کیا فرماتے ہیں علمائے دین خواتین کو خط و کتابت کی تعلیم کے سلسلے میں : آیا جائز ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں تحقیقی امر کیا ہے؟
﴿قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ ﴾ (البقرۃ: ۳۲)
’’ اے اللہ! تیری ذات پاک ہے، ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے۔‘‘
جاننا چاہیے کہ خواتین کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے جواز و عدم جواز، دونوں طرف کی احادیث موجود ہیں، لیکن عدم جواز کی احادیث ضعیف اور موضوع ہیں۔ ان ضعیف اور موضوع احادیث کو شرعی احکام کے لیے بطور دلیل پیش کرنا درست نہیں ہے۔ امر محقق اس مسئلے میں یہ ہے کہ خواتین کو لکھنا سکھانا شریعت کی نگاہ میں جائز اور درست ہے۔ اس سلسلے میں ہم یہاں جواز اور عدم جواز دونوں طرف کی احادیث نقل کرکے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، تاکہ حقیقتِ حال واضح ہو جائے۔
عدم جواز کی روایات ابن حبان نے اپنی کتاب ’’ الضعفاء‘‘ میں، حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں اور بیہقی نے اپنی کتاب ’’ شعب الإیمان‘‘ میں درج کی ہیں۔
ابن حبان کی روایت یہ ہے:
’’ أنبأنا محمد بن عمرو أنبأنا محمد بن عبداللہ بن إبراھیم ثنا یحییٰ ابن زکریا بن یزید الدقاق ثنا محمد بن إبراھیم أبو عبداللہ الشامي ثنا شعیب بن إسحاق الدمشقي عن ھشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت : قال رسول اللہﷺ : ولا تسکنوھن الغرف، ولا تعلموھن الکتابۃ، وعلموھن المغزل وسورۃ النور۔‘‘ انتھی (کتاب المجروحین لابن حبان (۲ ؍۳۰۲)
’’ عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عورتوں کو محلوں میں نہ رکھو، انھیں لکھنا مت سکھاؤ اور انھیں سوت کاتنے اور سورہ نور کی تعلیم دو۔ ختم شد۔‘‘
اس روایت کی سند میں محمد بن ابراہیم شامی ہیں، جو منکر الحدیث وضاعین میں سے ہیں۔ حافظ شمس الدین ذہبی ’’ میزان الاعتدال‘‘ میں اس کے ترجمے میں فرماتے ہیں:
’’ قال الدارقطني کذاب، وقال ابن عدي : عامۃ أحادیثہ غیر محفوظۃ، قال ابن حبان : لا یحل الروایۃ عنہ إلا عند الاعتبار، کان یضع الحدیث، وروی عن شعیب بن إسحاق عن ھشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشۃ مرفوعا: لا تنزلوھن الغرف ولا تعلموھن الکتابۃ وعلموھن المغزل وسورۃ النور۔‘‘ انتھی ( میزان الاعتدال ۶ ؍۳۳)
’’ دارقطنی نے اسے کذاب کہا، ابن عدی اس کی عام حدیثوں کو غیر محفوظ قرار دیتے ہیں، ابن حبان کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کی روایت حلال نہیں مگر صرف بطور اعتبار، جیسے اس کی یہ روایت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عورتوں کو محلوں میں مت رکھو، انھیں لکھنا مت سکھاؤ اور انھیں سوت کاتنے اور سورہ نور کی تعلیم دو۔ ختم شد۔‘‘
علامہ ابن الجوزی ’’ العلل المتناھیۃ في الأحادیث الواھیۃ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ ھذا الحدیث لا یصح، محمد بن إبراھیم الشامي کان یضع الحدیث‘‘ انتھی (العلل المتناھیۃ لابن الجوزي ۱ ؍۱۲۶)
’’ ان کی یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ محمد بن ابراہیم شامی حدیث وضع کیا کرتا تھا۔ ختم شد۔‘‘
حافظ ابن حجر تقریب میں فرماتے ہیں:
’’ محمد بن إبراھیم بن العلاء الدمشقي أبو عبداللہ الزاھد۔ منکر الحدیث۔‘‘ انتھی ( تقریب التھذیب ۲ ؍۵۰)
’’ محمد بن ابراہیم بن العلاء الدمشقی ابو عبداللہ الزاہد منکر الحدیث ہے۔ ختم شد۔‘‘
علامہ صفی الدین خزرجی خلاصہ میں فرماتے ہیں:
’’ محمد بن إبراھیم الدمشقي کذبہ أبو نعیم والدارقطني، ووثقہ أبو حاتم والنسائي، وقال ابن عدی : عامۃ أحادیثہ غیر محفوظۃ۔‘‘ انتھی ( الخلاصۃ ، ص: ۳۲۴)
’’ محمد بن ابراہیم دمشقی کو ابو نعیم اور دارقطنی نے کذاب کہا ہے، جبکہ ابو حاتم اور نسائی نے ان کی توثیق کی ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ ان کی عام حدیثیں غیر محفوظ ہیں۔ ختم شد۔‘‘
علامہ خزرجی کا قول ’’ وثقہ أبو حاتم والنسائي‘‘ درست معلوم نہیں ہوتا، اس لیے کہ ابو حاتم اور نسائی کی یہ توثیق دوسرے مؤلفین اصحاب کتب رجال نے نقل نہیں کی ہے، بلکہ حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب تہذیب التہذیب اور حافظ ذہبی نے اپنی کتاب کاشف و میزان الاعتدال میں صرف جرح کے اقوال درج کیے ہیں۔ نسائی اور ابو حاتم کی توثیق کا ذکر نہیں کیا۔ واللہ اعلم۔ اس لیے یہ علامہ خزرجی کا وہم ہے، ان سے اس قسم کے وہم کا صدور کئی مقامات پر مذکورہ کتاب میں ہوا ہے۔ بالفرض اگر امامین حافظین نسائی و ابوحاتم کی تعدیل ثابت بھی ہو جائے تو ان کی توثیق دارقطنی، ابن حبان، ابن عدی اور ابو نعیم جیسے بلند پایہ ائمہ جرح کے مقابلے میں قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ محدثین کے نزدیک مفصل جرح، تعدیل پر مقدم ہوتی ہے۔
چنانچہ ابن الصلاح مقدمہ میں فرماتے ہیں:
’’ الخامسۃ : إذا اجتمع في شخص جرح و تعدیل فالجرح مقدم، لأن المعدل یخبر عن ما ظھر من حالہ، والجارح یخبر عن باطن خفي علی المعدل، فإن کان عدد المعدلین أکثر فقد قیل : التعدیل أولی، والصحیح الذي علیہ الجمھور أن الجرح أولی‘‘ انتھی (مقدمۃ ابن الصلاح ۱ ؍۶۱)
’’ پانچواں مسئلہ: اگر کسی شخص کے بارے میں جرح و تعدیل دونوں موجود ہوں تو جرح مقدم ہوگی، کیونکہ معدل (توثیق کرنے والا) راوی کے ظاہری حالات کی خبر دیتا ہے، جبکہ جارح راوی کے پوشیدہ حالات کی بھی خبر دیتا ہے، جس کا علم معدل کو نہیں ہوتا۔ اگر معدلین کی تعداد زیادہ ہو تو بعض کے نزدیک تعدیل افضل ہے، لیکن جمہور کے نزدیک جرح کا قبول کرنا زیادہ بہتر ہے۔ ختم شد۔‘‘
نیز مقدمہ ابن الصلاح میں ہے:
’’ إذا قالوا : متروک الحدیث أو ذاھب الحدیث أو کذاب، فھو ساقط الحدیث لا یکتب حدیثہ ‘‘ انتھی ( مصدر سابق)
’’ جس کے بارے میں متروک الحدیث، ذاہب الحدیث، کذاب کے الفاظ استعمال کیے گئے ہوں، اس کی حدیث قابل قبول ہوگی نہ وہ لکھی جائے گی۔ ختم شد۔‘‘
علامہ سخاوی ’’ فتح المغیث بشرح ألفیۃ الحدیث‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ الخامس في تعارض الجرح والتعدیل في راو واحد، وقدموا أي جمھور العلماء أیضا الجرح علی التعدیل مطلقا، استوی الطرفان في العدد أم لا، قال ابن الصلاح : إنہ الصحیح ، وکذا صححہ الأصولیون کالفخر والأمدي، بل حکی الخطیب اتفاق أھل العلم علیہ إذا استوی العددان، وصنیع ابن الصلاح مشعر بذلک، وعلیہ یحمل قول ابن عساکر : أجمع أھل العلم علی تقدیم قول من جرح راویا علی قول من عدلہ، لکن ینبغي تقیید الحکم بتقدیم الجرح بما إذا فسر‘‘ انتھی مختصرا ( فتح المغیث ۱ ؍۳۰۸، ۳۰۹)
’’ اگر ایک راوی کے بارے میں جرح و تعدیل کے کلمات موجود ہوں تو جمہور علماء کے نزدیک جرح، تعدیل پر مقدم ہوگی، خواہ دونوں کی تعداد برابر ہو یا نہ ہو۔ ابن الصلاح اس کو صحیح کہتے ہیں۔ الفخر و آمدی اور دوسرے علمائے اصول نے بھی اس کو صحیح کہا ہے۔ بلکہ خطیب نے تعداد کے برابر ہونے کی صورت میں اہل علم کا اتفاق نقل کیا ہے۔ ابن صلاح کے سابقہ کلام سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ابن عساکر بھی لکھتے ہیں کہ اہل علم کا اتفاق ہے کہ جارح کا قول معدل کے قول پر برتر سمجھا جائے گا، لیکن مناسب ہوگا کہ اس کو جرح مفصل کے ساتھ مخصوص سمجھا جائے۔ ختم شد۔‘‘
’’ والجرح مقدم علی التعدیل، وأطلق ذلک جماعۃ، لأن مع الجارح زیادۃ علم، لم یطلع علیہ المعدل، ولأن الجارح مصدق للمعدل فیما أخبر بہ عن ظاھر الحال، وھو یخبر عن أمر باطن خفي عن الآخر۔ نعم إن عین سببا نفاہ المعدل، فإنھما متعارضان، ولکن محلہ إن صدر مبینا أي مفسرا، بأن یقول وجہ ضعفہ أن راویہ فلان متھم بالکذب أو ھو سيء الحفظ مثلا، کذا قال البقاعي في حواشي شرح ألفیۃ العراقي۔‘‘
’’ ایک جماعت نے مطلقاً جرح کو تعدیل پر مقدم رکھا ہے، اس لیے کہ جارح کا علم معدل کے علم سے زیادہ ہوتا ہے۔ معدل صرف ظاہری حالات کی خبر دیتا ہے، جب کہ جارح مخفی حالات کی بھی خبر کرتا ہے، جس سے وہ واقف نہیں ہوتا۔ ہاں اگر جرح کرنے والا کسی معین سبب کی بنا پر جرح کرے اور تعدیل کرنے والا اس معین سبب کی نفی کردے تو پھر دونوں متعارض ہوں گے، لیکن یہ اس وقت ہے کہ اس کی مفصل وجہ بھی بیان کردیں اور بتا دیں کہ اس کی وجہ ضعف یہ ہے کہ اس کا فلاں راوی متہم بالکذب یا ناقص الحفظ ہے، جیسا کہ بقاعی نے حواشی شرح الفیۃ العراقی میں لکھا ہے۔‘‘
مستدرک حاکم کی روایت یہ ہے:
’’ أنبانا أبو علي الحافظ ثنا محمد بن محمد بن سلیمان ثنا عبد الوھاب بن الضحاک ثنا شعیب بن إسحاق عن ھشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشۃ فذکرہ، وقال : صحیح الإسناد‘‘ وأخرجہ البیھقي في شعب الإیمان عن الحاکم من ھذا الطریق۔ (المستدرک للحاکم ۲ ؍۴۳۰) ، ( شعب الإیمان للبیھقي ۴ ؍۹۰)
’’ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جو اوپر گزر چکی ہے۔ بیہقی نے بھی شعب الایمان میں یہ حدیث حاکم سے اسی طریق سے روایت کی ہے۔‘‘
اس کی سند میں عبدالوہاب بن ضحاک ہیں۔ قال الذھبي في المیزان:
’’ کذبہ أبو حاتم، وقال النسائي وغیرہ: متروک، وقال الدارقطني : منکر الحدیث ، وقال البخاري : عندہ عجائب ‘‘ انتھی ( میزان الاعتدال للذھبي ۴ ؍۴۳۲)
’’ ذہبی میزان میں فرماتے ہیں: ابو حاتم نے اسے کذاب، نسائی و دیگر نے متروک، دارقطنی نے منکر الحدیث اور بخاری نے کہا کہ یہ راوی نہایت عجیب و غریب چیزیں بیان کرتا ہے۔‘‘
شیخ جلال الدین سیوطی ’’ اللآلیٔ المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’قال الحافظ ابن حجر في الأطراف بعد ذکر قول الحاکم ’’صحیح الإسناد‘‘ : بل عبد الوھاب متروک، وقد تابعہ محمد بن إبراھیم الشامي عن شعیب بن إسحاق ، وإبراھیم رماہ ابن حبان بالوضع‘‘ انتھی کلام الحافظ ( اللآلي المصنوعۃ للسیوطي ۲ ؍۱۴۲)
’’ حافظ ابن حجر اطراف میں حاکم کے قول کے بعد کہ یہ ’’ صحیح الاسناد‘‘ ہے۔ فرماتے ہیں: بلکہ عبدالوہاب متروک ہے اور اس کی متابعت محمد بن ابراہیم شامی نے شعیب بن اسحٰق سے کی ہے اور ابراہیم کے متعلق ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ حدیث وضع کرتا ہے۔ ختم شد۔‘‘
خلاصہ میں ہے:
’’ قال الدارقطني : متروک ‘‘ ( الخلاصۃ ، ص: ۲۴۸)
’’ دارقطنی نے اسے متروک کہا ہے۔‘‘
دوسری روایت حافظ بیہقی کی یہ ہے:
’’ أنبأنا أبو نصر بن قتادۃ أنبأنا أبو الحسن محمد بن السراج حدثنا مطین حدثنا محمد بن إبراھیم الشامي حدثنا شعیب بن إسحاق الدمشقي عن ھشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشۃ، فذکر الحدیث، وقال : ھذا بھذا الإسناد منکر‘‘ انتھی (شعب الإیمان للبیھقي ۲ ؍ ۴۷۷)
’’ عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں۔ پس یہ حدیث ذکر کی اور کہا کہ اس کی یہ اسناد منکر ہے۔ ختم شد۔‘‘
اس کی سند میں محمد بن ابراہیم شامی ہیں، جن کی حدیث قابل قبول نہیں۔ نیز ابن حبان نے ’’ کتاب الضعفاء‘‘ میں ایک دوسری سند سے روایت کی ہے:
’’ حدثنا جعفر بن سھل ثنا جعفر بن نصر ثنا حفص بن غیاث عن لیث عن مجاھد عن ابن عباس مرفوعا : لا تعلموا نساء کم الکتابۃ، ولا تسکنوھن العلالي خیر لھو المرأۃ المغزل، وخیر لھو الرجل السباحۃ ‘‘ انتھی
’’ ابن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ اپنی عورتوں کو کتابت کی تعلیم مت دو۔ ان کو بالا خانوں میں نہ رکھو۔ عورت کے لیے بہترین تفریح سوت کاتنا اور مرد کے لیے سیر و سیاحت ہے۔‘‘
اس کی سند میں جعفر بن نصر ہیں۔ قال الذھبي في المیزان:
’’ جعفر بن نصر عن حماد بن زید وغیرہ، متھم بالکذب، وھو أبو میمون العنبري، ذکرہ صاحب الکامل فقال : حدث عن الثقات بالبواطیل ‘‘ انتھی ( میزان الإعتدال للذھبي ۲ ؍۱۵۰)
’’ ذہبی میزان میں فرماتے ہیں: ’’ جعفر بن نصر، حماد بن زید وغیرہ سے روایت کرتے ہیں، متہم بالکذب ہیں اور وہ ابو میمون عنبری ہے۔ صاحب کامل ابو میمون عنبری کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ یہ ثقات سے بواطیل روایت کرتے ہیں۔ ختم شد۔‘‘
اس کے بعد ذہبی اس کی تین احادیث ذکر کرتے ہیں، جن میں یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی شامل ہے، پھر لکھتے ہیں: یہ سب باطل ہیں۔
شیخ ابن الجوزی ’’ العلل المتناھیۃ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ ھذا لا یصح، جعفر بن نصر حدث عن الثقات بالبواطیل‘‘ انتھی (العلل المتناھیۃ ۲ ؍۵۵۰)
’’ یہ صحیح نہیں، جعفر بن نصر ثقات سے باطل حدیثیں روایت کرتا ہے۔ ختم شد۔‘‘
’’ کشف الأحوال في نقد الرجال‘‘ میں ہے:
’’ جعفر بن نصر أبو میمون العنبري الکوفي حدث عن الثقات بالبواطیل، سمع حفص بن غیاث و حماد بن زید، روی عنہ جعفر بن سھل‘‘ انتھی
’’ ابو میمون جعفر بن نصر عنبری کوفی ثقات سے باطل حدیثیں روایت کرتا ہے، حفص بن غیاث اور حماد بن زید سے سنا ہے، جبکہ جعفر بن سہل اس سے روایت کرتے ہیں۔ ختم شد۔‘‘
پس مانعین کی جتنی روایات مذکور ہیں، ساری کی ساری ضعیف ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی قابل تمسک و حجت نہیں ہے۔ واللہ اعلم
جواز کے قائلین کا استدلال شفا بنت عبداللہ کی حدیث سے ہے، جسے ابوداود و احمد بن حنبل و نسائی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ سنن ابوداود میں ہے:
’’ حدثنا إبراھیم بن مھدي المصیصي نا علي بن مسھر عن عبد العزیز بن عمر بن عبدالعزیز عن صالح بن کیسان عن أبي بکر بن سلیمان بن أبي حثمۃ عن الشفاء بنت عبداللہ قالت : دخل علي النبي ﷺ ، وأنا عند حفصۃ، فقال لي : ألا تعلمین ھذہ رقیۃ النملۃ کما علمتیھا الکتابۃ؟ ‘‘ انتھی ( سنن أبي داود، رقم الحدیث ۳۸۸۷)
الشفاء بنت عبداللہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ تشریف لائے اور میں حفصہ کے
پاس تھی، پس مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تم اسے مرض نملہ کے جھاڑ پھونک کی تعلیم کیوں نہیں دیتی، جس طرح تم نے انھیں لکھنے کی تعلیم دی ہے؟
نملہ ایک قسم کا پھوڑا ہوتا ہے جو پہلو میں نکلتا ہے اور نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس کا مریض ایسا محسوس کرتا ہے کہ اس پر چیونٹیاں حرکت کر رہی ہیں۔ نملہ کی یہی تفسیر درست ہے۔ بعض اہل علم نے اس کے دوسرے معانی بھی بیان کیے ہیں، لیکن وہ صحیح نہیں۔ واللہ اعلم
’’أما رجال ہذا الاسناد: ’’فابراہیم بن مہدي المصیصی، قال في الخلاصۃ: وثقہ أبو حاتم‘‘، وقال الذہبي في المیزان: ’’روی عنہ أحمد و أبو عاصم، وقال: ثقۃ، وقال العقیلي: حدث بمناکیر، ثم أسند الی یحییٰ بن معین أنہ قال: ابراہیم بن مہدي جائ بمناکیر‘‘ انتہی۔ (الخلاصۃ ص: ۲۲، میزان الاعتدال ۶۸ْ۱)
’’اس حدیث کی سند کے روات میں ابراہیم بن مہدی مصیصی ہیں، خلاصہ میں ہے کہ ابو حاتم نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ ذہبی میزان میں فرماتے ہیں: احمد اور ابو عاصم نے ان سے روایت کی اور انھیں ثقہ کہا۔ عقیلی نے انہیں منکر حدیثیں بیان کرنے والا کہا، پھر یحییٰ بن معین کا ایک قول پیش کیا کہ ابراہیم بن مہدی مناکیر روایت کرتے ہیں۔‘‘
وفي التقریب: ہو مقبول من العاشرۃ‘‘ انتہی۔ (تقریب التہذیب:۴۹ْ۱(
اور التقریب میں ہے کہ یہ مقبول ہے دسویں طبقے سے۔
اگر کہیں کہ ابن معین اور عقیلی کی اس جرح ہے کہ ’’حدث بمناکیر‘‘ ان کی ذات مجروح ہوتی ہے تو بفضلہ تعالیٰ میں کہتا ہوں کہ ابراہیم بن مہدی ثقہ راوی ہیں۔ ابو حاتم اور ابو عاصم نے ان کی توثیق کی ہے اور یہ جملہ کہ یہ منکر حدیثیں بیان کرنے والے ہیں، ان کی ثقاہت پر مانع نہیں ہوتا۔ مزید برآں محدثین کے نزدیک ’’ہو منکر الحدیث‘‘ اور ’’حدث بمناکیر‘‘ میں بہت فرق ہے۔
علامہ شمس الدین سخاوی ’’فتح المغیث‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’قال شیخنا: قولہم: متروک أو ساقط أو فاحش الغلط أو منکر الحدیث، أشد من قولہم: ضعیف أو لیس بقوي أو فیہ مقال‘‘۔ (فتح المغیث للسخاوي: ۳۷۳ْ۱)
’’میرے شیخ فرماتے ہیں: متروک یا ساقط یا فاحش الغلط یا منکر الحدیث کے الفاظ ضعیف، لیس بقوی اور فیہ مقال سے زیادہ سخت ہیں۔‘‘
وقال العراقي في تخریجہ الأکبر للاحیائ: ’’وکثیرا ما یطلقون المنکر علی الراوي لکونہ روی حدیثا واحدا ونحوہ‘‘۔
عراقی نے احیاء العلوم کی تخریج میں فرمایا: اکثر منکر کا اطلاق اس راوی پر ہوتا ہے جس نے محض ایک یا دو حدیث روایت کی ہو۔
وقال الذہبي: قولہم: ’’منکر الحدیث‘‘ لا یعنون بہ أن کل ما رواہ منکر، بل اذا روی الرجل جملۃ، وبعض ذلک مناکیر فہو منکر الحدیث‘‘۔
ذہبی فرماتے ہیں: منکر الحدیث کا اطلاق کسی راوی کی تمام روایت کو منکر نہیں بناتا ہے، بلکہ اس کی مرویات کا کچھ حصہ اس کی زد میں آتا ہے۔
