سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58)الأقوال الصحیحة فى أحکام النسیکة

  • 15326
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2705

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

الأقوال الصحیحة فى أحکام النسیکة


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱) یہ فارسی رسالہ کتابی شکل میں مطبع فاروقی دہلی سے ۱۲۹۷ھ میں شائع ہوا تھا۔ یہاں اس کا اردو ترجمہ دیا جا رہا ہے۔ اصل رسالہ اسی مجموعے کے فارسی حصے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ [ع، ش]  

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہی ہیں: جس نے انسان کو اپنی وحدانیت کے اقرار کے زیور سے آراستہ کیا اور اسے اللہ تعالیٰ کے اکیلے معبود برحق ہونے کے اعتراف کے نور سے مزین فرمایا۔ محمدﷺ کی لائی ہوئی روشن شریعت کے پیروکاروں کا یہی کہنا ہے کہ تمام انسانوں کی طاقت اور استطاعت میں یہ بات ہرگز نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی لا محدود اور بے شمار نعمتوں کو گن سکیں۔ بلاشبہ اگر ہم اپنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صرف ایک نعمت کا بھی شکریہ ادا کرتے رہیں تو پوری عمر گزر جانے کے باوجود بھی صرف اس ایک نعمت کا شکریہ بھی صحیح اور مکمل طور پر ادا نہیں ہوسکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے پیش نظر اس دنیا کی حد تک نعمتوں کے دروازوں کو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں کیا، بلکہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں اپنی حکمت سے مومنوں کو بھی نعمتیں دے رہے ہیں اور کافروں اور منافقوں بلکہ ملحدوں تک کو بھی نعمتیں حاصل ہو رہی ہیں، مگر یہ معاملہ صرف دنیا کی حد تک ہی محدود ہے۔ جبکہ ہمیشہ رہنے والی آخرت میں جو انسانی سوچ اور تصور سے بلند اور بالاتر نعمتیں اور کامیابیاں ہیں تو وہ صرف ان ہی لوگوں کے لیے مخصوص ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار پر قائم رہے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں کیا اور ہمارے نبی محمدﷺ کے رسول ہونے پر پورا ایمان رکھا۔ انھیں لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

﴿ وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ﴾  (النساء: ۱۳)

’’ جو کوئی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی فرماں برداری کرے، اسے اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔‘‘

نیز فرمایا:

﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا خٰلِدِيْنَ فِيْہَا لَا يَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا﴾  (الکہف:۱۰۷، ۱۰۸)  

’’ یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے کام بھی اچھے کیے، یقیناً ان کے لیے الفردوس کے باغات کی مہمانی ہے۔ جہاں وہ ہمیشہ رہا کریں گے، جس جگہ کو بدلنے کا کبھی ان کا ارادہ ہی نہ ہوگا۔‘‘

اگر کسی شخص نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک کیا یا کوئی شخص کفر کا شکار ہوگیا تو ایسے شخص کا ٹھکانا دوزخ ہے، جس میں انھیں سوچ اور گمان سے بالاتر نہایت سخت عذاب دیا جائے گا۔ نعوذ باللہ منہ۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں شامل ہیں:

﴿ اِنَّہٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَيْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُ﴾ (المائدۃ: ۷۲)

’’ یقینا جانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘

نیز فرمایا:

﴿ اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا﴾  (النساء: ۱۱۶)

’’ اسے اللہ تعالیٰ قطعاً نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک کیا جائے، ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ اپنے بندوں کے لیے ایسا راستہ بنا دے جس پر چل کر بندے اس عذاب سے بچ سکیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف اپنے رسول بھیجے، تاکہ بندے ہدایت حاصل کرسکیں، صرف خالص ایک اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں، دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ کریں اور کسی بھی ہستی کو اللہ تعالیٰ کے برابر نہ سمجھیں۔ رسولوں کے سلسلے کے سب سے آخری رسول محمدﷺ ہیں۔ ان کی پاکیزہ روح پر اللہ کی رحمت نازل ہو۔ ان کے واسطے ہی سے ہمیں اللہ تعالیٰ کے کلام قرآنِ مجید کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے سارے احکامات پر ایمان لاسکے۔ محمد رسول اللہﷺ ہی کی وجہ سے ہم لوگ کفر اور اسلام میں، شرک و توحید، بدعت و سنت میں اور حرام و حلال میں فرق اور تمیز کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمدﷺ کو ایسا اعلیٰ و ارفع مرتبہ عطا فرمایا، جو ان سے پہلے آنے والے کسی بھی دوسرے نبی اور رسول کو ہرگز حاصل نہ ہوسکا۔ ﴿ ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ﴾(الحدید: ۲۱)

ہم مسلمان اس بات کو اپنے لیے باعثِ فخر و مسرت سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے اوقات کو رسول اکرمﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہوئے گزاریں۔ مگر ہم لوگ کون اور ہمارا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ اللہ رب العزت جو تمام کائنات کے خالق و مالک ہیں، خود بھی اپنے فضل سے اپنے رسول مقدسﷺ پر صلات و سلام بھیجتے ہیں، جیسا کہ فرمایا:

﴿  اِنَّ اللہَ وَمَلٰىِٕكَتَہٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا﴾ (الأحزاب: ۵۶)

’’ یقینا اللہ تعالیٰ اور ان کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو۔‘‘

ہمارے نبی محمدﷺ کے اعلیٰ درجات میں سے ایک درجہ یہ بھی ہے کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو تمام بادشاہوں کا بادشاہ اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں کو جمع فرمائیں گے اور لوگ قیامت کے دن کی سختیوں کے پیش نظر بڑے غم، پریشانی، کرب اور تکلیف کے عالم میں ہوں گے۔ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے کسی نبی سے گزارش کریں کہ وہ نبی اللہ تعالیٰ سے اس بات کی درخواست کریں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے اور بندوں کا حساب شروع کریں اور ہم لوگوں کو اس انتظار کی تکلیف سے نجات مل جائے۔

پھر لوگ آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ اے آدم! آپ ہی تمام انسانوں کے باپ ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، آپ میں اپنی بنائی ہوئی مختلف جانوں میں سے ایک جان کو پھونکا اور اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کے لیے سجدہ کریں، تو آپ اپنے رب کے پاس ہمارے لیے سفارش کردیں کہ اب اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان حساب شروع کریں تو آدم علیہ السلام اپنی غلطی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں۔ مجھے اپنی غلطی کی وجہ سے رب سے حیا آتی ہے۔ تم لوگ نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کہ وہ اللہ کے رسولوں میں سے سب سے پہلے رسول ہیں۔ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس اس عظیم سفارش (شفاعت عظمی) کے لیے جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان حساب شروع کریں۔ نوح علیہ السلام بھی اپنی ایک غلطی کا تذکرہ کرکے معذرت کرلیں گے اور کہیں گے کہ میں اپنے آپ کو اس عظیم ذمے داری کے لائق اور قابل نہیں سمجھتا۔ تم لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنا اعلیٰ ترین اور خاص ترین دوست (خلیل) قرار دیا ہے۔

پھر لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو ابراہیم علیہ السلام بھی اپنی کسی غلطی کا تذکرہ کرکے معذرت کرلیں گے اور کہیں گے کہ میں اپنے آپ کو اس عظیم ذمے داری کے لائق نہیں سمجھتا۔ پھر وہ لوگوں سے کہیں گے کہ تم لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے براہِ راست ان سے کلام کیا اور انھیں تورات عطا کی ہے۔ پھر وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے وہی گزارش کریں گے، تو موسیٰ علیہ السلام بھی ان سے اپنی کسی غلطی کا تذکرہ کرکے معذرت کرلیں گے۔ وہ اپنے رب تعالیٰ سے شرما جائیں گے اور کہیں گے کہ میں اپنے آپ کو اس عظیم ذمے داری کے لائق نہیں سمجھتا، تم لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، جو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی روحوں میں سے ایک روح سے بنائے گئے ہیں اور خاص طور پر اللہ کے لفظ ’’ کن‘‘ سے بنائے گئے ہیں۔ پھر لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، تو عیسیٰ علیہ السلام بھی ان سے کہیں گے میں اپنے آپ کو اس عظیم ذمے داری کے لائق نہیں سمجھتا، تو لوگ محمد ﷺ کے پاس چلے جاؤ، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نہایت ہی خاص ترین بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے ہیں۔

پھر لوگ محمدﷺ کے پاس آئیں گے اور ان پر اپنا مطالبہ پیش کریں گے، تو پھر محمدﷺ اللہ تعالیٰ سے سفارش کی اجازت مانگیں گے۔ جب آپﷺ اللہ کو دیکھیں گے تو سجدے میں چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے کہ اپنا سر اٹھائیں اور جو چاہیں مانگیں، کیونکہ ان کی دعا قبول کی جائے گی۔ رسول اللہﷺ سجدے سے سر اٹھائیں گے اور اللہ کی اس طرح تعریفیں بیان فرمائیں گے، جس طرح اللہ تعالیٰ چاہیں گے۔ پھر رسول اللہﷺ مغفرت اور بخشش کی دعا کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ایک گروہ کو دوزخ کی آگ سے نجات دے کر انھیں جنت میں داخل کردیں گے۔ پھر رسول اللہﷺ دوبارہ اپنے رب کے لیے سجدہ کریں گے اور اپنی حاجتیں اور دعائیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے کہیں گے کہ وہ سجدے سے اپنا سر اٹھائیں اور جو چاہیں مانگیں، ان کی دعا کو قبول کیا جائے گا۔ رسول اکرمﷺ پھر دوبارہ شفاعت کریں گے اور مغفرت کی دعائیں مانگیں گے، تو پھر ایک گروہ کو دوزخ کی آگ سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ یہاں تک کے دوزخ میں صرف وہی لوگ رہ جائیں گے جو بالکل بھی ایمان نہیں لائے تھے اور شرک کرنے والے تھے۔ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۴۲۰۶، صحیح مسلم ، رقم الحدیث ۱۹۳)

 وہ شخص جو رسول اکرمﷺ کی پوری امت سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے تو وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے نہایت عظیم مرتبہ عنایت کیا ہے۔ فرمایا:

(( لو کنت متخذا خلیلا غیر ربي لا تخذت أبابکر خلیلا)) متفق علیہ۔ ( صحیح البخاري، رقم الحدیث ۳۴۵۴، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۲۳۸۲)

’’ اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا۔‘‘

نیز فرمایا:

(( أنت صاحبي في الغار، وصاحبي علی الحوض)) رواہ الترمذي۔(سنن الترمذي، رقم الحدیث ۳۶۷۰، اس کی سند میں ’’ جمیع بن عمیر‘‘ اور ’’ کثیر النواء‘‘ سخت ضعیف ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ للألباني: ۲۹۵۶)

’’ تو میرا ساتھی ہے غار میں اور میرا ساتھی ہے حوض (کوثر) پر۔ اس کی روایت ترمذی نے کی ہے۔‘‘

مزید فرمایا:

(( لا ینبغي لقوم فیھم أبوبکر أن یؤمھم غیرہ )) رواہ الترمذي۔ (سنن الترمذي: رقم الحدیث ۳۶۷۳، اس کی سند میں ’’ عیسیٰ بن میمون‘‘ سخت ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ : ۴۸۲۰)

’’ کسی قوم کے لیے جائز نہیں ہے کہ ان میں ابوبکر موجود ہوں اور ان کی امامت کوئی دوسرا کرے۔ اس کی روایت ترمذی نے کی ہے۔‘‘

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اعلی ترین مقامات میں سے ایک اعلی مقام یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے حبیب محمدﷺ کا سب سے پہلا خلیفہ بنایا۔ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کے بارے میں فرمایا تھا:

’’ أبوبکر سیدنا و خیرنا وأحبنا إلی رسول اللہﷺ‘‘ رواہ الترمذي عن عمر رضي اللہ عنہ۔ (سنن الترمذي، رقم الحدیث ۳۶۵۶)

’’ ابوبکر ہمارے سردار ہیں۔ وہ ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول اللہﷺ کو ہم سب سے زیادہ پیارے ہیں۔ اس کی روایت ترمذی نے عمر رضی اللہ عنہ سے کی ہے۔‘‘

دوسرے خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں، جن کی زبان پر اللہ تعالیٰ نے حق کو جاری کردیا تھا۔ آپﷺ نے ان کے حق میں فرمایا:

(( إن اللہ جعل الحق علی لسان عمر وقلبہ)) رواہ الترمذي۔ (سنن الترمذي، رقم الحدیث ۳۶۸۲)

’’ اللہ نے حق کو عمر کی زبان اور دل پر جاری فرما دیا ہے۔ اس کی روایت ترمذی نے کی ہے۔‘‘

نیز فرمایا:

((إن اللہ وضع الحق علی لسان عمر یقول بہ)) رواہ أبوداود۔ (سنن أبي داود، رقم الحدیث ۲۹۶۲)

’’ اللہ نے حق کو عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر رکھ دیا ہے، جس کے مطابق وہ بولتے ہیں۔ اس کی روایت ابوداود نے کی ہے۔‘‘

نیز مروی ہے:

(( سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: ما طلعت الشمس علی رجل خیر من عمر)) رواہ الترمذي عن جابر۔ (سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۶۸۴) اس کی سند میں ’’ عبداللہ بن داود واسطی‘‘ ضعیف اور اس کا شیخ ’’ عبدالرحمن بن أخ محمد بن المنکدر‘‘ مجہول ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ ۱۳۵۷)

’’ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: سورج عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ کسی بہتر شخص پر طلوع نہیں ہوا۔ اس کی روایت ترمذی نے جابر رضی اللہ عنہ سے کی ہے۔‘‘

ان کے تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں، جن کی عظمت رسول اللہﷺ کی اس حدیث سے ظاہر ہوتی ہے:

’’ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت : کان رسول اللہﷺ مضطجعا في بیتہ، کاشفا عن فخدیہ أو ساقیہ، فاستأذن أبوبکر فأذن لہ، وھو علی تلک الحال، فتحدث، ثم استأذن عمر فأذن لہ، وھو کذلک، فتحدث ، ثم استأذن۔ عثمان، فجلس رسول اللہﷺ وسوّی ثیابہ ، فدحل فتحدث، فلما خرج، قالت عائشۃ دخل أبوبکر فلم تھتتس لہ ولم تبالہ، ثم دخل عمر فلم … لہ ولم تبالہ، ثم دخل عثمان فجلست وسویت ثیابک؟ فقال: ألا أستحي من رجل تستحي منہ الملائکۃ۔‘‘ رواہ مسلم (صحیح مسلم، رقم الحدیث ۲۴۰۱)

’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اپنی دونوں رانوں یا پنڈلیوں کو کھولے ہوئے اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی، تو آپ نے انھیں اسی حالت میں اجازت دے دی، پھر انہوں نے آپ سے بات چیت کی، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی، آپ نے انھیں بھی اجازت دی اور آپﷺ ویسے ہی رہے، پھر انھوں نے بھی آپﷺ سے بات چیت کی، پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو رسول اللہﷺ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے کو درست فرمالیا۔ پھر وہ اندر آئے اور آپﷺ سے کچھ بات چیت کی۔ پھر جب وہ باہر نکل گئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے ان ان کے لیے اتنی فکر نہ کی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو آپﷺ نے ان کے لیے بھی اتنی فکر نہ کی، پھر عثمان رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو آپﷺ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور آپﷺ نے اپنے کپڑے درست فرما لیے؟ آپﷺ نے فرمایا: کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں، جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں؟ اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔‘‘

نیز فرمایا:

’’ قال رسول اللہﷺ : إن عثمان رجل حیي، وإني خشیت إن أذنت لہ علی تلک الحال أن لا یبلغ إليّ حاجتہ ‘‘ رواہ مسلم۔ ( صحیح مسلم، رقم الحدیث ۲۴۰۲)

’’ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک عثمان رضی اللہ عنہ ایک شرمیلا شخص ہے اور مجھے خدشہ ہوا کہ اگر میں نے اسے اسی حالت میں آنے کی اجازت دی تو وہ مجھ تک اپنی ضرورت نہیں پہنچا سکے گا۔ اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔‘‘

’’ وعن أبي موسی الأشعري قال : کنت مع النبيﷺ في حائط من حیطان المدینۃ فجاء رجل فاستفتح، فقال النبي ﷺ : افتح لہ، وبشرہ بالجنۃ، ففتحت لہ، فإذا أبوبکر فبشرتہ بما قال رسول اللہﷺ ، فحمد اللہ، ثم جاء رجل فاستفتح، فقال النبيﷺ : افتح لہ وبشرہ بالجنۃ، ففتحت لہ فإذا عمر، فأخبرتہ بما قال النبيﷺ فحمد اللہ، ثم استفتح رجل، فقال لي: افتح لہ، وبشرہ بالجنۃ علی بلویٰ تصیبہ، فإذا عثمان فأخبرتہ بما قال النبيﷺ فحمد اللہ، ثم قال: اللہ المستعان‘‘ متفق علیہ۔ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۳۴۹۰، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۲۴۰۳)

’’ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبیﷺ کے ساتھ مدینے کے باغات میں سے ایک باغ میں تھا کہ اچانک ایک شخص آیا اور اس نے دروازے پر دستک دی، تو نبیﷺ نے فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اُسے جنت کی بشارت دے دو۔ چنانچہ میں نے اس کے لیے دروازہ کھول دیا تو وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے انھیں وہ بشارت دے دی جو رسول اللہﷺ نے فرمائی تھی۔ انھوں نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے دروازہ کھلوایا، تو رسول اکرمﷺ نے فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی بشارت دے دو۔ میں نے ان کے لیے دروازہ کھول دیا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے انھیں وہی بات بتائی جو رسول اکرمﷺ نے فرمائی تھی۔ انھوں نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھلوایا اور رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی بشارت دے دو، ساتھ ساتھ ایک مصیبت کی بھی اسے خبر دے دو جو اسے پہنچے گی۔ میں نے جب دروازہ کھولا تو وہ عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے انھیں وہ بات بتائی جو نبیﷺ نے فرمائی تھی۔ انھوں نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا، پھر فرمایا: اللہ مددگار ہے۔‘‘

رسول اکرمﷺ کے چوتھے خلیفہ علی رضی اللہ عنہ ہیں، جنھیں رسول اکرمﷺ نے جنت کی خوش خبری دی ہے اور احادیث کی کتابیں ان کے فضائل اور مناقب سے بھری پڑی ہیں۔

رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا:

(( من سب علیّا فقد سبني)) رواہ أحمد۔ (مسند أحمد ۶؍ ۳۲۳)

’’ جس نے علی رضی اللہ عنہ کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔ اس کی روایت احمد نے کی ہے۔‘‘

’’ قال علي رضی اللہ عنہ: والذي فلق الحبۃ وبرأ النسمۃ أنہ لعھد النبي الأمي ﷺ إلي أن لا یحبني إلا مؤمن، ولا یبغضني إلا منافق۔‘‘ رواہ مسلم، کذا في المشکاۃ ۔ ( صحیح مسلم، رقم الحدیث ۷۸، مشکاۃ المصابیح ۳؍ ۳۲۷)

’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور روح کو پیدا فرمایا، نبی امیﷺ نے مجھ سے یہ عہد فرمایا کہ مجھ سے صرف وہی محبت کرے گا جو مومن ہوگا اور وہی مجھ سے بغض رکھے گا جو منافق ہوگا۔ اس کی روایت مسلم نے کی ہے اور ایسا ہی مشکات میں ہے۔‘‘ 

محمد رسول اللہﷺ کے خاندان میں جتنے بھی اہل ایمان تھے اور باقی عشرہ مبشرہ تھے، ان پر بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمتیں کرے اور نبیﷺ کے تمام صحابہ پر اللہ کی رحمتیں ہوں، جو محمدﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے ستونوں کی مانند تھے، جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کیا اور قربانیاں پیش کیں، سارے ہی صحابہ کو اللہ کی رضا حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ دین کے ان تمام اماموں پربھی رحمتیں نازل فرمائے جنھوں نے دین کو پھیلانے میں بہت زیادہ محنتیں اور کوششیں کیں۔

اس کے بعد اللہ کی رحمت کا فقیر اور محتاج بندہ، جس کی کنیت ابو الطیب اور جسے شمس الحق عظیم آبادی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اللہ اس کی بخشش فرمائیں۔ وہ عرض کرتا ہے کہ پچھلے زمانے، جن کے بارے میں خیر کی گواہیاں دی گئی تھیں، وہ گزر چکے ہیں اور علمائے حق جو صحیح معنوں میں نبیوں کے وارث تھے، وہ اپنے رب کی رحمت سے جاملے ہیں اور آج کل معاشرہ ایسا بن چکا ہے، جس میں فسق و فجور بہت زیادہ ہے اور بہت زیادہ لوگ شرک، کفر اور حرام کاموں کا شکار ہیں۔

مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ شرکیہ کاموں کو عبادتیں سمجھ کر کر رہے ہیں یا ان شرکیہ کاموں کو بھی اپنی نجات کا ذریعہ سمجھے ہوئے ہیں۔ یہ صرف جاہل اور دین سے ناواقف لوگوں ہی کی حالت نہیں ہے، بلکہ بہت سے وہ لوگ بھی جو اپنے آپ کو علم دین کے زیور سے آراستہ سمجھتے ہیں، انھوں نے بھی ان شرکیہ، کفریہ، گمراہ کن کاموں، بدعات و خرافات اور من گھڑت باتوں کو اپنا دین اور مسلک سمجھ کر اختیار کر رکھا ہے۔ دینی علم کے ان جھوٹے دعویداروں میں سے کچھ نے تو نبیوں اور ولیوں کے نام پر جانوروں کو قربان کرنا اور ذبح کرنا جائز قرار دے دیا اور علم کے کچھ جھوٹے دعویداروں نے تعزیہ داری کی محافل کو جائز اور پسندیدہ قرار دیا۔ کچھ نے ڈاڑھی کے مونڈنے کو جائز قرار دے دیا اور کچھ نا سمجھوں نے میلاد نبوی کی محفلوں میں ہونے والے ڈھول تاشے، گانے بجانے اور قوالیوں کو ذکر و اذکار کا حصہ قرار دے دیا۔ کچھ نے بزرگوں کو حاجت روا سمجھ لیا اور کچھ گمراہوں نے نیک، متقی اور پارسا لوگوں کے مرنے پر ان کے نام کی محفلیں اور سالانہ عرس منانے شروع کردیے، حالانکہ عرس کی تقریبات کے نام پر کھلم کھلا شرکیہ اور کفریہ کام کیے جا رہے ہوتے ہیں اور بدعتوں اور حرام کاموں کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔

پھر کچھ نے اپنے اوپر چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کو واجب، لازمی اورر فرض قرار دے لیا ہے۔ اگر تقلید کرنے والے کے سامنے ان کے امام کے قول کے خلاف کوئی صحیح حدیث بھی پیش کردی جائے تو وہ شخص رسول معصومﷺ کی حدیث پر عمل نہیں کرے گا، بلکہ امام کے قول کے مقابلے پر حدیث کو رد کردے گا یا پھر حدیثِ رسولﷺ کی آڑی ترچھی تاویلات اور تشریحات پیش کرکے حدیث کے مطلب کو اپنے امام کے قول کے مطابق بنائے گا۔

اسی طرح کی اور بھی بہت سی شرکیہ، بدعتی اور حرام کاموں کی غلطیاں ہیں، جن کا عام لوگوں کے ساتھ تصوف پر یقین رکھنے والے صوفی بھی شکار ہوچکے ہیں اور بہت سے عالم کہلانے والے اور عالم سمجھے جانے والے بھی ان غلطیوں سے محفوظ نہیں رہے۔ حق سے غفلت برتنے والے ایسے نام نہاد عالموں اور لا دین صوفیوں پر حیرانی ہے کہ انھیں اہل علم اور نیک لوگوں میں سے سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان لوگوں نے اللہ کی کتاب اور رسول اکرمﷺ کی احادیث کے خلاف اپنا مسلک بنایا ہوا ہے۔ ایسے لوگ مندرجہ ذیل آیت میں شامل ہیں:

﴿ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا﴾  (الأحزاب:۳۶)  

’’ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔‘‘

ان لوگوں کو اتنی سی بات بھی معلوم نہیں ہے کہ پوری امت میں کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ رسول اللہﷺ کی جان بوجھ کر مخالفت اور نافرمانی کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

﴿ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ كَجَــہْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ﴾  (الحجرات: ۲)

’’ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو، جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘

جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں محض اپنی آواز کو بھی رسول اللہﷺ کی آواز سے اونچا کرنے سے منع فرما دیا، تو پھر ان ظالموں کے لیے یہ بات کہاں سے جائز ہوگئی کہ وہ محمد رسول اللہﷺ کی حدیث اور بات کو مرجوح (کمتر) اور ان کی امت کے ایک فرد کی بات کو راجح (زیادہ بہتر) قرار دے دیں؟! حالانکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ﴾ (الأحزاب: ۲۱)  

