الحمد للہ الذي ھدانا إلی سواء الطریق، والصّلاۃ والسلام علی رسولہ الذي اُرسل إلی الناس کافۃ بشیراً ونذیراً، وعلی آلہ وأصحابہ والمتمسکین بھدیہ، الھادین المھتدین، الذین صرفوا سعیھم في إقامۃ المشروعات وإشاعۃ الدین المتین، حتی لم یبق فیھا قلادۃ لأحد علی أحد من المؤمنین، وعلی طائفۃ من العلماء العادلین الذین جاؤا من بعدھم، یسلکون سبیل المھتدین، ویجددون الدین، ویؤیدون الشرع المتین، وینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتأویل الجاھلین، ولا یزالون إلی یوم القیامۃ في حجتھم ظاھرین۔
’’ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں، جس نے سیدھے راستے کی طرف ہماری راہنمائی فرمائی۔ درود و سلام ہو ہمارے نبی محمدﷺ پر، جنھیں سارے انسانوں کے لیے خوش خبری سنانے والا اور اس کے عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا، اور اہل بیت اور ان کے اصحاب پر، اور ان لوگوں پر جنھوں نے اس کی سنت پر چلنے کا راستا پالیا اور یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے خرچ کیا اپنی کوششوں کو شریعت کے اقامت پر اور دین متین کی اشاعت پر، یہاں تک کہ کسی کا کسی مومن پر قلادہ نہ رہا، اور سلامتی ہو ان علما پر جو عادل تھے اور ان کے بعد آئے۔ یہ چلتے ہیں ان مجتہدین کے راستے پر اور دین کی تجدید کرتے ہیں اور شرع متین کی تائید کرتے ہیں اور غالی اور باطل لوگوں کی باتوں اور جاہل لوگوں کی تحریف کو دور کرتے ہیں۔‘‘
اما بعد! عاجز ابو الطیب محمد شمس الحق عظیم آبادی۔ عفا اللہ عنہ۔ اربابِ خبرت کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ بَدُوِّ خلقتِ انسانی سے شیطان دشمن بندگانِ خدا کا رہا اور بڑے بڑے حکماء اور عقلمندوں کو فریب میں اپنے لا کر جادہ اعتدال سے ڈگمگایا اور طریقہ فریب کا یہ کیا کہ جب کوئی نبی مبعوث ہوئے تو نہایت مخبوط ہوا اور تدابیرِ فریب میں غلطاں اور پیچاں رہا، لیکن زمانہ نبوت تک کوئی تدبیر اس کی بکار آمد نہ ہوئی اور ان نبی علیہ السلام کے بعد ان کے اصحاب اور حواری کا دور دورہ ہوا، چونکہ انھوں نے تمسک سنت اپنے نبی علیہ السلام کا کیا اور اپنی رائے کو دخل نہ دیا، اس سبب سے طریقہ نبی ﷺ میں کسی طرح کا نقصان نہ ہوا اور شیطان اپنی چال میں شش و پنج رہا۔
بعد اس کے شیطان مردود نے یہ خیال کیا کہ جب تک کلام رب العزت اور سنت نبی علیہ السلام پر عمل رہے گا، میرا کوئی فقرہ بکار آمد نہ ہوگا۔ تب یہ فقرہ گانٹھا کہ علما کے دلوں سے ان دونوں کے تمسک کو ترک کرائے تو سب کام پورا ہوگا۔ پس اس امر کی جانب متوجہ ہوا، لیکن حیران رہا کہ یہ کام کیوں کر ہوسکتا ہے؟ علماء کیونکر ان دو تمسکات کو چھوڑیں گے؟ پس خیال کیا کہ کسی ترکیب سے کلام معصوم سے کلام غیر معصوم میں ان کو ڈالنا چاہیے، کیونکہ جب کلام غیر معصوم ہوگا تو اختلاف اور تعارض ہو ہی گا، ساتھ ہی اس کے یہ سوچا کہ ترک اعلیٰ کا مقابلہ میں ادنیٰ کے دشوار ہے تو پہلے ان کو سبز باغ حسن رائے کا پیرا یہ تدّین میں دکھاؤ، تو یہ وسوسہ علماء کے دلوں میں ڈالا کہ تم ایسے اور ویسے اور تم مورد و محل کو خوب جانتے ہو، اگر تمہارے علم کا اتنا بھی نتیجہ نہ ہوا کہ تشقیقات شتیٰ پیدا کرو تو علم کا کیا فائدہ؟ اور جس وقت کوئی شخص تم سے کوئی مسئلہ دریافت کرتا ہے تو تم کیوں کہتے ہو کہ میں نہیں جانتا، کیونکہ اقرار جہل سے ذلت تمہاری ہوتی ہے اور تمہاری ذلت عین دین کی ذلت ہے، کیونکہ تم دین کے ستون ہو۔
پس چاہیے کہ ہر مسئلہ کا جواب کچھ نہ کچھ، اگرچہ کلام معصوم میں معلوم نہ ہو، اپنی رائے و عقل کے زور سے دیا کرو اور نیز جس وقت تمہارے پاس کسی طرح کا سوال آتا ہے کہ جائز ہے یا ناجائز تو کہتے ہو کہ ناجائز ہے، بدعت ہے، یا کبھی کہتے ہو کہ کلام معصوم میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ کیوں ایسا کرتے ہو؟ کیوں نہیں کوئی صورت جواز کی نکالتے ہو؟ اگر جواز کی صورت نہ پیدا کرو گے تو لوگ تم کو حقیر جانیں گے اور تنگ ہو کے تم سے مسئلہ پوچھنا چھوڑ دیں گے اور جہلا اپنی رائے پر عمل کرنے لگیں گے، پس دین کا بڑا نقصان ہوگا۔ پس یہ نقصان تمہارے نامہ اعمال میں مرقوم ہوگا اور دین میں آسانی کا حکم ہے، نہ سختی کا، پس ایسے وقت میں جہاں کلام معصوم میں نہی آئی ہے، اس کو مورد خاص پر محمول کرو اور جہاں سکوت آیا ہے، وہاں اگر تم بھی سکوت کرو گے تو نہایت تنگی ہوگی، پس قیاس لگاؤ۔
غرض کہ پیرایہ دین میں شیطان نے علماؤں کے دلوں میں انواع و اقسام کا وسوسہ راسخ کیا، بعد اس کے عوام امت کی طرف متوجہ ہوا، ان کو اس فریب میں ڈالا کہ تم جاہل ہو، تم کو کلام معصوم کی سمجھ بوجھ کہاں ہے اور تم عام خاص اور مورد و محل کو کیا جانو؟ جو علماء کہیں اس پر عمل کرو۔ علماء تو موافق اس کے کہتے ہیں جو کلام معصوم میں ہے، اس پر عمل کرنا عین اس پر عمل کرنا ہے۔
جب یہ کام شیطان نے کرلیا تو مطمئن ہوگیا، بعد مرور ایام کے تمسک کلام معصوم چھوٹ گیا اور لوگ کلام غیر معصوم کے متمسک ہوئے۔ پس بس وقت اختلافِ آراء کا ہوا اور اس کا ہونا تو ضروری تھا، کیونکہ طبائع انسان کے مختلف ہیں اور نیز معصوم نہیں، اس وقت شیطان نے یہ وسوسہ جمایا کہ تم جس مولوی اور درویش کے معتقد ہو، اس کے کلام کو پکڑو، غیروں سے تم کو کیا غرض؟ کیا جس کے تم معتقد ہو، وہ علم نہیں رکھتا ہے؟ اگر اس کے کلام کو ترک کرو گے تو تحقیر ایک دینی مولوی معتقد کی لازم آئے گی، کیوں کہ ترک مشعر ہوگا اس کے مبطل ہونے کو اور تحقیر مولوی دین کی بد دینی ہے۔ عوام اس جال میں آکر مقلد اپنے اپنے مولوی کے ہوگئے اور تقلید کا گھر آباد ہوگیا، اور ایک نبی علیہ السلام کے دین میں سینکڑوں مذاہب پیدا ہوئے ، اور آپس میں جنگ و جدال شروع ہوگیا، اور شیطان کا مقصد برآیا۔
اسی طرح دنیا میں عمل درآمد رہا۔ آخر نبی آخر الزمان رسول اللہﷺ اسی فریب شیطان کے قلع قمع کو مبعوث ہوئے اور کلام رب جلیل نازل ہونا شروع ہوا۔ چنانچہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے:
﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ ﴾(التوبۃ:۳۱)
’’ ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ ﴾ (التوبۃ: ۳۴)
’’ اے ایمان والو! اکثر علماء اور عابد، لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِيْ شَيْءٍ ﴾(الأنعام: ۱۵۹)
’’ بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور گروہ گروہ بن گئے۔ آپﷺ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
اور فرمایا رسول اللہﷺ نے:
(( ما من نبي بعثہ اللہ تعالیٰ في أمتہ قبلي إلا کان لہ من أمتہ حواریون وأصحاب، یأخذون بسنتہ ویقتدون بأمرہ، ثم إنھا تخلف من بعدھم خلوف یقولون ما لا یفعلون، ویفعلون ما لا یؤمرون … الخ )) (رواہ مسلم) ( صحیح مسلم، رقم الحدیث، ۵۰)
’’ کسی بھی نبی کو اللہ تعالیٰ نے اس کی امت میں مجھ سے قبل مبعوث نہیں فرمایا مگر یہ کہ اس کے لیے اس کی امت میں ایسے ساتھی اور اصحاب تھے جو اس کی سنت کو اپناتے تھے اور اس کے حکم کی اقتدا کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور وہ کام کرتے ہیں، جن کا انھیں حکم نہیں دیا جاتا۔ اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔‘‘
پس بَدُوِّ مولد نبی آخر الزمان علیہ السلام سے قرون ثلاث تک شیطان کا خوب قلع قمع ہوا، آخر شیطان تو بڑا کیّاد ہے، پھر وہی چال قدیم جس میں کامیاب ہوا تھا، چلا اور اکثر نفوس میں راسخ کیا اور اس کید کو اپنے غلط معنی ’’ اختلاف العلماء رحمۃ‘‘ اور ’’خطائے بزرگار نباید گرفت‘‘ سے ملمع کیا، چنانچہ اس امت محمدیہ میں یہی اس کا کید اس ملمع کے ساتھ چل گیا۔ ( اسی معنی میں ایک موضوع روایت بھی بایں الفاظ ’’ اختلاف أمتي رحمۃ ‘‘ مشہور کی گئی، جو بے اصل ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: السلسلۃ الضعیفۃ ، ۵۷)
لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اب کوئی نبی نہیں مبعوث ہوگا اور یہی دین محمدی قیامت تک رہے گا۔ بنا برآں اس دین محمدی کے ابقا کے واسطے اللہ تعالیٰ نے حکم قطعی فرمایا کہ کلام معصوم کو مضبوط پکڑو اور غیر معصوم کی طرف توجہ نہ دو، وإلا امم سابقہ کی طرح خراب ہوگے۔ اور واسطے تمیز اور ابقائے کلام معصوم کے سند کا سلسلہ جاری کیا اور واسطے پرکھنے سند کے ایک طائفہ علماء نقادین کو پیدا کیا، تامابین رطب یابس کے فرق کریں، اور معلل اور جارح کو جانچیں کہ کس مرتبہ کا ہے، اور اصل کو نقل سے جدا رکھیں، اور جو لوگ اصل تمسک کو بوجہ رکیک برعایت اپنے مقتدا کے جعلی قرار دیں اور جعلی کو اصل، ان کے اس کید کو دفع کریں، اور جو لوگ اپنے رائے سے کچھ کہیں اس کو رد کریں۔ بخلاف امم سابقہ کے کہ وہاں یہ سلسلہ سند کا نہ تھا، چھان بین نہ تھی، یاروں نے خوب اپنا کام کیا، آخر اصلی اور جعلی میں خلط ملط ہوا اور بمقتضائے وسواسِ شیطان سوءِ ادب سمجھ کر پچھلوں نے اگلوں کی خطا کو خطا تصور نہ کیا، بلکہ جہاں خطابین تھی، وہاں اور پردہ پوشی کی اور سلسلہ جرح و تعدیل اور رد و قدح کا جاری نہ ہوا، بلکہ خطا کے مقلد ہوگئے، آخر اصل تمسک ناپید ہوا اور دین نبی علیہ السلام گم ہوگیا۔ یہی وجہ سارے ادیان کے بگڑنے کی ہوئی، چنانچہ نمونہ اس کا تورات و انجیل مطبوعہ قدیم اور جدید کے دیکھنے سے یہ بات ظاہر ہے۔
سو الحمد للہ اس دین محمدی میں یہ سلسلہ جرح و تعدیل اور رد و قدح کا جاری رہا اور صحیح سقیم میں وہ علماء نقادین تمیز کرتے رہے، اس سبب سے اصل اپنے حال پر رہا، یاروں کی کارستانی نہ چلی۔ جب ایک مولوی نے کوئی بات کہی تو دوسرے نے اس کو اصل معیار حق پر جانچا، اگر خطا معلوم ہوئی فوراً اس پر لے دے کر دی اور صواب خطا سے ممتاز رہا، اور ’’ خذ ما صفا ودع ماکدر‘‘ پر ان نقادین کا عمل رہا۔
اور صحیح معنی ’’ اختلاف العلماء رحمۃ ‘‘ اور ’’ خطائے بزرگان نباید گرفت‘‘ کے مرکوز خاطر عام مسلمین مہتدین کے ہوا، یعنی علماء کے رد و بدل کھرے کھوٹے میں بلامزد محنت تمیز ہوئی اور کیدِ کیّاد کھل گیا، یہ رحمت اللہ تعالیٰ کی ہے اور بزرگوں کی خطا کو تمسک نہ پکڑنا چاہیے۔ نہ وہ معنی کہ ہر اقوال مختلفہ میں خطا ہو یا صواب رحمت ہے اور بزرگوں کی خطا کو خطا نہ تصور کرنا چاہیے، کیونکہ یہی وجہ تو امم سابقہ کے بگڑنے کی ہوئی ہے، جس کے قلمع قمع کے واسطے نبی آخر الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے اور قرآن نازل ہوا اور سند کا سلسلہ جاری ہوا اور جرح و تعدیل اور تمیز صحیح سقیم مسلک علماء اخیار ٹھہرا۔
بعد اللتیا واللتی: بقول شخصے ’’ چور چوری سے گیا، کیا ہیرا پھیری سے بھی گیا؟‘‘ شیطان تو اس کید قدیم کو لوگوں کی خاطر نشین کرتا پھرتا ہے اور علماء حقانی اس کید کا قلع قمع کرتے چلے آتے ہیں، تاہم اکثر نفوس میں وہ کید جاگزیں ہے، بدیں لحاظ اکثر خواص و عوام کے زبان زد ہو رہا ہے کہ اس پر عمل کرنا عین اس پر عمل کرنا ہے اور یہ طریقہ قدیم ہے، نبی آخر الزمان کے پہلے سے یوں ہی چلا آیا ہے اور کھرے کھوٹے میں تمیز کرنا مذہب جدید ہے۔ اور اتنا نہ خیال کیا کہ یہ طریقہ اگرچہ باعتبار اس کید کے جدید ہے، لیکن ایسے شخص کا طریقہ ہے کہ جس کے سبب سے تمام ادیان سابقہ حقہ منسوخ ہوگئے، چہ جائے کہ کید باطل بالذات اسی کے مٹانے کو تو نبی آخر الزمان مبعوث ہوئے ہیں، پس اس وسواس میں پڑ کر اصل تمسک باضابطہ قرآن مجید اور حدیث رسول حمید کو چھوڑ بیٹھے، بلکہ برعایت مذہب اپنے مقتدا کے اصل باضابطہ میں کھوٹ نکالنے کے درپے ہوئے اور یوں کہنے لگے کہ کون حدیث ہے جو مجروح نہیں ہے؟ اور مقولہ مقتدا بلا جرح موجود ہے، پس انھوں نے اسل تمسک کو تابع اور جعلی قرار دیا اور بے اصل کو متبوع اور اصل ۔ جہاں کوئی حدیث پیش نظر ہوئی تو فکر کرنے لگے کہ آیا یہ ہمارے مقتدا کے مقولہ کے مطابق ہے یا نہیں؟ اگر مطابق ہوئی تو خیر درجہ تابع میں رہی، وإلا مردود ہوئی اور مقتدا کے قول پر اڑ گئی، بلکہ اس پر اکتفا نہ کرکے غضب یہ کیا کہ حدیث کی بیخ کنی کے پیچھے پڑے، بقول شخصے ’’ نہ رہے بانس نہ بجے بانسلی‘‘ اور یہ خیال نہ کیا کہ امم سابقہ اسی چال سے خراب ہوئے۔
اور اس زمانہ میں اگر غیر ملت والے سے مناظرہ اور مذاکرہ پڑے تو کیوں کر حقیقت اپنے مذہب کی ثابت کریں؟ مخالف تو اصل تمسک کو طلب کرے گا، نقل سے اس کی تسکین خاطر نہ ہوگی، بلکہ مخالف وقت فقدانِ اصل الاصول کے غالب آئے گا۔ لنعم ما قیل:
’’ بیوقوف دوست سے عقلمند دشمن بھلا۔‘‘ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
اب ان دنوں ایک رسالہ ’’ القول المتین في إخفاء التامین‘‘ جو واقع میں انھیں کیدوں کی بنا پر مؤلف ہے، نظر سے گزرا اور عجب پر عجب یہ ہوا کہ ایک وکیل محمد علی صاحب مرزا پوری کی تالیف ہے، کجا وکیل صاحب ضلع اور کجا جرح و تعدیل؟ آپ نے معاملات دنیوی کا پاس کرکے قصد کیا کہ عدالت عالیہ میں بھی درخور کرکے وہاں کی بھی سرٹیفکیٹ حاصل کیجیے۔
تو کار زمیں را نکو ساختی
کہ برآسماں نیز پرداختی (تو نے زمین کا کام خوب اچھی طرح سے کرلیا ہے کہ تو آسمان پر کوئی کارنامہ انجام دینے چلا ہے؟)
اور وکیل صاحب نے وکالت ضلع کا پاس کرکے امور ما تقدم کا لحاظ نہ کیا اور مقولہ حالیہ خدام عدالت عالیہ سے بے خبر!