قال السخاوي: ’’قلت: وقد یطلق ذلک علی الثقۃ اذا روی المناکیر عن الضعفاء، قال الحاکم: قلت للدار قطني: فسلیمان بن شرحبیل؟ قال: ثقۃ۔ قلت: ألیس عندہ مناکیر؟ قال: یحدث بہا عن قوم ضعفاء، فأما ہو فثقۃ‘‘۔
سخاوی فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ اس کا اطلاق ثقہ راوی پر ہوتا ہے، جب وہ ضعفا سے منکر روایتیں نقل کرے۔ حاکم کہتے ہیں کہ میں نے دارقطنی سے پوچھا: سلیمان بن شرحبیل کیسا راوی ہے؟ کہا: ثقہ ہے۔ میں نے کہا: کیا اس کی روایت منکر نہیں؟ کہا: وہ ضعیف لوگوں سے بیان کرتا ہے۔
وقال ابن دقیق العید في شرح الالمام: قولہم:روی مناکیر لا یقتضي بمجردہ ترک روایۃ حتی تکثر المناکیر في روایۃ، وتنتہي الی أن یقال فیہ: منکر الحدیث، لأن منکر الحدیث وصف في الرجل یستحق بہ الترک بحدیثہ، والعبارۃ الأخری یقتضي أنہ وقع لہ في حین لا دائما، کیف وقد قال أحمد بن حنبل: محمد بن ابراہیم التیمي یروي أحادیث منکرۃ، و ہو ممن اتفق علیہ الشیخان، والیہ المرجع في حدیث: انما الأعمال بالنیات، وکذلک قال في زید بن أبي أنیسۃ: في بعض حدیثہ نکارۃ۔ وہو ممن احتج بہ البخاري و مسلم، وہما العمدۃ في ذلک انتہی۔
ابن دقیق العید شرح الالمام فرماتے ہیں: جب کسی راوی کے بارے میں کہا جائے کہ اس کے پاس مناکیر ہیں تو صرف اس بنا پر اس کی روایت ترک کرنا مناسب نہیں۔ لیکن جب اس کے پاس مناکیر کی کثرت ہو جائے، حتیٰ کہ اسے منکر الحدیث کہا جانے لگے تو اس سے روایت ترک کر دی جائے گی۔ دوسری عبارت کا مطلب ہے کہ وہ کبھی کبھار منکر روایت بیان کرتا ہے نہ کہ ہمیشہ۔ احمد بن حنبل نے محمد بن ابراہیم تیمی کو منکر حدیثیں بیان کرنے والا کہا ہے، جبکہ ان سے حدیثیں روایت کرنے میں شیخین متفق ہیں، نیز حدیث انما الاعمال بالنیات کا دارومدار بھی اسی راوی پر ہے، اسی طرح زید بن ابی انیسہ کا معاملہ ہے۔
ان باتوں سے قطع نظر اس حدیث کی روایت میں ابراہیم بن مہدی کی متابعت و توثیق ابراہیم بن یعقوب بن اسحاق نے کی ہے اور اس میں دوسرے راوی ثقہ راوی ہیں، جن کی روایت سنن کبری نسائی میں موجود ہے۔ چنانچہ اس کا ذکر آئے گا۔
اس حدیث کی سند میں دوسرا راوی حافظ علی بن مسہر قرشی ابو الحسن کوفی کو ابن معین نے ثقہ کہا ہے، جیسا کہ الخلاصہ اور دیگر کتب میں موجود ہے۔ اس حدیث کی سند میں تیسرے راوی عبدالعزیز بن عمر بن عبدالعزیز بھی ثقہ ہیں۔ ائمہ ستہ نے ان سے روایت کیا ہے۔ خلاصہ میں کہا: (الخلاصۃ ص: ۲۷۷)
’’وثقہ ابن معین وأبو داود‘‘ انتہی۔ (الخلاصۃ ص: ۲۴۰)
’’ابن معین اور ابو داود نے انھیں ثقہ کہا ہے۔‘‘ ختم شد
میزان الاعتدال میں ہے:
’’وثقہ جماعۃ، وضعفہ أبو مسہر وحدۃ‘‘ انتہی۔ (میزان الاعتدال للذہبي: ۲۶۹ْ۴)
’’ایک جماعت کے نزدیک یہ ثقہ ہیں، صرف ابو مسہر نے ان کی تضعیف کی ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر مقدمہ فتح الباری میں فرماتے ہیں:
’’عبدالعزیز بن عمر بن عبدالعزیز بن مروان الأموي: نزیل المدینۃ، وثقہ ابن معین و أبو داود والنسائي و أبو زرعۃ و ابن عمار، وزاد: لیس بین الناس فیہ اختلاف، وحکی الخطابي عن أحمد عنہ قال: لیس ہو من أہل الحفظ، یعني بذلک سعۃ المحفوظ، والافقد قال یحییٰ بن معین: ہو ثبت، روی شیئا یسیرا، وقال أبو حاتم: یکتب حدیثہ، وقال میمون بن الأصبغ عن أبي مسہر: ضعیف الحدیث، وقال یعقوب بن سفیان: حدثنا أبو نعیم حدثنا عبدالعزیز وہو ثقۃ‘‘۔ (فتح الباري: ۴۲۰ْ۱)
’’عبدالعزیز بن عمر بن عبدالعزیز بن مروان اموی مدنی کو ابن معین، ابو داود، نسائی، ابو زرعہ، ابن عمار وغیرہ نے ثقہ قرار دیا ہے۔ ابن عمار مزید کہتے ہیں کہ ان کی ثقاہت میں کوئی اختلاف نہیں۔ خطابی، احمد سے روایت کرتے ہیں کہ یہ حفاظ میں سے نہیں تھے، یعنی ان کی محفوظات کا دائرہ وسیع نہیں۔ یحییٰ بن معین انھیں ثبت کہتے ہیں۔ ابو حاتم ان سے کتابت حدیث کی اجازت دیتے ہیں۔ ابو مسہر کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں ضعیف ہیں۔ یعقوب بن سفیان کہتے ہیں کہ ابو نعیم ان سے روایت کرتے ہیں اور انھیں ثقہ قرار دیتے ہیں۔‘‘
پس عبدالعزیز کی توثیق جمہور محدثین نے کی ہے، مثلاً یحییٰ بن معین، ابو داود، نسائی، ابو زرعہ، ابو نعیم، ابو حاتم اور ابن عمار۔ بلکہ ابن عمار تو فرماتے ہیں کہ علما کے نزدیک ان کی ثقاہت میں کوئی اختلاف نہیں، لہٰذا ابو مسہر کا انھیں بغیر کسی دلیل کے ضعیف قرار دینا قابل اعتنا نہیں۔
اس حدیث کی سند میں چوتھے راوی صالح بن کیسان مدنی کو ابن معین، احمد اور ایک جماعت نے ثقہ قرار دیا ہے، جیسا کہ سیوطی کی کتاب ’’اسعاف المبطأ برجال الموطأ‘‘ اور ’’الخلاصۃ‘‘ وغیرہ میں موجود ہے۔ (الخلاصۃ ص: ۱۷۱)
اس حدیث کی سند میں پانچویں راوی ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ مدنی بھی ثقہ اور علم الانساب کے ماہر ہیں، جیسا کہ التقریب میں موجود ہے اور الخلاصہ میں ہے کہ زہری کہتے ہیں کہ آپ علماے قریش میں سے ہیں۔ (الخلاصۃ ص: ۴۴۴)
حضرت شفاء بنت عبداللہ کا شمار اولین مہاجر صحابیات میں ہوتا ہے۔ حافظ جمال الدین المزی ’’تحفۃ الأشراف‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’شفاء بنت عبداللّٰہ بن عبد شمس، ویقال: الشفاء بنت عبداللّٰہ بن ہاشم بن خلف بن عبد شمس القرشیۃ العدویۃ، وہي أم سلیمان ابن أبي حثمۃ، قال أحمد بن صالح: اسمہا لیلیٰ، وغلب علیہا الشفاء، وہي من المہاجرات الأول‘‘ انتہی۔ (تحفۃ الأشراف: ۳۳۶ْ۱۱)
