السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا سوال شادی کے متعلق ہے۔ میرے والد نے میری منگنی تو کر دی ہے لیکن اب وہ شادی کرنے میں تاخیر کر رہے ہیں حالانکہ ہر چیز تیار ہے اور دوسرے خاندان والے بھی تیار ہیں لیکن میرا خاندان اس میں تاخیر کر رہا ہے۔ ہر چیز تیار ہونے کے باوجود شادی میں تاخیر کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے کہ آپ کے والدین شادی کے لیے راضی ہیں اور لڑکی والے بھی تیار ہیں اور شادی کے لیے سب کچھ تیار جا چکا ہے تو اب شادی میں تاخیر کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ بلکہ ضروری ہے کہ اس میں جلدی کی جائے کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ
يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ؛ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ
’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہے وہ شادی کرے اور جس میں اس کی طاقت نہیں وہ روزے رکھے کیونکہ وہ اس کے لیے ڈھال ہیں۔‘‘(بخاری (5065)، كتاب النكاح: باب قول النبى: من استطاع الباءة فليتزوج، مسلم (1400) كتاب النكاح: باب استحباب النكاح لمن تاقت نفسه إليه، أبوداؤد (3046)، نسائي (4/171) ابن ماجة (1845) ، كتاب النكاح: باب ماجاء فى فضل النكاح)
لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے والدین کے پاس کوئی ایسے اسباب ہوں جو انہیں اس شادی میں تاخیر کرنے پر مجبور کر رہے ہوں اور وہ ہو سکتا ہے کہ وہ ان اسباب کے بارے میں آپ کو بتانا مناسب نہ سمجھتے ہوں تو اس لیے ضروری ہے کہ آپ صبر وتحمل سے کام لیں اور اجر وثواب کی نیت رکھیں۔
اور والدین کو اس کار خیر میں جلدی کرنے کی فضیلت کے بارے میں بتائیں کہ اس کے ذریعے نظریں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ کی بھی حفاظت ہوتی ہے، چاہے وہ عقد نکاح کر دیں اور رخصتی میں تاخیر کریں کیونکہ عقد نکاح کرنا اور رخصتی میں تاخیر خالی منگنی سے بہتر ہے۔
آپ کو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ مرد اپنی منگیتر کے لیے اجنبی ہے، اس کے لیے صرف منگنی کے وقت اسے دیکھنا جائز ہے اس کے بعد وہ اسے نہیں دیکھ سکتا اور اگر اس کا عقد نکاح ہو چکا ہے تو وہ اس کی بیوی بن چکی ہے اب وہ اس کے لیے حلال ہے جس طرح کہ خاوند کے لیے حلال ہوتی ہے لیکن افضل اور بہتر یہ ہے کہ وہ رخصتی سے قبل اس سے ہم بستری نہ کرے تاکہ فساد اور فتنہ سے بچا جا سکے اور اس میں جو عرف اور عادت بن چکی ہے اس کا لحاظ رکھا جا سکے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب