مجبور ہیں،تواپنے ان حالات کے تناظر میں آپ کی خدمت میں دواہم سوال برائے فتوی پیش خدمت ہیں۔جزاکم اللہ عنا خیر الجزاء۔

اولا: کیا ہمارے  لئے یہ جائز ہے کہ اپنی رقوم کا سود بینکوں میں چھوڑنے کے بجائے اسے وصول کرکے فقیروں اورفلاحی اداروں پر صدقہ کردیں؟

ثانیا: اگریہ جائز نہیں توکیا یہ جائز ہے کہ چوری اورنقصان سے بچانے  کے لئے محض حفاظت کے نقطہ نگاہ سے ہم اپنی رقوم کو ان بینکوں میں رکھ دیں حالانکہ جب تک یہ رقوم بینکوں میں رہیں گی ،بینک انہیں استعمال میں لاتے رہیں گے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بوقت ضرورت سودی بینکوں کی معرفت رقوم کی منتقلی میں ان شاءاللہ کوئی حرج نہیں،ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَقَد فَصَّلَ لَكُم ما حَرَّ‌مَ عَلَيكُم إِلّا مَا اضطُرِ‌ر‌تُم إِلَيهِ ...﴿١١٩﴾... سورة الانعام

‘‘جو چیزیں اس نے تمہارے لئے حرام ٹھہرادی ہیں وہ ایک ایک کرکے بیان دی ہیں مگر اس صورت میں کہ ان کے (کھانے کے )لئےناچارہوجاہ۔’’

ب شک بینکوں کے ذریعہ رقوم کی منتقلی عصر حاضرکی ایک عام ضرورت ہے ،اسی طرح ضرورت کے لئے سود کی شرط کے بغیر بینکوں میں رقوم رکھنا بھی ایک عام ضرورت ہے(لہذا یہ اضطراری حالت ہے )اگربینک کسی شرط یا معاہدہ کے بغیر سود اداکریں تواس کے لے لینے میں کوئی حرج نہیں تاکہ اسے نیکی کے کاموں پر مثلا فقراءاورمقروض لوگوں کی مددکے لئے خرچ کیا جائے۔سود کی رقم کو اپنی ملکیت میں شامل کرنے یا اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسے لینا جائز نہیں ہے ،حرام کمائی ہونے کے باوجود سودکی رقم کو بینکوں ہی میں رہنے دینا مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ہے لہذا اسے مسلمانوں کے فائدہ کے لئے خرچ کرنا اس سے بہتر ہے کہ اسے کفار کے پاس چھوڑ دیا جائے کیونہ وہ اللہ تعالی کے حرام کردہ امورکے ارتکاب کے لئے اس سے فائدہ اٹھائیں گے،اگراسلامی بینکوں یا جائز طریقوں سے رقوم کی منتقلی ممکن ہو تو پھر سودی بینکوں کے ذریعے منتقلی جائز نہ ہوگی،اوراسی طرح اگر اسلامی بینکوں یااسلامی کمپنیوں میں رقوم کا رکھنا ممکن ہو توپھر ضرورت ختم ہوجانے کی وجہ سے سودی بینکوں میں رقوم رکھنا جائز نہ ہوگا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مقالات و فتاویٰ

ص320

محدث فتویٰ

تبصرے