’’ یقینا تمھارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے۔‘‘

تو جاہل اور نا سمجھ لوگ ایسی آیت کو قصص و واقعات جیسی کوئی چیز سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں، جیسا کہ آج کل ہم نے سنا کہ اس زمانے کے کچھ لوگ بچے کی طرف سے جو عقیقہ کیا جاتا ہے، اسے مکروہ اور ناپسندیدہ سمجھتے ہیں اور اس کے کرنے والے کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حالانکہ بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا خود رسول اللہﷺ کی سنت ہے، جس پر علمائے مجتہدین نے بھی عمل کیا ہے، لیکن جاہل لوگ اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں بچوں کا عقیقہ کرنے کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا، بلکہ یہ عقیقے کا عمل اہل سنت کے ان علما کی اختراع اور ایجاد ہے جو کسی بھی امام کی تقلید کے قائل نہیں ہیں۔ مجھے ان لوگوں کی بات پر حیرانی ہوئی کہ یہ لوگ کس طرح عقیقے کی سنت کا انکار کررہے ہیں، جب کہ وہ ایسی صحیح احادیث سے ثابت ہے، جو منسوخ بھی نہیں ہیں اور چاروں اماموں کے اقوال بھی عقیقے کی سنیت کی تائید میں کثرت سے موجود ہیں۔ اگر ہم بالفرض یہ بات مان بھی لیں کہ کچھ مجتہد اماموں نے عقیقے کی سنت کو مکروہ یا ناپسندیدہ سمجھا ہے اور دوسری طرف رسول اللہﷺ کی صحیح احادیث سے عقیقے کا سنت اور مستحب ہونا ثابت ہے تو ایسی صورت میں بھی پوری امت کا فرض تھا کہ وہ رسول اکرمﷺ کی احادیث کو مضبوطی سے تھام لیں اور امام کے قول کو چھوڑ دیں، کیونکہ یہی بات چاروں اماموں کی وصیت اور نصیحت ہے کہ تم لوگوں کو جو بھی صحیح حدیث مل جائے تو اسی پر عمل کرو، کیونکہ جو بات صحیح حدیث سے ثابت ہوگئی، وہی ہمارا مذہب ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر کسی بھی امام کا قول حدیث کے خلاف ہے تو امام کے قول کو چھوڑ کر حدیث ہی کی بات کو لینا چاہیے، مگر ان مقلدوں کی حالت پر حیرانی اور افسوس ہے، جو اپنے ہی اماموں کے اس قول کی تو پابندی نہیں کر رہے کہ جو بھی صحیح حدیث ہے وہی ہمارا مذہب ہے، جبکہ یہی مقلدین اپنے اماموں کے دیگر اقوال کی پابندی کر رہے ہیں، اگرچہ وہ اقوال صحیح احادیث کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔

میں کہتا ہوں کہ صحیح ترین قول اور روایت کے مطابق بچے کی پیدائش پر عقیقہ کرنا امام ابوحنیفہ کے نزدیک بھی سنت اور مستحب ہی ہے۔ اگر بالفرض یہ بات مان بھی لی جائے کہ عقیقے کا مستحب اور سنت ہونا امام ابوحنیفہ کے قول سے ثابت نہیں ہے، تب بھی اس کا ہمارے موضوع پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا، کیونکہ عقیقہ کرنا خود رسول اکرمﷺ کی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ لہٰذا جب عقیقہ رسول اللہﷺ کی صحیح احادیث سے ثابت ہوگیا تو پھر یہی بات امام ابوحنیفہ کے مذہب کا بھی حصہ ہوئی، کیونکہ امام ابوحنیفہ نے خود ہی فرمایا تھا کہ جو بھی صحیح حدیث ہے، وہی میرا مذہب ہے۔

شیخ عبدالوہاب شعرانی ’’ میزان کبری‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ قد تقدم قول الأئمۃ کلھم: إذا صح الحدیث فھو مذبھنا، ولیس لأحد معہ قیاس ولا حجۃ إلا طاعۃ اللہ ورسولہ بالتسلیم لہ۔‘‘ انتھی (دیکھیں: أصل صفۃ صلاۃ النبيﷺ للعلامۃ الألباني رحمہ اللہ ۱؍ ۲۴)

’’ تمام ائمہ کا یہ قول گزر چکا ہے کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی ہمارا مذہب ہے اور کسی کے لیے صحیح حدیث کے ہوتے ہوئے کوئی قیاس یا حجت بازی کرنی جائز نہیں، سوائے اس کے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں سر تسلیم خم کردے۔ ختم شد۔‘‘

علامہ محمد معین رحمہ اللہ ’’ دراسات اللبیب‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ کان الإمام أبوحنیفۃ رحمہ اللہ تعالی یقول : حرام علی من لم یعلم دلیلي أن یفتي بکلامي، وھذا الکلام من أبي حنیفۃ رحمہ اللہ ثابت بالسند المسلسل، وکان أبو حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی إذا أفتی یقول : ھذا رأي أبي حنیفۃ، وھو أحسن ما قدرنا علیہ، فمن جآء بأحسن منہ فھو أولی بالصواب۔‘‘ انتھی (الانتقاء لابن عبدالبر ص: ۱۴۵)، ( تاریخ بغداد ۱۳؍ ۳۵۲)

’’ امام ابوحنیفہ فرمایا کرتے تھے کہ جس شخص کو میری دلیل کا پتا نہ ہو، اس پر حرام ہے کہ وہ میرے کلام سے فتوی دے۔ امام ابوحنیفہ کا یہ کلام مسلسل سند سے ثابت ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جب فتوی دیا کرتے تھے تو کہا کرتے تھے کہ یہ ابوحنیفہ کی رائے ہے اور یہ ہماری قدرت کے مطابق سب سے بہترین رائے ہے۔ اگر کوئی اس سے اچھی رائے لے آئے تو وہ صحیح قرار دیے جانے کی زیادہ حق دار ہے۔ ختم شد۔‘‘

نیز شیخ ابو علی حسین بن یحییٰ البخاری الزندوستی ’’ روضۃ العلماء‘‘ میں شیخ برہان الدین مرغینانی سے اسی طرح کی بات نقل کرتے ہیں، جیسا کہ علامہ محمد معین نے دراسات میں فرمایا ہے:

’’ وقول صاحب الھدایۃ في روضۃ العلماء الزندوستیۃ في فضل الصحابۃ رضی اللہ عنھم: سئل أبو حنیفۃ رحمہ اللہ: إذا قلت قولا وکتاب اللہ  یخالفہ؟ قال : اترکوا قولي بکتاب اللہ تعالی، قیل: إذا کان خبر الرسول یخالفہ؟ قال : اترکوا قولي بخبر رسول اللہﷺ ، فقیل إذا کان قول الصحابۃ یخالفہ؟ قال : اترکوا قولي بقول الصحابۃ رضی اللہ عنھم وفي الإمتاع: روی البیھقي في السنن عند الکلام علی القراءۃ بسندہ: قال الشافعي رحمہ اللہ: إذا قلت قولا وکان عن النبيﷺ خلاف قولي فما یصح من حدیث رسول اللہﷺ أولی، فلا تقلدوني، ونقل إمام الحرمین في النھایۃ عن الشافعي رحمہ اللہ: إذا صح خبر یخالف مذھبي فاتبعوہ، واعلموا أنہ مذھبي، وقد صح في منصوصاتہ أنہ قال : إذا بلغکم عني حدیث، وصح عندکم خبر علی مخالفتہ فالعموا أن مذھبي موجب الخبر، روی الخطیب بإسنادہ أن الدارکي من الشافعیۃ کان یستفتي و ربما یفتي بغیر مذھب الشافعي وأبي حنیفۃ، فیقال لہ: ھذا یخالف قولیھما، فیقول: ویلکم حدث فلان عن فلان عن النبيﷺ بکذا، فالأخذ بالحدیث أولی من الأخذ بقولھما إذا خالفاہ‘‘ کذافي دراسات اللبیب۔  (دیکھیں: عفد الجید للشاہ ولي اللہ الدھلوي ص: ۲۲)

’’ روضۃ العلماء میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں صاحب ہدایہ کا قول موجود ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ ایک بات کہیں اور کتاب اللہ اس کے مخالف ہو؟ تو فرمایا: میری بات کو کتاب اللہ کے مقابلے میں چھوڑ دو۔ کہا گیا: اگر رسول اللہﷺ کی حدیث اس کے مخالف ہو؟ تو فرمایا: اگر میری بات حدیث کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ دو۔ پھر پوچھا گیا کہ اگر آپ کی بات اقوالِ صحابہ کے خلاف ہو؟ تو فرمایا: صحابہ رضی اللہ عنہم کے قول کے بھی مخالف ہو تو اسے چھوڑ دو۔

’’ امتاع میں ہے کہ امام بیہقی نے اپنی سنن میں قراءت پر کلام کرتے ہوئے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: اگر میں ایک بات کہوں اور رسول اللہﷺ کا فرمان میرے قول کے خلاف ہو تو رسول اللہﷺ کی صحیح حدیث میرے قول سے زیادہ اتباع کی حق دار ہے، چنانچہ میری تقلید نہ کرو۔

’’ امام الحرمین نے نہایہ میں امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ جب صحیح حدیث میرے مذہب کے مخالف ہو تو اسی کی پیروی کرو اور یہ جان لو کہ وہی میرا مذہب ہے۔ نیز امام شافعی کی تصریحات میں صحیح طور پر یہ بات ثابت ہے کہ جب تم تک میری طرف سے کوئی بات پہنچے اور تمھارے پاس صحیح حدیث اس کے مخالف موجود ہو تو جان لو کہ میرا مذہب اسی بات کے مطابق ہے جو صحیح حدیث سے ثابت ہے۔

’’ خطیب نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ ایک شافعی عالم دار کی مذہب شافعی و ابی حنیفہ کے بغیر بھی فتویٰ لیتے بھی تھے اور دیتے بھی تھے۔ جب ان سے کہا جاتا کہ آپ کا یہ فتویٰ دونوں اماموں کے قول کے مخالف ہے تو فرماتے: تم پر افسوس ہے، مجھ سے فلاں شخص نے فلاں شخص سے بیان کیا، اس نے نبیﷺ سے اس طرح بیان کیا۔ چنانچہ حدیث کو لے لینا دونوں اماموں کے قول کو لینے سے زیادہ بہتر ہے، جب وہ حدیث کے خلاف ہو۔ ’’ دراسات اللبیب‘‘ میں ایسا ہی ہے۔‘‘

علامہ ابن عابدین ’’ ردالمحتار حاشیۃ الدرالمختار‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ نقلہ العلامۃ بیری في أول شرحہ علی الأشباہ عن شرح الھدایۃ لابن الشحۃ، ونصہ: إذا صح الحدیث وکان علی خلاف المذھب عمل بالحدیث، ویکون ذلک مذھبہ، ولا یخرج مقلدہ عن کونہ حنفیا بالعمل بہ، فقد صح عنہ أنہ قال : إذا صح الحدیث فھو مذھبي، حکی ذلک ابن عبدالبر عن أبي حنیفۃ وغیرہ من الأئمۃ، ونقلہ أیضا الإمام الشعراني عن الأئمۃ الأربعۃ۔‘‘ انتھی (حاشیۃ ابن عابدین ۱؍۶۳، مجموعۃ رسائل ابن عابدین ۱؍ ۴)

’’ علامہ بیری نے اپنی شرح علی الاشباہ میں ابن شحنہ کی شرح ہدایہ سے نقل کیا ہے، جس کا مضمون یہ ہے کہ جب صحیح حدیث مل جائے اور وہ مذہب کے خلاف ہو تو حدیث پر عمل کیا جائے گا اور یہی اس کا مذہب ہوگا۔ کوئی حنفی حدیث پر عمل کرنے کی وجہ سے امام ابوحنیفہ کی تقلید سے باہر نہیںہوگا، کیوں کہ خود امام صاحب سے صحیح طور پر یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔ اس بات کو امام ابن عبدالبر نے امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ سے نقل کیا ہے۔ اسے امام شعرانی نے بھی چاروں ائمہ سے نقل کیا ہے۔ ختم شد۔‘‘

رئیس المحدثین شیخ ولی اللہ الدہلوی نے ’’ حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں فرمایا ہے:

’’ في الیواقیت والجواھر أنہ روي عن أبي حنیفۃ رضی اللہ أنہ کان یقول: حرام لمن لم یعرف دلیلي أن یفتي بکلامي، وکان رضی اللہ إذا یفتي یقول : ھذا رأي النعمان بن ثابت، یعني نفسہ، وھو أحسن ما قدرنا علیہ، فمن جآء بأحسن منہ فھو أولی بالصواب، وکان الإمام مالک رضی اللہ عنہ یقول: ما من أحد إلا وھو مأخوذ من کلامہ ومردود علیہ إلا رسول اللہﷺ۔ وروی الحاکم والبیھقي عن الشافعي رضی اللہ عنہ أنہ کان یقول: إذا صح الحدیث فھو مذھبي۔ وفي روایۃ: إذا رأیتم کلامي یخالف الحدیث فاعملوا بالحدیث، واضربوا بکلامي الحائط، وقال یوما للمزني: یا إبراھیم لا تقلدني في کل ما أول، وانظر في ذلک لنفسک، فإنہ دین، وکان رضی اللہ عنہ یقول: لا حجۃ في قول أحد دون رسول اللہﷺ وإن کثروا، ولا في قیاس ولا في شيء، وما ثم إلا طاعۃ اللہ ورسولہ بالتسلیم، وکان الإمام أحمد یقول: لیس لأحد مع اللہ ورسولہ کلام۔ وقال أیضاً لرجل: لا تقلدني ولا تقلدن مالکا ولا الأوزاعي والنخعي ولا غیرھم، وخذ الأحکام من حیث أخذوا من الکتاب السنۃ۔‘‘ انتھی (حجۃ اللہ البالغۃ ۱؍ ۳۳۱)

’’ الیواقیت والجواہر میں ہے کہ امام ابوحنیفہ سے مروی ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے: جس شخص کو میری دلیل معلوم نہ ہو، اس پر میرے کلام سے فتویٰ دینا حرام ہے۔ آپ جب فتویٰ دیتے تو کہا کرتے تھے کہ یہ نعمان بن ثابت کی ذاتی رائے ہے اور یہ ہماری طاقت کے مطابق سب سے اچھی رائے ہے۔ اگر کوئی اس سے اچھی رائے لے آئے تو وہ صحیح قرار دیے جانے کی زیادہ حق دار ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ہر شخص کی بات قبول بھی کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، سوائے رسول اللہﷺ کے فرمان کے۔ امام حاکم اور امام بیہقی رحمہما اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔ ان کی ایک روایت میںہے کہ جب تم دیکھو کہ میرا کلام رسول اللہﷺ کی حدیث کے مخالف ہے تو حدیث پر عمل کرو اور میرے کلام کو دیوارپر مار دو۔ ایک دن امام شافعی نے ابراہیم مزنی سے فرمایا: اے ابراہیم! ہر بات میں میری تقلید نہ کیا کرو اور از خود بھی غور و فکر کرلیا کرو، کیونکہ یہ دین کا معاملہ ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ کے مقابلے میں کسی کی بات حجت نہیں، خواہ یہ بات کہنے والے کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں اور نہ کسی قیاس یا کسی اور شے کی کوئی حیثیت ہے، یہاں تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں سر تسلیم خم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ امام احمد فرمایا کرتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں کسی کے کلام کی کوئی حیثیت نہیں۔ آپ نے ایک دفعہ ایک شخص سے فرمایا: میری تقلید کر نہ مالک کی نہ شافعی کی نہ نخعی کی اور نہ کسی اور کی، احکام وہیں سے لو جہاں سے انھوں نے یعنی قرآن و حدیث سے لیے ہیں۔‘‘

ان روایات سے ثابت ہوا کہ اگر امام کا قول نبی مکرمﷺ کے کلام کے خلاف ہو تو حدیث پر عمل ہوگا اور اسی کو امام کا مذہب سمجھا جائے گا۔ اس لیے کہ ائمہ اربعہ نے کہا ہے کہ جب بھی صحیح حدیث آجائے، وہی ہمارا مذہب ہے۔ مگر مقلدین پر تعجب ہے کہ امام کے اس قول کی تقلید نہیں کرتے اور حدیث کے خلاف اس کے قول پر عمل کرتے ہیں۔

پس میں کہتا ہوں کہ عقیقے کا عمل امام ابوحنیفہ کے نزدیک صحیح قول کے مطابق مستحب ہے۔ بالفرض اگر اس کا استحباب ان سے نہ بھی ثابت ہو، تب بھی مسئلے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ بہت سی صحیح احادیث سے اس کا استحباب ثابت ہے، نیز امام صاحب کے فرمان ’’ إذا صح الحدیث فھو مذھبي‘‘ کے مطابق ان کا بھی یہی مذہب ٹھہرے گا۔

میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلے میں ایک رسالہ تحریر کروں اور نبیﷺ کی احادیث و مجتہدین کے اقوال سے دلائل دوں، تاکہ حق و باطل میں تمیز ہوسکے۔ اس رسالے میں ہم نے احادیثِ رسولﷺ اور اقوالِ ائمہ سے عقیقے کا ثبوت پیش کیا ہے، تاکہ حق اور باطل میں امتیاز ہوسکے۔ اس وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی نہ مانے تو وہ اس آیت کا مصداق ہوگا: 

﴿ وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا﴾  (النساء: ۱۱۵)

’’ جو کوئی حق واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مومنوں کی راہ سے ہٹ کر چلے گا اسے ہم وہ کرنے دیں گے جو وہ کرے گا، پھر جہنم میں داخل کریں گے جو بہت برا ٹھکانہ ہوگا۔‘‘

اس رسالے کا نام ہم نے ’’ الأقوال الصحیحۃ في أحکام النسیکۃ‘‘ رکھا ہے۔ وما توفیقي إلا باللہ علیہ التوکل وبہ الاعتصام۔

جان لو! اللہ تمھیں خوش رکھے کہ عقیقے میں عین بغیر نقطے کے زبر کے ساتھ ہے۔ یہ لغت میں بچے کے ان بالوں کو کہتے ہیں، جو ولادت کے وقت اس کے سر پر ہوتے ہیں اور شرعی لحاظ سے اس ذبیحے کو کہتے ہیں، جو بچے کے بال مونڈتے وقت ذبح کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے ذبیحے کو چیرا پھاڑا اور کاٹا جاتا ہے اور بالوں کو مونڈ ا جاتا ہے۔

چنانچہ علامہ احمد خطیب قسطلانی ’’ إرشاد الساري شرح صحیح البخاري‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ العقیقۃ بفتح العین المھملۃ، وھي لغۃ: الشعر الذي علی رأس الولد حین ولادتہ، وشرعاً : ما یذبح عند حلق شعرہ، لأن مذبوحہ یعق أي یشق ویقطع، ولأن الشعر یحلق۔‘‘ انتھی (إرشاد الساري للقسلطلاني (۸؍ ۲۵۰)

’’ عقیقے میں عین بغیر نقطے کے زبر کے ساتھ ہے۔ لغت میں یہ بچے کے ان بالوں کو کہتے ہیں جو ولادت کے وقت اس کے سر پر ہوتے ہیں اور شرعی لحاظ سے اس ذبیحے کو کہتے ہیں جو بچے کے بال مونڈتے وقت ذبح کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے ذبیحے کو چیرا پھاڑا اور کاٹا جاتا ہے اور بالوں کو مونڈا جاتا ہے۔‘‘

علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی شرح موطا امام مالک میں تحریر فرماتے ہیں:

’’ العقیقۃ بفتح العین المھملۃ، وأصلھا کما قال الإصمعي وغیرہ: الشعر الذي یکون علی رأس الصبي حین یولد، وسمیت الشاۃ التي تذبح عنہ عقیقۃ لأنہ یحلق عنہ لک الشعر عند الذبح۔‘‘ انتھی (شرح الزرقاني علی موطأ الإمام مالک ۳؍ ۱۲۷)

’’ عقیقہ بغیر نقطے کے عین کے زبر کے ساتھ ہے۔ اس کا اصل معنی جیسا کہ علامہ اصمعی وغیرہ نے فرمایا ہے، یہ ہے کہ وہ بال جو بچے کے سر پر اس کی ولادت کے وقت ہوتے ہیں۔ اس بکری کو بھی جو اس کی طرف سے ذبح کی جاتی ہے، عقیقہ کہتے ہیں، اس لیے کہ اس کے بالوں کو ذبح کے وقت مونڈ دیا جاتا ہے۔ ختم شد۔‘‘ 

اسے ’’ نسیکہ‘‘ اور ’’ ذبیحہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ جاہلیت میں عربوں کے یہاں بھی عقیقے کا رواج تھا، اسے وہ بہت ضروری خیال کرتے تھے۔ چونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں، اس لیے رسول اللہﷺ نے بھی اسے اسلام میں برقرار رکھا، خود بھی اس پر عمل کیا اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین بھی ہمیشہ اس پر عمل پیرا رہے۔ عقیقے کے متعلق بہت سی حدیثیں امام محمد بن اسمٰعیل بخاری نے اپنی صحیح میں، امام ابو عیسیٰ ترمذی نے اپنی جامع میں، ابوداود، دارمی اور نسائی نے اپنی سنن میں، امام مالک نے اپنی موطا میں اور دوسرے بہت سے محدثین عظام نے اپنی کتب میں روایت کی ہیں، جن میں سے یہاں بعض کا ذکر کیا جاتا ہے۔

۱’’ عن سلمان بن عامر الضبي قال : سمعت رسول اللہﷺ یقول : مع الغلام عقیقۃ، فأھریقوا عنہ دما، وأمیطوا عنہ الأذی‘‘ رواہ البخاري وأبوداود والترمذي والدارمي والنسائي۔ (صحیح البخاري ۵۱۵۴، سنن أبي داود ۲۸۳۹، سنن الترمذي ۱۵۱۵، سنن الدارمي ۲؍ ۱۱۱، سنن النسائي ۴۲۱۴)

’’سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے موقع پر عقیقہ کرنا چاہیے، پس تم لوگ اس کی طرف سے خون بہا دیا کرو اور اس کے بال ہٹا کر اس پر سے گندگی دور کردیا کرو۔‘‘ 

یعنی تم لوگ اس پر سے وہ گندگی دور کردیا کرو، جو پیدایش کے وقت اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ کذافي أشعۃ اللمعات للشیخ عبدالحق۔ ( أشعۃ اللمعات ۳؍ ۵۱۰)

۲) ’’ عن حبیب بن الشھید قال : أمرني ابن سیرین أن أسأل الحسن ممن سمع حدیث العقیقۃ، فسألتہ، فقال : من سمرۃ بن جندب‘‘ رواہ البخاری والنسائي۔ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۵۱۵۵، سنن النسائي الکبریٰ ۵؍ ۲۰۸۴)

’’ حبیب بن شہید کہتے ہیں کہ مجھے ابن سیرین نے حکم دیا کہ حسن سے دریافت کروں کہ انھوں نے عقیقے کی حدیث کس سے سنی ہے؟ میں نے ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا: سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔‘‘

۳) ’’ مالک عن نافع أن عبداللہ بن عمر لم یکن یسألہ أحد من أھلہ عقیقۃ إلا أعطاہ إیاھا، وکان یعق عن ولدہ بشاۃ شاۃ عن الذکور والإناث‘‘ رواہ مالک في الموطأ۔ (موطأ الإمام مالک ۲؍ ۵۰۱)

’’ نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر سے ان کے گھر میں کوئی عقیقے کا جانور مانگتا تو اسے عقیقے کا جانور دے دیتے۔ وہ اپنی اولاد، خواہ لڑکا ہو یا لڑکی، کی طرف سے ایک ایک بکری ذبح کیا کرتے تھے۔ مالک نے موطا میں روایت کی ہے۔‘‘

۴) ’’ مالک عن ھشام بن عروۃ أن أباہ عروۃ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کان یعق عن بیتہ الذکور والإناث بشاۃ شاۃ۔‘‘ (مؤطا الإمام مالک ۲؍ ۵۰۱)

’’ ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ ان کے والد عروہ بن زبیر اپنے بیٹے اور بیٹی کی طرف سے ایک ایک بکری عقیقے میں ذبح کرتے تھے۔‘‘ 

۵) ’’ عن سمرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ : الغلام مرتھن بعقیقتہ، یذبح عنہ یوم السابع، ویسمی، ویحلق رأسہ‘‘ رواہ الترمذي والدارمي وأبوداود۔ ( سنن أبي داود ۲۸۳۷، سنن الترمذي ۱۵۲۲، سنن النسائي، رقم الحدیث ۴۲۲۵، مسند أحمد ۵؍ ۱۲)

’’ سمرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مولود اپنے عقیقے تک رہن رکھا ہوا ہوتا ہے ۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مونڈا جائے۔ اسے ترمذی و دارمی اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔‘‘

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رہن رہنے کے معنی یہ ہیں کہ بچہ والدین کے حق میں شفاعت کرنے سے روکا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کی طرف سے عقیقہ کریں۔ نیز اس حدیث کی تشریح میں کہتے ہیں کہ جو بھی نو مولود بچہ ہے، وہ اس وقت تک اپنے والدین کے حق میں سفارش نہیں کرسکے گا، جب تک اس کے والدین اس کی طرف سے عقیقہ نہیں کردیتے۔ بعض علما کا کہنا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ خیر کے حاصل کرنے اور تکلیف سے محفوظ رہنے اور اچھی جسمانی پرورش اور صحت سے اس وقت تک محروم رہے گا، جب تک اس کے والدین اس کی طرف سے عقیقہ نہیں کردیتے۔ درحقیقت یہ والدین ہی کی پکڑ ہے، کیونکہ انھوں نے بچے کا عقیقہ کرنے میں کوتاہی کی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ بچہ گندگی کے ساتھ رہن رہتا ہے، کیونکہ حدیث میں (( فأمیطوا عنہ الأذی)) کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ لیکن امام احمد کے قول پر اعتماد اولیٰ ہے کہ یہی معنی سلف سے مروی ہے، جیسا کہ شیخ عبدالحق دہلوی کی ’’أشعۃ اللمعات شرح المشکوٰۃ‘‘ میں ہے۔ ( أشعۃ اللمعات ۳؍ ۵۱۲)

 

۶) ’’ عن یوسف بن ماھک أنھم دخلوا عی حفصۃ بنت عبدالرحمان فسألوھا عن العقیقۃ فأخبرتھم أن عائشۃ أخبرتھا أن رسول اللہﷺ أمرھم عن الغلام شاتان مکافئتان، وعن الجاریۃ شاۃ۔‘‘ رواہ الترمذي۔ (سنن الترمذي، رقم الحدیث ۱۵۱۳)

’’ یوسف بن ماہک کہتے ہیں کہ کچھ لوگ حفصہ بنت عبدالرحمن کے پاس آئے اور ان سے عقیقے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں بتایا کہ رسول اللہﷺ نے ان کو عقیقے کا حکم دیا ہے، لڑکے کی طرف سے عمر میں دو برابر بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک۔ اس کی روایت ترمذی نے کی ہے۔‘‘ 

۷) ’’ عن سباع بن ثابت أن محمد بن ثابت بن سباع أخبرہ أن أم کرز أخبرتہ أنھا سألت رسول اللہﷺ عن العقیقۃ، فقال: عن الغلام شاتان، وعن الجاریۃ شاۃ، لا یضرکم ذکرانا کن أم أناثا‘‘ رواہ الترمذي ، وقال: ’’ ھذا حدیث صحیح‘‘( سنن الترمذي، رقم الحدیث ۱۵۱۶)