اگر گلیم و گر غنچہ پاک دامانیم نہ دست بردن گلچیں بہ نزع شیطانی
بہیچ زائغہ بروہوا گزر نکند بباغ ما کہ کند علم غیب رضوانی (اگر گدڑی اور کلی پاک دامن ہوں تو نزع شیطانی کے ساتھ باغباں سے دست و گریبان نہیں ہونا پڑتا، ہمارے باغ میں ہوا کسی قسم کے ٹیڑھے پن کے ساتھ نہیں گزرتی، کیونکہ رضوانی علم غیب سے اس کی تائید ہوچکی ہوتی ہے۔)
اور نیز خلاف تہذیب کلمات سے مہذب ہوئے۔ افسوس صد افسوس۔ بہرحال میں موافق حکم عدالت: ﴿ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ﴾ ( حم السجدۃ: ۳۴) کے پاسخ تحریر وکیل صاحب دیتا ہوں۔ واللہ الموفق۔
اور اس رسالہ کا نام ’’ الکلام المبین في الجھر بالتأمین والرد علی القول المتین‘‘ کہا۔ اگر وکیل صاحب اس رسالہ کو اول سے آخر تک بغور ملاحظہ فرمائیں گے تو حقیقت اس مسئلہ کی ان پر ظاہر ہو جائے گی۔
قولہ: واضح ہو۔
أقول: اجی جناب! کب کا واضح ہوچکا ہے، آپ ذرا رسائلِ اہل حدیث کو مطالعہ فرمائیے۔
قولہ: ان کا یہ کہنا کہ اس فرقہ جدید۔
أقول: اے جناب! یہ فرقہ اہل حدیث کا تیرہ سو برس سے ہے۔ موافق آپ کے قاعدے کے بھی تمادی عارض ہوئی، اب نالش فریاد غیر مسموع ہے، البتہ آپ کے موکل کا مسلک متکلم فیہ ہے اور نیز نسبت اس کی برابر استغاثہ عدالت عالیہ میں ہوتا چلا آیا ہے اور ڈگری بحق اہل حدیث ہوتی رہی۔ ہاں اس کید باطل کے لحاظ سے بیشک یہ چلن اہل حدیث کا جدید ہے، لیکن آخر کید قدیم کید ہے۔
قولہ: لا مذہب نے۔
أقول: عدالت میں ایسے الفاظ نازیبا ہیں اور میں حکم ما سبق عدالت کا پابند ہوں وإلا بمقتضائے۔
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے
کہ خصم آپ کا آپ کو بد مذہب کہہ دے تو کیسے ہو؟
قولہ: عجب شورو غل مچا رکھا ہے۔
أقول: اے وکیل صاحب! یہ اسی فیصلہ مذکورۃ الصدر کی اجرائے ڈگری ہو رہی ہے، کوئی نیا مقدمہ نہیں ہے۔ آپ کیوں گھبرائیے؟ ابھی تو اطلاع نامہ جاری ہوا ہے، قرقی اور وارنٹ کی نوبت نہیں آئی۔ موکلوں کو فہمائش کیجیے کہ ڈگری تسلیم کرلیں، جھگڑا چکے، لیکن آپ وکیل ہیں، کب چوکتے ہیں؟ اجرائےڈگری کے وقت بھی ایک عذرداری کرا ہی دیا۔ مردہ دوزخ میں جائے یا بہشت میں، اپنے حلوے مانڈے سے غرض ہے۔
قولہ: بیچارے سیدھے سادھے مسلمانوں کو عمل بالحدیث کا دھوکا دے کر حیران بنا رکھا ہے۔
أقول: اجی دھوکا کیسا؟ بلکہ اصل باضابطہ موجود ہے، مگر آپ تو شان وکالت سے دھوکا ہی کہیے گا۔ لیکن جناب خوب غور فرمائیے کہ مقابل قانون کے نظائر اور رسم و رواج کا اعتبار نہیں ہوتا ہے۔
باگل سرخ کہ اصلش عرق روئے نبی ست
رتبۂ لالہ نعماں نہ برابر گیرند (۱)
( وہ گلِ سرخ جس کی اصل اور سیرابی روئے نبوی کا پسینہ ہو، لالہ نعماں کا رتبہ اس کے برابر نہیں ہوسکتا۔)
قولہ: من جملہ اور باتوں کے ایک مسئلہ جہر آمین ہے، اس پر بھی اس فریق کو بڑا یقین ہے۔
أقول: اجی جناب! غور فرمائیے یہ اسی فیصلہ کی ایک شاخ ہے اور نیز اس مقدمہ میں بڑے بڑے علماء حنفیہ نے تسلیم کیا ہے کہ جہر آمین سے چارہ نہیں اور اپنے شاہد مدعا کو قابل استشہاد نہیں تصور کیا ہے، پس آپ کے خصم نے خاص اس مقدمہ میں ڈگری مسلمہ فریق ثانی حاصل کی ہے، اس میں اب کیا کلام ہے؟ اگر یہ فیصلہ قابل یقین نہ ہوگا تو اور کون؟ آپ ہی فرمائیے۔
قولہ: یہاں تک کہ جو پکار کر آمین نماز میں نہیں کرتا، اس کو تارک سنت ، بلکہ بدعتی اور مشرک اور جانے کیا کیا؟
أقول: اے حضرت! ایسا ہوسکتا ہے کہ جو فریق مقدمہ نہ ہو، اس پر ڈگری جاری کرائی جائے؟ کوئی عاقل اس بات کو آپ کی تسلیم کرے گا؟ ہرگز نہیں۔ ان بیچارں سے کیا سروکار؟ ان کو ایسے کلمات کیوں کہے جائیں گے؟ البتہ ایسے لوگوں کو جو فریق مقدمہ ہیں اور ڈگری کو تسلیم کرکے حیلہ حوالہ کرتے ہیں اور تعمیل نہیں کرتے، تارک سنت کہا جاتا ہوگا۔
اور جو لوگ اب تک باوجود فیصلہ ہو جانے کے سرکشی اور عناد کرتے ہیں اور حکم عدالت کی تعمیل نہیں کرتے اور کوئی عذر بھی نہیں کرتے، بلکہ صاف حکم عدالت کے جان بوجھ کر منکر اور مٹانے کے درپے ہیں، شاید ان کو یہ دو الفاظ اخیر کہا جاتا ہوگا، اگرچہ اہل حدیث کی یہ عادت نہیں، مگر آپ ہی فرمائیے کہ اگر یہ الفاظ کہے گئے تو کیا مضائقہ ہوا؟ کیا ایسے شخص کا یہ لقب عدالت عالیہ سے نہیں مقرر ہوا ہے؟ پھر جو لقب جس کا مقرر ہوا ہے، اس کو کسی نے خطاب کیا تو کیا جرم ہوا؟ وإلا آپ ہی فرمائیے کہ آخر یہ القاب مقررہ عدالت کا موصوف کون ہے اور کیا جو کوئی بغاوت کرے گا اس کو باغی کہنا جرم ہوگا؟ ہرگز نہیں، پس جو شخص غیر کے قول کو مثل قول رسول اللہﷺ سمجھے گا وہ بیشک مشرک فی الرسالۃ کو ملقب ہوگا، چہ جائیکہ جو شخص قول رسول ﷺ سے بغاوت کرے۔ یہی حکم عدالت عالیہ کا ہے، آپ کیوں نہیں اپنے موکلوں کو فہمائش کرتے کہ حکم عدالت کے پابند ہو جاویں اور نبی ﷺ جی کا دم بھریں۔ مثل مشہور ہے کہ ’’ جس کا کھائیے اسی کا گائیے‘‘۔ نہ یہ کہ ’’ دانہ دہد کسے وسواری کند کسے‘‘۔ (دانہ ڈالے کوئی اور سواری کرے کوئی!)
کلمہ تو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پڑھیں اور شفاعت کے امیدوار، اور قلادہ دوسرے کا گلے میں ڈالیں!! پس جس وقت حکم عدالت کے پیرو ہوں گے، فوراً سرکار والا جاہ سے خطاب عالیہ عطا ہوگا، یعنی ملقب بلقب ’’محمدی‘‘ ہوں گے۔
قولہ: لکھ کر اپنے نامہ اعمال کو سیاہ اور ان پڑھوں کو فریب دے کر تباہ کرتے ہیں۔
أقول: ایسے کلمات ہر فریق اپنے مقابل کو کہہ سکتا ہے، لیکن میں پابند حکم مذکور الصدر کا ہوں۔
قولہ: منجملہ اور بلاد و دیار کے اس شہر مرزا پور میں۔
أقول: جناب من! جب قانون عدالت عالیہ سے جاری ہوا تو بمرور ہر جگہ ضرور پہنچے گا اور متعلقین عدالت کو ضرور ہے کہ پہنچانے میں سعی بلیغ کریں، تاکہ خیر خواہ قرار دیے جائیں۔ مرزا پور میں بھی بہ نظر خیر خواہی قوم کسی نے پہنچایا تو کیا عجب ہے؟ ایسا ہی چاہیے تھا۔ کیا شہر مرزا پور عدالت عالیہ کے تحت میں نہیں ہے؟ یا غیر قانونی ملک ہے؟ مجھ کو تو یہی معلوم ہے کہ سب ملک عدالت عالیہ کے تحت میں ہے اور کوئی ملک غیر قانونی نہیں اور سب ملکوں پر یکساں حکم اس عدالت کا جاری ہے۔
قولہ: محمد سعید نو مسلم نے فتور برپا کردیا۔
أقول: آپ نے لفظ مسلم تسلیم کرکے فتور برپا کرنے کی نسبت ان کی طرف کی۔ کیا یہ آپ کی شان ہے؟ اور جب وہ شیطان کے کید قدیم سے ہوشیار ہو کر اسلام لائے تو وہ بھی متعلقین اسی سرکار عالیہ کے ہوئے تو ان پر بھی فرض منصبی ہوا کہ سب بھائیوں کو خبردار کریں، تاکہ القاب عالیہ کے مستحق ہوں، بلکہ ان کو اس امر میں زیادہ کوشش چاہیے، کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ نئے خادم کو زیادہ خیر خواہی کی ضرورت ہے، تاکہ عمدہ عمدہ منصب جلد حاصل ہوں، اس بنا پر انھوں نے اس کام میں سبقت کی، اب حضرت رشک سے کیا ہوتا ہے؟ ذلک فضل اللہ یؤتیہ من شیاء۔
اور آپ تو طرف ثانی کے وکیل تھے، آپ کا منصب کہاں تھا؟ اور وہ اجرائے ڈگری کے واسطے گئے ہوں گے، آپ نے پہلے ہی سے کیوں نہیں بندوبست ڈگری کا موکلوں سے کرایا کہ یہ نوبت نہ پہنچتی، بلکہ اور عذر داری کردیا؟ حضرت من! یہ ڈگری تو جاری ہوہی گئی۔ اگر آپ کے موکلوں باغیوں کے حق میں فتور ہو۔ واللہ متم نورہ ولو کرہ المجرمون!!
اور خبردار ہو جائیے کہ آپ مرتکب ایک جرم سنگین کے ہوئے ہیں، یعنی جو القاب مولوی کا ان کو سرکار والا جاہ سے عنایت ہوا ہے، اس کو آپ نے حذف کرکے لفظ قبیح فتور کی نسبت ان کی طرف کی۔ اس کا استغاثہ سرکار عالیہ میں دائر ہوا ہے۔ افسوس تو مجھ کو یہی ہے کہ نئے خادم سرکار عالیہ سے عمدہ عمدہ منصب حاصل کریں اور پرانے لوگ بہ سبب بدچلنی کے مرتکب جرائم ہو کر ماخوذ ہوں۔ یا تقدیر یا نصیب!
قولہ: عبدالغفور بن محمد جان کو مقدمہ بازی میں مہرہ پر دھر دیا، چنانچہ ایک مسجد کا دعویٰ دائر عدالت ہوا۔
أقول: اے صاحب! فرقہ اہل حدیث پابند قانون ہے، پس جب مقلدین نے اللہ کی یاد کرنے سے مسجدوں میں ان کو روکا ہوگا، تب مولوی محمد سعید صاحب نے یہ صلاح دی ہوگی کہ دعویٰ دائر عدالت کرو، فوجداری کرنا اہل حدیث کی شان نہیں۔ عجیب لطف ہے کہ مقلدین حق بھی غصب کریں اور جب استغاثہ دائر کیا جاوے تو شکایت کریں!!
جی جناب آپ کا تو نفع ہوا اور دعویٰ دائر عدالت ہونے سے ایک یہ بھی نفع ہے کہ عدالت والوں کو بھی ابلاغ احکام ہو جائے۔ وإلاّ وہاں کون جا کر ابلاغ کرتا اور کیونکر سمع عالی تک پہنچتا، پس آپ لوگوں کی ہدایت کے واسطے یہ طریقہ نکلا ہے۔ بہرحال آپ کا ہر طرح نفع ہے۔ شکایت کی جائے، نہیں، شکر کیجیے۔
قولہ: ظفر المبین مصنفہ محی الدین نو مسلم سے منجملہ اکیس حدیث جہر آمین کے گیارہ حدیثوں کو نہایت صحیح اور قوی سمجھ کر پیش کیا۔
أقول: کیوں صاحب! ہمارے گیارہ شاہد عادل تو مقبول نہ ہوں اور طرف ثانی استحسان و ’’ اِسْتَحَبَّہُ الْعُلَمَاءُ‘‘ پر کامیاب ہو؟ واہ! انصاف ہو تو ایسا ہو۔ زیادہ کیا عرض کروں؟ فھم من فھم!