’’شفاء بنت عبداللہ بن عبد شمس اور کہتے ہیں: الشفاء بنت عبداللہ بن ہاشم بن خلف بن عبد شمس قریشی عدوی۔ یہ سلیمان بن ابی حثمہ کی والدہ ہیں۔ احمد بن صالح کہتے ہیں: ان کا لقب شفا ہے، جو اصل نام لیلیٰ پر غالب آ گیا اور یہ اولین مہاجرات میں سے ہیں۔‘‘
حافظ ابن حجر ’’الاصابۃ في معرفۃ الصحابۃ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’أسلمت الشفاء قبل الہجرۃ، وہي من المہاجرات الأول، وبایعت النبيﷺ، وکانت من عقلاء النساء وفضلائہن، وکان رسول اللّٰہﷺ یزورہا، ویقیل عندہا في بیتہا، وکانت قد اتخذت لہ فراشا وازارا ینام فیہ، فلم یزل ذلک عند ولدھا حتی أخذہ منہم مروان بن الحکم، وقال لہا رسول اللّٰہﷺ: علمي حفصۃ رقیۃ النملۃ کما علمتیہا الکتابۃ، وأقطعہا رسول اللّٰہﷺ دارہا عند الحکاکین بالمدینۃ فنزلتہا مع ابنھا سلیمان، وکان عمر یقدمہا في الرأی، ویرعاھا، ویفضلہا، وربما ولّٰی شیئا من أمر السوق‘‘ انتہی۔ (الاصابۃ في تمییز الصحابۃ: ۷۲۸،۷۲۷ْ۷)
’’شفاء نے قبل از ہجرت اسلام قبول کیا۔ ابتدا ہی میں ہجرت کی۔ نبیﷺ سے بیعت کی۔ بڑی عقلمند و فاضلہ خاتون تھیں۔ رسول اللہﷺ ان کے گھر تشریف لے جاتے اور قیلولہ فرماتے، اس کے لیے انھوں نے تہمد اور بستر کا انتظام کیا تھا۔ یہ تہمد اور بستر ان کی اولاد کے پاس تھا، حتیٰ کہ اسے مروان بن حکم نے لے لیا۔ رسول اللہﷺ نے انھیں کہا کہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو مرض نملہ کے جھاڑ پھونک کی تعلیم دو، جیسا کہ ان کو کتابت کی تعلیم دی ہے۔ رسول اللہﷺ نے مدینے میں نگینہ سازوں کے علاقے کے اندر ان کے لیے ایک گھر خاص کر دیا تھا، جس میں وہ اپنے بیٹے سلیمان کے ساتھ رہتی تھیں۔ عمر رضی اللہ عنہ ان کے مشوروں کی قدر کرتے اور ان کا خیال رکھا کرتے تھے اور بعض اوقات انھیں بازار کی نگرانی کی ذمے داری بھی سونپا کرتے تھے۔‘‘
حدیثِ شفا امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں روایت کی ہے اور ابو داود اور عبدالعظیم منذری نے مختصر میں یہ حدیث روایت کر کے سکوت اختیار کیا ہے۔ (مسند أحمد: ۳۷۲ْ۶، سنن أبي داود، رقم الحدیث: ۳۸۸۷)
شوکانی ’’نیل الاوطار‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’وحدیث الشفاء سکت عنہ أبو داود والمنذري، ورجال اسنادہ رجال الصحیح الا ابراہیم بن مہدي البغدادي المصیصي، وہو ثقۃ‘‘ انتہی۔ (نیل الأوطار: ۸۵ْ۹)
’’ابو داود اور منذری نے حدیث شفاء کو روایت کر کے سکوت فرمایا ہے۔ اس کی سند میں موجود تمام راوی صحیح کے ہیں سوائے ابراہیم بن مہدی بغدادی مصیصی کے، وہ بھی ثقہ ہیں۔‘‘
کمال الدین الدمیری ’’حیاۃ الحیوان‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’روی أبو داود والحاکم، وصححہ أن النبيﷺ قال للشفاء بنت عبداللّٰہ: علمي حفصۃ رقیۃ النملۃ کما علمتیہا الکتابۃ‘‘ انتہی۔ (حیاۃ الحیوان للدمیري: ۲۱۹ْ۲)
’’ابو داود اور حاکم نے اس حدیث کو روایت کر کے صحیح قرار دیا ہے کہ نبیﷺ نے شفاء بنت عبداللہ کو مرض نملہ کے جھاڑ پھونک کی تعلیم حفصہ رضی اللہ عنہا کو دینے کے لیے کہا تھا، جیسا کہ انھوں نے ان کو کتابت کی تعلیم دی تھی۔‘‘
حافظ ابن حجر اصابہ میں فرماتے ہیں:
’’وأخرجہ أبو نعیم عن الطبراني من طریق صالح بن کیسان عن أبي بکر بن سلیمان بن أبي حثمۃ أن الشفاء بنت عبداللّٰہ قالت: دخل علي رسول اللّٰہﷺ وأنا قاعدۃ عند حفصۃ، فقال: ما علیک أن تعلمي ہذہ رقیۃ النملۃ کما علمتیہا الکتابۃ‘‘ انتہی۔ (الاصابۃ في تمییز الصحابۃ: ۷۲۸ْ۷)
’’ابو نعیم نے طبرانی سے اس طرح روایت کیا ہے کہ شفاء بنت عبداللہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ تم مرض نملہ کے جھاڑ پھونک کی تعلیم حفصہ کو کیوں نہیں دیتی، جس طرح تم نے انھیں کتابت کی تعلیم دی ہے؟‘‘
نسائی نے سنن کبری کے کتاب الطب میں روایت کیا ہے:
’’حدثنا ابراہیم بن یعقوب عن علي بن عبداللّٰہ المدیني عن محمد ابن بشر عن عبدالعزیز بن عمر بن عبدالعزیز عن صالح بن کیسان عن أبي بکر بن سلیمان بن أبي حثمۃ عن الشفاء بالحدیث المذکور‘‘۔ (سنن الکبریٰ للنسائي: ۳۶ْ۴)
اسی طرح حافظ جمال الدین المزّی نے ’’تحفۃ الأشراف‘‘ میں اور علامہ شوکانی نے نیل میں نسائی کی سند سے یہ حدیث نقل کی ہے اور اس کی سند کو درست قرار دیا ہے۔
اس حدیث کی سند میں پہلے راوی حافظ ابو یعقوب ابراہیم بن یعقوب بن اسحاق الجوزجانی ہیں۔ نسائی و دارقطنی نے انہیں ثقہ کہا ہے۔ دار قطنی کہتے ہیں: وہ حفاظ مصنفین میں سے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ناصبی تھے۔ قیام دمشق میں احمد ان سے مراسلت کیا کرتے تھے اور ان کی بہت عزت و تکریم کیا کرتے تھے، جیسا کہ الخلاصہ وغیرہ میں ہے۔ (الخلاصۃ ص: ۲۳)
ناصبیت کے انتساب سے اس حدیث پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ حدیثِ شفاء سے ناصبیوں کے مسلک کی تائید نہیں ہوتی۔ اس کی تفصیل اصول (حدیث) میں مذکور ہے۔
اس حدیث کی سند میں دوسرے راوی علی بن عبداللہ المدینی سے متعلق ابن حجر التقریب میں فرماتے ہیں: آپ ثقہ، ثبت اور حدیث و علل میں اپنے عہد کے امام تھے، حتیٰ کہ بخاری کہتے ہیں کہ میں نے ان کے سوا کسی کے سامنے خود کو کمتر نہیں سمجھا۔ ان کے استاد ابن عیینہ کہا کرتے تھے کہ جس قدر وہ مجھ سے مستفید ہوتے ہیں، اس سے زیادہ میں ان سے مستفید ہوتا ہوں۔ نسائی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم حدیث کی خدمت کے لیے پیدا کیا تھا۔ (تقریب التہذیب ص: ۴۰۳)