 بے شک ام کرز نے رسولﷺ سے عقیقے کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا: لڑکی کے لیے ایک بکری یا بکرا اور لڑکے کے لیے دو بکریاں یا بکرے خواہ وہ نر ہوں کہ مادہ، ایسا نہیں کہ لڑکے کے لیے بکرا اور لڑکی کے لیے بکری ہے۔ کذافي ترجمۃ الشیخ الدھلوي۔ ( أشعۃ اللمعات ۳؍ ۵۱۱)

۸) ’’ عن أم کرز قالت قال رسول اللہﷺ : عن الغلام شاتان مثلان، وعن الجاریۃ شاۃ‘‘ رواہ أبوداود والدارمي والنسائي إلا في روایۃ: ’’ مکافئتان مثلان‘‘ ( سنن أبي داود، رقم الحدیث ۲۸۳۶، سنن النسائي، رقم الحدیث ۴۲۱۸، سنن الدارمي ۲؍ ۱۱۱)

’’ ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔ اس کو ابوداود اور دارمی اور نسائی نے روایت کیا ہے، مگر ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: برابر ایک جیسی۔‘‘

۹) ’’ عن أم کرز رضي اللہ عنھا قالت: أتیت النبي ﷺ بالحدیبیۃ أسألہ عن لحوم الھدي فسمعتہ یقول: عن الغلام شاتان، وعن الجاریۃ شاۃ، لا یضرکم ذکرانا کن أو أناثا‘‘ رواہ النسائي۔ (سنن النسائي، رقم الحدیث ۴۲۱۷)

’’ ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس حدیبیہ میں آئی۔ میں آ پ سے قربانی کے گوشت کے متعلق پوچھنے آئی تھی، تو میں نے آپ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔ تمھیں کوئی مضائقہ نہیں خواہ نر ہوں یا مادہ۔ اس کو نسائی نے روایت کیا ہے۔‘‘

۱۰) ’’ عن ابن أبي طالب قال : عق رسول اللہﷺ عن الحسن بشاۃ، وقال: یا فاطمۃ! احلقي رأسہ، وتصدقي بزنۃ شعرہ فضۃ، فوزنتہ فکان وزنہ درھما أو بعض درھم‘‘ رواہ الترمذي، وقال: ’’ ھذا حدیث حسن غریب، وإسنادہ لیس بمتصل۔‘‘ ( سنن الترمذي، رقم الحدیث ۱۵۱۹)

’’ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے حسن کی طرف سے ایک بکری کا عقیقہ کیا اور فرمایا: اے فاطمہ رضی اللہ عنہا! اس کا سر مونڈ اور بالوں کے برابر چاندی کا صدقہ کر۔ پس انھوں نے اس کا وزن کیا، جو ایک درہم یا ایک درہم کا کچھ حصہ تھا۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں۔‘‘

۱۱) ’’ عن ابن عباس أن رسول اللہﷺ عق عن الحسن والحسین کبشا کبشا‘‘ رواہ أبوداود۔ (سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۸۴۱)

’’ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ نے عقیقہ کیا حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کا ایک ایک بکرا۔ اسے ابوداود نے ذکر کیا ہے۔‘‘

۱۲) ’’ عن عبداللہ بن بریدۃ عن أبیہ عن رسول اللہﷺ عق عن الحسن والحسین ‘‘ رواہ النسائي۔ (سنن النسائي، رقم الحدیث ۴۲۱۳)

’’ عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقہ کیا۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔‘‘

۱۳) ’’ عن عبداللہ بن بریدۃ قال : سمعت أبي بریدۃ یقول: کنا في الجاھلیۃ إذا ولد لأحدنا غلام ذبح شاۃ، ولطخ رأسہ بدمھا، فلما جآء الإسلام کنا نذبح شاۃ، ونحلق رأسہ، ونلطخہ بزعفران۔‘‘ رواہ ابوداود۔ (سنن أبي داود، رقم الحدیث ۲۸۴۳)

’’ عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد (بریدہ) سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ زمانہ جاہلیت میں جب ہمارے یہاں کسی کا بچہ پیدا ہوتا تھا تو ایک بکری ذبح کرتا اور اس کے سر پر خون کو ملا جاتا۔ جب اسلام آیا تو ہم بکری ذبح کرتے اور اس کے سر کو مونڈتے اور سر پر زعفران ملتے۔ اسے ابوداود نے روایت کیا ہے۔‘‘ 

جس حدیث میں ’’ لا أحب العقوق‘‘ (میں عقوق کو پسند نہیںکرتا) کے الفاظ آئے ہیں، ان سے چند وجوہ کی بنا پر عقیقے کی کراہت مقصود نہیں: (مسند أحمد ۲؍ ۱۹۳)  

اول یہ کہ رسول اللہﷺ نے عقیقہ کرنے سے منع نہیں فرمایا، بلکہ ’’ عقیقہ‘‘ لفظ سے کراہت کا اظہار کیا ہے، کیونکہ یہ ’’عقق‘‘ سے ماخوذ ہے اور ’’ عقوق والدین‘‘ (والدین کی نافرمانی) سے اس کا اشتباہ ہوتا ہے۔ اس لیے انھیں ’’عقیقے‘‘ کا لفظ اچھا نہ لگا اور اسے بدل کر انھوں نے ’’ذبیحہ‘‘ اور ’’ نسیکہ‘‘ کردیا۔ برے نام کو اچھے نام سے بدلنا رسول اللہﷺ کی معروف عادت تھی۔

چنانچہ علامہ محمد طاہر پٹنی نے کتاب ’’ مجمع بحار الأنوار‘‘ میں فرمایا ہے:

’’ حدیث ’’ لا أحب العقوق‘‘ لیس فیہ توھین لأمر العقیقۃ، وإنما کرہ الاسم، وأحب اسم النسیکۃ والذبیحۃ، کما اعتادہ في تغییر الاسم القبیح‘‘ انتھی ( مجمع بحار الأنوار للفتني ۲؍ ۴۱۰)

’’ جس حدیث میں ’’ لا أحب العقوق‘‘ وارد ہوا ہے، اس سے عقیقے کی اہانت مقصود نہیں ہے، بلکہ آپ نے صرف یہ نام ناپسند کیا ہے اور اس کے بدلے ’’نسکیہ‘‘ اور ’’ذبیحہ‘‘ نام کو پسند فرمایا ہے، کیونکہ آپ کی سنت تھی کہ آپ برے نام کو بدل دیا کرتے تھے۔‘‘ 

علامہ زرقانی شرح موطا میں فرماتے ہیں:

’’ وکأنہ کرہ الاسم لا المعنی الذي ھو ذبح واحدۃ تجزیٔ ضحیۃ، لنصہ علیھا في عدۃ أحادیث‘‘ انتھی (شرح الزرقاني ۳؍ ۱۲۸)

’’ گویا انھوں نے ناپسند فرمایا نام کو نہ کہ معنی کو، جس میں ایک جانور کو بطور قربانی ذبح کیا جاتا ہے، کیونکہ متعدد احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔‘‘ 

دوم یہ کہ یہاں ’’ عقوق‘‘ سے والدین کی طرف سے بچے کو عاق کرنا مراد ہے، اس سے عقیقے کی کراہت کے بجائے عقیقہ نہ کرنے کی کراہت کا ثبوت ہوتا ہے۔ چنانچہ علامہ محمد طاہر پٹنی ’’ مجمع بحار الأنوار‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ ویحتمل أنہ استعار العقوق للوالد، وجعل إباءہ عن العقیقۃ مع قدرتہ عقوقا‘‘ انتھی ( مجمع بحار الأنوار ۲؍ ۴۱۰)

’’ احتمال ہے کہ والد کے لیے عقوق کا لفظ استعمال فرمایا ہو، کیونکہ اگر والد قدرت و طاقت کے باوجود عقیقہ کرنے سے انکار کرتا ہے تو گویا اس نے اپنے بچے کو عاق کیا۔‘‘

شیخ سلام اللہ ’’ محلی شرح موطا امام مالک‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ ویحتمل أن یکون العقوق في ھذا الحدیث مستعارا للوالد، کما ھو حقیقتہ في حق الوالد، وذلک أن المولود إذا لم یعرف حق أبویہ صار عاقا، کذلک جعل إباءہ عن أداء حق المولود عقوقا علی الاتساع، فقال: لا أحب اللہ العقوق، أي ترک ذلک من الوالد مع قدرتہ علیہ، یشبہ إضاعۃ المولود حق أبویہ، ولا یحب اللہ ذلک ‘‘ انتھی

’’ ممکن ہے حدیث میں لفظِ عقوق کو والد کے حق میں استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہو، کیونکہ بچہ جب اپنے والدین کے حقوق نہیں پہچانتا تو عاق ہو جاتا ہے، اسی طرح باپ کے بچے کا حق ادا نہ کرنے کا عقوق قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: اللہ تعالیٰ عقوق کو پسند نہیں فرماتے۔ یعنی باپ کا قدرت کے باوجود بچے کا عقیقہ نہ کرنا والدین کا حق ضائع کرنے کے مشابہ ہے اور اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں فرماتے۔‘‘

سوم یہ کہ سائل کو عقیقے کے بارے میں علم نہ تھا کہ یہ مکروہ ہے یا مستحب۔ رسول اللہﷺ نے ’’ لا أحب العقوق‘‘ کہہ کر اسے بتایا کہ مکروہ اور موجب غضب باری دراصل ’’عقوق‘‘ (والدین کی نافرمانی) ہے نہ کہ عقیقہ جو بچے کی طرف سے کیا جاتا ہے۔

چنانچہ علامہ علی قاری ’’ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ یحتمل أن السائل إنما سألہ عنھا لا شتباہ تداخلہ من الکراھۃ، والاستحباب ، والوجوب، وأحب أن یعرف الفضیلۃ، فأجابہ بما ذکر تنبیھا علی أن الذي یغضبہ اللہ تعالی من ھذا الباب ھو العقوق لا العقیقۃ۔‘‘ انتھی (مرقاۃ المفاتیح ۱۲؍ ۴۱۷)

’’ ممکن ہے کہ سائل نے اس کے بارے میں پوچھا ہو کیونکہ اسے اس کی کراہت، استحباب اور وجوب کے متعلق اشتباہ تھا تو آپ نے جواب دیا کہ یہاں جو چیز اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتی ہے وہ عقوق ہے نہ کہ عقیقہ۔ ختم شد۔‘‘

چہارم یہ کہ سائل نے جب ’’ عقیقے‘‘ کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں ’’ عقوق‘‘ کو پسند نہیں کرتا۔ پھر آپﷺ نے بچے کی طرف سے عقیقہ کرنے کا حکم دیا اور خود بھی حسن اور حسین کا عقیقہ کیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں دراصل لفظ ’’ عقوق‘‘ سے ناپسندیدگی کا اظہار مقصود ہے، نہ کہ عقیقہ کرنے سے۔ ورنہ پھر خود ہی اس کا حکم کیوں دیتے؟

یہ گزشتہ مطالب سے زیادہ قوی اور راجح ہے، ورنہ اگر عقیقے کو منع کرنا مقصود ہوتا تو آپﷺ اس کی اجازت کبھی نہ دیتے۔ چنانچہ امام الائمہ مالک موطا میں خود فرماتے ہیں:

۱۴) ’’ مالک عن زید بن أسلم من بني ضمرۃ عن أبیہ أنہ قال : سئل رسول اللہﷺ عن العقیقۃ، فقال : لا أحب العقوق، فکأنہ إنما کرہ الاسم وقال: من ولد لہ ولد فأحب أن ینسک عن ولدہ فلیفعل۔‘‘ انتھی (موطأ الإمام مالک ۲؍ ۵۰۰)

’’ زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ سے عقیقے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا میں ’’عقوق‘‘ کو پسند نہیں کرتا۔ گویا انھوں نے ’’عقیقہ‘‘ نام سے کراہت کا اظہار کیا، کیونکہ دوسری حدیث میں فرمایا: جس کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرنا چاہے تو ذبح کرے۔‘‘

۱۵۔امام ابوداود اپنی سنن میں روایت کرتے ہیں:

’’ عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ قال: سئل رسول اللہﷺ عن العقیقۃ فقال : لا یحب اللہ العقوق، لأنہ کرہ الإسم، وقال من ولد لہ ولد فأحب أن ینسک عنہ فلینسک عن الغلام شاتین وعن الجاریۃ شاۃ۔‘‘ انتھی (سنن أبي داود، رقم الحدیث ۲۸۴۲)

’’ عمرو بن شعیب سے، وہ اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ پوچھا گیا رسول اللہﷺ سے عقیقے کے بارے میں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ پسند نہیں کرتا العقوق (نافرمانی) کو، کیونکہ یہ نام مکروہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: جس کے یہاں بچہ پیدا ہو اور وہ پسند کرے جانور کا خون بہانا تو لڑکے کی طرف سے دو بکری اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری قربان کرے۔‘‘

۱۶۔ امام نسائی سنن میں روایت کرتے ہیں:

’’ سئل رسول اللہﷺ عن العقیقۃ فقال : لا یحب اللہ عزوجل العقوق، وکأنہ کرہ الاسم، قال لرسول اللہﷺ : إنما ینسک أحدنا بولد لہ قال: من أحب أن ینسک عن ولدہ فلینسک عنہ، عن الغلام شاتان مکافئتان، وعن الجاریۃ شاۃ۔‘‘ انتھی ( سنن النسائي، رقم الحدیث ۴۲۱۲)

’’ پوچھا گیا رسول اللہﷺ سے عقیقے کے بارے میں تو آپﷺ نے فرمایا: اللہ اسے پسند نہیں فرماتا، گویا اس نام کو ناپسند کیا۔ آپ سے سوال ہوا کہ ہم بچے کی طرف سے ذبح کرتے ہیں ہو تو آپﷺ نے فرمایا: جو اپنے بچے کی طرف سے ذبح کرنا چاہے تو دو بکریاں لڑکے کی طرف سے اور ایک بکری لڑکی کی طرف سے ذبح کرے۔‘‘

۱۷۔ نیز ابن ابی شیبہ نے مصنف میں روایت کیا ہے:

’’ عن عبداللہ بن نمیر حدثنا داود بن قیس سمعت عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ قال : سئل النبيﷺ عن العقیقۃ، فقال: لا أحب العقوق۔‘‘ (مصنف ابن أبي شیبۃ ۴؍ ۳۳۰)

’’ عبداللہ بن نمیر بیان کرتے ہیں داود بن قیس سے کہ میں نے سنا عمر بن شعیب کو روایت کرتے اپنے والد سے، وہ ان کے دادا سے کہ پوچھا گیا نبیﷺ سے عقیقے کے بارے میں تو آپﷺ نے فرمایا: میں عقوق کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

۱۸۔ ’’ وقال عبدالرزاق: أخبرنا داود بن قیس سمعت عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ قال : سئل النبيﷺ عن العقیقۃ فقال: لا أحب العقوق۔‘‘ ( مصنف عبدالرزاق ۴؍ ۳۳۰)

’’ نبیﷺ سے عقیقے کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا: میں عقوق کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

۱۹۔ ’’ وقال الإمام أبوحنیفۃ عن زید بن أسلم عن أبي قتادۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہﷺ : لا أحب العقوق ‘‘ وکذا واہ طلحۃ من طریق عبداللہ بن الزبیر عنہ، کذا في عقود الجواھر المنیفۃ في أدلۃ مذھب الإمام أبي حنیفۃ للعلامۃ محمد بن محمد الشھیر بمرتضی الحسني الزبیدي۔‘‘

’’ امام ابوحنیفہ نے زید بن اسلم سے روایت کرتے ہوئے فرمایا، وہ روایت کرتے ہیں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں عقوق کو پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح طلحہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ذکر کرتے ہیں۔ جیسا کہ عقود الجواہر المنیفۃ میں ہے۔‘‘

مسند امام ابوحنیفہ میں بھی اسی طرح ہے۔

اگرچہ ان احادیث میں (( لا أحب العقوق)) سے زائد الفاظ مروی نہیں، مگر ان کا مطلب یہی ہے جیسا کہ پہلے تحریر کیا جاچکا ہے۔ جب یہ سب کچھ آپ نے سمجھ لیا تو معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہﷺ نے (( لا أحب العقوق)) ارشاد فرما کر دراصل لفظ عقیقہ کو ناپسند فرمایا ہے یا کسی اور وجہ سے یہ لفظ بولا ہے۔ مثلاً بعض علما کہتے ہیں کہ چونکہ لفظ عقیقہ اور عقوق دونوں ’’عقق‘‘ سے مشتق ہیں، جس کا معنی نافرمانی ہے، تو اس صورت میں لفظ عقیقہ صورتاً عقوق کے مشابہ ہوا، جیسا کہ موطا میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد راوی کہتے ہیں: ’’ کانہ کرہ الاسم‘‘ گویا آپﷺ کو یہ لفظ ناپسند تھا۔ ذبیحہ یا نسیکہ لفظ عقیقہ سے افضل ہے۔ لفظ عقق دو معنوں بچے کے ذبیحے اور نافرمانی میں مشترک ہے، تو اس اشتباہ کی وجہ سے اس کو ترک کرنا بہتر ہے۔ اس لیے کہ علم بلاغت میں یہ ثابت ہے کہ اگر کوئی لفظ دو معنوں میں مشترک ہو اور ان میں سے ایک معنی مکروہ ہو تو اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ ظاہر حدیث کی رو سے واجب ہے کہ اسے مولود کا ذبیحہ یا نسیکہ کہا جائے۔ عقیقہ نہ کہا جائے، چنانچہ زرقانی شرح موطا میں فرماتے ہیں:

’’ قال ابن عبدالبر: وفیہ کراھۃ ما یقبح معناہ من الأسماء، وکانﷺ یحب الاسم الحسن، وکان الواجب بظاھر الحدیث أن یقال لذبیحۃ المولود: نسیکۃ، ولا یقال: عقیقۃ‘‘‘ انتھی (شرح الزرقاني ۳؍ ۱۲۸)

’’ اس حدیث سے برے معنی والے نام رکھنا مکروہ ظاہر ہوتا ہے اور نبی کریمﷺ اچھے نام پسند فرماتے، لہٰذا اس حدیث کی رو سے ضروری ہے کہ ’’نسیکہ‘‘ کہا جائے اور عقیقے کا لفظ نہ بولا جائے۔‘‘

قسطلانی شرح بخاری میں فرماتے ہیں:

’’ قال ابن أبي الدم: قال أصحابنا: تستحب تسمیتھا نسیکۃ أو ذبیحۃ، وتکرہ تسمیتھا عقیقۃ، کما تکرہ تسمیۃ العشاء عتمۃ۔‘‘ انتھی ( إرشاد الساري للقسطلاني ۸؍ ۲۵۰)

’’ ابن ابی الدم نے فرمایا: ہمارے اصحاب کے نزدیک نسیکہ یا ذبیحہ کے الفاظ مستحب ہیں، جبکہ عقیقہ کا لفظ مکروہ ہے، جیسا کہ عشا کو عتمہ کہنا مکروہ ہے۔‘‘

قسطلانی شرح بخاری میں اور زرقانی شرح موطا میں فرماتے ہیں:

’’ قد تقرر في علم الفصاحۃ الاحتراز عن لفظ، یشترک فیہ معنیان، أحدھما مکروہ، فیجاء بہ مطلقاً۔‘‘ انتھی ( إرشاد الساري ۸؍ ۲۵۰، شرح الزرقاني ۳؍ ۱۲۸)

’’ علم فصاحت میں یہ بات طے شدہ ہے کہ ایسے لفظ سے اجتناب کیا جائے جس کا ایک معنی کراہت پر دلالت کرتا ہو اور ایسا لفظ مطلقاً نہ بولا جائے۔‘‘

علامہ سلام اللہ محلی میں فرماتے ہیں:

’’ یعني أنہ کرہ الاسم، وأحب أن یسمي بأحسن أسماء کالنسیکۃ والذبیحۃ، جریا علی عادتہ في تغییر الاسم القبیح۔‘‘ انتھی

’’ یعنی آپﷺ نے اس نام کو ناپسند فرمایا اور پسند کیا کہ اس کا اچھا نام رکھا جائے، جیسے نسیکہ اور ذبیحہ ہیں، کیونکہ برے نام بدلنا آپ کی سنت تھی۔‘‘

نیز علامہ ممدوح محلی میں فرماتے ہیں:

’’ قال الطیبي: یحتمل أن یکون لفط ما سأل عنہ : ’’ ولد لي مولود وأحب أن أعق عنہ فما تقول ؟ فکرہ النبيﷺ لفظ ’’أعق‘‘، لأنہ لفظ مشترک بین العقیقۃ والعقوق، وقد تقرر في علم الفصاحۃ الاحتراز عن لفظ یشترک فیہ معنیان، أحدھما مکروہ، فیکون الکراھۃ راجعۃ إلی ما تلفظ بہ لا إلی نفس العقیقۃ۔‘‘ انتھی (دیکھیں: شرح الطیبي ۹؍ ۲۸۳۶)

’’ طیبی فرماتے ہیں: ممکن ہے پوچھنے والے نے کہا ہو: میرے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے تو میں اس کی طرف سے عقیقہ کرنا چاہتا ہوں تو آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ اس بنا پر آپ نے لفظ عقیقہ کو ناپسند فرمایا، کیونکہ یہ نافرمانی والے معنی میں بھی بولا جاتا ہے اور علم فصاحت کا اصول ہے کہ ایسے مشتبہ الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ لہٰذا حدیث میں مذکورہ کراہت صرف لفظ عقیقہ کی حد تک ہے، عمل عقیقہ کی ناپسندیدگی مراد نہیں۔‘‘

شیخ عبدالحق نے سفر سعادت میں فرمایا ہے:

’’ رسول اکرمﷺ کو صرف عقیقے کا لفظ پسند نہیں تھا، جیسا کہ موطا امام مالک میں زید بن اسلم سے ایک صحابی کے حوالے سے یہ روایت آتی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے عقیقے کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے ’’ عقوق‘‘ پسند نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ نے یہاں عقیقے کے لفظ سے ناپسندیدگی اس لیے ظاہر فرمائی، کیونکہ عقیقے کے لفظ ہی سے ملتا جلتا لفظ عقوق بھی ہے، جس کا مطلب والدین کی نافرمانی کرنا ہے جو کبیرہ گناہ ہے۔ ایک روایت جو مسند احمد، سنن نسائی اور سنن ابوداود میں عمرو بن شعیب سے ان کے باپ اور ان کے دادا کے واسطے سے بیان ہوئی ہے، جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو عقوق پسند نہیں ہے۔ صحابہ کرام اس بات کو سمجھ گئے تھے کہ رسول اللہﷺ کو صرف عقیقے کا لفظ ہی ناپسند ہے، تو انھوں نے اسی بات کو دوسرے انداز سے کہا کہ کیا میں بیٹے کی طرف سے جانور ذبح کرسکتا ہوں؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو پیدہ شدہ بچے کی طرف سے جانور ذبح کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکرے ذبح کرے اور لڑکی کی طرف سے ایک ذبح کرے۔‘‘

’’ اس کی مثال یہ ہے کہ صلوٰۃ عشا کو صلوٰۃ عتمہ کہنے سے منع فرمایا گیا ہے، حالانکہ دونوں سے نماز عشا مراد ہے۔ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ’’ صلوٰۃ عتمہ‘‘ کا لفظ کفار استعمال کرتے تھے، اس لیے مسلمانوں کے لیے اس کا استعمال مکروہ بتایا گیا۔ چنانچہ بعض علما کا خیال ہے کہ رسول اللہﷺ نے ’’ لا أحب العقوق‘‘ فرما کر ’’عقیقہ‘‘ لفظ استعمال کرنے سے کراہت کا اظہار نہیں کیا ہے۔ اگر یہ بات ہوتی تو پھر بہت سی حدیثوں میں ’’ عقیقہ‘‘ لفظ خود ان کی زبانی کیوں منقول ہوتا؟ مثلاً: (مع الغلام عقیقۃ ) رواہ البخاري۔ ’’بچے کے ساتھ عقیقہ ہے‘‘ اور مثلا: (الغلام مرتھن بعقیقتہ)رواہ الترمذي۔ ’’لڑکا اپنے عقیقے کے ساتھ رہن رکھا ہوتا ہے۔‘‘ لہٰذا معلوم ہوا کہ نبی کریمﷺ کے فرمان (( لا أحب العقوق)) کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عقیقہ درست نہیں ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۵۱۵۴)، سنن الترمذي، رقم الحدیث ۱۵۲۲)

چنانچہ علامہ زرقانی نے شرح موطا میں علامہ ابن عبدالبر کا قول نقل کیا ہے:

’’ وکان الواجب بظاھر الحدیث أن یقال لذبیحۃ المولود: نسیکۃ، ولا یقال : عقیقۃ، لکني لا أعلم أحدا من العلماء مال إلی ذلک، ولا قال بہ، وأظنھم ترکوا العمل بہ لما صح عندہ في غیرہ من الأحادیث من لفظ العقیقۃ۔‘‘ انتھی

’’ اس حدیث کی بنا پر ضروری ہے کہ بچے کی پیدایش پر ذبح کیے جانے والے جانور کو نسیکہ کہا جائے اور اسے عقیقہ نہ کہا جائے، لیکن علما میں سے کوئی بھی اس کا قائل اور عامل نہیں ہے، کیونکہ کئی ایک صحیح احادیث میں عقیقے کا لفظ موجود ہے۔‘‘

پھر بعد میں وہ یہ قول بیان کرتے ہیں:

’’ ولعل مرادہ من المجتھدین، وإلا فقد قال ابن أبي الدم عن أصحابھم الشافعیۃ: یستحب تسمیتھا نسیکۃ أو ذبیحۃ، ویکرہ عقیقۃ۔‘‘ انتھی (شرح الزرقاني ۳؍ ۱۲۸)

’’ ممکن ہے کہ ان کے نزدیک مجتہدین مراد ہوں، کیونکہ ابن ابی الدم نے اپنے شافعی اصحاب سے نقل کیا ہے کہ لفظ نسیکہ اور ذبیحہ مستحب ہے اور لفظ عقیقہ مکروہ ہے۔‘‘