عبدالغفور نے یہ تصور کیا کہ طرف ثانی کے پاس گواہ ضعیف اور ہمارے گیارہ گواہ عادل متفق اللفظ ہیں۔ ان کی گواہی کافی ہے، زیادہ گواہ سنانا تضییع اوقات عدالت والا ہے۔ بنا بر اسی قدر پر اکتفا کیا ہوگا، نہ اس وجہ سے جو آپ نے : ﴿ رَجْمًا بِالْغَیْبِ﴾ (الکھف: ۲۲) فرمایا، کیونکہ دس گواہ باقی بھی اسی قسم کے عادل ہیں۔
قولہ: ان احادیث پر جرح و قدح کرکے ان کے دعوائے جہر کو توڑ دیا۔
أقول: آپ تو وکیل ہی طرف ثانی کے ٹھہرے۔ کیسے ہی سچے گواہ ہوں گے، آپ تو جرح و قدح کریں گے، تاکہ موکل راضی رہے۔ باقی اس جرح کا مقبول و مردود ہونا آگے معلوم ہوگا۔ ابھی سے یہ حکم آپ کا کہ مصداق ’’ آنچہ در شکم و نامش مظفر‘‘ کا بنتا ہے۔ ( وہ جو پیٹ میں ہے اس کا نام ہے فاتح)
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
قولہ: اس لیے میں مشرق سے لے کر مغرب تک کے تمام غیر مقلدوں کو اشتہار دے کر مطلع کرتا ہوں۔
أقول: آپ کو تو فقط ایک ضلع ماتحت کی وکالت کا پاس ہے اور ہائی کورٹ کے امتحان میں آپ فیل ہیں۔ پس تمام عدالتوں میں جانے کے کہاں مجاز؟ اے جناب! مدت ہوئی کہ اشتہار جاری ہوئے، آخر فیصلہ ہوگیا۔ آپ فقط خاص ایک ضلع ماتحت کے وکیل ہیں، آپ کو نہیں معلوم ہوا ہوگا، آپ عدالت مافوق سے دریافت فرمائیں، معلوم ہو جائے گا۔ میں سابق میں تحریر کرچکا ہوں کہ فیصلہ ہوچکا، اب اجرائے ڈگری کی نوبت ہے، اب عذرداری سے کام نہیں چلتا۔
قولہ: آنحضرتﷺ ہمیشہ دم آخر تک نماز میں آمین کو پکار کر کہتے تھے … الخ۔
أقول: اے جناب! مقدمہ آمین بالجہر میں تو باقرار بڑے بڑے علماء حنفیہ کے اہل حدیث نے ڈگری حاصل کی ہے، جیسا کہ میں گزارش کرچکا، اب طرف ثانی کا ثبوت طلب کرنا بے فائدہ ہے۔ فرض کیجیے کہ خصم آپ کا ثبوت نہ لا سکتا تھا، لیکن جب دعوے کا اقرار ہوگیا تو اب چون و چرا فضول ہے۔ آپ کسی مداری اور سلاری کے اِغوا میں آگئے، خود تدبر فرمائیے۔ اور آپ کو معلوم نہیں کہ عدالت کا حکم جب ایک دفعہ کسی امر میں صادر ہوگیا تو فا فسخ ہمیشہ اسی حکم کی پابندی کرنی پڑے گی، بار بار صادر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
اور اہل حدیث سنت مؤکدہ اور دوام کے مدعی نہیں تھے، آپ چھیڑ کر سنت موکدہ کی بھی ڈگری اپنے موکلوں پر کرائیں گے، آپ وکیل ہو کر ایسی بات فرماتے ہیں۔ تعجب ہے!!
خیر ان شاء اللہ یہ بھی کردیا جائے گا کہ ایسا ہی عمل رہا ہے، ویسا نہیں۔ لیکن آپ تو فرمائیے کہ اس دوام کے ساتھ سنیت کسی سنت مذہبی کی ثابت کرسکتے ہیں؟ ذرا شرح وقایہ و ہدایہ وغیرہ کو ملاحظہ فرمائیے کہ سنت کس کو کہتے ہیں؟ اگر اس دوام کے ساتھ نہ ثابت کیا تو دروغ کا الزام آئے گا۔
قولہ: فی حدیث بیس روپے۔
أقول: اجی جناب! بیس پچیس دینے سے چھٹکارا نہیں ہوگا، اب تو پوری ڈگری جاری ہوگی۔ یہ حق سرکاری ہے، معافی کی بھی گنجائش نہیں۔
قولہ: انعام پاوے گا۔
أقول: اے حضور! اصل دام دام بیباق تو ہوتا ہی نہیں، انعام کی کیا امید ہے؟
قولہ: حدیث صحیح قطعی الدلالۃ۔
أقول: حضور والا ویسی ہی لیجیے، مع مہر دستخط حاکم مافوق کے۔ فافھم ولا تکن من الممترین!
مگر جناب! بے ادبی معاف، رہیں آپ جھونپڑی میں اور خواب دیکھیں محل کا؟ العاقل تکفیۃ الإشارۃ!
قولہ: غیر منسوخ۔
أقول: اے جناب! از راہِ عنایت ایک اور بات یاد کرلیجیے کہ جب آپ کسی حدیث کے منسوخ ہونے کے مقر ہوئے تو اس حدیث کے ثبوت کا تو اقرار ہو ہی چکا، اب نسخ کا ثابت کرنا آپ کے ذمے پر لازم ہوا، پس جناب کوئی ناسخ ایسی ہی سہی لائے ہوتے، جیسے جب کوئی مقروض ادائے قرض کا دعویٰ کرے تو وہ قرض کا مقر تو ہو ہی چکا اور قرض اس پر ثابت ہوگی۔ اب ادائے قرض کی وجہ ثبوت اس سے مدلل طلب کی جائے گی۔ آپ تو ماشاء اللہ وکیل ہیں، شاید وقت اس تحریر کے ہجوم متخاصمین کا ہوگا، اس لیے اس طرف ذہن عالی نہ گیا ہوگا، مجبوری میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
قولہ: کسی اہل حدیث کو کلام نہ ہو۔
أقول: جب آپ مقر ہوئے تو اور کسی کا اقرار یا انکار کب فائدہ اور نقصان دے گا؟ اور خصم سے آپ ایسی حدیث طلب کرتے ہیں، کچھ اپنی بھی خبر ہے؟ تہذیب مانع ہے۔ کیا عرض کروں۔ فافھم ولا تکن من القاصرین!
قولہ: گیارہ حدیث مسمی عبدالغفور الخ۔
أقول: اس بیچارے کے پاس سوائے حدیث کے کون گواہ عادل تھا جو پیش کرتا؟ منیۃ قنیۃ کو تو وہ گواہ عادل نہیں جانتا تھا۔ خیر جناب! اب کی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ایسے گواہ، جن سے آپ کی تسکین ہو، پیش کیے جائیں گے، یعنی کلام محقق حنفیہ شیخ ابن الہام اور علامہ ابن امیر حاج اور شیخ عبدالحق دہلوی اور مولانا عبدالعلی لکھنوی کا۔ اب آپ کو اختیار ہے کہ ان سب پر بھی جرح کیجیے۔
قولہ: اور کسی حدیث کے سلسلہ سند کو بیان نہیں کیا، صرف اخیر راوی کا نام لیا۔
أقول: اے جناب! یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ ذرا مشکوۃ کو ملاحظہ فرمائیے، اس میں ایسا ہی صاحب مشکوٰۃ نے کیا ہے، اس بچارے پر کیا الزام ہے؟ خدا کے واسطے ذرا بھی تو انصاف فرماتے !!