اس حدیث کی سند میں تیسرے راوی محمد بن بشر العبدی کا شمار علما و حفاظ میں ہوتا ہے۔ ابن معین نے انھیں ثقہ کہا ہے، جیسا کہ الخلاصہ میں ہے۔ باقی راویوں کے حالات گذشتہ اوراق میں گزر چکے ہیں۔ پس حدیث شفاء بنت عبداللہ کی صحت میں اب کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا، لیکن کسی تنگ نظر و متعصب آدمی سے ذرا بعید نہیں کہ وہ اس صحیح الاسناد حدیث کو رد کرے اور موضوع و باطل احادیث سے تمسک کرے، کیونکہ منکرین حق کا یہی شیوہ رہا ہے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون! (الخلاصۃ ص: ۳۲۸)
یہ بیان احادیث کی تحقیق و تنقید پر مشتمل تھا۔ اب ائمہ کے اقوال ملاحظہ فرمائیں۔
علامہ ارد بیلی ’’ازہار شرح المصابیح‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’قال الخطابي: فیہ دلالۃ علی أن تعلم النساء الکتابۃ غیر مکروہ‘‘ انتہی۔
’’خطابی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عورتوں کو لکھنا سکھانے کے جواز پر بلا کراہت دلالت کرتی ہے۔‘‘
حافظ ابن قیم ’’زادالمعاد‘‘ میں کہتے ہیں:
’’وفي الحدیث دلیل علی جواز تعلیم النساء الکتابۃ‘‘ انتہی۔ (زاد المعاد: ۱۸۵ْ۴)
’’حدیث میں عورتوں کو لکھنا سکھانے کے جواز کی دلیل موجود ہے۔‘‘
الشیخ العلامہ ابن تیمیہ ’’منتقی الاخبار‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’وہو دلیل علی جواز تعلیم النساء الکتابۃ‘‘ انتہی۔ (منتقی الأخبار مع نیل الأوطار: ۸۴ْ۹)
’’یہ حدیث خواتین کو لکھنا سکھانے کے جواز کی دلیل ہے۔ ‘‘ختم شد
ایک مسئلے کی تائید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک اثر سے ہوتی ہے، جسے بخاری نے ’’الأدب المفرد‘‘ کے ’’باب الکتابۃ إلی النسائ وجوابہن‘‘ میں روایت کیا ہے:
’’ثنا أبو رافع قال ثنا أبو أسامۃ قال ثنا موسیٰ بن عبداللہ قال حدثنا عائشۃ بنت طلحۃ، قالت: قلت لعائشۃ وأنا في حجرہا وکان الناس یأتونہا من کل۔ مصر، فکان الشیوخ ینتابوني لمکاني منہا، وکان الشباب یتأخّوني فیہدون إليّ، ویکتوبن إليّ من الأمصار، فأقول لعائشۃ: یا خالۃ ہذا کتاب فلان وہدیۃ، فتقول لي عائشۃ: أي بنیّۃ فأجیبیہ وأثیبیہ، فإن لم یکن عندک ثواب أعطیتک، فقالت: تعطیني‘‘ رواہ البخاري في الأدب المفرد۔ (الأدب المفرد للبخاري: ۳۸۲ْ۱)
’’خواتین کا خط لکھنا اور اس کا جواب دینا۔ عائشہ بنت طلحہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق فرماتی ہیں: میں ان کے پاس تھی، لوگ مختلف شہروں سے مجھے خطوط لکھتے اور تحفے دیتے۔ میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کرتی کہ خالہ جان یہ خط اور ہدیہ فلاں نے بھیجا ہے، تو آپ جواب میں فرماتیں، انھیں جواب لکھو اور ہدیے میں بھی کچھ روانہ کرو۔ اگر تمھارے پاس نہ ہو تو میں تمھیں دے دوں گی، لہٰذا وہ مجھے کچھ دے دیا کرتیں۔‘‘
کتبِ تاریخ کے مطالعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں ہمیشہ لکھنا پڑھنا سیکھتی رہی ہیں اور کبھی علمائے عصر نے اس پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ خود خواتین میں سے بعض خط کتابت کی ماہر اور صاحب علم و عمل ہوئی ہیں۔
قاضی احمد بن خلکان ’’وفیات الأعیان‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’فخر النساء شہدۃ بنت أبي نصر أحمد بن الفرج بن عمر الأبري الکاتبۃ، الدینوریۃ الأصل، البغدادیۃ المولد والوفاۃ، کانت من العلماء، وکتبت الخط الجید، وسمع علیہا خلق کثیر، وکان لہا السماع العالي، ألحقت فیہ الأصاغر بالأکابر، سمعت من أبي الخطاب نصر ابن أحمد بن البطرواني وأبي عبداللہ الحسین بن أحمد بن طلحۃ النعالي وطلحۃ بن محمد الزینبي وغیرہم، مثل أبي الحسن علي بن الحسین بن أیوب وأبي الحسین أحمد بن عبدالقادر بن یوسف و فخر الإسلام أبي بکر محمد بن أحمد الشاشي، واشتہر ذکرہا، وبعد صیتہا، وکانت وفاتہا یوم الأحد بعد العصر ثالث عشر المحرم سنۃ أربع وسبعین وخمس مائۃ، ودفنت بباب ابزر، وقد أینفت علی تسعین سنۃ من عمرہا۔ رحمہا اللہ تعالیٰ‘‘(وفیات الأعیان لابن خلکان: ۴۷۷ْ۲)
’’فخر النساء شہدۃ بنت ابی نصر احمد بن الفرج بن عمر الابری ماہر کاتبہ تھیں، مولد و وفات بغداد ہے، آپ علما میں سے تھیں، خط نہایت عمدہ لکھتی تھیں، خلق کثیر نے ان سے سماعت کی۔ ان کی سند بھی عالی تھی۔ اصاغر ان کی وجہ سے اکابر سے ملے، انھوں نے ابو الخطاب نصر بن احمد بن بطروانی، ابو عبداللہ حسین بن احمد بن طلحہ النعالی، طلحہ بن محمد الزینبی، ابو الحسن علی بن حسین بن ایوب اور ابو الحسین احمد بن عبدالقادر بن یوسف اور فخر الاسلام ابوبکر محمد بن احمد الشاشی سے سماعت کی۔ ان کی شہرت اور ان کا ذکر بہت دور دور تک ہوا۔ ان کی وفات بروز اتوار بعد عصر ۱۳؍ محرم ۵۷۴ھ کو ہوئی۔ باب ابزر میں مدفون ہوئیں۔ وفات کے وقت عمر تقریباً ۹۰ سال تھی۔ اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو۔‘‘
علامہ مقری ’’نفح الطیب‘‘ تاریخ اندلس کی دوسری جلد میں لکھتے ہیں:
’’عائشۃ بنت أحمد القرطبیۃ، قال ابن حبان في المقتبس: لم یکن في زمانہا من حرائر الأندلس من یعدلہا علما وفہما وأدبا وشعرا وفصاحۃ، تمدح ملوک الأندلس، وتخاطبہم بما یعرض لہا من حاجۃ، وکانت حسنۃ الخط، تکتب المصاحف، وماتت عذراء، لم تنکح، سنۃ أربع مائۃ، وقال في المغرب: إنہا من عجائب زمانہا وغرائب أوانہا، وأبو عبداللہ الطیب عمّہا، ولو قیل أنہا أشعر منہ لجاز‘‘ انتہی۔
’’عائشہ بنت احمدیہ قرطبیہ سے متعلق ابن حبان نے المقتبس میں فرمایا: یہ اندلس میں اپنے زمانے کی ذہین و فطین خاتون تھیں۔ علم و فہم، شعر و ادب اور فصاحت میں اپنے زمانے میں سب سے فائق تر تھیں۔ شاہانِ اندلس کی مدح سرائی کر کے اپنی ضروریات کی تکمیل کیا کرتی تھیں۔ مصاحف نہایت عمدہ خط میں لکھا کرتی تھیں۔ کنوارے پن کی حالت میں ۴۰۰ھ میں وفات پائی۔ المغرب میں مرقوم ہے کہ وہ نادرہ روزگار اور یکتائے زمانہ تھیں۔ ابو عبداللہ طیب ان کے چچا تھے۔ اگر کہا جائے کہ شعر گوئی میں یہ ان سے بڑھ کر تھیں تو غلط نہ ہو گا۔‘‘