شیخ علی قاری ’’ مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں اور شیخ سلام اللہ ’’محلی‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ قال التوربشتي: ھو کلام غیر سدید، لأن النبيﷺ ذکر العقیقۃ في عدۃ أحادیث، ولو کان یکرہ الاسم لعدل عنہ إلی غیرہ۔‘‘ انتھی (مرقاۃ المفاتیح ۱۲؍ ۴۱۷)

’’ توربشتی نے کہا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں، اس لیے کہ آپﷺ نے کئی احادیث میں اسے عقیقہ کہا ہے، لہٰذا اگر اسے ناپسند فرماتے تو دوسرے نام سے پکارتے۔‘‘

بلکہ ایک دوسری وجہ بھی ہے، اور وہ یہ کہ سوال کرنے والے کا خیال تھا کہ لفظ عقیقہ اور عقوق، اشتقاق میں مشترک ہیں یعنی عقق سے ہیں، لہٰذا عقوق اور عقیقہ کا حکم ایک ہی ہے۔ تو رسول اللہﷺ نے اس کا جواب دیا کہ اللہ کے یہاں جو چیز ناپسندیدہ ہے وہ عقوق ہے، عقیقہ نہیں۔ علامہ سلام اللہ رامپوری بھی محلی میں فرماتے ہیں کہ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ سائل نے گمان کرلیا ہو کہ ان دونوں عقیقہ اور عقوق کے مشتقات ایک ہیں۔ یہ بات کمزور ہے۔ جان لو کہ حقیقت اس کے برخلاف ہے، وہ یہ کہ جو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے وہ عقوق (نافرمانی) ہے نہ کہ عقیقہ۔

چنانچہ علامہ سلام اللہ رامپوری محلی میں فرماتے ہیں:

’’ وإنما الوجہ فیہ أن یقال : یحتمل أن یکون السائل ظن أن اشتراک العقیقۃ مع العقوق في الاشتقاق مما یوھن أمرھا، فاعلم أن الأمر بخلاف ذلک بمعنی أن الذي کرمہ اللہ من ھذا الباب ھو العقوق لا العقیقۃ۔‘‘

’’ ممکن ہے کہ سوال کرنے والے نے گمان کرلیا کہ عقیقہ اور اور عقوق کے مشتقات میں اشتراک کے سبب عقیقے کا معاملہ کمزور ہے۔ پس جان لو کہ حقیقت اس کے برخلاف ہے کیونکہ اللہ نے عقوق کو ناپسند کیا ہے نہ کہ عقیقے کو۔‘‘

ملا علی قاری مرقاۃ میں فرماتے ہیں:

’’ یحتمل أن یکون السائل ظن أن اشتراک العقیقۃ مع العقوق في الاشتقاق مما یوھن أمرھا، فاعلم أن الأمر بخلاف ذلک۔‘‘ (مرقاۃ المفاتیح ۱۲؍ ۴۱۷)

’’ ممکن ہے کہ سوال کرنے والے نے سمجھ لیا ہو کہ اشتقاق میں اشتراک کے سبب عقیقے کا معاملہ کمزور ہے، لیکن جان لو کہ حقیقت اس کے خلاف ہے۔‘‘

ان روایات سے معلوم ہوا کہ علما کا اختلاف اس بارے میں ہے کہ لفظ عقیقہ استعمال کرنا چاہیے یا نہیں، اثباتِ عقیقہ میںکوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ یہ تو ثابت شدہ ہے۔

امام ابوحنیفہ کے نزدیک بھی ساتویں دن عقیقے میں لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنا مستحب ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ مباح ہے۔ اگر بکری کی جگہ دنبہ یا بھینس یا اونٹ ذبح کرے، تب بھی جائز ہے۔ بلوغت کے بعد عقیقہ جائز نہیں ہے۔ اگر ساتویں کے بجائے چودھویں دن کرے، پھر بھی جائز ہے۔ اگر اس دن بھی نہ ہو تو اکیسویں دن کرے۔ بچے کے بال کاٹ دیے جائیں اور ان کے وزن کے برابر سونا یا چاندی دیا جائے۔ ذبح کرنے والے کو اختیار ہے کہ مذبوحہ کی ہڈیاں کاٹے یا نہ کاٹے۔ عقیقے کا گوشت اہل و عیال کو کھلا سکتے ہیں۔ یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ماں باپ نہ کھائیں تو یہ باطل ہے۔

چنانچہ علامہ ابن عابدین حنفی ’’ رد المحتار حاشیۃ الدرالمختار ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ یستحب لمن ولد لہ ولد أن یسمیہ یوم أسبوعہ، ویحلق رأسہ، ویتصدق عند الأئمۃ الثلاثۃ بزنۃ شعرہ فضۃ أو ذھبا، ثم یعق عند الحلق عقیقۃ إباحۃ علی ما في جامع المحبوبي أو تطوعا علی ما في شرح الطحاوي، وھي شاۃ تصلح للأضحیۃ، تذبح للذکر والأنثٰی، سواء فرق لحمھا نیا أو طبخہ بحموضۃ أو بدونھا، مع کسر عظمھا أو لا، واتخاذ دعوۃ أو لا، وبہ قال مالک، وسنھا الشافعي وأحمد سنۃ مؤکدۃ، شاتان عن الغلام وشاۃ عن الجاریۃ۔‘‘ انتھی ( رد المحتار ۶؍ ۳۳۶ )

’’ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو، اس کے لیے مستحب ہے کہ ساتویں دن اس کا نام رکھے، اس کا سرمونڈھے اور ائمہ ثلاثہ کے نزدیک اس کے بالوں کے برابر سونا یا چاندی صدقہ کرے، پھر مونڈنے کے ساتھ ذبح کرے، یہ مباح ہے، جیسا کہ جامع محبوبی میں ہے، یا تطوع ہے جیسا کہ شرح طحاوی میں ہے۔ وہ ایسی بکری ہو جو قربانی کے لیے درست ہے، اسے لڑکے اور لڑکی کے لیے ذبح کیا جائے گا، خواہ اس کا کچا گوشت تقسیم کردیا جائے یا سالن پکا کر، دونوں طرح درست ہے، اسی طرح گوشت میں ہڈی توڑنا اور نہ توڑنا، دعوت کرنا یا نہ کرنا دونوں طرح درست ہے۔ امام مالک کا بھی یہی موقف ہے اور امام شافعی اور احمد کے نزدیک سنت موکدہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے۔‘‘

مذکورہ بالا عبارت میں ائمہ ثلاثہ سے مراد امام ابوحنیفہ، ابو یوسف اور محمد ہیں۔ لہٰذا اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اس کے جواز میں ائمہ اربعہ اور ابو یوسف و محمد میں سے کسی کو اختلاف نہیں۔

علامہ عبدالوہاب شعرانی ’’ میزان کبری‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ واتفقوا علی أن وقت الذبح العقیقۃ یوم السابع من ولادتہ‘‘ انتھی

’’اس بات پر اتفاق ہے کہ عقیقے میں ذبح کا وقت پیدایش سے ساتویں دن ہے۔‘‘

دوسری جگہ اسی باب میں فرمایا:

’’ ومن ذلک قول مالک و الشافعي إن العقیقۃ مستحبۃ مع قول أبي حنیفۃ: أنھا مباحۃ، ولا أقول: إنھا مستحبۃ، ومع قول أحمد في أشھر روایۃ: إنھا سنۃ، والثانیۃ: إنھا واجبۃ، واختارہ بعض أصحابہ ، وھو مذھب الحسن وداود، فالأول والثالث مخفف، والثاني أخف، والرابع مشدد۔ فرجع الأمر إلی مرتبتي المیزان، وظاھر الأدلۃ یشھد الوجوب والندب معا۔ ولکل ھھنا رجال، فالاستحباب خاص بالمتوسطین الذین یسامحون نفوسھم بترک بعض السنن، والوجوب خاص بالأکابر الذین یؤاخذون نفوسھم بذلک، والإباحۃ خاصۃ بالأصاغر، ومن ذلک قول الأئمۃ الثلاثۃ أن سنۃ في العقیقۃ أن یذبح عن الغلام شاتان، وعن الجاریۃ شاۃ، مع قول مالک أنہ یذبح عن الغلام شاۃ واحدۃ کما في الجاریۃ، فالأول فیہ تشدید، والثاني فیہ تخفیف، فرجع الأمر الی مرتبتي المیزان۔‘‘ انتھی

’’ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک عقیقہ مستحب ہے اور امام ابوحنیفہ اسے مباح کہتے ہیں، مستحب نہیں۔ امام احمد ایک روایت کے مطابق اسے سنت اور دوسری کے مطابق اسے واجب کہتے ہیں۔ اسی کو ان کے بعض اصحاب نے اختیار کیا ہے۔ یہی حسن اور داود کا مذہب ہے، لیکن پہلے اور تیسرے میں تخفیف ہے اور دوسرا زیادہ آسان ہے، لیکن چوتھا سخت موقف ہے۔ اب اس کا مدار ترازو کے طرفین پر ہے۔ ظاہر دلائل وجوب و ندب دونوں کا تقاضا کرتے ہیں، لیکن ہر ایک کے لیے علاحدہ افراد ہیں۔ استحباب ان متوسط لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو کبھی کبھار کوئی سنت چھوڑ دیتے ہیں اور وجوب ان اکابر کے لیے ہے جو اپنے نفوس کا ایسے امر پر بھی مواخذہ کرتے ہیں اور اباحت چھوٹے لوگوں کے لیے ہے۔ ائمہ ثلاثہ کا قول ہے کہ عقیقے میں سنت یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے، لیکن امام مالک لڑکے کی طرف سے ایک بکری کے قائل ہیں۔ پہلے موقف میں سختی ہے اور دوسرے میں تخفیف ہے، چنانچہ معاملہ ترازو کے طرفین کی طرف لوٹ آیا۔‘‘

علامہ شیخ محمد بن محمد کردری ’’ فتاویٰ بزازیہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ العقیقۃ عن الغلام وعن الجاریۃ، وھو ذبح شاۃ في سابع الولادۃ وضیافۃ الناس وحلق شعرہ مباح لا سنۃ۔‘‘ انتھی

’’ عقیقہ لڑکے اور لڑکی کی طرف سے بکری کا ذبح کرنا، ساتویں دن لوگوں کی ضیافت کرتے ہوئے سر منڈوانا، مباح ہے سنت نہیں۔‘‘

علامہ علی قاری ’’ حزر الثمین شرح حصن حصین‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ وإن کانت الذبیحۃ عقیقۃ فعل کالأضحیۃ، رواہ الحاکم موقوفا عن ابن عباس رضي اللہ عنھما ‘‘ انتھی

’’ ذبیحے سے مراد عقیقہ ہے، جیسا کہ قربانی میں کیا جاتا ہے، چنانچہ حاکم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً روایت کیا ہے۔‘‘

شیخ عبدالحق شرح فارسی مشکات میں فرماتے ہیں:

’’ جان لو کہ عقیقہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک سنت ہے۔ امام احمد سے ایک روایت میں وجوب بھی آیا ہے۔ اکثر احادیث اس کے سنت ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ قربانی کے لیے جو شرائط معتبر ہیں، وہی شرائط و احکام عقیقے کے لیے بھی ہیں، ہمارے نزدیک یہ سنت نہیں ہے۔‘‘

شیخ المحدثین ولی اللہ الدہلوی نے ’’ حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں فرمایا ہے:

’’ واعلم أن العرب یعقون عن أولادھم، وکانت العقیقۃ أمرا لازما عندھم، وسنۃ مؤکدۃ، وکان فیھا مصالح کثیرۃ، راجعۃ إلی المصلحۃ الملیۃ والمدنیۃ والنفسیۃ، فأبقاھا النبيﷺ ، وعمل بھا، ورغب الناس فیھا۔‘‘ انتھی (حجۃ اللہ البالغۃ ۱؍ ۷۲۷)

’’ جان لو کہ عرب اپنے بچوں کا عقیقہ کرتے تھے۔ عقیقہ ان کے یہاں لازم اور سنت موکدہ تھا۔ اس میں کئی اچھائیاں تھیں، جیسے ملی مصلحت، شہری اور شخصی مصلحت۔ اسی لیے نبی مکرمﷺ نے اسے قائم رکھا اور اس پر عمل کیا اور لوگوں کو اس بارے میں رغبت دلائی۔‘‘

حضرت شیخ مولانا محمد اسحق دہلوی نے کتاب ’’ مسائل اربعین‘‘ میں فرمایا:

’’ علمائے حنفیہ عقیقے کو مستحب جانتے ہیں۔ اگر ساتویں دن نہ ہوسکے تو چودھویں دن عقیقہ کرے۔ اگر اس دن بھی نہ ہوسکے تو اکیسویں دن کرے۔ اگر تنگ دستی کی بنا پر نہ کرسکے تو فرض یا واجب نہیں ہے کہ اس کے لیے قرض لے۔ بچے کے بالوں کا چاندی سے وزن کرے اور چاندی صدقہ کردے، حجام کو اجرت میں نہ دے۔ مالداروں کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ بالوں کا وزن سونے سے کریں۔ بچے کے بال زمین میں دفن کرنا مستحب ہے۔ کذافي الطیبي شرح المشکوٰۃ۔پس چاہیے کہ ہر شخص استحباب کی نیت سے یہ ذبیحہ کرے۔ ‘‘

’’ قال رسول اللہﷺ : الغلام مرتھن بعقیقتہ، یذبح عنہ یوم السابع، ویسمی أو یحلق رأسہ ‘‘ رواہ أحمد والترمذي وأبوداود والنسائي۔ (مسند أحمد ۵؍ ۱۲، سنن الترمذي ۱۵۲۲، سنن أبي داود ۲۸۳۷، سنن النسائي، رقم الحدیث ۴۲۲۰)

’’ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بچہ عقیقے کے ساتھ گروی ہوتا ہے۔ اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مونڈا جائے۔ اسے امام احمد، ترمذی، ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔‘‘

’’ عقیقے میں بہتر یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکرے یا بکریاں ذبح کرے۔ اگر ایک کرے تو پھر بھی جائز ہے۔ لڑکی کے لیے ایک بکری یا بکرا۔ اگر بھینس یا دنبہ ذبح کرے تو جائز ہے۔ گوشت کی تقسیم اس طرح مستحب ہے کہ سری حجام کو اور ایک ران دائی کو دی جائے۔ بقیہ گوشت کے تین حصے کرکے، انداز یا وزن کے ذریعے، ایک حصہ فقرا کو، دو حصے رشتے داروں کو کھلائے۔ جیسا کہ علما نے کہا ہے کہ عقیقہ اور قربانی کا حکم ایک ہی ہے۔

’’ بس ایسی صورت میں یہ گوشت والدین، دادا اور دادی کے لیے بھی جائز ہے، لیکن مشہور بات اس کے خلاف ہے، جس کی شرعاً کوئی دلیل نہیں۔ بطور تاؤل گوشت کرتے وقت ہڈیاں نہ توڑی جائیں، لیکن اگر توڑ لے تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ قربانی میں ہڈی توڑ لی جاتی ہے، جیسا کہ کتبِ فقہ میں موجود ہے۔ سری پائے حجام کو دیں، ورنہ اپنے استعمال میں لائے۔ کھال کو رنگ کروا کر کتابوں کی جلدوں کے لیے استعمال کریں یا صدقہ کر دیں۔‘‘ انتھی کلام مولانا رحمۃ اللہ تعالی علیہ۔

امام مالک کے نزدیک بھی عقیقہ مستحب ہے، خواہ لڑکا ہو یا لڑکی، اس کی طرف سے ایک ہی بکری ذبح کی جائے گی۔ عقیقے کا ذبیحہ قربانی کے ذبیحہ کی طرح ہے۔ لہٰذا بکری، اونٹ، گائے، بھینس ایک ذبح کرنا درست ہے، جیسا کہ ہر ایک کی قربانی ٹھیک ہے۔ اس کے لیے کانے، لنگڑے، کمزور اور بیمار جانور کا اختیار کرنا جائز نہیں۔ اس کے گوشت (اور چمڑے) میں سے کچھ بھی فروخت نہ کرے بلکہ خود کھائے، گھر والوں کو کھلائے اور صدقہ کرے۔ بہتر یہ ہے کہ ذبیحے کی ہڈی (خواہ جوڑ کی ہو یا دوسرے جگہ کی) نہ توڑے۔

امام مالک نے موطا میں فرمایا ہے:

’’ الأمر عندنا في العقیقۃ أن من عق فإنما یعق عن ولدہ بشاۃ شاۃ، الذکور والأناث، ولیست العقیقۃ بواجبۃ، ولکنھا یستحب العمل بھا، وھي من الأمر الذي لم یزل علیہ الناس عندنا، فمن عق عن ولدہ فإنما ھي بمنزلۃ النسک والضحایا، لا یجوز فیھا عوراء ولا عجفاء، ولا مکسورۃ القرن، ولا مریضۃ، ولا یباع من لحمھا شيء، ولا جلدھا، وتکسر عظامھا، ویأکل أھلھا من لحمھا، ویتصدقون منھا۔‘‘ انتھی (الموطأ ۲؍ ۵۰۱)

’’ ہمارے نزدیک عقیقے میں عمل یہ ہے کہ جو عقیقہ کرے تو وہ اپنے بچے کی طرف سے ایک ایک بکری ذبح کرے، خواہ لڑکا ہو یا لڑکی، عقیقہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ ہمیشہ سے ہمارے ہاں لوگوں کا اس پر عمل رہا ہے۔ یہ عقیقہ قربانی کے برابر ہے، لہٰذا اس میں کانا، دبلا، سینگ ٹوٹا ہوا، بیمار جانور جائز نہیں، اس کا گوشت بیچنا جائز ہے اور نہ اس کا چمڑا۔ اس کی ہڈیاں توڑنا درست ہے۔ گھر والے اس کا گوشت کھا سکتے ہیں اور صدقہ کرنا بھی درست ہے۔‘‘

علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی نے شرح موطا میں فرمایا ہے:

’’ قال مالک : ( الأمر عندنا في العقیقۃ أن من فإنما یعق عن ولدہ بشاۃ شاۃ، الذکور والإناث) قیاسا علی الأضحیۃ، فإن الذکر والأنثٰی فیھا متساویان خلافا لمن قال : یعق عن الغلام بشاتین۔ [ قال ابن رشد] من عمل بہ فما أخطأ، ولقد أصاب، کما صححہ الترمذي عن عائشۃ أنہ ﷺ أمر أن یعق عن الغلام شاتان متکافئتان وعن الجاریۃ بشاۃ۔ انتھی، لکن حجۃ مالک ومن وافقہ أنہ لما اختلف الروایات فیما عق بہ عن الحسنین ترجح تساوي الذکور والإناث بالعمل والقیاس علی الأضحیۃ، ( ولیست العقیقۃ بواجبۃ، ولکنھا یستحب العمل بھا) اتباعاً للفعل النبوي وحملا لأمرہ علی الاستحباب لأن القاعدۃ أن الأمر إذا لم یصلح حملہ علی الوجوب حمل علی الندب، وقال اللیث وأبوالزناد و داود: واجبۃ، ( وھي من الأمر الذي لم یزل علیہ الناس عندنا) فلا ینبغي ترکھا، وفیہ رد علی من زعم نسخھا، ومن زعم أنھا بدعۃ، إذ لو نسخت ما عمل بھا الصحابۃ فمن بعدھم بالمدینۃ، وقد قال ﷺ : (( الغلام مرتھن بعقیقتہ، یذبح عنہ یوم السابع، ویسمی، ویحلق رأسہ )) رواہ أحمد وأصحاب السنن والبیھقي عن سمرۃ، وصححہ الترمذي والحاکم۔ ( سنن الترمذي، رقم الحدیث ۱۵۱۳)

(فمن عق عن ولدہ فإنما ھي بمنزلۃ النسک) الھدایا (والضحایا) فتجوز بالغنم والإبل والبقر، خلافا لمن قصرھا علی الغنم، لورود الشاۃ في الأحادیث السابقۃ، لکن روی الطبراني عن أنس مرفوعاً : ((یعق عنہ من الإبل والبقر والغنم))  ( لا یجوز فیھا عوراء) بالمد، تأنیث أعور، ( ولا عجفاء) بالمد، الضعیفۃ ولا مکسورۃ القرن ولا مریضۃ، ولا یباع من لحمھا شيء، ولا جلدھا، ویکسر عظامھا جوازا، تکذیبا للجاھلیۃ في تحرجھم من ذلک، وتفصیلھم إیاھا من المفاصل إذ لا فائدۃ في ذلک الاتباع الباطل، ولا یلتفت إلی من یقول: فائدتہ التفاؤل بسلامۃ الصبي، وبقاؤھا، فلا أصل لہ من کتاب ولا سنۃ ولا عمل۔‘‘ انتھی ملخصا (المعجم الصغیر ۱؍ ۱۵۰، وذکرہ الھیثمي في المجمع ۴؍ ۹۲، وقال : رواہ الطبراني في الصغیر، وفیہ مسعدۃ بن الیسع، وھو کذاب) ، (شرح الزرقاني ۳؍ ۱۳۰۔ ۱۳۱)

’’ مالک فرماتے ہیں کہ ’’ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ عقیقے میں ایک ایک بکری مذکر و مونث کی طرف سے ہو‘‘۔ قربانی پر قیاس کرکے، کیونکہ اس میں مذکر و مونث دونوں برابر ہیں، برخلاف اس کے جو کہتا ہے کہ لڑکے کی طرف سے عقیقے میں دو بکریاں ذبح کی جائیں۔ امام ابن رشد کہتے ہیں کہ جس نے یہ عمل کیا اس نے غلط نہیں، بلکہ درست کام کیا۔ سنن ترمذی میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حکم دیا کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریوں کا عقیقہ کیا جائے اور ایک بکری لڑکی کی طرف سے عقیقے میں ذبح کی جائے۔ امام مالک اور ان کے ہم خیال لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے کے متعلق روایات میں اختلاف ہے، اس لیے عمل متوارث اور قربانی پر قیاس کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کی عقیقے میں برابری کرنا راجح ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ ’’ اور عقیقہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے‘‘۔ سنت کی پیروی کرتے ہوئے اور اس لیے کہ یہاں امر کو استحباب پر محمول کیا جائے گا، کیونکہ یہ اصول ہے کہ جب امر کو وجوب پر محمول کرنا درست نہ ہو تو اسے استحباب پر محمل کیا جائے گا۔ لیکن لیث، ابوزناد اور داود ظاہری کا موقف یہ ہے کہ عقیقہ واجب ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ ’’عقیقے پر ہمیشہ سے لوگوں کا عمل رہا ہے‘‘۔ اس لیے اسے ترک کرنا مناسب نہیں۔ اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو اسے منسوخ یا بدعت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ منسوخ ہوتا تو صحابہ کرام اور ان کے بعد والے لوگ اس پر عمل نہ کرتے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ہے: بچہ اپنے اپنے عقیقے کے ساتھ رہن رکھا ہوتا ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے ذبح کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور اس کے بال مونڈے جائیں۔ ’’ جو اپنے بچے کی طرف سے عقیقہ کرتا ہے تو یہ قربانی کی طرح ہے۔‘‘ لہٰذا اس میں بکری، اونٹ اور گائے کو ذبح کرنا بھی جائز ہے، برخلاف اس کے جو گزشتہ احادیث میں بکری کا ذکر آنے کی وجہ سے اسے صرف بکری پر محدود کرتا ہے، حالانکہ طبرانی میں حضرت انس سے مرفوعاً مروی ہے کہ عقیقے میں اونٹ، گائے اور بکری ذبح کی جائے گی۔

’’ امام مالک فرماتے ہیں کہ عقیقے میں ایسا جانور ذبح نہیں کیا جائے گا، جس کی آنکھ، ٹانگ اور سینگ میں کوئی عیب ہو۔‘‘ نہ ایسا جانور جو بیمار ہو۔ اس جانور کا گوشت اور چمڑا فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ عقیقے والے جانور کی گوشت بناتے وقت ہڈیاں توڑنا درست ہے، کیونکہ اہل جاہلیت ایسا کرنا ناروا خیال کرتے تھے اور گوشت بناتے وقت جوڑوں سے گوشت کاٹا کرتے تھے، چنانچہ ہمارے لیے ایسے باطل عمل کی اتباع جائز نہیں۔ اس قول ’’گوشت میں ہڈیاں نہ توڑی جائیں، کیونکہ اس میں بچے کی سلامتی کے لیے نیک فالی ہے‘‘ کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ کتاب و سنت اور تعامل میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔‘‘

اگر ساتویں دن سے پہلے یا بعد میں عقیقہ کریں تو عقیقہ نہ ہوگا۔ اگر بچہ پہلے مر گیا تو عقیقہ ساقط ہو جائے گا۔ چنانچہ احمد بن محمد قسطلانی ’’ارشاد الساری‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ قولہ : یذبح عنہ یوم السابع۔ تمسک بہ من قال : إنھا مؤقتۃ بالسابع، فإن ذبح قبلہ لم تقع الموقع، وإنھا تفوت بعدہ، وبہ قال مالک، وقال أیضاً: إن مات قبل السابع سقطت‘‘ انتھی (إرشاد الساري ۸؍ ۲۵۴)

’’ حدیث میں وارد الفاظ ’’ ساتویں دن ذبح کیا جائے گا‘‘ اس میں ان لوگوں کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ عقیقہ ساتویں دن کے ساتھ مخصوص ہے۔ اگر پہلے ذبح کرے تو درست نہیں اور ساتویں دن کے بعد بھی درست نہیں۔ امام مالک کا یہی موقف ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ اگر بچہ ساتویں دن سے پہلے فوت ہو جائے تو اس کا عقیقہ ساقط ہو جاتا ہے۔‘‘

شیخ الاسلام علامہ ابو عبداللہ محمد بن محمد بن محمد الشہیر بابن الحاج المالکی نے اپنی کتاب مدخل میں اس مسئلے پر تفصیل سے تحقیق کی ہے، لیکن ان کی پوری عبارت نقل کرنے سے کتاب طویل ہو جائے گی۔ ( المدخل لابن الحاج ۱؍ ۱۹۲)