قولہ: اس پر طرہ یہ کہ بخاری مسلم کی اس میں سے کوئی حدیث نہیں۔
أقول: کسی ذی علم نے یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ انحصار احادیث صحیحہ کا صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے، بلکہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ صحیحین میں جتنی احادیث ہیں وہ سب بلاشبہ صحیح ہیں۔ پس اگر حدیث:
(( مدبھا صوتہ )) ( سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۴۸) مسند أحمد ۴ ؍۳۱۵، وقال الترمذي : ’’ حدیث وائل بن حجر حدیث حسن‘‘ )
’’ آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو کھینچا‘‘
صحیحین میں نہیں ہے تو یہ اس کے موجب قدح کا نہیں ہے۔ دیکھیے امام بخاری نے خود اس کی تصحیح کی ہے، جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔
اور بالفرض اگر وہ حدیث صحیحین میں بھی ہوتی تو کیا آپ اس پر عمل کرتے؟ ہرگز نہیں۔ رفع الیدین، جو صحیحین کی اور تمام کتبِ حدیث کی روایت ہے، کیا اس پر عمل کرتے ہیں؟
قولہ: حدیث اول ابوداود:
’’ حدثنا مخلد بن خالد الشعیري ثنا ابن نمیر ثنا علي بن صالح عن سلمۃ ابن کھیل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر أنہ صلی خلف رسول اللہﷺ ، فجھر بآمین، وسلم عن یمینہ وعن شمالہ حتی رأیت بیاض خدہ ‘‘ انتھی (سنن أبي داود، رقم الحدیث ۹۳۳)
’’ مخلد بن خالد شعیری نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے علی بن صالح نے مسلمہ بن کہیل کے واسطے سے بیان کیا، وہ حجر بن عبنس کے واسطے سے اور وہ وائل بن حجر کے واسطے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے آمین زور سے کہا اور انھوں نے دائیں اور بائیں سلام پھیرا، یہاں تک کہ میں نے ان کے رخسار کی سفیدی دیکھی۔ ختم شد۔‘‘
اس حدیث کا ایک راوی علی بن صالح ہے، اس کی نسبت میزان الاعتدال کے صفحہ ۲۰۴ میں لکھا ہے:
’’ کہا محمد بن مثنیٰ نے کہ نہیں سنا عبدالرحمن بن مہدی نے علی سے حدیث بیان کرتے ہوئے کوئی شے۔‘‘ اور محمد و عبدالرحمن دونوں علمائے ثقات صاحب جرح و تعدیل مقبولہ محدثین ہیں، لہٰذا اس حدیث پر احتمال ضعف موجب کلیہ مسلمہ ’’ إذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال‘‘ ہوگیا۔ صحیح بلا جرح باقی نہ رہی، استدلال نہیں ہوسکتا ہے۔
اقول: علی بن صالح جو راوی اس حدیث کا ہے، وہ ثقہ ہے۔ توثیق کی اس کی امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین و نسائی نے۔
فرمایا: حافظ شمس الدین ذہبی نے ’’ میزان الاعتدال في نقد الرجال‘‘ میں:
’’ علي بن صالح بن حیي أخو الحسن، وثقہ یحییٰ بن معین والنسائي‘‘ انتھی ( میزان الاعتدال ۳ ؍۱۳۲)
’’ علی بن صالح بن حی، حسن کے بھائی تھے اور یحییٰ بن معین اور نسائی نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا حافظ ابو الفضل ابن حجر عسقلانی نے تقریب میں:
’’ علي بن صالح بن حیي الھمداني أبو محمد الکوفي أخو حسن، ثقۃ عابد ‘‘ انتھی ( تقریب التھذیب ، ص: ۴۰۲)
’’ علی بن صالح بن حی ہمدانی، ابو محمد کوفی، حسن کے بھائی، ثقہ اور عابد ہیں۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا علامہ صفی الدین احمد بن عبداللہ الخزرجی الانصاری نے ’’ خلاصۃ تذھیب تھذیب الکمال في أسماء الرجال‘‘ میں:
’’ علي بن صالح بن صالح بن حي الھمداني أبو محمد الکوفي، عن سلمہ بن کھیل وسماک ومنصور، وعنہ ابن نمیر و وکیع و أبو نعیم، وثقہ أحمد وابن معین۔ قال ابن المدیني: لہ نحو ثما نین حدیثاً‘‘ انتھی (الخلاصۃ للخزرجي ، ص: ۲۷۴)
’’ علی بن صالح بن صالح ہمدانی ابو محمد کوفی، سلمہ بن کہیل، سماک اور منصور سے روایت کرتے ہیں اور ان سے ابن نمیر، وکیع اور ابو نعیم روایت کرتے ہیں۔ احمد اور ابن معین نے ان کی توثیق کی ہے۔ ابن المدینی نے کہا ہے کہ ان کی تقریباً اسّی حدیثیں ہیں۔ ختم شد۔‘‘
اور معترض نے جو حوالہ میزان الاعتدال کا دے کر اس کا ترجمہ کیا ہے، اس میں اس نے اپنی خیانت اور لیاقت علمی ظاہر کی ہے۔ دیکھو! اصل عبارت میزان الاعتدال کی یہ ہے:
’’ وقال محمد بن مثنی : ما سمعت عبدالرحمن بن مھدي یحدث عن علي بشيء۔ قلت: لا یدل ھذا علی قدح ‘‘ انتھی
’’ محمد بن مثنی نے کہا ہے کہ میں نے عبدالرحمان بن مہدی کو علی کے واسطے سے کوئی چیز بیان کرتے نہیں سنا۔ میں (امام ذہبی) نے کہا کہ یہ چیز کسی جرح پر دلالت نہیں کرتی۔ ختم شد۔‘‘
اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ محمد بن مثنی جو شاگرد عبدالرحمن بن مہدی کے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن کو علی سے روایت کرتے ہوئے نہیں سنا۔ پس اس سے ضعف علی بن صالح کا کہاں ثابت ہوا؟ کیونکہ محمد بن مثنی اپنے علم کی نفی کرتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن کو بروایتِ علی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا، اور محمد بن مثنی نے یہ نہیں کہا ہے کہ عبدالرحمن بن مہدی نے علی بن صالح کی حدیثوں کو ساقط الاحتجاج سمجھا ہے، اس لیے روایت ان سے نہیں کی۔
اور معترض نے اس عبارت کا ترجمہ یوں کیا کہ ’’ کہا محمد بن مثنی نے کہ نہیں سنا عبدالرحمن نے علی سے حدیث بیان کرتے ہوئے کوئی شے‘‘۔ حالانکہ محمد بن مثنی یہ نہیں کہتے ہیں کہ عبدالرحمن نے علی سے حدیث نہیں سنا، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کو بروایتِ علی حدیث بیان کرتے نہیں سنا، پس اس میں محمد بن مثنی نے نفی سماعت اپنی کی بیان کی نہ یہ کہ نفی سماعت عبدالرحمن کی علی بن صالح سے۔
ہدایۃ النحو کا پڑھنے والا بھی سمجھے گا کہ یہ عبارت یعنی:
’ ’ قال محمد بن مثنی : ما سمعت عبدالرحمن بن مھدی یحدث عن علی بشي ء ‘‘
میں محمد بن مثنی کے قول کا مقولہ کیا ہے اور لفظ ’’ ما سمعت ‘‘ میں جو ضمیر متکلم کی ہے، اس کا متکلم کون ہے؟ بھلا جو شخص اس قدر بھی نہیں سمجھ سکتا ہے، وہ تنقیدِ حدیث کیا کرسکتا ہے؟
یہ بیان معترض صاحب کی استعداد علمی کا ہوا، اب اس کی چالاکی اور بہادری کو دیکھیے کہ میزان الاعتدال کے اوپر کی عبارت یعنی : ’’ قال محمد ‘‘ سے ’’ عن علي بشيء‘‘ تک نقل کیا اور اس کے بعد ذہبی کی عبارت جو یہ ہے:
’’ قلت : لا یدل ھذا علی قدح ‘‘
’’ یہ جرح پر دلالت نہیں کرتا ہے۔‘‘
اس کو چھوڑ دیا اور یہ نہیں سمجھا کہ جو میزان الاعتدال کی طرف مراجعت کرے گا، وہ اس عبارت کو دیکھے گا اور معلوم کرے گا کہ محمد بن مثنی کی نفی سماعت علی بن صالح کی قدح پر دلالت نہیں کرتی ہے۔
پس جبکہ عبدالرحمن بن مہدی سے ان کی تضعیف ثابت نہیں ہوئی، بلکہ ابن معین و احمد بن حنبل و نسائی سے ان کی توثیق ثابت ہوئی تو اب یہ حدیث بہت صحیح و قوی ٹھہری۔ اور مجرد آپ کے خیالات کا سدہ سے تو سب حدیثیں صحیح بھی ضعیف ہو جائیں گی، کیونکہ ہر حدیث صحیح پر احتمال ضعف جاری ہو سکتا ہے اور اس صورت میں دین میں بڑی بڑی خرابیاں واقع ہوں گی۔ أعوذ باللہ من ھذا الصنیع السوء ومن وسواس الشیطان الرجیم۔
الحمد للہ کہ ثقاہت علی بن صالح کی ثابت ہوئی۔ اب باقی رواۃ جو اس حدیث میں ہیں، ان کے احوال کو بھی بیان کردیتا ہوں، تاکہ ہر کس کو اس حدیث کی صحت پر پورے طور پر وثوق حاصل ہوجائے۔ تو معلوم کرنا چاہیے کہ اول راوی اس کا ’’ مخلد بن خالد الشعیری‘‘ ہے۔
کہا خلاصہ میں:
’’ مخلد بن خالد الشعیري أبو محمد العسقلاني ثم الطرسوسي عن ابن عیینۃ وأبي معاویۃ ، وعنہ مسلم وأبوداود، ووثقہ ‘‘ انتھی (الخلاصۃ للخزرجي ، ص: ۳۷۲)
’’ مخلد بن خالد شعیری اور محمد عسقلانی پھر طرسوسی، ابن عیینہ اور ابو معاویہ سے روایت کرتے ہیں اور ان سے مسلم اور ابوداود، اور انھوں نے اس کی توثیق کی ہے۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا حافظ ابن حجر نے تقریب میں:
’’ مقلد بن خالد بن یزید الشعیري نزیل طرسوس، ثقۃ من العاشرۃ‘‘ انتھی ( تقریب التھذیب ، ص: ۵۲۳)
’’ مخلد بن خالد بن یزید شعیری، طرسوس میں رہائش پذیر دسویں طبقہ کے ثقہ ہیں۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا امام ذہبی نے میزان میں:
’’ صدوق فاضل نزیل طرسوس، ویعرف بالشعیري ‘‘ انتھی (میزان الاعتدال ۴ ؍۸۲)