گذشتہ تحریروں سے ظاہر ہو چکا ہے کہ شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو لکھنا پڑھنا سکھایا تھا اور رسول اللہﷺ اس سے راضی و مطمئن تھے۔ رسول اللہﷺ اور عہد صحابہ کے بعد بھی برابر خواتین لکھنا پڑھنا سیکھ کر مرتبہ کمال کو پہنچیں۔
اس سلسلے میں عدم جواز کی تمام احادیث باطل اور موضوع ہیں۔ ایسی احادیث کو سوائے حافظ ابو عبداللہ الحاکم کے کسی نے صحیح نہیں کہا اور اس تصحیح پر تعاقب کرنا ضروری ہے، کیونکہ تصحیح حدیث کے سلسلے میں حافظ حاکم کا تساہل محدثین کے درمیان نہایت مشہور ہے، جب تک حفاظ ان کی موافقت نہ کریں۔ بیہقی نے بھی اس حدیث کی تصحیح نہیں کی ہے اور نہ شیخ جلال الدین سیوطی نے حاکم و بیہقی کی متابعت کی ہے۔ یہ بیہقی اور سیوطی پر افترائے عظیم ہے۔ حتیٰ کہ ’’اللآلیٔ المصنوعۃ‘‘ کے مطالعے سے اس کی حقیقت واضح ہو جائے گی۔ اس کے برعکس حدیثِ شفا کی اسناد بالکل درست ہے، اس کے راوی صحیحین کے راوی ہیں۔ کوئی جھگڑا لو اور متعصب ہی اس حدیث کی سند پر جرح کرے گا۔ ابو داؤد و منذری نے حدیث شفا پر سکوت اختیار کیا ہے اور یہ ان دو حفاظ حدیث کا قاعدہ ہے۔ وہ سنن ابی داؤد کی جس حدیث پر سکوت کریں، وہ حدیث پائے صحت پر متمکن ہو گی، نیز ابو عبداللہ الحاکم بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
مفسرین کا تفسیر سورہ نور میں عدم جواز کی احادیث نقل کرنا حدیث کو قابل استدلال اور پائے صحت پر متمکن نہیں کرتا، کیونکہ مفسرین کرام نے اپنی تفاسیر میں احادیث صحیحہ کو نقل کرنے کا التزام نہیں کیا ہے۔ امام بغوی جو مقتدائے اہل حدیث ہیں، واہیہ، منکر و شاذ ہر قسم کی احادیث بلا تنقید اور راوی کے حالات جانے بغیر اپنی تفسیر مسمیٰ بہ معالم التنزیل میں بیان کرتے ہیں۔ یہ فعل ان کی جلالت و شان سے نہایت بعید ہے۔ البتہ حافظ ابن کثیر نے اس امر کا خیال رکھا ہے اور اپنی تفسیر میں احادیث بیان کرنے کے ساتھ اس پر نقد و تنقید کا التزام بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تفسیر اس بنا پر دوسری تفاسیر سے فائق تر ہے۔ لہٰذا بغوی کی بیان کردہ حدیث کسی طالب حق کے لیے قابل حجت نہیں ہو سکتی۔ نہی کی حدیث بغوی نے محمد ابراہیم الشامی عن شعیب بن اسحاق عن ہشام بن عروۃ عن ابیہ عن عائشہ روایت کی ہے اور اس روایت کا باطل ہونا ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں۔
علامہ علاء الدین خازن نے اپنی تفسیر میں بلا سند حدیثِ عائشہ بیان کی ہے۔ لہٰذا اسے دلیل و حجت کا معیار کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہاں! ابن جریر، ابن کثیر، بغوی، سیوطی اور خازن جیسے علماء اگر عدم جواز کی حدیث اپنی تفاسیر میں بیان کر کے اس کی صحت پر کلام کرتے تو قابل حجت اور قابل اعتبار ہو سکتی تھی۔ وإذ فلیس!
اگر کوئی یہ کہے کہ علامہ علی قاری نے ’’مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح‘‘ میں حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’قلت: یحتمل أن یکون جائزا للسلف دون الخلف، لفساد النسوان فی ہذا الزمان، ثم رأیت قال بعضہم: خصت بہ حفصۃ لأن نساء النبيﷺ خصصن بأشیاء، قال تعالیٰ: ﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ﴾ وخبر: لا تعلموہن الکتابۃ، یحمل علی عامۃ النساء خوفا للافتنان علیہن‘‘ انتہی۔(مرقاۃ المفاتیح: ۲۸۸۴ْ۷)
’’یہ حدیث سلف کے لیے خلف کے برعکس جواز کا احتمال رکھتی ہے، کیونکہ یہ ہمارے زمانے میں عورتوں کے لیے فتنہ و فساد کا موجب ہے، جبکہ نبی اکرمﷺ کے اس حکم کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص کر کے دلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اور یہ عام عورتوں کی تعلیم کے لیے بہ خوف فتنہ و فساد عدم جواز کے لیے پیش کیا ہے۔‘‘
شیخ عبدالحق دہلوی ’’أشعۃ اللمعات‘‘ شرح فارسی مشکوۃ میں فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث عورتوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے جواز میں ہے۔ دوسری حدیثیں عدم جواز کی بھی آئی ہے۔ چنانچہ آیا ہے کہ خواتین کو لکھنا پڑھنا مت سکھائو اور اس مفہوم کی دیگر احادیث۔ لیکن جواز کی حدیث عدم جواز کی حدیث سے مقدم ہے۔ بعض نے اسے امہات المومنین کے ساتھ مخصوص کر کے ان کی فضیلت ثابت کی ہے اور عدم جواز کی حدیث کو عام عورتوں پر محمول کیا ہے، اس لیے کہ فتنہ و فساد کا اندیشہ ہے، جبکہ ان کی ذات ان تصورات سے بالاتر ہے۔‘‘
ایسا ہی شرح المصابیح از شیخ محمد بن عبداللطیف المعروف بہ ابن ملک میں مذکور ہے۔
میں کہتا ہوں: حیرت ہے، بعض بزرگان نے عجیب طرح کے احتمالات پیدا کر دیے ہیں۔ شارحین مشکوۃ جوازِ تعلیم کو صرف حفصہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ مخصوص ہونا ہرگز ثابت نہیں کر سکتے، بلکہ یہ بات خود کسی محکم دلیل کی محتاج ہے۔ ورنہ ہر آدمی یہ دعویٰ کرنا شروع کر دے گا کہ فلاں حکم فلاں کے ساتھ خاص ہے، ہم اس کے پابند نہیں۔ اس طرح تو اسلام میں تنگ نظری کا راستہ کھل جائے گا۔ اس سے قطع نظریہ حدیثِ شفا قابل حجت ہے اور اس میں کسی قسم کی تخصیص کا کوئی احتمال نہیں ہے۔ اگر حفصہ رضی اللہ عنہا کی تخصیص ہوتی تو پھر شفا رضی اللہ عنہا کتابت کیوں کرتی تھیں اور رسول اللہﷺ نے بجائے اعتراض کرنے کے اجازت کیوں دی؟ یہ کسی قسم کی تخصیص نہ ہونے پر اولین دلیل ہے۔ کسی امر کا سلف کے لیے جائز ہونا اور خلف کے لیے ناجائز ہونا، یہ احتمال ترجیح بلا مرجح ہے۔ بلکہ امت محمدیہ کا ہر فرد حلال و حرام میں برابر کا شریک ہے، سوائے اس کے کہ شارع نے کوئی تخصیص کی ہو۔ رہا تعلیم نسواں سے فتنہ و فساد کا اندیشہ تو یہ احتمال گذشتہ زمانہ میں بھی تھا۔ قرآن کی یہ آیت کریمہ اس بات کی واضح دلیل ہے:
﴿وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلَمْنَا الْمُسْتَاْخِرِیْنَ﴾ (الحجر: ۲۴)
’’یعنی اور تم میں سے آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے بھی ہمارے علم میں ہیں۔‘‘
حاصل کلام یہ ہے کہ عورتوں کو تعلیم کتابت کے سلسلے میں کوئی قباحت و کراہت نہیں۔ بالغ خواتین کی تعلیم صرف خواتین سے یا ان کے محرمات سے ہی دلانا جائز ہے، جبکہ نابالغ لڑکیوں کو کسی سے بھی لکھنے پڑھنے کی تعلیم دلوائی جا سکتی ہے۔ خواتین کی تعلیم فتنہ کا باعث نہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو شارع اس کی اجازت نہ دیتے۔ ﴿وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا﴾ اگر فتنہ واقع بھی ہو تو اس کا تعلق کسی دیگر وجوہ سے ہو گا، نفس تعلیم کتابت سے نہیں۔ واللہ اعلم
علامہ محمد طاہر نے اپنی کتاب ’’مجمع بحار الأنوار‘‘ میں علامہ طیبی سے نقل کیا ہے:
’’ألا تعلمین ہذہ رقیۃ النملۃ کما علمتیہا الکتابۃ و ہذہ إشارۃ إلی حفصۃ، والنملۃ قروح ترقی فتبرأ بإذن اللہ، وقیل: أراد قولا یسمیہا رقیۃ النملۃ، وہي العروس الخ فأراد بہ التعریض بتأدیب حفصۃ حیث أشاعت سرہ، ویاء ’’علمتیہا‘‘ للإشباع، قال: لأن ما ذہبوا إلیہ من رقیۃ خرافات ینہی عنہا، فکیف یأمر بتعلیمھا؟ أقول: یحتمل علی إرادۃ الثانیۃ أن یکون تحضیضا علی تعلیم الرقیۃ وإنکار الکتابۃ، أي ہلا علمتیہا ما ینفعہا من الاجتناب عن عصیان الزوج کما علمتیہا ما یضرہا من الکتابۃ، وعلی الإرادۃ الأولی أن یتوجہ الإنکار علی الجملتین جمیعا، لأن الرقیۃ المتعارفۃ منافیۃ لحال المتوکلین‘‘ انتہی۔
’’تم اسے مرض نملہ کے جھاڑ پھونک کی تعلیم کیوں نہیں دیتی، جیسا کہ تم نے اسے کتابت کی تعلیم دی ہے اس حدیث میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ ہے۔ نملہ ایک طرح کا پھوڑا ہے، جو جھاڑ پھونک کے ذریعے خدا کے حکم سے اچھا ہو جاتا ہے۔ بعض نےکہا ہے کہ رقیۃ النملہ کا معنی دلہن ہے، جس کو آپﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے لیے بطور تعریض فرمایا۔ کیونکہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کا راز فاش کر دیا تھا۔ ’’علمتیہا‘‘ میں ’’یا‘‘ اشباع کی ہے، کیونکہ دوسری حدیثوں میں آپ نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا ہے، پھر کیسے اس کی تعلیم کا حکم دے سکتے ہیں؟ میں کہتا ہوں (آپﷺ کا یہ قول) دوسرے معنی کا بھی احتمال رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ جھاڑ پھونک کی تعلیم سے آپﷺ نے زجرد توبیخ فرمائی ہو اور خط کتابت کی تعلیم سے انکار۔ اس احتمال کی بنیاد پر نبی کریمﷺ کے اس قول کا معنی یہ ہو گا کہ اے شفا بنت عبداللہ تم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو شوہر کی نافرمانی سے بچنے کی تعلیم کیوں نہیں دیتی، جیسا کہ تم نے اس کو کتابت کے نقصان کی تعلیم دی ہے؟ پہلے احتمال کی بنیاد پر دونوں جملہ کی نفی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ مروج جھاڑ پھونک اصحابِ توکل کے حال کے منافی ہے۔‘‘
یہ تاویل قابل قبول نہیں، بلکہ یہ تاویل قلتِ علم، متونِ حدیث سے ناواقفیت اور طریقِ حدیث سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔
حافظ ابن حجر نے ’’اصابہ‘‘ میں لکھا ہے:
’’وأخرج ابن مندۃ حدیث رقیۃ النملۃ من طریق الثوري عن ابن المنکدر عن أبي بکر بن سلیمان بن أبي حثمۃ عن حفصۃ أن أمراۃ من قریش، یقال لہا: الشفاء، کانت ترقي النملۃ، فقال النبيﷺ: علمیہا حفصۃ، وأخرجہ ابن مندۃ وأبو نعیم مطوّلاً من طریق عثمان بن عمرو ابن عثمان بن سلیمان بن أبي حثمۃ عن أبیہ عمرو عن أبیہ عثمان عن الشفاء أنہا کانت ترقی في الجاہلیۃ، وأنہا لما ہاجرت إلی النبيﷺ، وکانت قد بایعہ بمکۃ قبل أن یخرج، فقدمت علیہ، فقالت: یا رسول اللہ، إني قد کنت أرقي برقی في الجاہلیۃ، فقد أردت أن أعرضہا علیک، قال: فأعرضیہا، قالت: فعرضتہا علیہ، وکانت ترقي من النملۃ، فقال: ارقي بہا وعلمیہا حفصۃ‘‘۔ (الإصابۃ في تمییز الصحابۃ: ۷۲۸ْ۷)
’’حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ قریش کی ایک عورت جس کو شفا کہا جاتا تھا، وہ مرض نملہ کا علاج جھاڑ پھونک سے کیا کرتی تھی تو نبی کریمﷺ نے اس سے فرمایا کہ حفصہ کو بھی اس کی تعلیم دو۔ ابو مندہ اور ابو نعیم نے ایک دوسری سند سے ایک طویل روایت نقل کی ہے: الشفاء فرماتی ہیں کہ وہ زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کیا کرتی تھیں۔ ہجرت کر کے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ ہجرت سے قبل مکہ میں نبیﷺ سے بیعت ہوئیں۔ خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کرتی تھی، آپﷺ کو اس کے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔ آپﷺ نے اجازت فرمائی تو انہوں نے مرض نملہ کے جھاڑ پھونک سے متعلق بتایا۔ آپﷺ نے فرمایا: جھاڑ پھونک کرو اور حفصہ کو بھی اس کی تعلیم دو۔‘‘
پس اس روایت سے علامہ طیبی رحمہ اللہ کی تاویل کا باطل ہونا اور تعلیم کتابت نسواں کے جواز کا ثبوت ملتا ہے،