امام شافعی کے نزدیک عقیقہ سنت مؤکدہ ہے، جس میں ساتویں دن لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی۔ اگرچہ عقیقہ قربانی کی طرح واجب نہیں، پھر بھی عقیقے کے جانور میں اس کے جنس، عمر اور عیب سے سلامتی وغیرہ میں قربانی کے جانور جیسی شرائط کا لحاظ کرنا چاہیے۔ ذبح کے وقت عقیقے کی نیت کرے اور اس کا گوشت خود کھائے، اپنے اہل و عیال کو کھلائے اور حاجت مندوں پر صدقہ کرے۔ سارا گوشت پکائے، مگر ایک ران دائی (خادمہ) کے لیے چھوڑ دے۔ بہتر ہے کہ ذبیحہ کی ہڈی نہ توڑے اور اگر توڑے تو خلاف اولیٰ ہے۔

ایک شافعی عالم امام رافعی فرماتے ہیں کہ عقیقے کا وقت بچے کی پیدایش سے اس کی بلوغت تک ہے۔ کسی نے اگر اس کی طرف سے عقیقہ کرنے کا ارادہ کر رکھا ہو تو اس کے بالغ ہونے کے بعد ساقط ہو جاتا ہے۔ ہاں اگر وہ خود اپنی طرف سے بالغ ہونے کے بعد عقیقہ کرنا چاہتا ہے تو جائز ہے۔ امام شافعی سے منقول ہے کہ بڑے آدمی (بالغ) کا عقیقہ نہیں ہوتا۔

ایک شافعی عالم بندنجیی کہتے ہیں کہ میں نے بکرے کے علاوہ کسی جانور کے جواز یا عدم جواز سے متعلق امام شافعی کا قول نہیں دیکھا۔ البتہ ہمارے ہاں بکری کے علاوہ کوئی دوسرا جانور عقیقے میںذبح کرنا جائز نہیں، لیکن جمہور علما اونٹ یا گائے ذبح کرنے کے قائل ہیں۔ چنانچہ علامہ احمد بن محمد قسطلانی شرح بخاری میں فرماتے ہیں:

’’ وھي سنۃ مؤکدۃ، وإنما لم تجب کالأضحیۃ بجامع أن کلا منھا إراقۃ دم بغیر جنایۃ۔‘‘ انتھی۔ کذافي القسطلاني۔ (إرشاد الساري ۸؍ ۲۵۰)

’’ یہ سنت موکدہ ہے۔ یہ قربانی کی طرح واجب نہیں ہے، کیونکہ دونوں میں بغیر جنایت کے خون بہانا ہے۔‘‘

نیز فرماتے ہیں:

’’ والعقیقۃ کالأضحیۃ في جمیع أحکامھا من جنسھا وسنھا وسلامتھا، والأفضل منھا، ونیتھا، والأکل والتصدق، وسن طبخھا کسائر الولائم إلا رجلھا فتعطی نیئۃ للقابلۃ، لحدیث الحاکم، وبحلوا تفاؤلا بحلاوۃ أخلاق الولد، وأن لا یکسر عظمھا تفاؤلا بسلامۃ أعضاء الولد فإن کسر فخلاف الأولی، وأن تذبح سابع ولادتہ۔‘‘ انتھی، کذافي القسطلاني۔( إرشاد الساري للقسطلاني ۸؍ ۲۵۰)

’’ عقیقہ تمام احکام: جنس، عمر، عیوب سے سلامتی، اس سے افضیلت، نیت، کھانے اور صدقہ کرنے میں قربانی کی طرح ہے اور اس کا پکانا تمام دعوتوں کی طرح مسنون ہے، سوائے ٹانگ کہ، کہ وہ مستدرک حاکم کی روایت کی بنا پر کچی ہی دائی کو دے دی جائے اور بچے کے اعضا کی سلامتی کے لیے نیک فالی کے طور پر گوشت بناتے وقت ہڈیاں نہ توڑی جائیں، لیکن توڑے تو خلاف اولیٰ ہے اور ولادت کے ساتویں دن یہ جانور ذبح کیا جائے۔‘‘

نیز فرمایا:

’’ شاتین بصفۃ الأضحیۃ عن الغلام، وشاۃ عن الجاریۃ، رواہ الترمذي وأبوداود والنسائي، لأن الغرض استیفاء النفس فأشبھت الدیۃ لأن کلا منھا فداء للنفس، وتعین بذکر الشاۃ الغنم للعقیقۃ، وبہ جزم أبو الشیخ الأصبھاني، وقال البندنیجي من الشافعیۃ: لا نص للشافعي في ذلک ، وعندي لا یجزیٔ غیرھا، والجمھور علی إجزاء الإبل والبقر أیضاً، لحدیث عند الطبراني عن أنس مرفوعاً: یعق عنہ من الإبل والبقر والغنم۔‘‘ انتھی، کذافي القسطلاني۔ (إرشاد الساري ۸؍ ۲۵۳)

’’ دو بکریاں قربانی کی صفات والی لڑکے کی طرف سے اور ایک بکری لڑکی کی طرف سے ہوگی۔ اسے امام ترمذی، ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ کیونکہ مقصود ایک نفس کو مکمل ذبح کرنا ہے، اس طرح وہ دیت کے مشابہ ہے، کیونکہ ان سب میں ایک جان کی قربانی ہے۔ حدیث میں بکری کا ذکر آنے میں عقیقے میں اس کی تخصیص ثابت ہوتی ہے، یہی بات ابو الشیخ اصبہانی نے کہی ہے۔ امام بندنجیی شافعی کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں امام شافعی سے کوئی نص نہیں ہے اور میرے نزدیک اس کے سوا اور کفایت نہیں کرتی۔ جبکہ جمہور علما کا موقف ہے کہ عقیقے میں گائے اور اونٹ ذبح کرنا بھی درست ہے، کیونکہ معجم طبرانی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ عقیقے میں اونٹ، گائے اور بکری ذبح کی جائے گی۔‘‘

مزید فرماتے ہیں:

’’ وذکر الرافعي أنہ یدخل وقتھا بالولادۃ، ثم قال : والاختیار أن لا تؤخر عن البلوغ، فإن أخرت إلی البلوغ سقطت عمن کان یرید أن یعق عنہ، لکنہ إن أراد ھو أن یعق عن نفسہ فعل، واختارہ القفال، ونقل عن نص الشافعي في البوطي أنہ لا یعق عن کبیر۔‘‘ انتھی کذافي القسطلاني۔ ( إرشاد الساري ۸؍ ۲۵۴)

’’ امام رافعی نے ذکر کیا ہے کہ اس کا وقت ولادت کے ساتھ داخل ہوتا ہے، نیز فرماتے ہیں کہ راجح یہ ہے کہ بلوغت سے موخر نہ کیا جائے اور اگر بلوغت تک موخر ہوگیا تو ساقط ہو جاتا ہے، لیکن اگر لڑکا اپنا عقیقہ خود کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ اسے ہی امام قفال نے اختیار کیا ہے اور امام شافعی سے منقول ہے کہ بڑے کی طرف سے عقیقہ نہ کیا جائے۔‘‘

ابن عابدین نے ’’ردالمحتار‘‘ میں کہا ہے:

’’ وسنھا الشافعي وأحمد سنۃ مؤکدۃ، شاتان عن الغلام وشاۃ عن الجاریۃ۔‘‘ انتھی (حاشیۃ ابن عابدین ۶؍ ۳۳۶)

’’ امام شافعی اور احمد کے نزدیک عقیقہ سنت موکدہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے۔‘‘

بعض کہتے ہیں کہ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک عقیقہ مستحب ہے۔ چنانچہ شعرانی میزان میں کہتے ہیں:

’’ ومن ذلک قول مالک والشافعي : إن العقیقۃ مستحبۃ‘‘ انتھی

’’ امام مالک اور شافعی کا قول ہے کہ عقیقہ مستحب ہے۔‘‘

امام احمد کے نزدیک بھی عقیقہ ایک روایت کے مطابق واجب اور مشہور روایت کے مطابق سنت موکدہ ہے۔ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری، ولادت کے ساتویں دن ذبح کی جائے۔ ذبیحے کی ہڈی جوڑوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے نہیں توڑنی چاہیے۔ چنانچہ علامہ عبدالوہاب شعرانی ’’میزان کبریٰ‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ واتفقوا علی أن وقت ذبح العقیقۃ یوم السابع من ولادتہ‘‘ انتھی، کذافي المیزان۔

’’ اس پر اتفاق ہے کہ ولادت کے ساتویں دن عقیقے والا جانور ذبح کیا جائے گا۔‘‘

نیز لکھتے ہیں:

’’ ومن ذلک قول مالک و الشافعي: إن العقیقۃ مستحبۃ مع قول أبي حنیفۃ إنھا مباحۃ، ولا أقول : إنھا مستحبۃ، ومع قول أحمد في أشھر روایۃ: إنھا سنۃ، والثانیۃ: إنھا واجبۃ‘‘ انتھی کذافي المیزان۔

’’ امام شافعی اور مالک کا قول ہے کہ عقیقہ مستحب ہے، جبکہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ عقیقہ مباح ہے اور میں نہیں کہتا کہ وہ مستحب ہے۔ امام احمد کا قول ایک روایت کے مطابق سنت اور دوسری روایت کے مطابق وجوب کا ہے۔‘‘

’’ ومن ذلک قول الأئمۃ الثلاثۃ: إن السنۃ في العقیقۃ أن یذبح عن الغلام شاتان، وعن الجاریۃ شاۃ، مع قول مالک۔ إنہ یذبح عن الغلام شاۃ واحدۃ کما في الجاریۃ‘‘ انتھی، کذافي المیزان۔

’’ ائمہ ثلاثہ کا قول ہے کہ عقیقے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کی جائے، جبکہ امام مالک کا کہنا ہے کہ لڑکے کی طرف سے بھی لڑکی کی طرح ہی ایک بکری ذبح کی جائے۔‘‘

نیز لکھتے ہیں:

’’ ومن ذلک قول الشافعي وأحمد باستحباب عدم کسر عظام العقیقۃ، وأنھا تطبخ أجزاء اکبارا، تفاؤلا بسلامۃ المولود۔‘‘ انتھی کذافي المیزان۔‘‘

’’ امام شافعی اور احمد کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ عقیقے والے جانور کی ہڈیاں نہ توڑی جائیں اور اسے بڑے ٹکڑوں کی شکل میں پکایا جائے، کیونکہ اس میں بچے کی سلامتی کے لیے نیک فالی ہے۔‘‘

عقیقے کے استحباب پر ائمہ اربعہ کے علاوہ تمام اہل علم صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور فقہا و محدثین متفق ہیں۔ مجھے علم نہیں کہ کسی سے اس کے خلاف بھی کچھ منقول ہے۔ ان کے درمیان اگر اختلاف ہے تو صرف اتنا کہ کچھ اس کے وجوب کے قائل ہیں اور کچھ سنت یا مستحب ہونے کے، اس کے جواب کے سلسلے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔

عقیقہ کرنے کی حدیث بہت سے صحابہ کرام سے منقول ہے، جیسے علی، ام کرز، بریدۃ، سمرہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر، انس، سلمان بن عامر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم۔

چنانچہ امام ترمذی نے جامع میں خود اس کی تصریح کی ہے:

’’ والعمل علی ھذا عند أھل العلم یستحبون أن یذبح عن الغلام العقیقۃ یوم السابع، فإن لم یتھیأ یوم السابع فیوم الرابع عشر، فإن لم یتھیأ عق عنہ یوم إحدی وعشرین، وقالوا: لا یجزیٔ في العقیقۃ من الشاۃ إلا ما یجزیٔ في الأضحیۃ۔‘‘ انتھی ما في جامع الترمذي۔ ( سنن الترمذي ۴؍ ۱۰۱)

’’ اہل علم کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ ساتویں دن لڑکے کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، لیکن اگر ساتویں دن میسر نہ ہو تو چودھویں دن اور اگر چودھویں دن نہ ہو تو اکیسویں دن کرلے۔ انھوں نے کہا ہے کہ عقیقے میں صرف وہی جانور ذبح کرنا درست ہے جو قربانی میں صحیح ہے۔‘‘

جو شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ نے شرح مشکوٰۃ اور سفر السعادت میں فرمایا ہے کہ شافعی کے نزدیک عقیقے کے جانور کی ہڈی توڑنا جائز ہے اور مالک کے نزدیک نہیں ہے، یہ غلط ہے، کیونکہ امام مالک موطا میں فرماتے ہیں:

’’ وتکسر عظامھا‘‘ انتھی ( موطأ الإمام مالک ۲؍ ۵۰۱)

’’ اس کی ہڈیاں توڑی جائیں گی۔‘‘ 

امام زرقانی مالکی اپنی شرح میں کہتے ہیں:

’’ وتکسر عظامھا جوازاً، تکذیباً للجاھلیۃ في تحرجھم من ذلک۔‘‘ کما مر۔ ( شرح الزرقاني ۳؍ ۱۳۱)

’’ جواز کے طور پر ذبیحے کی ہڈیاں توڑی جائیں گی، اہل جاہلیت کی تکذیب کرتے ہوئے۔ کیونکہ وہ اس کو معیوب سمجھتے تھے۔‘‘ 

اس کے برخلاف قسطلانی شافعی ’’ ارشاد الساری‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ وأن لا یکسر عظامھا فإن کسر فخلاف الأولی ‘‘ انتھی، کما مر۔ (إرشاد الساري ۸؍ ۲۵۰)

’’ جانور کی ہڈیاں نہ توڑی جائیں ، لیکن اگر توڑی گئی تو خلاف اولیٰ ہے۔‘‘ 

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے جو عقیقے کا بدعت ہونا نقل کیا جاتا ہے، وہ غلط ہے، ان کی طرف اس کی نسبت درست نہیں، خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ اس سے متعلق بہت سی صحیح حدیثیں وارد ہیں، جن کا انکار دن میں آفتاب کی روشنی سے انکار کے مترادف ہے۔ امام صاحب سے کچھ علما نے اس کے استحباب اور بعض نے اباحت کا قول نقل کیا ہے۔ امام طحاوی جو امام ابوحنیفہ کے مذہب کے سب سے بڑے واقف کار تھے، امام ابوحنیفہ سے اس کا تطوع ہونا نقل کرتے ہیں اور تطوع، مستحب، مندوب، نفل اور ادب یہ تمام الفاظ باہم مترادف المعنی ہیں۔ ہم اسی روایت پر اعتماد کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام کے مذہب کے مطابق ہے۔

چنانچہ درالمختار میں ہے:

’’ ومستحبۃ ، ویسمی مندوباً وأدباً وفضیلۃ، وھو ما فعلہ النبيﷺ مرۃ، وترکہ أخری۔‘‘ ( الدرالمختار ۱؍۱۲۳، ۱۲۴)

’’ یہ مستحب ہے، اس کا نام مندوب اور ادب اور فضیلت بھی رکھا جاتا ہے۔ یہ وہ ہے جو نبی کریمﷺ نے کبھی کیا اور کبھی نہ کیا ہو۔‘‘ 

ابن عابدین اپنے حاشیے میں کہتے ہیں:

’’ ویسمی مندوبا و أدبا، زادہ غیرہ : ونفلا وتطوعا‘‘ انتھی ( حاشیۃ ابن عابدین ۱؍ ۱۲۳)

’’ مستحب کو مندوب اور ادب بھی کہتے ہیں اور بعض اسے نفل اور تطوع بھی کہہ لیتے ہیں۔‘‘

بعض علما نے امام ابوحنیفہ سے جو عقیقے کا بدعت ہونا نقل کیا ہے ؛ شیخ بدر الدین عینی اس قول کا رد نقل کرتے ہیں، چنانچہ ’’ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ وھذا افتراء، فلا یجوز نسبتہ إلی أبي حنیفۃ، وحاشا أن یقول مثل ھذا، وإنما قال : لیست بسنۃ ‘‘ انتھی کلام العیني  (عمدۃ القاري ۲۱؍ ۸۳)

’’ یہ جھوٹ ہے، امام صاحب کی طرف اس کا انتساب جائز نہیں۔ ایسا کہنا ان سے بعید ہے۔ انھوں نے تو صرف یہ کہا ہے کہ وہ سنت نہیں۔ عینی کا کلام ختم ہوا۔‘‘ 

اگر کوئی کہے کہ جب امام صاحب عقیقے کی سنیت کے قائل نہیں ہیں تو ان کے مذہب میں عقیقہ کیونکر درست ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں سنت نہ ہونے سے سنت مؤکدہ ہونے کی نفی مقصود ہے نہ کہ سنت غیر موکدہ کی، لہٰذا اس سے استحباب اور سنت غیر مؤکدہ کی نفی نہیں ہوتی۔ حنفی مذہب میں ’’سنت‘‘ کا اطلاق اکثر سنت مؤکدہ پر ہوتا ہے، مستحب پر نہیں، لہٰذا سنیت کی نفی سے استحباب کی نفی لازم نہیں آتی، جیسا کہ یہ بات ہمارے استاد شیخ اجل محدث العصر خاتم محققین سیدنا مولانا نذیر حسین دہلوی۔ أدام اللہ فیوضہ علی رؤس الطالبین۔ نے اپنے بعض فتاویٰ میں فرمائی ہے۔

علامہ فقیہ برہان الدین مرغینانی کے طریقے سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ کتاب ہدایہ کے باب اذان میں فرماتے ہیں:

’’ الأذان سنۃ الصلوۃ ‘‘ انتھی ( الھدایۃ للمرغیناني ۱؍۴۱)

’’ اذان، نماز کی سنت ہے۔‘‘

ظاہر ہے کہ یہاں سنت سے سنت مؤکدہ مراد ہے اور اس کی نفی سے مستحب ہونے کی نفی نہیں ہوتی۔ نیز علامہ نسفی ’’ کنز الدقائق‘‘ میں اس باب میں فرماتے ہیں:

’’ من الفرائض ‘‘ ( البحر الرائق شرح کنز الدقائق ۱؍ ۲۶۹)

’’ فرائض سے ہے۔‘‘ 

علامہ عینی اپنی شرح میں فرماتے ہیں:

’’ سن أي الأذان عند الجمھور، وقیل یجب، وقیل: فرض کفایۃ، والأصح أنہ سنۃ مؤکدۃ۔‘‘ انتھی

’’ جمہور کے نزدیک اذان مسنون ہے اور کہا گیا ہے کہ واجب ہے۔ بعض کے نزدیک فرض کفایہ ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ سنت مؤکدہ ہے۔‘‘

صاحبِ ہدایہ اس باب میں فرماتے ہیں:

’’ والأفضل للمؤذن أن یجعل أصبعیہ في أذنیہ، بذلک أمر النبيﷺ بلالا رضي اللہ عنہ، ولأنہ أبلغ في الإعلام، وإن لم یفعل فحسن، لأنھا لیست بسنۃ أصلیۃ۔‘‘ ( الھدایۃ للمرغیناني ۱؍ ۴۱)

’’ موذن کے لیے افضل یہ ہے کہ اپنی دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالے کیونکہ نبی کریمﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو اس کا حکم دیا تھا اور اس لیے بھی کہ یہ آواز کو دور تک پہنچانے کا باعث ہے لیکن اگر ایسا نہ کرے تو بھی درست ہے، کیونکہ یہ اصل میں سنت نہیں ہے۔‘‘ 

پس عبارت اول و ثانی سے مراد سنت موکدہ کا اثبات اور ثالث سے سنت موکدہ کی نفی ہے، مطلق سنت کی نفی نہیں، جیسا کہ انھوں نے خود تصریح کی ہے:

( بذلک أمر النبيﷺ ) ’’ اسی چیز کا نبی کریمﷺ نے حکم دیا تھا۔‘‘ 

امام ترمذی نے اپنی جامع میں روایت کیا ہے:

’’ عن عون بن أبي جحیفۃ عن أبیہ قال : رأیت بلالا یؤذن، ویدور، ویتبع فاہ ھھنا وھھنا، وأصبعاہ في أذنیہ، ورسول اللہﷺ في قبۃ حمراء أراہ … إلی آخرہ۔‘‘ ( سنن الترمذي، رقم الحدیث ۱۹۷)

’’ ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہتے ہوئے دیکھا کہ وہ گھوم کر اپنا منہ دونوں طرف کر رہے تھے، جبکہ ان کی دونوں انگلیاں ان کے کانوں میں تھیں اور رسول اللہﷺ اپنے سرخ خیمے میں فروکش تھے… الخ۔‘‘ 

پھر فرمایا:

’’ حدیث أبي جحیفۃ حدیث حسن صحیح، وعلیہ العمل عند أھل العلم، یستحبون أن یدخل المؤذن أصبعیہ في الأذن‘‘ انتھی

’’ ابو جحیفہ والی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے، وہ مستحب سمجھتے ہیں کہ موذن اپنی انگلیاں اذان کے وقت کانوں میں ڈالے۔‘‘ 

پس معلوم ہوا کہ سنت سے مراد مؤکدہ ہے اور نفی سے مراد مؤکدہ ہی کی نفی ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ شبہہ ہو کہ عقیقے کی حدیثیں قربانی کی حدیثوں سے منسوخ ہوگئی ہیں، جیسا کہ امام محمد بن حسن شیبانی نے دعویٰ کیا ہے، تو پھر ان پر عمل کیسے درست ہوگا؟

میں بفضل اللہ العظیم کہتا ہوں کہ امام محمد کی دلیل عقیقے کے نسخ میں یہ ہے:

’’ أما العقیقۃ فبلغنا أنھا کانت في الجاھلیۃ، وقد فعلت في أول الإسلام، ثم نسخ الأضحی کل ذبح کان قبلہ، ونسخ صوم شھر رمضان کل صوم کان قبلہ، ونسخ غسل الجنابۃ کل غسل کان قبلہ، ونسخت الزکوٰۃ کل صدقۃ کان قبلھا، کذلک بلغنا‘‘ انتھی، کذافي الموطأ للإسلام محمد۔ ( الموطأ للإسلام محمد ۲؍ ۶۳۲)

’’ عقیقے کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا ہے کہ جاہلیت میں اس کا رواج تھا۔ ابتدائے اسلام میں بھی اس پر عمل رہا۔ پھر قربانی نے اپنے سے پہلے ہر طرح کے ذبح کو منسوخ کردیا، جیسے رمضان کے روزے نے ہر طرح کے روزوں کو، غسل جنابت نے ہر طرح کے غسل کو اور زکات نے ہر طرح کے صدقے کو منسوخ کردیا۔ ایسا ہی موطا امام محمد میں ہے۔‘‘ 

علامہ محمد بن محمود خوارزمی نے امام ابوحنیفہ کی مسند میں کہا ہے:

’’ أبو حنیفۃ عن رجل عن محمد بن الحنفیۃ أنہ قال : إن العقیقۃ کانت في الجاھلیۃ، فلما جاء الإسلام رفضت۔ أبو حنیفۃ عن حماد عن إبراھیم أنہ قال : کانت العقیقۃ في الجاھلیۃ، فلما جاء الإسلام رفضت۔‘‘ انتھی

’’ محمد بن حنیفہ کہتے ہیں کہ عقیقہ جاہلیت میں تھا تو جب اسلام آیا اسے ختم کردیا گیا۔ امام ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جاہلیت میں عقیقہ ہوتا تھا، لیکن جب اسلام آیا تو اسے ختم کردیا گیا۔‘‘

علامہ محمد بن محمد الشہیر بمرتضیٰ الحسینی الزبیدی نے ’’ عقود الجواھر المنیفۃ في أدلۃ مذھب الإمام أبي حنیفۃ‘‘ میں فرمایا:

’’ أبو حنیفۃ عن حماد عن إبراھیم أنہ قال : کانت العقیقۃ في الجاھلیۃ فلما جاء الإسلام رفضت، کذا رواہ محمد بن الحسن في الآثار عنہ، قال : وبہ نأخذ ‘‘ انتھی

’’ ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ جاہلیت میں عقیقہ ہوتا تھا لیکن جب اسلام آیا تو اسے ختم کردیا گیا۔ امام محمد فرماتے ہیں کہ ہم اسی پر عمل پیرا ہوں گے۔‘‘

شیخ الاسلام مولانا سلام اللہ رامپوری، محلی میں فرماتے ہیں:

’’ أخرج ابن المبارک والدارقطني والبیھقي وابن عدي عن علي مرفوعاً: نسخ الأضحی کل ذبح، ونسخ صوم رمضان کل صوم، والغسل من الجنابۃ کل غسل، والزکوٰۃ کل صدقۃ۔‘‘ انتھی

’’ ابن المبارک، دارقطنی، بیہقی اور ابن عدی نے حضرت علی سے بھی اس مفہوم کی روایت نقل کی ہے کہ قربانی نے ہر ذبیحہ، رمضان نے ہر روزہ، غسلِ جنابت نے ہر غسل اور زکات نے ہر صدقہ منسوخ کردیا ہے۔‘‘

سید جلال الدین خوارزمی الکرمانی، کفایہ حاشیہ ہدایہ میں کہتے ہیں:

’’ کان في الجاھلیۃ ذبائح یذبحونھا، منھا العقیقۃ، ومنھا الرجبیۃ، ومنھا العتیرۃ، وکلھا منسوخ بالأضحیۃ ‘‘ انتھی ملخصا

’’ جاہلیت میں عقیقہ، رجبیہ اور عتیرہ نامی کئی مواقع پر جانور ذبح کیے جاتے تھے، لیکن اسلام میں قربانی کی وجہ سے یہ سارے منسوخ کردیے گئے۔‘‘

اسی طرح شیخ عبدالحق نے شرح مشکوٰۃ اور سفر السعادۃ میں امام محمد سے یہ مضمون نقل کیا ہے۔ پس ابن المبارک، دارقطنی، بیہقی اور ابن عدی کی روایت کا جواب یہ ہے کہ اول تو اس حدیث کی اسناد میں کلام کیا گیا ہے، کیونکہ اس کی سند میں مسیب بن شریک اور عقبہ بن الیقظان ہیں اور ان میں محدثین نے کلام کیا ہے۔

چنانچہ شیخ الاسلام بدرالدین عینی نے بنا یہ شرح ہدایہ کی کتاب الاضحیہ میں فرمایا ہے:

’’ أخرج الدارقطني ثم البیھقي في سننیھما في الأضحیۃ عن المسیب بن شریک عن عقبۃ بن الیقظان عن الشعبي عن مسروق عن علي رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہﷺ : نسخت الزکاۃ کل صدقۃ، ونسخ صوم رمضان کل صوم، ونسخ غسل الجنابۃ کل غسل، ونسخت الأضحی کل ذبح، وضعفاہ، قال الدارقطني: المسیب بن شریک وعقبۃ بن الیقظان متروکان، ورواہ عبدالرزاق في مصنفہ في أواخر النکاح موقوفا علی علي بن أبي طالب رضی اللہ عنہ‘‘ انتھی ( البنایۃ شرح الھدایۃ للعیني ۱۲؍ ۱۰۴۹)

’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: زکات نے ہر صدقہ، رمضان نے ہر روزہ، غسل جنابت نے ہر غسل اور قربانی نے ہر ذبیحہ منسوخ کردیا ہے۔ امام دارقطنی اور امام بیہقی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں مسیب بن شریک اور عقبہ بن یقظان دونوں متروک ہیں، اور امام عبدالرزاق نے مصنف میں اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موقوف روایت کیا ہے۔ ‘‘

نیز علامہ عینی کتاب مذکور کے اس باب میں فرماتے ہیں:

’’ أخرج الدارقطني عن مسیب بن شریک حدثنا عبد الملک عن الشعبي عن مسروق عن علي عن النبيﷺ : نسخ الأضحٰی کل ذبح، ورمضان کل صوم، قال البیھقي: إسنادہ ضعیف بمرۃ، والمسیب بن شریک متروک، وقال في التنقیح : قال الفلاس: أجمعوا علی ترک حدیث المسیب بن شریک ‘‘ انتھی (البنایۃ شرح الھدایۃ للعیني (۱۲؍۷) سنن الدارقطني ۴؍ ۲۷۹)

’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ قربانی نے ہر ذبیحہ اور رمضان نے ہر روزہ منسوخ کردیا ہے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اس کی سند سخت ضعیف ہے اور مسیب بن شریک متروک ہے۔ تنقیح میں کہا ہے کہ امام فلاس فرماتے ہیں: مسیب بن شریک کی حدیث ترک کرنے پر محدثین کا اجماع ہے۔‘‘ 

اگر بالفرض یہ حدیث صحیح بھی مان لی جائے تب بھی اس حدیث سے وجوبِ عقیقہ کا منسوخ ہونا ثابت ہوتا ہے، نہ یہ کہ سرے سے عقیقہ ہی منسوخ ہے، جیسا کہ رمضان کے روزے نے عاشورہ کے روزے کی فرضیت ساقط کردی اور غسل جنابت نے ہر طرح کے غسل کا وجوب منسوخ کردیا، اسی طرح قربانی نی عقیقے کا وجوب منسوخ کردیا، فی نفسہٖ عقیقے کی مشروعیت اب بھی باقی ہے، جیسا کہ عاشورہ کے روزے کا استحباب اب بھی موجود ہے اور ان دونوں کی مشروعیت صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ عقیقے کا استحباب بھی منسوخ ہے تو پھر عاشورہ کے روزے کا استحباب بھی منسوخ ماننا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ کوئی اس کا قائل نہیں۔

علاوہ ازیں نسخ ثابت کرنے کے لیے منسوخ حدیث سے ناسخ کا بعد میں ہونا ضروری ہے اور یہاں صورت حال اس کے برعکس ہے، کیونکہ قربانی ۲ھ میں شروع ہوئی اور عقیقے پر عمل ۳، ۴، ۶، ۸ یا ۹ ھ میں قربانی کی مشروعیت کے بعد بھی ہوتا رہا۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ۳ھ اور ۴ھ میں، اپنے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کا عقیقہ ۸ھ یا ۹ھ میں کیا۔ ام کرز غزوہ حدیبیہ کے سال یعنی ۶ھ میں عقیقے کی حدیث روایت کرتی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی سے عقیقے کے منسوخ ہونے کی کوئی حقیقت نہیں۔ قربانی کا حکم ۲ھ میں آیا۔ چنانچہ علامہ شیخ عزالدین جزری الشہیر بابن الاثیر نے کتاب ’’ أسد الغابۃ في معرفۃ الصحابۃ ‘‘ میں کہا ہے: 

’’ وفي السنۃ الثانیۃ من الھجرۃ کانت غزوۃ بدر العظمی في شھر رمضان، وفیھا ضحی رسول اللہ ﷺ بالمدینۃ، وخرج بالناس، وذبح بیدہ شاتین، وقیل : شاۃ ‘‘ انتھی (أسد الغابۃ ۱؍ ۱۳)

’’ ہجرت کے دوسرے سال ماہِ رمضان میں غزوۂ بدر کبریٰ پیش آیا اور اسی سال رسول اللہﷺ نے مدینہ طیبہ میں قربانی کی۔ چنانچہ آپﷺ لوگوں کو لے کر (عید گاہ کی طرف) نکلے اور اپنے ہاتھ مبارک سے دو بکریاں ذبح کیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک بکری ذبح کی۔‘‘

اور علامہ زرقانی ’’ مواہب لدنیہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ فصل ۔ ذکر بعض وقائع ثانیۃ الھجرۃ، وفي ذي الحجۃ صلی رسول اللہﷺ العید بالمصلی، وضحی بکبشین، وأمر الناس بالأضحیۃ، وھو أول عید الأضحی رآہ المسلمون‘‘ انتھی

’’ دو ہجری ذوالحج کے مہینے میں رسول اللہﷺ نے مصلی (عید گاہ) میں نماز پڑھائی اور دو مینڈھے ذبح کیے اور لوگوں کو بھی قربانی کرنے کا حکم دیا۔ یہ پہلی عید الاضحی تھی جو مسلمانوں نے دیکھی۔‘‘ 

علامہ شیخ حسین بن دیار بکری، تاریخ خمیس میں فرماتے ہیں:

’’ الموطن الثاني في حوادث السنۃ الثانیۃ من الھجرۃ من صوم عاشوراء، وصلوۃ العید والتضحیۃ في ھذہ السنۃ في ذي الحجۃ، خرج رسول اللہ ﷺ یوم عید الأضحی إلی المصلی، وصلی صلاۃ العید فیہ، وضحی بکبشین، والأغنیاء من أصحابہ، وھو أول أضحی رآہ المسلمون۔‘‘ انتھی

’’ دو ہجری کے واقعات میں سے ایک عاشورے کا روزہ ہے، نیز اس سال کے ماہ ذی الحج میں نمازِ عید اور قربانی کرنے کی سنت کا جاری ہونا ہے، چنانچہ رسول اللہﷺ عید الاضحی (دس ذوالحج) کے دن عید گاہ کی طرف گئے اور وہاں نمازِ عید پڑھائی اور بعد میں دو مینڈھے ذبح کیے۔ آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جو مالدار تھے، انھوں نے بھی قربانی کی اور مسلمانوں نے یہ پہلی عیدالاضحی منائی۔‘‘

حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے عقیقے کا حال مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہوچکا ہے، لیکن سال ولادت ۳ ہجری ہے۔ چنانچہ امام ابن اثیر نے ’’ اسد الغابہ‘‘ میں کہا ہے:

’’ الحسن بن علي بن أبي طالب بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبد مناف القرشي الھاشمي أبو محمد سبط النبيﷺ ، وأمہ فاطمۃ بنت رسول اللہ ﷺ سیدۃ نساء العالمین، وھو سید شباب أھل الجنۃ، وریحانۃ النبيﷺ ، وشبیھہ، سماہ النبيﷺ الحسن، وعق عنہ یوم سابعہ، وحلق شعرہ، وأمر أن یتصدق بزنۃ شعرہ فضہ … إلی أن قال: ولد الحسن بن علي بن أبي طالب، وأمہ فاطمۃ بنت رسول اللہﷺ، في النصف من رمضان ، سنۃ ثلاث من الھجرۃ۔‘‘ انتھی (أسد الغابۃ ۱ ؍ ۲۵۸)

’’ ابو محمد حسن بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف القرشی الہاشمی نبی اکرمﷺ کے نواسے ہیں اور ان کی والدہ جہانوں کی عورتوں کی سردار فاطمہ بنت رسول اللہﷺ ہیں۔ حسن رضی اللہ عنہ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں اور نبی اکرمﷺ کے پھول اور آپﷺ کے مشابہ ہیں۔ نبی کریمﷺ نے ان کا نام حسن رکھا اور ان کی پیدایش کے ساتویں دن ان کا عقیقہ کیا، بال منڈوائے اور ان بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا … نیز فرماتے ہیں: حسن بن علی بن ابی طالب، جن کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت رسول اللہﷺ ہیں، ہجرت کے تیسرے سال نصف رمضان میں پیدا ہوئے۔‘‘

شیخ جلال الدین سیوطنی نے ’’ تاریخ الخلفاء ‘‘ میں فرمایا:

’’ الحسن بن علي بن أبي طالب رضی اللہ عنہ، أبو محمد سبط رسول ﷺ، وریحانتہ، وآخر الخلفاء، بنصہ، أخرج ابن سعد عن عمران بن سلیمان قال : الحسن والحسین اسمان من أسماء أھل الجنۃ، ما سمیت العرب بھما في الجاھلیۃ، ولد الحسن في نصف رمضان سنۃ ثلاث من الھجرۃ، وروی لہ عن النبيﷺ أحادیث، وروی عنہ عائشۃ رضي اللہ عنھا، وخلائق من التابعین، منھم ابنہ الحسن، وأبو الحوراء ربیعۃ بن شیبان، والشعبي، وأبو الوائل، وکان شبیھا بالنبيﷺ ، سماہ النبي ﷺ الحسن، وعق عنہ یوم سابعہ، وحلق شعرہ، وأمر أن یتصدق بزنۃ شعرہ فضۃ۔‘‘ انتھی (تاریخ الخلفاء للسیوطی ۱؍ ۱۶۶)

’’ ابو محمد حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے نواسے، آپﷺ کے پھول اور خلفا میں سے آخری خلیفہ ہیں۔ ابن سعد نے عمران بن سلیمان کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ حسن اور حسین اہل جنت کے ناموں میں سے دو نام ہیں، زمانہ جاہلیت میں بھی عربوں نے کبھی یہ نام نہیں رکھے تھے۔ حسن رضی اللہ عنہ تین ہجری میں نصف رمضان کو پیدا ہوئے۔ کئی ایک احادیث نبویہ ان کے واسطے سے مروی ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہما اور تابعین میں سے کئی لوگوں نے ان سے روایت بیان کی ہے، جن میں ان کے بیٹے حسن، ابو الحوراء ربیعہ بن شیبان، شعبی اور ابو وائل شامل ہیں۔ حسن رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ کے مشابہ تھے۔ نبی کریمﷺ نے ان کا نام حسن رکھا، ان کی پیدایش کے ساتویں دن ان کا عقیقہ کیا، ان کے بال منڈوائے اور ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم صادر فرمایا۔‘‘

حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے عقیقے کا حال احادیث بالا سے معلوم ہوچکا ہے، لیکن سال ولادت ۴ ہجری ہے۔ چنانچہ ابن اثیر ’’ اسد الغابہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ الحسین بن علي بن أبي طالب … إلی أن قال : قال اللیث بن سعد: ولدت فاطمۃ بنت رسول اللہﷺ الحسین بن علي في لیال خلون من شعبان سنۃ أربع ۔‘‘ انتھی (أسد الغابۃ ۱؍ ۲۶۳، ۲۶۴)

’’ حسین بن علی بن ابی طالب … لیث بن سعد نے کہا: فاطمہ بنت رسول اللہﷺ نے چار ہجری میں شعبان کی چند راتیں گزرنے پر حسین بن علی کو جنم دیا۔‘‘

شیخ حسین بن محمد ’’ تاریخ خمیس‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ فصل ذکر میلاد الحسن، وسیجیٔ میلاد الحسین في الموطن الرابع في السنۃ الرابعۃ من الھجرۃ، وفي نصف رمضان ھذہ السنۃ سنۃ ثلاث من الھجرۃ ولد الحسن بن علي بن أبي طالب، کذافي الصفوۃ، قال أبو عمر: وھذا أصح ما قیل فیہ، ذکر عقہ ﷺ عنھما، وأمرہ بحلق رؤسھما، عن ابن عباس أن رسول اللہﷺ عق عن الحسن والحسین کبشا کبشا، أخرجہ أبوداود وأخرجہ النسائي، وقال : کبشین کبشین، وعن علي: عق رسول اللہﷺ عن الحسن، وقال : یا فاطمۃ احلقي رأسہ ، وتصدقي بزنۃ شعرہ فضۃ، فوزناہ فکان وزنہ درھما أو بعض درھم ‘‘ أخرجہ الترمذي، انتھی

’’ ولادتِ حسن رضی اللہ عنہ کا بیان: حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت کا تذکرہ چوتھے مقام پر ہجرت کے چوتھے سال کے واقعات میں آئے گا۔ تین ہجری کو نصف رمضان گزرنے پر حسن بن علی بن ابی طالب پیدا ہوئے۔ صفوہ میں بھی یہی مرقوم ہے۔ چنانچہ ابو عمر نے کہا: اس سلسلے میں جو کچھ کہا گیا، اس میں سے صحیح قول یہی ہے۔ پھر انھوں نے آپﷺ کے ان دونوں (حسن و حسین) کے عقیقہ کرنے اور ان کا حلق کروانے کا حکم دینے کا ذکر کیا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے حسن و حسین کی طرف سے ایک ایک مینڈھے کے ساتھ عقیقہ کیا۔ اس روایت کو ابوداود نے روایت کیا ہے۔ امام نسائی نے جو روایت نقل کی ہے، اس میں ہے کہ انھوں نے کہا: دو دو مینڈھے ذبح کیے۔ علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہﷺ نے حسن رضی اللہ عنہ کا عقیقہ کیا اور فرمایا: اے فاطمہ! اس کا سر مونڈو اور اس کے بالوں کے وزن کے برابر صدقہ کرو۔ چنانچہ ان کے بالوں کا وزن ایک درہم یا درہم کا کچھ حصہ بنا تھا۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ 

ابراہیم بن رسول اللہﷺ کا عقیقہ ۹ ہجری کو ہوا۔ چنانچہ ابن اثیر ’’ اسد الغابہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ إبراھیم ابن رسول اللہ ، وأمہ ماریۃ القبطیۃ … إلی أن قال : وکان مولدہ في ذي الحجۃ سنۃ ثمان من الھجرۃ، وسر النبيﷺ بولادتہ کثیرا، و ولدہ بالعالیۃ، وکانت قابلتہ سلمیٰ مولاۃ النبيﷺ امرأۃ أبي رافع، فبشر أبو رافع النبيﷺ فوھب لہ عبداً، وحلق شعر إبراھیم یوم سابعہ، وسماہ، وتصدق بزنتہ ورقا، وأخذوا شعرہ فدفنوہ ، کذا قال الزبیر۔‘‘ ( أسد الغابۃ ۱؍ ۲۳)

’’ ابراہیم بن رسول اللہﷺ اور ان کی والدہ ماریہ قبطیہ ہیں … حتیٰ کہ انھوں نے فرمایا: اس کی پیدایش ہجرت کے آٹھویں سال ذوالحجہ کے مہینے میں ہوئی اور نبی اکرمﷺ ان کی ولادت پر بہت زیادہ خوش ہوئے۔ وہ مدینے کے عالیہ میں پیدا ہوئے اور دایہ کے فرائض نبی ﷺ کی لونڈی اور ابو رافع کی بیوی سلمیٰ نے سرانجام دیے۔ جب ابو رافع نے نبی اکرمﷺ کو ابراہیم کی پیدائش کی خوشخبری دی تو آپﷺ نے انھیں ایک غلام عطا کیا۔ ابراہیم کی پیدایش کے ساتویں دن آپﷺ نے ان کا حلق کروایا اور ان کا نام رکھا اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے بال پکڑے اور دفن کردیے۔ زبیر کا یہی بیان ہے۔‘‘ 

ام کرز کی عقیقے کی حدیث غزوہ حدیبیہ کی ہے، جیسا کہ نسائی میں ہے اور یہ معلوم ہے کہ غزوہ حدیبیہ ۶ھ میں ہوا۔ چنانچہ تاریخ خمیس میں فرماتے ہیں: ( سنن النسائي ، رقم الحدیث ۴۲۱۷)

’’ الموطن السادس فیما وقع في السنۃ السادسۃ من الھجرۃ، وفي ھلال ذي القعدۃ من ھذہ السنۃ وقعت غزوۃ الحدیبیۃ‘‘ انتھی

’’ چھٹی فصل چھے ہجری میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق: اس سال کے ماہ ذی القعدہ میں غزوۂ حدیبیہ پیش آیا۔‘‘ 

’’ اسد الغابہ‘‘ میں کہتے ہیں:

’’ في ذي القعدۃ اعتمر رسول اللہﷺ عمرۃ الحدیبیۃ، وبایع بیعۃ الرضوان تحت الشجرۃ‘‘ انتھی ( أسد الغابۃ ۱؍ ۱۳)

’’ ذوالقعدہ کے مہینے میں رسول اللہﷺ نے حدیبیہ والا عمرہ کیا اور درخت کے نیچے بیعت رضوان لی۔‘‘

شیخ عبدالحق ’’ شرح سفر السعادت‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ حسین رضی اللہ عنہ کے عقیقے کا ذبیحہ ام کرز کی حدیث سے مقدم ہے، اس لیے کے یہ سال دوئم کا واقعہ ہے، جب احد کی جنگ ہوئی تھی اور امام حسن پیدا ہوئے تھے، جبکہ دوسرا سال امام حسین کی ولادت کا ہے اور ام کرز کی روایت حدیبیہ کی ۶ ہجری کی ہے۔‘‘ 

شیخ سلام اللہ ’’محلی شرح موطا‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ ویمکن أن یقال : إن المراد نسخ وجوب ما عدا الأضحیۃ لاندبھا، کما أن المراد في نظائرھا نسخ الوجوب، کیف ولم ینسخ التطوع بالصوم والصدقۃ والغسل، ومما یدل علی ذلک أن شرعیۃ الأضحیۃ في الأولی من الھجرۃ، وعقیقۃ الحسنین في السنۃ الثالثۃ والرابعۃ، وحدیث أم کرز في عام الحدیبیۃ سادس الھجرۃ، والعقیقۃ عن إبراھیم کان تاسع الھجرۃ، وقد عمل بھا ابن عمر وغیرہ من الصحابۃ بعد النبيﷺ ، قال أحمد: الأحادیث المعارضۃ لأخبار العقیقۃ لا یعبأبھا۔‘‘ انتھی

’’ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس سے مراد قربانی کے علاوہ دیگر ذبائح کے وجوب کا منسوخ ہونا ہے نہ کہ ان کے مندوب ہونے کا، جیسا کہ اس کے نظائر میں وجوب کا منسوخ ہونا مراد ہے، اور یہ کیسے نہ ہو جبکہ نفلی روزے، صدقہ اور غسل منسوخ نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قربانی کی مشروعیت پہلے سال ہے اور حسن و حسین کا عقیقہ تیسرے اور چوتھے سال کا واقعہ ہے، ام کرز کی بیان کردہ حدیث حدیبیہ والے سال چھے ہجری کی ہے اور ابراہیم کا عقیقہ نو ہجری کا واقعہ ہے۔ اس عقیقے کی سنت پر نبی اکرمﷺ کے بعد ابن عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمل کیا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: عقیقے کے متعلق وارد احادیث کی مخالف کرنے والی احادیث کی پروانہ کی جائے۔‘‘

صاحبِ محلی کے قول : ’’ إن شرعیۃ الأضحیۃ في الأولی من الھجرۃ‘‘ (قربانی کی مشروعیت ہجرت کے شروع میں تھی) میں لفظ ’’ اولی‘‘ سے مقصود ہجرت کا سال اول نہیں ہے۔ یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے، کیونکہ اس کی مشروعیت ۲ ہجری میں ہوئی ہے۔ بلکہ مذکورہ کلام میں لفظ اولیٰ سے مراد ہجرت کے آغاز کا دور مراد ہے کہ دوسرا سال ہے، پہلے سال کے بعد۔ واللہ أعلم بمراد العباد۔

احقر نے اپنے استاد شیخ المشائخ قدوۃ المحققین مولانا بشیر الدین قنوجی سے جب اس موضوع سے متعلق سوال کیا تو انھوں نے جواب میں تحریر فرمایا:

’’ نسخ سے متعلق امام محمد کی دلیل شاید حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جو دارقطنی وغیرہ میں موجود ہے، اگر یہ صحیح بھی مان لی جائے تو اس سے صرف وجوبِ عقیقہ کا نسخ ثابت ہوتا ہے اور یہ استحبابِ عقیقہ کے منافی نہیں، اس لیے کہ اس کا استحباب دوسری احادیث سے ثابت ہے، جیسا کہ رمضان کے علاوہ ہر روزے کے وجوب کے منسوخ ہونے سے عاشورہ کے روزے کے استحباب کی نفی نہیں ہوتی اور جنابت کے علاوہ ہر غسل کے وجوب کے منسوخ ہونے سے غسل جمعہ کے استحباب کی نفی نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں بریدہ کی حدیث جو ابوداود میں ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عقیقہ نہیں، بلکہ مولود کے سر کو ذبیحے کے خون سے مَلنا منسوخ ہوا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ قربانی کی مشروعیت ۲ھ میں ہوئی ہے اور رسول اللہﷺ نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ۳ھ اور ۴ھ میں اور اپنے بیٹے ابراہیم کا عقیقہ ۹ھ میں کیا۔ اگر عقیقے کا حکم منسوخ ہوگیا ہوتا تو خود آنحضرتﷺ اس پر عمل کیسے کرتے؟ جس روایت میں یہ آیا ہے کہ آنحضورﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے سے منع فرمایا تھا تو اس سے مقصود یہ ہے کہ ان دونوں کا عقیقہ میں نے کردیا ہے، تمھیں کرنے کی ضرورت نہیں۔ عقیقے کے بارے میں ام کرز کی جو روایت مشکوٰۃ وغیرہ میں مذکور ہے، اسے ام کرز نے حدیبیہ والے سال یعنی ۶ھ میں روایت کیا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام رسول اللہﷺ کے بعد اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ ابراہیم نخعی، محمد بن حنفیہ، جو تابعین سے ہیں، ان کے اقوال سے مرفوع حدیث منسوخ نہیں ہوسکتی۔ جبکہ محمد بن حنفیہ سے روایت کرنے والا مجہول بھی ہے۔ اور ابراہیم نخعی کے قول کا راوی حماد بن ابی سلیمان بھی متکلم فیہ ہے۔‘‘ ان کا کلام ختم ہوا۔

میں کہتا ہوں کہ نسخ سے متعلق مذکورہ بالا حدیث میں ایک اشکال یہ بھی ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زکات نے ہر صدقہ منسوخ کردیا ہے، گویا صدقہ فطر بھی منسوخ ہے۔

چنانچہ تاریخ خمیس میں کہتے ہیں:

’’ في السنۃ الثانیۃ فرضت زکوٰۃ الفطر، فکان ذلک قبل العید بیومین، کذا في أسد الغابۃ فخطب الناس قبل الفطر بیومین، یعلمھم زکاۃ الفطر، فکان ذلک قبل أن تفرض زکاۃ الأموال‘‘ انتھی

’’ ہجرت کے دوسرے سال عید سے دو روز قبل زکوٰۃ فطر (فطرانہ) فرض ہوئی۔ اسد الغابہ میں یہی مرقوم ہے، چنانچہ آپﷺ نے عید الفطر سے دو دن قبل لوگوں سے خطاب کیا، جس میں آپﷺ انھیں زکاتِ فطر کی تعلیم فرما رہے تھے اور یہ مال پر زکات کے فرض ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔‘‘

حالانکہ حقیقت امر یہی ہے کہ صدقہ فطر کا وجوب ساقط نہیں ہوا، بلکہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں ہمیشہ صدقہ فطر ادا کیا جاتا رہا اور صحابہ کرام نے بھی برابر اس کا اہتمام کیا ہے، جیسا کہ حضرت علی اور صحابہ کرام جیسے عمر، ابن عمر، جابر، عائشہ وغیرہم رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب ہے، جیسا کہ بخاری شریف میں مذکور ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک واجب ہے اور تینوں ائمہ کے نزدیک فرض ہے، جیسا کہ قسطلانی شرح بخاری میں مسطور ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ( إرشاد الساري ۳؍ ۸۵)

’’ قال : فرض رسول اللہ ﷺ صدقۃ الفطر صاعا من شعیر أو صاعا من تمر، علی الصغیر والکبیر والمملوک‘‘ رواہ البخاري ( صحیح البخاري، رقم الحدیث ۱۵۰۳)

’’ فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ نے چھوٹے، بڑے اور غلام پر صدقہ فطر فرض کیا ہے، ایک صاع جَو سے یا ایک صاع کھجوروں سے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

یہ ہے جواب دارقطنی و بیہقی و ابن عدی اور ابن مبارک کی روایت کا اور یہی جواب ہے موطا امام محمد کی روایت کا بھی۔ ابراہیم نخعی کا یہ قول کہ ’’ کانت العقیقۃ في الجاھلیۃ، ثم جاء الإسلام فرفضت‘‘ ( عقیقہ جاہلی دور میں رائج تھا، اسلام آیا تو چھوڑ دیا گیا) درست نہیں، بلکہ صحیح احادیث کے خلاف ہے، کیونکہ بہت سی حدیثوں سے اس کی مشروعیت اسلام میں ثابت ہے، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے عقیقہ کیا ہے اور صحابہ کرام اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ ممکن ہے امام نخعی کو عقیقے کی حدیثیں نہ پہنچی ہوں۔ بہرحال ان کے قول سے صحیح مرفوع حدیثیں منسوخ نہیں ہوسکتیں۔ اس کے علاوہ اس میں راوی حماد بن ابی سلیمان ہے، جن پر محدثین نے کلام کیا ہے۔

الشیخ العلامہ حافظ شمس الدین ذہبی ’’ میزان الاعتدال في نقد الرجال‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ حماد بن أبي سلیمان، تکلم فیہ للإرجاء، وقال أبو حاتم۔ صدوق لا یحتج بہ، وقال أبو الملح الرقي: قدم علینا حماد فخرجت إلیہ، فإذا علیہ ملحفۃ معصفرہ، وقد خضب بالسواد، فلم أسمع منہ، وعن الأعمش قال : حدثني حماد بحدیث عن إبراھیم، وکان غیر ثقۃ، وقال مرۃ ثانیۃ: ما کنا نصدقہ۔‘‘ انتھی ( میزان الاعتدال ۲؍ ۳۶۴، ۳۶۵)