’’ سچے ہیں، فاضل ہیں، طرسوس میں نازل ہونے والے، جو شعیری کے نام سے معروف ہیں۔ ختم شد۔‘‘
دوسرا راوی اس کا ’’ علی بن صالح‘‘ ہے۔ ( وقد مرت ترجمتہ ) ’’ اس کا ترجمہ گزر چکا ہے۔‘‘
تیسرا راوی اس کا ’’ سلمہ بن کہیل‘‘ ہے۔ کہا ابن حجر نے تقریب میں:
’’ سلمۃ بن کھیل الحضرمي أبو یحییٰ الکوفي ، ثقۃ من الرابعۃ‘‘ انتھی ( تقریب التھذیب ، ص: ۲۴۸)
’’ سلمہ بن کہیل حضرمی ابو یحییٰ کوفی۔ چوتھے طبقے کے ثقہ ہیں۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا ذہبی نے کاشف میں:
’’ سلمۃ بن کھیل أبو یحییٰ الحضرمي ، ثقۃ إمام ، لہ مائتان وخمسون حدیثاً ‘‘ انتھی ( الکاشف ۱ ؍۴۵۴)
’’ سلمہ بن کہیل حضری ابو یحییٰ ثقہ امام ہیں۔ ان کی دو سو پچاس حدیثیں ہیں۔‘‘
چوتھا ’’ حجر بن عنبس‘‘ ہے۔ کہا تقریب میں:
’’ حجر بن العنبس الحضرمي الکوفي، صدوق مخضرم من الثانیۃ‘‘ ( تقریب التھذیب ، ص: ۱۵۴)
’’ حجر بن عنبس حضرمی کوفی دوسرے طبقے کے صدق مخضرم ہیں۔‘‘
اور کہا حافظ نے ’’ تلخیص الحبیر‘‘ میں:
’’ ھو ثقۃ معروف، قیل لہ صحبۃ، ووثقہ یحییٰ بن معین وغیرہ‘‘ انتھی (التلخیص الحبیر ۱ ؍۲۳۷)
’’ وہ ثقہ ہیں، معروف ہیں۔ کہا گیا ہے کہ وہ صحابی ہیں۔ یحییٰ بن معین وغیرہ نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا خلاصہ میں:
’’ حجر بن العنبس عن وائل بن حجر، وعنہ سلمۃ بن کھیل وعلقمۃ ابن مرثد، وثقہ ابن معین‘‘ انتھی (الخلاصۃ للخزرجي،ص: ۷۳)
’’ حجر بن عنبس، وائل بن حجر سے اور ان سے سلمہ بن کہیل اور علقمہ بن مرثد روایت کرتے ہیں۔ ابن معین نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ ختم شد۔‘‘
پانچواں راوی اس کا وائل بن حجر اور وہ صحابی جلیل القدر ہیں۔ کہا حافظ امام ابن اثیر نے ’’ جامع الأصول‘‘ میں :
’’ وائل بن حجر بن ربیعۃ بن وائل الحضرمي ، بشر بہ النبيﷺ أصحابہ قبل قدومہ، وقال : یأتیکم وائل بن حجر من أرض بعیدۃ من حضر موت، طائعاً راغباً في اللہ عزوجل وفي رسولہ، ھو بقیۃ أبناء الملوک، فلما دخل علیہ رجب بہ، وأدناہ من نفسہ ، وبسط لہ رداءہ فأجلسہ علیہ، وقال : اللھم بارک في وائل ، وولدہ، وولدہ ولدہ‘‘ انتھی مختصراً ( جامع الأصول في أحادیث الرسول ۱۲ ؍۹۶۶)
’’ وائل بن حجر بن ربیعہ بن وائل حضرمی۔ نبی مکرمﷺ نے ان کے بارے میں اپنے اصحاب کو ان کی آمد سے قبل بشارت دی تھی اور فرمایا کہ تمہارے پاس وائل بن حجر بہت دور سے آرہے ہیں، مطیع بن کر اور اللہ عزوجل اور اس کے رسول کی جانب راغب ہو کر۔ وہ بادشاہوں کی اولاد کا بقیہ ہیں، پس جب وہ داخل ہوئے تو آپﷺ نے انھیں خوش آمدید کہا اور انھیں اپنے قریب کیا اور اپنی چادر بچھا کر انھیں اس پر بٹھایا اور فرمایا: اے اللہ! وائل اور ان کی آل اولاد میں برکت عطا فرما۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا ابن حجر نے تقریب میں:
’’ صحابي جلیل، وکان من ملوک الیمن ‘‘ انتھی (تریب التھذیب ، ص: ۵۸۰)
’’ جلیل القدر صحابی ہیں اور یمن کے بادشاہوں میں سے تھے۔ ختم شد۔‘‘
پس ثابت ہوا کہ یہ حدیث بہت صحیح و قوی از روئے سند و متن کے ہے، کوئی راوی اس کا ضعیف نہیں اور یہ حدیث حجت قطاع ہے اوپر منکرین بالجہر کے۔ وباللہ التوفیق
قولہ: حدیث دوم ، ابوداود:
’’ حدثنا نصر بن علي ناصفوان بن عیسی بن بشر بن رافع عن أبي عبداللہ بن عم أبي ھریرۃ قال : کان رسول اللہﷺ إذا تلا ﴿ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین ﴾ قال : اامین، حتی یسمع من یلیہ من الصف الأول‘‘ ( سنن أبي داود، رقم الحدیث، ۹۳۴)
’’ ابوداود نے کہا کہ ہم سے نصر بن علی نے بیان کیا، ان کو صفوان بن عیسیٰ نے بشر بن رافع کے واسطے سے اور وہ ابوہریرہ کے چچا زاد ابو عبداللہ کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہا رسول اللہﷺ نے جب ﴿غیر المغضوب علیھم ولا الضالین﴾ کی تلاوت فرمائی تو انھوں نے آمین اتنی زور سے کہا کہ ان کے آس پاس کے پہلی صف کے لوگوں نے سن لیا۔‘‘
’’ اس حدیث کا راوی بشر بن رافع تقریب کے صفحہ (۵۱) میں ضعیف الحدیث لکھا گیا ہے، اور ابوعبداللہ ابن عم ابی ہریرۃ کو میزان الاعتدال کے صفحہ (۲۵۶) میں لکھا ہے کہ سوائے بشر بن رافع کے ابو عبداللہ سے حدیث روایت کرتے ہوئے کسی دوسرے راوی کو نہیں سنا۔ اس حدیث کے ضعیف ہونے میں کچھ شک نہ رہا۔‘‘
أقول: بشر بن رافع کی اگرچہ بعض محدثین نے تضعیف کی ہے، مگر بعض محدثین نے ان کی توثیق بھی کی ہے۔ فرمایا امام حافظ عبدالعظیم منذری نے کتاب ’’ الترغیب والترھیب‘‘ میں:
’’ بشر بن رافع أبو الأسباط النجراني ۔ ضعفہ أحمد وغیرہ، وقواہ ابن معین وغیرہ، وقال ابن عدي : لا بأس بأخبارہ لم أرلہ حدیثاً منکراً ‘‘ انتھی
’’ بشر بن رافع ابو الاسباط نجرانی کو احمد وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن معین وغیرہ نے قوی قرار دیا ہے، اور ابن عدی نے کہا ہے کہ ان کی حدیثوں میں کوئی حرج نہیں ہے، میں نے ان کی کوئی منکر حدیث نہیں دیکھی۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا خلاصہ میں:
’’ بشر بن رافع الحارثي أبو الأسباط، إمام مسجد نجران، عن یحییٰ بن أبي کثیر ، وعنہ حاتم بن إسماعیل وعبدالرزاق ، وثقہ ابن معین، وابن عدي، وقال البخاري: لا یتابع ‘‘ انتھی (الخلاصۃ للخزرجي ، ص: ۴۸)
’’ بشر بن رافع حارثی ابو الاسباط نجران کی مسجد کے امام۔ وہ یحییٰ بن ابی کثیر سے اور ان سے حاتم بن اسماعیل اور عبدالرزاق روایت کرتے ہیں۔ ابن معین اور ابن عدی نے ان کو ثقہ کہا ہے اور بخاری نے کہا کہ ان کی متابعت نہیں کی جاتی۔ ختم شد۔‘‘
اب میں یہ کہتا ہوں کہ علاوہ اس امر کے کہ ضعف بشر بن رافع کا متفق علیہ نہیں، مختلف فیہ ہے۔ غایۃ ما في الباب یہ ہے کہ یہ حدیث بانفرادہ قابل حجت نہ ہوگی، لیکن بانضمام حدیث اول جس کی صحت کامل طور پر اوپر ثابت ہوچکی، و باجتماع دوسری احادیث صحیحہ کے جن کا بیان آگے آئے گا، ضعف اس کا مرتفع ہو جاوے گا اور وہ حدیث اس حدیث کی شاہد و متابع قوی سمجھی جائے گی۔ کیونکہ جب مجموعہ چند احادیث ضعیفہ کا بسبب تعدد طرق نزدیک بعض علماء کے درجہ حسن کو پہنچ جاتا ہے، تو اب اس حدیث کو بدرجہ اولیٰ تقویت حاصل ہوگی، اس لیے کہ اس باب آمین بالجہر میں جو احادیث کہ مروی ہیں، اگرچہ بعض ان میں ضعیف از روئے سند کے ہیں، مگر اکثر ان میں صحیح و قوی ہیں، پھر اب اس کی تقویت میں کیا کلام رہا؟
دیکھو! کہا شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ نے رسالہ اصولِ حدیث میں:
’’ الاحتجاج في الٔاحکام بالخبر الصحیح مجمع علیہ، وکذلک بالحسن لذاتہ عند عامۃ العلماء ، وھو ملحق بالصحیح في باب الاحتجاج، وإن کان دونہ في المرتبۃ، والحدیث الضعیف الذي بلغ بتعدد الطرق مرتبۃ الحسن لغیرہ أیضا محتج بہ، وما اشتھر أن الحدیث الضعیف معتبر في فضائل الأعمال لا في غیرھا، المراد مفرداتہ لا مجموعھا، لأنہ داخل في الحسن لا في الضعیف، صرح بہ الأئمۃ ، وقال بعضھم : إن کان الضعیف من جھۃ سوء حفظ أو اختلاط أو تدلیس مع وجود الصدق والدیانۃ، ینجبر بتعدد الطرق، وإن کان من جھۃ اتھام الکذب، والشذوذ أو فحش الخطأ ، لا ینجبر بتعدد الطرق،والحدیث محکوم علیہ بالضعف، ومعمول بہ في فضائل الأعمال، وعلی مثل ھذا ینبغي أن یحمل ما قیل : إن لحوق الضعیف بالضعیف لا یفید قوۃ ، وإلا فھذا القول ظاھر الفساد ‘‘ انتھی (مقدمۃ في أصول الحدیث للدھلوي ، ص: ۸۳)
’’ احکام کے سلسلے میں خبر صحیح سے حجت قائم کرنے پر اجماع ہے اور اسی طرح حسن لذاتہ سے بھی عام علماء کے نزدیک ، کیونکہ وہ بھی صحت فراہم کرنے کے باب میں صحیح سے ملحق ہے، اگرچہ اس سے مرتبے میں کم ہے، اور ضعیف حدیث جو متعدد طرق سے پہنچی ہو، حسن لغیرہ کے مرتبے میں ہے، اس سے بھی دلیل لی جاسکتی ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ ضعیف حدیث صرف فضائل اعمال میں معتبر ہے، دوسرے میں نہیں تو اس سے مراد اس کے مفردات ہیں نہ کہ مجموع، کیونکہ وہ حسن میں داخل ہے، ضعیف میں نہیں، ائمہ نے اسی کی صراحت کی ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ اگر وہ ضعیف ہو سوے حفظ کی بنا پر یا اختلاط کی بناپر یا تدلیس کی بنا پر صدق و دیانت کے وجود کے ساتھ تو وہ قبول ہوگی اپنے تعدد طرق کی بنا پر، اور اگر اس کا ضعف دروغ گوئی یا شذوذ یا فحش غلطی کی تہمت کی وجہ سے ہو تو تعددِ طرق کے باوجود اس کا اعتبار نہ ہوگا اور حدیث پر ضعف کا حکم لگایا جائے گا اور فضائلِ اعمال میں اس پر عمل کیا جائے گا، اور اسی طرح کی احادیث پر اس قول کو محمول کیا جانا چاہیے کہ ضعیف کا ضعیف سے ملنا قوت کا فائدہ نہیں دیتا۔ ورنہ یہ قول ظاہر الفساد ہے۔ ختم۔ شد‘‘
اور بھی کہا شیخ عبدالحق نے اشعتہ اللمعات شرح مشکوۃ میں:
’’ احتجاج در احکام بخبر صحیح لذاتہ مجمع علیہ است، وہم چنیں حسن لذاتہ نزد عامئہ علما و آں ملحق بصحیح است در احتجاج اگرچہ در رتبہ کمتر است، وچوں حدیث ضعیف بتعدد طرق بمرتبہ حسن برسدآں نیز محتج بہ است وآں کہ مشہور است کہ حدیث ضعیف در فضائل اعمال معتبر است نہ در غیر آن مفرد اتش مراد است نہ مجموع آں کہ بتعدد طرق داخل حسن است نہ ضعیف، صرح بہ الائمۃ۔ وبعض گفتہ اند اگر ضعف بجہت سوء حفظ بعض رواۃ یا اختلاط یا تدلیس بود، باوجود صدق و دیانت منجبر میگردد بتعدد طرق، واگراز جہت اتہام کذب راوی یا بشذوذ و فحش خطا بود، اگرچہ تعدد طرق داشتہ باشد منجبر نگردد، وحدیث محکوم بضعف باشد و در فضائل اعمال معمول و شاید کہ بریں صورت محمول خواہد بود آنچہ بعض گفتہ اند کہ لحوق ضعیف بضعیف افادہ نمی کند قوت را وإلا ایں سخن ظاہر الفساداست۔‘‘ انتھی (أشعۃ اللمعات للدھلوي ۱ ؍۷)
’’ خبر صحیح لذاتہ سے احکام میں دلیل لینا، اس پر سب کا اتفاق ہے۔ اسی طرح حسن لذاتہ اکثر علماء کے نزدیک صحیح سے ملتی جلتی ہے دلیل لینے میں، اگرچہ رتبے میں صحیح لذاتہہ سے کم ہے۔ جب ضعیف حدیث تعدد طرق کی وجہ سے حسن درجے کو پہنچ جائے تو وہ بھی قابل حجت ہے اور جو یہ بات مشہور ہے کہ ضعیف حدیث فضائل اعمال میں قابل حجت ہے، یہ بات بعض ضعیف حدیث کے بارے میں ہے، بلکہ وہ ضعیف جو تعددِ طرق کی وجہ سے حسن میں داخل ہو جائے۔ اس قاعدہ کی ائمۃ الحدیث نے وضاحت کی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اگر ضعف بعض کے سوے حفظ یا اختلاط یا تدلیس کی وجہ سے ہو، باوجودیکہ راویوں میں صدق، امانت اور دینداری ہے تو وہ حدیثیں زیادہ کثرتِ طرق کی وجہ سے ان کا نقص پورا ہو جائے گا اور اگر ضعف متہم بالکذب یا شذوذ یا فحش خطا کی وجہ سے ہو، تو تعددِ طرق سے بھی کمی پوری نہیں ہوگی، اور یہ جو مشہور ہے کہ وہ حدیث جس پر ضعف کا فیصلہ ہوا، فضائلِ اعمال میں اس پر عمل درآمد ہوگا تو وہ اسی صورت میں داخل ہے، جیسا کہ بعض نے کہا ہے کہ ضعیف ضعیف کے ساتھ ملنے سے قوی نہیں ہوتا ہے اور اگر اس طرح نہ ہو تو یہ مسئلہ ظاہراً فاسد ہے۔‘‘
اور ایسا ہی کہا شیخ سراج احمد سرہندی نے شرح جامع ترمذی میں:
’’ وچوں حدیث ضعیف بتعدد طرق بمرتبہ حسن رسدآں نیز محتج بہ است وآنکہ مشہور است کہ حدیث ضعیف در فضائل اعمال معتبر است بجہت ترغیب نہ در غیر آن مفرد اتش مراد است نہ مجموع کہ آن بتعدد طرق در محل حسن است نہ ضعیف۔‘‘ انتہی
’’ جب حدیث ضعیف تعددِ طرق کی وجہ سے حسن کے رتبے تک پہنچ جائے، وہ بھی قابل احتجاج ہے۔ اور جو بات مشہور ہے کہ ضعیف حدیث فضائل اعمال میں قابل حجت ہے تو اس سے مراد اس کے مفردات ہیں نہ کہ مجموعی اعتبار سے، کیونکہ تعددِ طرق کا محل حسن ہے نہ کہ ضعیف۔‘‘
اور کہا علامہ قسطلانی نے مقدمہ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں:
’’ قد یکون کل من المتابع والمتابَع لا اعتماد علیھما ، فباجتماعھما تحصل القوۃ ‘‘ انتھی (إرشاد الساري للقسطلاني ۱ ؍۱۲)
’’ بسا اوقات متابعِ اور متابَع دونوں پر اعتماد نہیں ہوتا، البتہ ان دونوں کے اجتماع سے قوت حاصل ہوتی ہے۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا امام نووی نے شرح مہذب میں:
’’ الضعیف إذا تعددت طرقہ صار حسناً لغیرہ ‘‘ انتھی مختصرا(دیکھیں: المجموع شرح المھذب ۲ ؍۳۵، ۷؍ ۱۹۷، ۹ ؍۱۲۷)
’’ ضعیف حدیث جب متعدد طرق سے مروی ہو تو حسن لغیرہ ہو جاتی ہے۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا امام نووی نے شرح مسلم کتاب الادب میں:
’’ قولہ : عن عبید اللہ بن عمر وأخیہ عبداللہ … الخ، ھذا صحیح لأن عبید اللہ ثقۃ حافظ ضابط مجمع علی الاحتجاج بہ، وأما أخوہ عبد اللہ ضعیف لا یجوز الاحتجاج بہ، فإذا جمع بینھما الراوي جاز، ووجب العمل بالحدیث اعتماداً علی عبید اللہ‘‘ انتھی ( شرح صحیح مسلم للنووي ۱۴ ؍۱۱۳)
’’ ان کا قول: عبداللہ بن عمر اور ان کے بھائی عبداللہ کے واسطے سے … الخ، صحیح ہے کیونکہ عبید اللہ ثقہ، حافظ، ضابط اور ان کی حدیث سے حجت پر اجماع ہے، اور رہے عبداللہ تو وہ ضعیف ہیں، ان کی حدیث سے حجت جائز نہیں۔ بس جب راوی دونوں کو جمع کردے تو جائز ہے اور اس حدیث پر عمل واجب ہے، عبید اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے۔ ختم شد‘‘
حاصل کلام کا یہ ہوا کہ جب کوئی حدیث چند طرق سے مروی ہو، ان میں بعض طرق کے رواۃ ضابط، عادل، ثقہ ہوں اور بعض طرق کے ضعفاء تو اب اعتماد اس حدیث صحیح پر ہوگا اور اس حدیث ضعیف کو اس حدیث صحیح کے سبب سے قوت حاصل ہو جائے گی، اور مسئلہ مبحوث عنہا میں یہی صورت واقع ہے، کیونکہ آمین بالجہر میں چند حدیث بسند صحیح مروی ہیں، چنانچہ ایک کا بیان گزرا اور باقی کا آتا ہے۔
تو اب ماورائے ان کے جو احادیث کہ ضعیف ہیں، ان کا ضعف کچھ مضر مطلب و مدعا کے نہ ہوگا، کیونکہ اصالتاً اعتماد انھیں احادیث صحیحہ پر ہے اور احادیث ضعیفہ اسی کی متابعات شمار کی جاتی ہیں، اور جس جماعت کی رائے پر حدیث ضعیف تعددِ طرق سے درجہ حسن کو پہنچ جاتی ہے، اس کے نزدیک تو ضعف باقی ہی نہ رہا۔
قولہ : حدیث سوم ابوداود:
’’ حدثنا محمد بن کثیر أخبرنا سفیان عن سلمۃ عن حجر أبي العنبس الحضرمي عن وائل بن حجر قال : کان رسول اللہﷺ إذا قرأ ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ قال ’’ آمین‘‘ ، ورفع بھا صوتہ‘‘ انتھی (سنن أبي داود، رقم الحدیث ۹۳۲)
’’ ہمیں بتایا محمد بن کثیر نے، ان کو سفیان نے سلمہ کے واسطے سے، وہ حجر ابوالعنبس حضرمی کے واسطے سے اور وہ وائل بن حجر کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ جب ﴿وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾پڑھتے تو آمین کہتے اور آمین کہتے ہوئے آواز بلند کرتے۔ ختم شد‘‘
’’ حدیث ہذا کے راوی محمد بن کثیر کی نسبت تقریب میں کثیر الغلط لکھا ہے اور میزان الاعتدال میں محمد بن کثیر کو ثقہ نہیں ہے، لکھا ہے، لہٰذا یہ حدیث بھی ضعیف ثابت ہوئی۔‘‘
أقول: سبحان اللہ! معترض کیا غافل اور نا آشنا ہے فن رجال سے؟! اس کو تمیز نہ ہوئی کہ یہ محمد بن کثیر کون سا ہے؟ آیا محمد بن کثیر بن ابی عطاء الثقفی الصنعانی یا محمد بن کثیر العبدی البصری؟ اس نے جس میں بن کثیر کو تقریب میں ضعیف پایا، اس کو راوی اس حدیث کا قرار دے کر ضعیف لکھ دیا۔
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش من انداز قدت را می شناسم
’’ تو چاہے جو بھی لباس زیب تن کرے، میں تجھے تیرے قد سے پہچانتا ہوں۔‘‘
میں اب تحقیق اس کی بیان کرتا ہوں۔ سنو کہ محمد بن کثیر، جو راوی سفیان ثوری سے اس حدیث میں ہے، وہ محمد بن کثیر العبدی البصری ہے اور ان کی توثیق کی ہے اور صدوق کہا ہے امام احمد بن حنبل و ابو حاتم و ابن حبان نے۔ اور روایت کیا محمد بن کثیر سے امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الایمان میں:
’’ حدثنا محمد بن کثیر قال : أخبرني سفیان عن ابن أبي خالد‘‘ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۹۰)
’’ ہم سے محمد بن کثیر نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ مجھے سفیان نے ابن ابی خالد کے واسطے سے بتایا۔‘‘
کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں:
’’ حدثنا ابن کثیر ھو العبدي … أخبرني سفیان ھو الثوري‘‘ انتھی ( فتح الباري ۱ ؍۱۸۶)