’’ حماد بن ابی سلیمان پر ’’ ارجاء‘‘ کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے: وہ صدوق ہے، اس سے حجت نہیں لی جاتی۔ ابو الملح الرقی نے کہا: حماد ہمارے پاس آیا تو میں اس کے استقبال کے لیے نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے کسنبے (ممنوع) رنگ کی چادر اوڑھ رکھی ہے اور سیاہ رنگ کا خطاب کیا ہوا ہے تو میں نے اس سے کوئی روایت نہ سنی۔ اعمش سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: مجھے حماد نے ابراہیم سے روایت بیان کیا، جبکہ وہ غیر ثقہ ہے اور دوسری مرتبہ کہا: ہم اس کی تصدیق نہیں کرتے تھے۔‘‘ 

حافظ الحدیث شیخ ابن حجر عسقلانی ’’ تھذیب تھذیب الکمال فی اسماء الرجال‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ قال النسائي : ثقۃ إلا أنہ مرجیٔ، وقال أبو نعیم عن عبداللہ بن حبیب بن أبي ثابت سمعت أبي یقول: قال إبراھیم۔ فقلت: واللہ إنک لتکذب علی إبراھیم أو أن إبراھیم یخطئ، وقال ابن حبان في الثقات : یخطیٔ، وکان الأعمش یتلقی حمادا، وحین تکلم في الإرجاء فلم یکن یسلم علیہ، وقال ابن سعد : کان ضعیفا في الحدیث، واختلط في آخر عمرہ، وکان مرجئا، وقال الذھلي : کثیر الخطأ والوھم۔‘‘ انتھی ملخصا (تھذیب التھذیب لابن حجر ۳؍۱۵)

’’ امام نسائی نے فرمایا: وہ ثقہ ہے، مگر مر جی ہے۔ ابو نعیم نے عبداللہ بن حبیب بن ابی ثابت سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے سنا: حماد کہا کرتا تھا: ابراہیم نے کہا، تو میں نے کہا: اللہ کی قسم! یا تُو ابراہیم پر جھوٹ بولتا ہے یا ابراہیم غلطی کرتا ہے۔ ابن حبان نے ثقات میں کہا ہے: وہ خطا کرتا ہے۔ اعمش حماد سے ملاقات کرتے، لیکن جب اِرجا کے متعلق انھوں نے کلام ظاہر کیا تو وہ انھیں سلام نہ کہتے تھے۔ ابن سعد کا بیان ہے: وہ حدیث کے معاملے میں ضعیف ہے اور اپنی آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگیا تھا اور وہ مرجی تھا۔ ذہلی نے کہا: وہ کثیر الخطا اور کثیر الوہم ہے۔‘‘

نیز شیخ ابن حجر عسقلانی ’’ تقریب التہذیب‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ حماد بن أبي سلیمان مسلم الأشعري، مولا ھم أبو إسماعیل الکوفي، فقیہ صدوق، لہ أوھام، من الخامسۃ، رمي بالإرجاء‘‘ انتھی (تقریب التھذیب لابن حجر ۱؍ ۱۷۸)

’’ حمادبن ابی سلیمان مسلم الاشعری ان کا مولیٰ ابو اسماعیل الکوفی ہے، جو پانچویں طبقے کا فقیہ اور صدوق ہے، مگر اس پر اِرجاء کی تہمت ہے۔‘‘

امام محمد وجوبِ عقیقہ کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں، نہ کہ اس کے استحباب کے، چنانچہ شیخ ابن عابدین ’’ ردالمحتار‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ تستحب لمن ولد لہ أن یسمیہ یوم أسبوعہ، ویحلق رأسہ، ویتصدق عند الأئمۃ الثلاثۃ بزنۃ شعرہ فضۃ أو ذھبا، ثم یعق عنہ عند الحلق عقیقۃ إباحۃ أو تطوعا، وبہ قال مالک، وسنھا الشافعي وأحمد سنۃ مؤکدۃ۔‘‘ انتھی ملخصا ( حاشیہ ابن عابدین ۶؍ ۳۳۶)

’’ تین اماموں کے نزدیک جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو، اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ ساتویں دن اس کا نام رکھے، اس کا سر منڈوائے اور ان کے وزن کے برابر چاندی یا سونا صدقہ کرے، پھر حلق کروانے کے بعد بطور مباح یا تطوع اس کی طرف سے عقیقہ کرے۔ یہی امام مالک رحمہ اللہ کا موقف ہے، جبکہ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ نے عقیقے کو سنت موکدہ قرار دیا ہے۔‘‘ 

اس کی تفصیل کتاب میں پہلے گزر چکی ہے کہ امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کی طرح امام محمد کی طرف بھی عقیقے کے استحباب یا اباحت کا قول منسوب کیا جاتا ہے، گویا ان کے نزدیک بھی دراصل عقیقے کا وجوب منسوخ ہے نہ کہ اس کا استحباب۔ اس صورت میں ان کی کتابوں میں جو عبارتیں ہیں، ان میں ’’وجوب‘‘ کو مقدر ماننا پڑے گا، تاکہ ان کا قول دیگر علمائے احناف کے قول کے خلاف نہ ہو۔

چنانچہ وہ کتاب الآثار میں فرماتے ہیں:

’’ کانت العقیقۃ في الجاھلیۃ فلما جاء الإسلام رفضت، وبہ نأخذ‘‘(کتاب الآثار ۱؍ ۲۳۸)

’’ زمانہ جاہلیت میں لوگ عقیقہ کرتے تھے، تو جب اسلام آیا تو اسے چھوڑ دیا گیا اور ہم بھی اسی پر عمل کریں گے۔‘‘ 

جامع صغیر میں کہتے ہیں:

’’ لا یعق عن الغلام ولا عن الجاریۃ‘‘ انتھی

’’ نہ بچے کی طرف سے عقیقہ کیا جائے اور نہ بچی ہی کی طرف سے۔‘‘

اسی طرح انھوں نے اپنے موطا میں فرمایا ہے۔

میں کہتا ہوں کہ اگر ان کے کلام کی اس طرح تاویل کی جائے کہ لفظ وجوب کو مقدر مانا جائے، یعنی ’’ رفضت وجوبھا‘‘ اور ’’ لا یعق وجوباً‘‘ تو اس طرح ان کے کلام اور احادیث کے درمیان تطبیق ہو جاتی ہے اور اہل سنت کا مذہب یہی ہے کہ احادیث کے مطابق بنانے کے لیے کسی عالم کے قول کے اندر ایسی تاویل کرنا مناسب ہے، کیونکہ ہمارے نزدیک صحیح حدیث میں تاویل کرنے کے بجائے کسی عالم کے قول میں تاویل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اس قول میں تاویل کرکے قرآن و سنت کے مطابق کرلیا جائے، بجائے اس کے کہ امتی کے قول کو تسلیم کیا جائے اور کتاب و سنت میں تاویل کی جائے۔

ھذا آخر ما قصدنا إیرادہ في ھذا لکتاب المسمی بالأقوال الصحیحۃ في أحکام النسیکۃ، فللہ الحمد والمنۃ، الآن یناسب أن أبین ما ھو من متعلقات ھذا الباب، من حکم الأذان حین ولادتہ، وتسمیۃ المولود بأول یوم کانت أفضل، وغیرہ، فأقول بفضل اللہ العلام، وھو ملھم الصدق والصواب۔

’’ عقیقے کی مشروعیت کے بارے میں اس گفتگو کے بعد اب چند باتیں مولود سے متعلق دیگر احکام کے سلسلے میں ذکر کی جاتی ہیں۔‘‘ 

معلوم ہونا چاہیے کہ ولادت کے بعد مستحب ہے کہ مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے۔ چنانچہ شیخ جلال الدین سیوطی نے ’’ جامع صغیر في أحادیث البشیر النذیر‘‘ کی جلد دوم میں کہا ہے:

’’ من ولد لہ ولد فأذن في أذنہ الیمنی، وأقام في أذنہ الیسری، لم تضرہ أم الصبیان‘‘ رواہ أبو یعلي في مسندہ عن الحسین۔ (الجامع الصغیر ۲؍ ۳۵۲، مسند أبي یعلیٰ (۱۲؍ ۱۵۰) اس کی سند میں ’’یحییٰ بن العلاء‘‘ اور ’’ مروان بن سالم‘‘ دونوں ضعیف ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ، رقم الحدیث ۳۲۱)

’’ جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کے دائیں کان میں اذان کہے اور اس کے بائیں کان میں اقامت کہے تو اسے ’’ام الصبیان‘‘ (ایک بیماری جس سے بچے بے ہوش ہو جاتے ہیں) نقصان نہ پہنچائے گی۔ اس روایت کو ابو یعلی نے اپنی مسند میں حسین کے واسطے سے نقل کیا ہے۔‘‘

امام ابو زکریا نووی اذکار میں فرماتے ہیں:

’’ وقد روینا في کتاب ابن السني عن الحسین بن علي رضي اللہ عنھما قال قال رسول اللہﷺ : من ولد لہ ولد فأذن في أذنہ الیمنی، وأقام في أذنہ الیسری لم تضرہ أم الصبیان۔‘‘ ( الأذکار ۱؍ ۸۲۶) مسند أبي یعلیٰ ۱۲؍ ۱۵۰، اس کی سند بھی ضعیف ہے۔

’’ ابن السنی کی کتاب میں حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اس نے اس بچے کے دائیں کان میں اذان اور اس کے بائیں کان میں اقامت کہی تو اس بچے کو ام الصبیان بیماری نقصان نہیں پہنچائے گی۔‘‘ 

علامہ علی قاری نے ’’ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح‘‘ میں کہا ہے:

’’ ھذا یدل علی سنیۃ الأذان في أذن المولود۔‘‘ ( مرقاۃ المفاتیح ۱۲؍ ۴۱۸)

’’ شرح السنۃ‘‘ میں ہے:

’’ روي أن عمر بن عبدالعزیز کان یؤذن في الیمنی، ویقیم في الیسری، إذا ولد الصبي ‘‘ انتھی ( شرح السنۃ ۱۱؍ ۲۷۳)

’’ روایت کی گئی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز بچے کی پیدایش کے وقت اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے تھے۔‘‘ 

امام ابوداود اپنی سنن میں خود روایت کرتے ہیں:

’’ عن عبید اللہ بن أبي رافع عن أبیہ قالت: رأیت رسول اللہﷺ أذّن في أذن الحسین بن علي حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ۔‘‘ رواہ أبوداود والترمذي۔ ( سنن أبي داود، رقم الحدیث ۵۱۰۵، سنن الترمذي، رقم الحدیث ۱۵۱۴)

’’ عبید اللہ بن ابی رافع سے مروی ہے، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حسین بن علی کو جنم دیا تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ نے (ان کے کان میں) نماز والی اذان کہی۔ اس روایت کو ابوداود اور ترمذی نے نقل کیا ہے۔‘‘

امام ترمذی فرماتے ہیں:

’’ ھذا الحدیث صحیح والعمل علیہ‘‘ ( سنن الترمذي ، رقم الحدیث ۱۵۱۴)

’’ یہ حدیث صحیح ہے اور اس پر عمل ہے۔‘‘ 

شیخ الاجل محدث الہند ولی اللہ الدہلوی نے ’’ حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں فرمایا ہے:

’’ وأذن رسول اللہ ﷺ في أذن الحسین بن علي حین ولدتہ فاطمۃ بالصلوۃ۔ أقول: السر في ذلک ما ذکرنا في العقیقۃ من المصلحۃ الملیۃ فإن الأذان من شعائر الإسلام و أعلام الدین المحمدي، ثم لا بد من تخصیص المولود بذلک الأذان، ولا یکون إلا بأن یصوت بہ في أذنہ، وأیضا قد علمت أن من خاصیۃ الأذان أن یضر منہ الشیطان، والشیطان یؤذي الولد في أول نشأتہ۔‘‘ انتھی ( حجۃ اللہ البالغۃ ۱؍ ۷۲۹)

’’ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حسین بن علی کو جنم دیا تو رسول اللہﷺ نے ان کے کان میں نماز والی اذان دی۔ میں کہتا ہوں: بچے کے کان میں ولادت کے وقت اذان کہنے کا راز وہ دینی مصلحت ہے، جسے ہم عقیقے کے بیان میں ذکر کرچکے ہیں۔ اذان اسلام کے شعائر اور دینِ محمدی کی علامات اور نشانیوں میں سے ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ پیدایش کے وقت بچے کے کان میں اذان کہی جائے اور یہ اذان اس کے کان میں بہ آواز بلندی ہونی چاہیے۔ نیز یہ بات تو معلوم ہے کہ اذان کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس سے شیطان کو تکلیف ہوتی ہے اور بچے کی پیدایش کے وقت شیطان بچے کو چوکا مار کر تکلیف دیتا ہے (تو اس لحاظ سے بھی مناسب ہے کہ بچے کے کان میں اذان کہی جائے)۔‘‘

ابن عابدین ’’ ردالمحتار‘‘ کے ’’ باب الأذان‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ لا یسن لغیرھا أي من الصلاۃ وإلا فندب للمولود۔‘‘ انتھی (حاشیۃ ابن عابدین ۱؍ ۳۸۵)

’’ نماز کے علاوہ کسی کام کے لیے اذان کہنا مسنون نہیں ہے، ہاں صرف نومولود بچے کے کان میں اذان کہنا مندوب ہے۔‘‘ 

لہٰذا اذان اور اقامت یا صرف اذان دونوں جائز ہیں، لیکن ضروری ہے کہ مولود کے کان کے سامنے کہی جائے، اس طرح کہ اس کی آواز کان میں پہنچے۔ یہ جو ہم لوگوں کے یہاں اکثر مقامات پر معمول بنا ہوا ہے کہ مولود کو موذن سے دور رکھتے ہیں، اس کی کوئی اصلیت نہیں۔ احادیث سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ ہم نے بلا کم و کاست بیان کردیا ہے۔

یہ بھی مستحب ہے کہ ولادت کے بعد کسی نیک آدمی کے ذریعے مولود کے منہ میں تحنیک کرائی جائے۔ یعنی کھجور کو کچل کر اس کا لعاب بچے کے منہ میں دیا جائے، تاکہ اس کا کچھ حصہ اس کے پیٹ میں چلا جائے۔ اگر کھجور میسر نہ ہو تو کوئی بھی میٹھی چیز چبا کر منہ میں دی جائے۔ تحنیک مرد اور عورت دونوں سے کرائی جاسکتی ہے، مگر بہتر ہے کہ کوئی عالم فاضل یا نیک شخص ہو۔ اگر ایسا کوئی نہ ملے تو پھر کوئی بھی یہ کام کرسکتا ہے۔ چنانچہ امام ابوعبداللہ محمد بن اسمٰعیل بخاری اپنی صحیح میں خود روایت کرتے ہیں:

۱۔ ’’ عن أبي موسی قال : ولد لي غلام فأتیت بہ النبيﷺ فسماہ إبراھیم فحنکہ بتمرۃ، ودعا لہ بالبرکۃ، ودفعہ إلي، وکان أکبر ولد أبي موسی‘‘ رواہ البخاري۔ ( صحیح البخاري، رقم الحدیث ۵۱۵۰، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۲۱۴۵)

’’ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو میں اسے اٹھائے ہوئے نبی اکرمﷺ کے پاس لے آیا۔ آپﷺ نے اس بچے کا نام ابراہیم رکھا اور اسے کھجور کی گھٹی دی اور اس کے لیے برکت کی دعا کرکے مجھے پکڑا دیا۔ وہ بچہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سب سے بڑا لڑکا تھا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

۲۔ ’’ عن عائشۃ قالت: أتي النبيﷺ بصبي یحنکہ فبال علیہ فأتبعہ الماء۔‘‘ رواہ البخاري۔ ( صحیح البخاري، رقم الحدیث ۵۱۵۱، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۲۸۶)

’’ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ کے پاس ایک بچہ لایا گیا، تاکہ آپﷺ اسے گھٹی دیں تو اس بچے نے آپﷺ پر پیشاب کردیا، آپﷺ نے اس پر پانی بہا لیا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

۳۔ ’’ عن أسماء بنت أبي بکر أنھا حملت بعبد اللہ بن الزبیر بمکۃ قالت: فخرجت وأنا متم، فأتیت المدینۃ فنزلت قباء فولدت بقباء، ثم أتیت بہ رسول اللہﷺ ، فوضعہ في حجرہ، ثم دعا بتمرۃ فمضغھا، ثم تفل في فیہ، فکان أوّل شيء دخل جوفہ ریق رسول اللہﷺ، ثم حنک بتمرۃ، ثم دعا لہ، وبارک علیہ، وکان أول مولود ولد في الإسلام، ففرحوا بہ فرحا شدیدا، لأنھم قیل لھم : إن الیھود قد سحرتکم، ولا یولد لکم۔‘‘ رواہ البخاري (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۵۱۵۲، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۲۱۴۶)

’’ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکے میں حاملہ ہوئیں۔ فرماتی ہیں: جب میں ہجرت کرنے کے لیے مکے سے روانہ ہوئی تو میرے حمل کی مدت پوری ہونے والی تھی، جب میں مدینے میں آئی تو میں قبا میں ٹھہری اور وہیں میں نے بچے کو جنم دیا، پھر میں اسے لے کر رسول اللہﷺ کے پاس آئی تو آپﷺ نے اسے اپنی گود میں رکھا۔ پھر آپﷺ نے کھجور منگوائی اور اسے چبا کر نرم کیا اور اس کے منہ میں تھوکا۔ آپﷺ کا لعاب مبارک وہ پہلی چیز تھی جو اس کے پیٹ میں اتری، پھر آپﷺ نے اسے کھجور کی گھٹی دی، پھر اس کے لیے برکت کی دعا کی۔ یہ بچہ وہ پہلا بچہ تھا جو اسلام میں پیدا ہوا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا، کیونکہ انھیں کہا گیا تھا کہ یہودیوں نے تم پر جادو کردیا ہے، لہٰذا تمہارے ہاں اولاد نہیں ہوگی۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ 

امام مسلم اور ابوداود وغیرہم نے بھی احادیث تحنیک روایت کی ہیں، جن کی نقل موجب طوالت ہے۔

امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں فرمایا ہے:

’’ اتفق العلماء علی استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ بتمر، فإن تعذر فما في معناہ، وقریب منہ من الحلو فیمضغ المحنک التمرۃ حتی تصیر مائعۃ تبتلع، ثم یفتح فم المولود، ویضعھا فیہ، لیدخل شيء منھا جوفہ، ویستحب أن یکون المحنک من الصالحین، وممن یتبرک بہ، رجلا کان أو امرأۃ، فإن لم یکن حاضرا عند المولود حمل إلیہ۔‘‘ انتھی ( شرح النووي ۱۴؍ ۱۲۲، ۱۲۳)

’’ علما کا اس پر اتفاق ہے کہ بچے کی پیدایش پر اسے کھجور کی گھٹی دینا مستحب ہے اور اگر کھجور کا ملنا دشوار ہو تو اس جیسی اور اس کے قریب قریب کسی میٹھی چیز کے ساتھ گھٹی دے لی جائے، چنانچہ گھٹی دینے والا کھجور کو چبائے، حتیٰ کہ وہ مائع شکل میں نگلے جانے کے قابل ہو جائے، پھر وہ نومولود کا منہ کھولے اور اس چبائی ہوئی کھجور کو اس کے منہ میں ڈال دے، تاکہ اس میں سے کچھ اس کے پیٹ میں چلا جائے۔ مستحب یہ ہے کہ گھٹی دینے والا صالحین میں سے ہو اور ان لوگوں میں شمار ہوتا ہو، جن سے برکت حاصل کی جاتی ہے، خواہ مرد ہو یا عورت، پھر اگر وہ صالح شخص بچے کے پاس موجود نہ ہو تو گھٹی دلوانے کے لیے بچے کو اٹھا کر اس کے پاس لے جائے۔‘‘

قسطلانی نے شرح صحیح بخاری میں کہا ہے: 

’’ وتحنیکہ یوم ولادتہ بتمر فحلو بأن یمضغ التمر، ویدلک بہ حنکہ داخل فیہ حتی ینزل إلی جوفہ منہ شيء، وقیس بالتمر الحلو في معنی التمر الرطب۔‘‘ ( إرشاد الساري ۸؍ ۲۵۰)

’’ اسے اس کی پیدایش کے دن کھجور اور میٹھی چیز کے ساتھ گھٹی دینا اور وہ اس طرح کہ گھٹی دینے والا کھجور چبائے اور اسے خوب نرم کرکے بچے کے منہ کے اندر تالو پر لیپ کردے، تاکہ اس میں سے کچھ اس کے پیٹ میں اتر جائے۔ میٹھی چیز کو تر کھجور پر قیاس کیا گیا ہے۔‘‘

عینی شرح صحیح بخاری میں بھی ایسا ہی ہے، البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ گھٹی دینے کے لیے کھجور سب سے بہتر ہے، اگر کھجور میسر نہ ہو تو شہد دے دے، ورنہ کھجور کی مانند ہر میٹھی چیز سے گھٹی دے سکتا ہے۔  ( عمدۃ القاري ۲۱؍ ۸۳)

مستحب یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن عقیقے کے روز بچے کا نام رکھا جائے اور اگر عقیقے کی استطاعت نہ ہو تو پیدایش کے پہلے روز ہی نام رکھنا درست ہے، اس طرح ان احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے کہ بعض میں ساتویں روز نام رکھنے کا ذکر ہے اور بعض میں پہلے روز نام رکھنے کا جواز ہے۔

چنانچہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں فرمایا ہے:

’’ باب تسمیۃ المولود غداۃ یولد لمن لم یعق عنہ، وتحنیکہ۔ عن أبي موسی رضی اللہ عنہ قال : ولد لي غلام فأتیت بہ النبيﷺ فسماہ إبراھیم، فحنکہ بتمرۃ۔‘‘ رواہ البخاري ( صحیح البخاري، رقم الحدیث ۵۱۵۰، صحیح مسلم ، رقم الحدیث ۲۱۴۵)

’’ یہ باب بچے کی پیدایش کے وقت نام رکھنے اور اسے گھٹی دینے کے متعلق ہے جس کا عقیقہ کرنے کا پروگرام نہ ہو۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو میں اسے اٹھا کر نبی کریمﷺ کے پاس لے آیا، آپﷺ نے اس کا نام ابراہیم رکھا، پھر آپﷺ نے اسے کھجور کی گھٹی دی۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ 

قسطلانی نے اس کی شرح میں کہا ہے:

’’ إن من لم یرد أن یعق عنہ لا تؤخر تسمیتہ إلی السابع، ومن یرید أن یعق عنہ تؤخر تسمیتہ إلی السابع۔‘‘ ( إرشاد الساري ۸؍ ۲۵۰)

’’ جس بچے کا عقیقہ کرنے کے ارادہ نہ ہو تو اس کا نام رکھنا ساتویں دن تک مؤخر نہ کیا جائے اور جس کا عقیقہ کرنے کا پروگرام ہو تو اس کا نام ساتویں دن رکھا جائے۔‘‘

امام نووی نے اذکار میں کہا ہے:

’’ تسن تسمیتہ یوم السابع أو یوم الولادۃ، ولکل من القولین أحادیث صحیحۃ، فحمل البخاري یوم الولادۃ علی من لم یرد العق، وأحادیث یوم السابع علی من أرادہ کما تری۔‘‘

’’ مسنون یہ ہے کہ بچے کا نام ساتویں دن یا اس کی پیدایش کے دن رکھا جائے، ان ہر دو قولوں کی تائید میں صحیح احادیث موجود ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے پیدایش کے دن نام رکھنے کو اس شخص کے حق میں سمجھا ہے، جو عقیقہ نہ کرنا چاہتا ہو اور ساتویں دن نام رکھنے کی احادیث کو اس شخص پر محمول کیا ہے، جو عقیقہ کرنا چاہتا ہو، جیسا کہ آپ اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔‘‘ 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے:

’’ وھو جمع لطیف لم أرہ لغیرہ۔‘‘ انتھی (فتح الباري ۹؍ ۵۸۸)

’’ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دو مختلف مفہوم رکھنے والی احادیث کو بڑے عمدہ انداز میں جمع کیا ہے۔ میں نے یہ انداز امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ کسی میں نہیں دیکھا۔‘‘ 

ضروری ہے کہ بچے کے لیے کوئی اچھا سا نام رکھے، جیسے عبداللہ، عبدالرحمن وغیرہ اور نبیوں کے نام۔ چنانچہ امام نووی اذکار میں فرماتے ہیں:

’’ روینا في صحیح مسلم عن ابن عمر رضی اللہ عنھا قال : قال رسول اللہﷺ : إن أحب أسمائکم إلی اللہ عزوجل: عبداللہ وعبدالرحمن۔‘‘ ( الأذکار للنووي ۱؍ ۲۶۶، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۲۱۳۲)

’’ صحیح مسلم میں مروی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل کو تمہارے ناموں میں سے سب سے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔‘‘

’’ وروینا في صحیح البخاري و مسلم عن جابر رضی اللہ عنہ قال : ولد لرجل منا غلام فسماہ القاسم، فقلنا : لا نکینک أبا القاسم، ولا کرامۃ، فأخبر النبيﷺ فقال : سم ابنک عبدالرحمن۔‘‘ (الأذکار للنووي ۱؍ ۳۶۲، صحیح البخاري، رقم الحدیث ۵۸۳۲، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۲۱۳۳)

’’ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اس نے بچے کا نام قاسم رکھا، ہم نے اسے کہا: ہم تجھ کو یہ عزت دیتے ہوئے ابو القاسم نہیں پکاریں گے (کیونکہ ابو القاسم نبی کریمﷺ کی کنیت ہے) اس نے جا کر نبی اکرمﷺ کو خبر کی تو آپﷺ نے فرمایا: اپنے بیٹے کا نام عبدالرحمن رکھ لو۔‘‘ 

’’ وروینا في سنن أبي داود والنسائي : تسموا بأسماء الأنبیاء، وأحب الأسماء إلی اللہ تعالی عبداللہ وعبد الرحمن، وأصدقھا حارث، وھمام، وأقبحھا حرب ومرۃ۔‘‘ انتھی ( الأذکار للنووي ۱؍ ۳۶۲، سنن أبي داود، رقم الحدیث ۴۹۵۰، سنن النسائي، رقم الحدیث ۳۵۶۵)

’’ سنن ابوداود اور نسائی میں مروی ہے: انبیا والے نام رکھو اور اللہ عزوجل کے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔ ناموں میں سب سے سچے نام حارث اور ہمام ہیں اور تمام ناموں سے برے نام حرب اور مرہ ہیں۔‘‘

برا نام نہ رکھے، جیسا کہ ہمارے ملک میں رائج ہے کہ عبدالرسول، عبدالنبي، بندہ علی، سالار بخش، مداربخش، پیر بخش وغیرہ نام رکھتے ہیں۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو ماں کے پیٹ سے باہر نکالا ہے اور یہ بچہ کچھ نہ تھا، اسی پروردگار نے اسے سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور دل دیا، تاکہ اس کا شکر ادا کرے، اسی کی عبادت میں مصروف ہو جائے اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائے۔ تعجب کی بات ہے جب اس کو خدا نے پیدا کیا، کئی نعمتوں سے نوازا تو اب ایسے لوگ خدا کو فراموش کردیتے ہیں اور دوسروں کی طرف اس کو منسوب کردیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بجائے دوسروں کا شکر ادا کرنے لگ جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سورت نحل میں ارشاد فرمایا ہے:

﴿وَاللہُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَۃَ۰ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ (النحل: ۷۸)

’’ اللہ تعالیٰ نے تمھیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ تم شکر گزاری کرو۔‘‘ 

تفسیر حسینی میں ہے کہ جب حوا علیہا السلام حاملہ ہوئیں تو ابلیس اجنبی بن کر ان کے پاس آیا اور کہا کہ تمہارے شکم میں کیا ہے؟ حوّا نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں تو ابلیس نے کہا: یہ سانپ یا کوئی اور جانور ہے۔ پھر اس نے پوچھا: یہ کہاں سے باہر آئے گا؟ تو حوّا نے کہا: مجھے معلوم نہیں، تو ابلیس نے کہا: شاید منہ کے راستے سے یا کان سے یا سوراخ سے باہر آئے گا یا پیٹ کو پھاڑ کر باہر آجائے گا۔ حوا علیہا السلام ڈر گئیں اور ایہ بات اس نے آدم علیہ السلام کو بتائی۔ آدم علیہ السلام کو بھی اندیشہ لاحق ہوگیا۔ ابلیس ایک اور صورت میں ان کے پاس آیا اور ان کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتا دی۔ ابلیس نے کہا کہ فکر مت کرو، میں اسم اعظم جانتا ہوں اور مستجاب الدعوات ہوں۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ یہ جو کچھ بھی ہے، اسے تمہاری طرح بشر بنا دے اور یہ آسانی سے شکم سے باہر آجائے، مگر شرط یہ کہ تم اس پیدا ہونے والے کا نام عبدالحارث رکھ دو۔ ابلیس کو ملائکہ حارث کہتے تھے۔ حوّا علیہا السلام نے اس کی یہ دھوکا دہی والی بات قبول کرلی۔ (یہ قصہ اسرائیلیات سے ہے۔ کتبِ حدیث میں صحیح سند کے ساتھ منقول نہیں ہے)۔ [مولف]

﴿ ھُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِيَسْكُنَ اِلَيْہَا۝۰ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىہَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ۝۰ۚ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللہَ رَبَّہُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ۝ فَلَمَّآ اٰتٰىہُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَكَاۗءَ فِيْمَآ اٰتٰىہُمَا۝۰ۚ فَتَعٰلَى اللہُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾(الأعراف: ۱۸۹، ۱۹۰)

یعنی وہ خدا ہے کہ جس نے تمھیں ایک جان آدم علیہ السلام سے پیدا کیا اور ان سے ان کی بیوی کو نکالا، تاکہ اس کے ساتھ آرام حاصل کرے، چنانچہ خلوت کے نتیجے وہ حاملہ ہوئی اور بعد ازاں بوجھل ہوگئیں تو دونوں نے دعا مانگی کہ اے پروردگار اگر تو ہمیں نیک لڑکا عطا کرے تو ہم تیرا شکر ادا کریں گے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو نیک لڑکا دیا تو آدم و حوا نے اس کے نام میں خدا کا شریک بنا لیا اور اس کا نام عبداللہ رکھنے کے بجائے عبدالحارث رکھ دیا، پس اللہ تعالیٰ بلند ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ فتح الرحمن اور تفسیر حسینی میں ایسا ہی لکھا ہے۔ (فتح الرحمن ، ص: ۱۷۵)

تفسیر جلالین میں فرمایا:

﴿ ہُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ﴾ أي آدم ﴿ وَجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا﴾ حواء ﴿لِيَسْكُنَ اِلَيْہَا﴾و یألفھا ﴿فَلَمَّا تَغَشّٰىہَا﴾جامعھا ﴿حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا ﴾النطفۃ ﴿ فَمَرَّتْ بِہٖ ﴾ذھبت وجاء ت لخفتہ ﴿فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ ﴾بکبر الولد في بطنھا وأشفقا أن یکون بھیمۃ ﴿دَعَوَا اللہَ رَبَّہُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا﴾ ولدا ﴿ صَالِحًا  ﴾سویا ﴿ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ﴾ لک علیہ ﴿ فَلَمَّآ اٰتٰھُمَا ﴾  ولدا ﴿ صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَكَاۗءَ﴾ وفي قراءۃ بکسر الشین والتنوین أي شریکا ﴿ فِیْمَآ اٰتٰھُمَا ﴾بتسمیتہ عبدالحارث ولا ینبغي أن یکون عبدا إلا لہ، ولیس بإشراک في العبودیۃ لعصمۃ آدم، روی سمرۃ عن النبيﷺ قال : ولما حملت حواء طاف بھا إبلیس، وکان لا یعیش لھا ولد فقال : سمیہ عبدالحارث، فإنہ یعیش، فسمتہ فعاش فکان ذلک من وحي الشیطان، وأمرہ، رواہ الحاکم وقال : صحیح، والترمذی وقال : حسن غریب۔‘‘ انتھی (تفسیر الجلالین ۱؍ ۲۲۳، ۲۲۴۔ سنن الترمذي، رقم الحدیث ۳۰۷۷، المستدرک للحاکم ۲؍ ۵۹۴، یہ روایت ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ، رقم الحدیث (۳۴۲(

’’ وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا۔‘‘ یعنی آدم علیہ السلام سے ’’ اور اس سے اس کا جوڑا بنایا۔‘‘ یعنی حوا علیہ السلام ’’ تاکہ وہ اس کی طرف (جا کر) سکون حاصل کرے‘‘ اور اس سے مانوس ہو جائے ’’ پھر جب اس نے اس (عورت) کو ڈھانکا‘‘ یعنی اس سے جماع کیا۔ ’’ تو اس نے ہلکا سا حمل اٹھا لیا‘‘ یعنی نطفہ ٹھہر گیا۔ ’’ پس وہ اسے لے کر چلتی پھرتی رہی‘‘ یعنی حمل کے ہلکا ہونے کی وجہ سے آتی جاتی رہی۔ ’’ پھر جب وہ بھاری ہوگئی۔‘‘ یعنی اپنے پیٹ میں بچے کے بڑا ہونے کی وجہ سے اور وہ دونوں اس بات سے ڈرے کہ وہ کہیں چوپایہ نہ ہو۔ ’’ تو دونوں نے اللہ سے دعا کی جو ان کا رب ہے کہ بے شک اگر تو نے ہمیں عطا کیا‘‘ یعنی لڑکا ’’ تندرست‘‘ صحیح الاعضاء۔ ’’تو ہم ضرور ہی شکر کرنے والوں سے ہوں گے۔‘‘ یعنی (اے اللہ! ہم) تیرے اس تندرست بچے کی عطا پر شکرگزار ہوں گے۔ ’’ پھر جب اس نے انھیں عطا کیا‘‘ یعنی بچہ۔ ’’ تندرست تو دونوں نے اس کے لیے اس میں شریک بنا لیے‘‘ ایک قراءت میں شین کی زیر اور تنوین کے ساتھ ہے، یعنی شریک ’’ اس میں جو اس نے انھیں عطا کیا تھا۔‘‘ یعنی اس کا نام عبدالحارث رکھ کر، حالانکہ اس کے لیے لائق نہیں کہ وہ سوائے اللہ کے کسی کا بندہ ہو۔ ان کا یہ نام رکھنا شرک فی العبادت کے زمرے میں نہیں آتا، کیونکہ آدم علیہ السلام اس شرک سے معصوم اور محفوظ ہیں۔ سمرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے کہ جب حوا علیہا السلام کا کوئی بچہ زندہ نہ رہتا تھا تو ابلیس نے کہا: اس (حمل میں موجود لڑکے) کا نام عبدالحارث رکھو تو وہ زندہ رہے گا۔ سو انھوں نے یہی نام رکھا تو وہ بچہ زندہ رہا اور یہ سب کچھ شیطان کے سکھلانے اور اس کے حکم سے ہوا۔ اسے حاکم نے روایت کیا اور کہا ہے کہ یہ صحیح روایت ہے۔ ترمذی نے بھی اسے روایت کیا اور اس کے متعلق کہا ہے: یہ روایت حسن غریب ہے۔‘‘ 

پس اس آیت کریمہ سے صاف معلوم ہوا کہ اپنے آپ کو غیر خدا، خواہ انبیا و اولیا ہوں یا شیاطین و اصنام، کا بندہ کہنا بھی شرک ہے اور اسے شرک فی التسمیہ کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے۔ کسی اور کا بندہ کہلانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو ترقی دے اور اس کی عمر میں برکت دے اور یہ صریحاً شرک ہے، اگر یہ مقصد نہ بھی ہو تب بھی اس میں شرک کی بوپائی جاتی ہے، اس لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن تم سب لوگوں کو تمہارے اور تمہارے باپ کے ناموں سے پکارا جائے گا، لہٰذا اچھے نام رکھو۔ بہت سے صحابیوں کے برے نام آپﷺ نے اسی وجہ سے تبدیل کردیے تھے۔

’’ عن أبي الدرداء رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہﷺ : إنکم تدعون یوم القیامۃ بأسمائکم وأسماء آبائکم، فأحسنو أسماءکم‘‘ رواہ أبوداود۔ ( سنن أبي داود، رقم الحدیث ۴۹۴۸، یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند کے راوی ’’ عبداللہ بن ابی زکریا الخزاعی‘‘ کا ابو درداء صحابی سے سماع ثابت نہیں ہے۔

’’ ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپوں کے ناموں سے پکارے جاؤ گے، لہٰذا اپنے اچھے نام رکھا کرو۔ اسے ابوداود نے روایت کیا ہے۔‘‘

شیخ امام ابن اثیر نے ’’ اسد الغابہ‘‘ میں فرمایا ہے:

’’ أبو ھریرۃ قد اختلف في اسمہ اختلافا کثیرا، قیل : عبداللہ بن عبد شمس، وقیل : عبد غنم، وبالجملۃ فکل ما في ھذہ الأسماء من التعبید فلا شبھۃ أنھا غیرت في الإسلام، فلم یکن النبيﷺ یترک اسم أحد عبد شمس أو عبد غنم أو عبدالعزی أو غیر ذلک، فقیل کان اسمہ في الإسلام، عبداللہ، وقیل : عبدالرحمن، قال الھیثم بن عدي: کان اسمہ في الجاھلیۃ عبد شمس، وفي الإسلام عبداللہ، وقال ابن إسحاق: قال لي أصحابنا عن أبي ھریرۃ: کان اسمی في الجاھلیۃ عبد شمس، فسماني رسول اللہ ﷺ عبدالرحمن، وإنما کنیت بأبي ھریرۃ لأني وجدت ھرۃ فحملتھا في کمي، فقیل لي: أنت أبوھریرۃ ‘‘ انتھی ملخصا۔ (أسد الغابۃ ۱؍ ۱۲۵۸(

’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے نام میں بہت سا اختلاف کیا گیا ہے، کہا گیا ہے: عبداللہ بن عبدشمس اور یہ بھی کہا گیا ہے: عبد غنم۔ قصہ کوتاہ ان تمام ناموں میں غیر اللہ کی طرف جو عبد کی نسبت و اضافت ہے، یقیناً ان کے اسلام لانے کے بعد اسے بدل دیا گیا، کیونکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ نبی کریمﷺ کسی کا نام عبدشمس یا عبد غنم یا عبدالعزیٰ یا اس قسم کا کوئی اور نام رہنے دیں۔ پس یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام میں ان کا نام عبداللہ تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبدالرحمن تھا۔ ہیثم بن عدی نے کہا: زمانہ جاہلیت میں ان کا نام عبد شمس اور اسلام لانے کے بعد ان کا نام عبداللہ تھا۔ ابن اسحاق کا کہنا ہے: میرے ساتھیوں نے مجھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت سنائی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں میرا نام عبدشمس تھا تو رسول اللہﷺ نے میرا نام عبدالرحمن رکھا اور میری کنیت ابوہریرہ کا سبب یہ بنا کہ مجھے ایک بلی ملی تو میں نے اسے اپنی آستین میں اٹھا لیا تو مجھے کہا گیا: تو ابوہریرہ ہے۔‘‘

علمائے محققین نے عبدالنبی اور عبدالرسول نام رکھنے کی سخت ممانعت فرمائی ہے۔ چنانچہ شیخ ولی اللہ الدہلوی ’’ حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے باب اقسامِ شرک میں فرماتے ہیں:

’’ منھا أنھم کانوا یسمون أبناء ھم عبد العزی وعبد شمس ونحو ذلک، فقال اللہ : ﴿ ہُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِيَسْكُنَ اِلَيْہَا  فَلَمَّا تَغَشّٰىہَا  ﴾ الآیۃ، وجآء في الحدیث أن حواء سمت ولدھا عبدالحارث، وکان ذلک من وحي الشیطان، وقد ثبت في أحادیث لا تحصی أن النبيﷺ غیر أسماء أصحابہ عبدالعزی وعبد شمس ونحوھما إلی عبداللہ وعبد الرحمن وما أشبھھما، فھذہ أشباح وقوالب للشرک، نھیٰ الشارع منھا لکونھا قوالب لہ۔‘‘ انتھی  ( حجۃ اللہ البالغۃ ۱؍ ۱۳۱(

’’ ان میں سے ایک شرک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کے نام عبدالعزیٰ، عبد شمس اور اس جیسے دیگر نام رکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ہُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِيَسْكُنَ اِلَيْہَا  فَلَمَّا تَغَشّٰىہَا ﴾حدیث میں ہے کہ حوا علیہا السلام نے اپنے لڑکے کا نام عبدالحارث رکھا اور انھوں نے شیطان کے سکھلانے سے ایسا کیا۔ کئی احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عبدالعزیٰ، عبد شمس اور ان جیسے دیگر نام بدل کر عبداللہ، عبدالرحمن اور ان جیسے نام رکھے، کیونکہ مذکورہ نام شرک کے نمونے اور سانچے ہیں، اس لیے شارع نے شرک کے ان سانچوں کو اپنانے اور اختیار کرنے سے منع کردیا۔‘‘

شیخ ابن حجر مکی ہیتمی نے ’’ تحفۃ المحتاج شرح منھاج‘‘ میں فرمایا ہے:

’’ ویحرم ملک الملوک لأن ذلک لیس لغیر اللہ، وکذا عبد النبي وعبد الکعبۃ أو الدار أو علي أو الحسن، لإیھام التشریک۔‘‘ ( تحفۃ المحتاج ۴۱؍ ۱۹۱(

’’ شہنشاہ نام رکھنا حرام ہے، کیونکہ یہ نام اللہ کے علاوہ کسی کے لائق نہیں ہے، اسی طرح عبدالنبی، عبدالکعبہ یا عبدالدار، عبد علی یا عبدالحسن نام درست نہیں ہیں، کیونکہ یہ اللہ کا شریک بنانے کا شبہہ ڈالتے ہیں۔‘‘

شیخ نور الدین علی بن سلطان القاری نے ’’ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح‘‘ میں کہا ہے:

’’ لا یجوز نحو عبد الحارث ولا عبد النبي ولا غیرہ بما شاع بین الناس۔‘‘ انتھی ( مرقاۃ المفاتیح ۷؍ ۲۹۹۷(

’’ عبدالحارث، عبدالنبی اور ان جیسے دیگر نام، جو لوگوں میں عام ہیں، رکھنے جائز نہیں۔‘‘

نیز علامہ علی قاری نے شرح فقہ اکبر کے ’’ فصل في الکفر صریحا وکنایۃ‘‘ میں کہا ہے:

’’ وأما ما اشتھر من التسمیۃ بعبد النبي فظاھرہ کفر إلا إن أراد بالعبد المملوک۔‘‘ انتھی ( شرح الفقہ الأکبر ، ص: ۱۶۳(

’’ لوگوں میں جو عبدالنبی نام رکھنا عام ہوچکا ہے، بظاہر تو یہ کفر ہی محسوس ہوتا ہے، الا یہ کہ اس نام میں ’’ عبد‘‘ سے مراد مملوک لے لیا جائے۔‘‘ 

شیخ الاجل محدث الہند قطب دین محمد المدعو بولی اللہ الدہلوی نے ’’ فتح الرحمن في ترجمۃ القرآن‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے قول : ﴿فَلَمَّآ اٰتٰىہُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَكَاۗءَ ﴾کے تحت فرمایا:

’’ کہتے ہیں کہ یہ صورت حال ہے انسان کی کہ جب حمل ہو تو نیت خالص رکھتا ہے، مگر جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو شرکیہ نام رکھتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شرکیہ نام رکھنا بھی شرک کی ایک قسم ہے۔ جیسا کہ غلام فلاں، غلام فلاں۔‘‘ ( فتح الرحمن ، ص: ۱۷۵(

نیز اسی شیخ اجل نے ایسے ناموں کی سخت ممانعت میں اپنی کتاب ’’ البدور البازغۃ‘‘ میں مفید باتیں فرمائی ہیں، جن کی نقل موجبِ طوالت ہے۔

خاتم المفسرین والمحدثین مولانا شاہ عبدالعزیز الدہلوی نے’’ تفسیر فتح العزیز‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے قول : ﴿ لَا تَجْعَلُوْا لِلہِ اَنْدَاداً …﴾کے تحت فرمایا ہے کہ عبادت میں اللہ کے ساتھ (دیگر کو ) برابر کرنے والے بہت ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جو غیر اللہ کا نام ثواب کے لیے لیتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو غیر اللہ کے لیے ذبیحہ و قربانی کرتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو اپنا نام عبد فلاں، بندہ فلاں رکھتے ہیں، اور یہ نام میں شرک ہے۔

شیخ القمقام مہاجر فی سبیل اللہ العلام عالم النبیل مولانا محمد اسماعیل شہید نے ان معنوں کی تحقیق اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں فرمائی ہے۔ جزاہ اللہ خیر الجزاء۔

اس کے علاوہ بھی کئی علمائے ثقات مثل امام منصور بن یونس نے شرح زاد المستقنع میں اور صاحب ملخص الانوار اور صاحب شرعۃ الاسلام ایسے ناموں کی حرمت کی طرف گئے ہیں۔

چنانچہ علامہ بشیر الدین قنوجی نے اپنی کتاب ’’ صواعق الإلھیۃ لطرف الشیاطین اللھابیۃ‘‘ میں ان تمام علما کے اقوال نقل کیے ہیں۔ بدایوں کے بعض مشرکوں نے شاہ اسماعیل شہید کے کلام پر جو اعتراض کیے ہیں، ان کا بھی کافی و شافی جواب دیا ہے اور خلق خدا کو ان کے پنجۂ ضلالت سے محفوظ کردیا ہے۔

﴿وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِل اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا﴾(بنی اسرائیل: ۸۱)

قال العبد الضعیف: کان ابتداء تسوید ھذہ الرسالۃ خامسا من شھر رمضان سنۃ أربع و تسعین بعد مأتین وألف من الھجرۃ النبویۃ ، صلوات اللہ علیہ، ولقد استراح القلم من تحریر ھذۃ الأوراق عشرین من شوال في السنۃ المذکورۃ، فحمدت اللہ حمداً کثیرا فقط۔

اس رسالے کے متعلق حضرت شیخ الاجل محدث الہند نے مندرجہ ذیل عبارت تحریر فرمائی:

’’ ھذہ الرسالۃ ناطقۃ بالصدق والصواب، محررھا مصیب بلا ارتیاب، کما لا یخفی علی أولي الألباب، فمن کان مستنا فلیستن بھذا الکتاب، یثاب عند رب الأرباب یوم الحساب، واللہ أعلم بالصواب۔‘‘

(سید محمد نذیر حسین)

مندرجہ ذیل خط حضرت شیخ نے رسالہ ملاحظہ کرنے کے بعد مؤلف کو لکھا:

’’ محمد نذیر حسین  کی طرف سے مولوی شمس الحق۔ سلمہ ربہ۔ سلام کے بعد واضح ہو کہ یہاں خیریت ہے اور آپ کی خیریت مطلوب ہے۔ تحقیق عقیقہ کے بارے میں لکھا گیا رسالہ  نظر سے گزرا۔ یہ مسئلے کی خوب وضاحت کرتا ہے۔ محقق مصنف نے مکمل تحقیق اور علمائے محققین کی کتب سے مسئلہ مبحوث عنہا کو واضح کیا ہے اور اس کی وضاحت و صراحت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، جس کے مقابلے میں فریق مخالف کو ہمیشہ شرمندگی ہی ہوگی۔ جزاکم اللہ خیراً في الدارین۔

زہے معجز نمای سحر کردار                            کلیم معنی از کلکش عصا دار

ازد فرعونیان راول دونیم است                   بلے مصر معانی را کلیم است

ندانم وصف طبع آن گہر سنج                         کہ گنجورست باگنجینہ باگنج

زادک اللہ علماً نافعاً وفھما کاملا۔

اشعار تاریخ تصنیف رسالہ عقیقہ

از ذو فضائل کثیرہ متصف باوصاف حمیدہ تذکار المحققین مقتفی اثر امام النبیین صلوٰۃ اللہ علیہ والتسلیم، اعنی الکامل الالمعی مولوی شہود الحق اعلیٰ اللہ درجتہ عظیم آبادی

الا یا اہل عرفان و نور                                    وفی منکم لایام السرور

ستودن ہاچہ آمد روزگارے                         کہ ہر سو عشوۂ زیبا نگارے

صدائے مطربانہ عشرت انگیز                     بہر ناز و ادایش راحت آمیز

نیا میز وچہ ہا گلگوں نگارے                            بہرخال و خطش زیبا بہارے

ہمہ اعلام مشتاق تماشا                                  زفرطِ شوق ہر یک دیدہ فرسا

کتاب منتخب لب لبابے                                مفید وہادی احسن خطابے

مدلل موجز و مملوز تحقیق                            نہ تدقیقی فروہشتہ نہ تشقیق

قلیل اللفظ فی معنے کثیر                               صغیر الجحم فی النفع کبیر

ندانم ایں چہ رنگین داستانی                          فد ای محو لطفش بوستانے

عجب این نسخہ پُر تاثیر آمد                           مریض جہل را اکسیر آمد

بحن جہد علامہ زمانہ                                     وحیدِ دہر فہامہ یگانہ

بعلم و فضل ممتاز اماثل                                ملاذِ طالباں جامع فضائل

نباشد اسم او محتاج توضیح                               درین عالم زنور اوست تلویح

بخوبی ہا مرتب گشت اکنون                           ہمہ آفاق شد زین فیض مشحون

جزاہ اللہ فی الدارین خیراً                            جزاءً کاملاً خیراً کثیراً

دلم آن وقت داد آواز از جوش                    کہ تاکے غفلت ای مدہوش بیہوش

رقم زن از سن ہجری تصنیف                       کرتا مخفی نماند سال تالیف

ہمان دم کرو القالمہم غیب                             زراہِ صدق گو این دم بلا ریب

برایٔ طالبان با واکفیلے                                  پے تقریر حق قاطع دلیلے

قطع تاریخ تصنیف رسالہ عقیقہ از نتائج افکار سرآمد شعراء زمن جامع منقول زبدۃ المحدثین المفسرین العالم اللوذعی مولوی عبدالغنی صاحب عظیم آبادی نورپوری

صد شکر ہزار شکر بگزار                               کاین نسخہ غنے عجیب آمد

از بہر مریض جہل مطلق                            عیسیٰ صفت طبیب آمد

نقشِ رخِ شاہدان الفاظ                               محبوب دل حبیب آمد

برحسن عروس ہر معانی                                صد حجت حق رقیب آمد

با ذہن سلیم راست بازان                             با صدق و صفا قریب آمد

مقبول جہان چان نہ گردد                            کز سرورِ ہر لبیب آمد

رازی است یکی راز دارش                            بحر از قدمش نقیب آمد

در خلق بشمس شد معرف                            حق در مدحش خطیب آمد

رفتم چو بقعر فکر تاریخ                 براوجِ فلک نصیب آمد

از روی طلب زغیب ناگاہ                            بانگِ جمل غریب آمد

قطع تاریخ طبع رسالہ از جناب مولوی و حکیم عبدالرحمن صاحب ڈومرانوالی البہاری

داد ہاتف ندار عرشِ برین                           حبذا کوشش لبیب دا ریب

پی اسکات ہر غبی و غوی                                در نسیکہ شد این کتاب عجیب

سال طبعش زدل بہ پر سیدم                         گفت آن رابگو عجیب غریب

جانوروں کو خصی کرنے کے مسئلے پر تحقیقی بحث

( یہ رسالہ فارسی میں ’’ إعلام أھل العصر‘‘ (مطبوعہ دھلی ۱۳۰۵ھ) کے ساتھ چھپا تھا، اس کا قلمی نسخہ بخط مؤلف خدا بخش لائبریری پٹنہ میں زیر رقم ( ۳۱۸۰؍ ۴) موجود ہے۔ افادیت کے پیش نظر اس کا اردو ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے۔ [ع، ش] 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 479

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