’’ ہم سے ابن کثیر نے حدیث بیان کی، وہی عبدی ہیں، انھوں نے کہا کہ مجھے سفیان نے بتایا، وہی ثوری ہیں۔ ختم شد‘‘
اور کہا قسطلانی نے ارشاد الساری شرح بخاری میں:
’’ محمد بن کثیر، بفتح الکاف وبالمثلثۃ ، العبدي، بسکون الموحدۃ، البصري، الموثق من أبي حاتم، المتوفی سنۃ ثلاث وعشرین ومائتین، قال : أخبرنا سفیان الثوري ‘‘ انتھی ( إرشاد الساري للقسطلاني ۱ ؍۱۹۸)
’’ محمد بن کثیر، کاف پر فتحہ اور مثلث کے ساتھ، العبدی، موحدہ کے سکون کے ساتھ۔ ابو حاتم نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ متوفی دو سو تئیس ہجری۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے بتایا۔ ختم شد‘‘
اگر معترض کو شرح بخاری نصیب نہ ہوئی تھی تو بھلا بخاری شریف کے حاشیہ ہی کو دیکھ لیا ہوتا کہ جناب مولوی احمد علی۔ علیہ الرحمۃ والغفران۔نے کیا لکھا ہے:
’’ محمد بن کثیر بفتح کاف و کسر المثلثۃ، العبدي البصري، ثقۃ، مات سنۃ ۲۲۳ وسفیان ھو ابن سعید الثوري‘‘ انتھی
’’ محمد بن کثیر، کاف کے فتحہ کے ساتھ اور مثلث کے کسرہ کے ساتھ، عبدی بصری۔ ثقہ ہیں۔ ان کی وفات ۲۲۳ھ میں ہے، اور سفیان سے مراد ابن سعید ثوری ہیں۔ ختم شد‘‘
اور وہ جو محمد بن کثیر الثقفی الصنعانی ہے، اس کی شان میں حافظ نے کثیر الغلط لکھا ہے اور بخاری و ابوداود نے اس کی تضعیف کی ہے۔ پھر بخاری باوجود ضعیف کہنے کے کیونکر اپنی صحیح میں لا سکتا ہے اور ابوداود باوجود ضعیف کہنے کے کیونکر اس حدیث پر سکوت کرسکتا ہے؟ اور حال یہ ہے کہ ابوداود نے اس حدیث پر سکوت کیا ہے اور ابوداود اپنی سنن میں جس حدیث پر سکوت کرتا ہے، وہ حدیث اس کے نزدیک بلا ضعف ہے۔ پس اب قطعاً معلوم ہوا کہ یہ محمد بن کثیر العبدی البصری ہے نہ الثقفی الصنعانی۔
دیکھو! خلاصہ میں لکھا ہے:
’’ محمد بن کثیر بن أبي عطاء الثقفی، مولا ھم أبو یوسف الصنعاني، ثم المصیصي، وثقہ ابن سعد، وابن معین، وضعفہ أبوداود، قال البخاري: لین جداً ‘‘
’’ ومحمد بن کثیر العبدي أبو عبداللہ البصري، عن أخیہ سلیمان وشعبۃ والثوري، وعنہ البخاري و أبوداود والذھلي، قال ابن حبان : کان ثقۃ فاضلاً ‘‘ (الخلاصۃ للخزرجي ، ص: ۳۵۷)
’’ محمد بن کثیر بن ابی عطا ثقفی، ابو یوسف صنعانی ہیں، پھر مصیصی ہیں۔ ابن سعد اور ابن معین نے ان کو ثقہ کہا ہے اور ابوداود نے ضعیف قرار دیا ہے، اور بخاری نے کہا ہے کہ وہ بہت زیادہ کمزور ہیں۔ اور محمد بن کثیر عبدی ابو عبداللہ بصری اپنے بھائی سلیمان اور شعبہ اور ثوری سے روایت کرتے ہیں اور بخاری، ابوداود اور ذہلی ان سے روایت کرتے ہیں۔ ابن حبان نے کہا کہ وہ ثقہ فاضل ہیں۔‘‘
اور حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے:
’’ محمد بن کثیر العبدي البصري عن أخیہ سلیمان وشعبۃ والثوري، وعنہ البخاري وأبو داود ویوسف القاضي وخلق، قال أبو حاتم: صدوق، وروی أحمد بن أبي خیثمۃ : قال لنا ابن معین : لا تکتبوا عنہ، لم یکن بالثقۃ، قال ابن حبان : کان تقیاً فاضلاً‘‘ انتھی (میزان الاعتدال ۴ ؍۱۸)
’’ محمد بن کثیر عبدی بصری اپنے بھائی سلیمان اور شعبہ اور ثوری سے اور ان سے بخاری، ابوداود اور یوسف قاضی اور بہت سے لوگ روایت کرتے ہیں۔ ابو حاتم نے کہا: صدوق ہیں۔ احمد بن ابی خیثمہ نے روایت کی ہے کہ ہمیں ابن معین نے بتایا کہ اس کے واسطے سے روایت مت لکھو، کیونکہ وہ ثقہ نہیں ہے۔ ابن حبان نے کہا کہ وہ پرہیزگار فاضل ہے۔‘‘
اور کہا حافظ ابن حجر نے ہدی الساری مقدمہ فتح الباری میں:
’’ محمد بن کثیر العبدي البصري من شیوخ البخاري، قال ابن معین: لم یکن بالثقۃ ، وقال أبو حاتم : صدوق، ووثقہ أحمد بن حنبل‘‘ انتھی ( ھدي الساري ، ص: ۴۴۲)
’’ محمد بن کثیر عبدی بصری بخاری کے شیوخ میں سے ہیں۔ ابن معین نے کہا: وہ ثقہ نہیں ہیں اور ابو حاتم نے کہا کہ وہ صدوق ہیں اور احمد بن حنبل نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ ختم شد‘‘
اب ان سب روایتوں سے ظاہر ہوا کہ مراد محمد بن کثیر سے العبدی البصری ہے نہ کہ الثقفی الصنعانی اور جو ابن معین نے ’’ لم یکن بالثقۃ‘‘ کہا ہے اس کو محدثین نے رد کردیا ہے۔
کہا حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں:
’’ محمد بن کثیر العبدي البصري ثقۃ ، لم یصب من ضعفہ ‘‘ انتھی ( تقریب التھذیب ، ص: ۵۰۴)
’’ محمد بن کثیر عبدی بصری ثقہ ہیں، جس نے ان کو ضعیف قرار دیا ہے، وہ درست نہیں ہے۔ ختم شد‘‘
اور امام بخاری کا محمد بن کثیر سے روایت کرنا اور امام احمد بن حنبل و ابو حاتم و ابن حبان کا ثقہ و صدوق کہنا حجت قاطعہ ہے اوپر توثیق اس کی، اور مقابلہ میں اتنے معدلین کے فقط قول یحییٰ بن معین کا مقبول نہ ہوگا، کیونکہ باب جرحِ رواۃ میں ان کی شدت ظاہر و آشکارا ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطی نے ’’ زھر الربٰی علی سنن المجتبی ‘‘میں لکھا ہے:
’’ إن کل طبقۃ من نقاد الرجال لا یخلو من متشدد، ومتوسط، فمن الأولیٰ : شعبۃ وسفیان الثوري ، وشعبۃ أشد منہ، ومن الثانیۃ : یحییٰ القطان ، وعبدالرحمن بن مھدي ، ویحییٰ أشد من عبدالرحمن ، ومن الثالثۃ : یحییٰ بن معین وأحمد حنبل، ویحییٰ أشد من أحمد، ومن الرابعۃ : أبو حاتم والبخاري، وأبو حاتم أشد من البخاري ‘‘ انتھی
’’ ناقدین رجال کے ہر طبقے میں کچھ متشدد ہیں اور کچھ متوسط، پہلے طبقے میں شعبہ اور سفیان ثوری ہیں اور شعبہ ان سے زیادہ سخت ہیں، اور دوسرے طبقے میں یحییٰ قطان اور عبدالرحمان بن مہدی ہیں اور یحییٰ عبدالرحمان سے زیادہ سخت ہیں، اور تیسرے طبقے میں یحییٰ بن معین اور احمد بن حنبل ہیں اور یحییٰ احمد سے زیادہ سخت ہیں، اور چوتھے طبقے میں ابو حاتم اور بخاری ہیں اور ابو حاتم بخاری سے زیادہ سخت ہیں۔ ختم شد‘‘
اول محمد بن کثیر العبدی، جن کی ثقاہت اور عدالت ابھی ثابت ہوچکی ہے۔ دوسرے سفیان ثوری، جن کے حق میں حافظ امام ابن الاثیر جزری نے ’’ جامع الأصول في أحادیث الرسول ‘‘ میں لکھا ہے:
’’ سفیان بن سعید بن مسروق الثوري الکوفي إمام المسلمین، وحجۃ اللہ علی خلقہ، جمع في زمنہ بین الفقہ والاجتھاد والحدیث والزھد والعبادۃ والورع والثقۃ ، وإلیہ المنتھی في علم الحدیث وغیرہ من العلوم، أجمع الناس علی دینہ وزھدہ وورعہ وثقتہ ، ولم یختلفوا في ذلک، وھو أحد الأئمۃ المجتھدین، وأحد أقطاب الإسلام و أرکان الدین ‘‘ انتھی ملخصاً ( جامع الأصول لابن الأثیر الجزري ۱۲ ؍۴۶۶)
’’ سفیان بن سعید بن مسروق ثوری کو فی امام المسلمین ہیں اور خلقِ خدا پر اللہ کی حجت ہیں۔ اپنے زمانے میں فقہ، حدیث، زہد، عبادت، ورع، ثقاہت کے جامع اور علم حدیث میں کامل تھے۔ ان کے دین، زُہد، ورع، ثقاہت وغیرہ پر لوگوں کا اجماع ہے، اس سلسلے میں کسی کا اختلاف نہیں۔ وہ ائمہ مجتہدین اور اسلام کے اقطاب میں سے ایک ہیں اور دین کے ارکان میں سے ہیں۔ ختم شد‘‘
اور کہا حافظ ابن حجر نے تقریب میں:
’’ سفیان بن سعید بن مسروق الثوري أبو عبداللہ الکوفي ، ثقۃ حافظ فقیہ عابد إمام حجۃ من رؤس الطبقۃ السابعۃ ، وکان ربما دلس‘‘ انتھی (تقریب التھذیب ، ص: ۲۴۴)
’’ سفیان بن سعید بن مسروق ثوری ابو عبداللہ کو فی ثقہ، حافظ، فقیہ، عابد، امام حجت۔ ساتویں طبقے کے بڑوں میں سے ہیں، کبھی کبھی تدلیس کرتے ہیں۔‘‘
اور کہا خلاصہ میں:
’’ سفیان بن سعید بن مسروق بن حبیب بن رافع الثوري أبو عبداللہ الکوفي، وعنہ الأعمش وابن عجلان من شیوخہ، وشعبۃ ومالک من أقرانہ، وابن المبارک ویحییٰ القطان وابن مھدي وخلق، قیل : روی عنہ عشرون ألفا۔ قال ابن المبارک: ما کتبت عن أفضل من سفیان، قال العجلي : کان لا یسمع شیئا إلا حفظہ ، قال الخطیب : کان الثوري إماما من أئمۃ المسلمین ، وعلما من أعلام الدین، مجمع علی إمامتہ مع الإتقان والضبط والحفظ المعرفۃ والزھد والورع‘‘ انتھی مختصرا ( الخلاصۃ للخزرجي ، ص: ۱۴۵)
’’ سفیان بن سعید بن مسروق بن حبیب بن رافع ثوری عبداللہ کوفی، ائمہ اعلام میں سے ایک ہیں۔ زیاد بن علاقہ و زید بن اسلم اور خلائق سے، اور ان سے اعمش اور ابن عجلان، جو ان کے شیوخ میں سے ہیں، اور شعبہ اور مالک، جو ان کے ساتھی ہیں اور ابن المبارک یحییٰ بن قطان، ابن مہدی اور خلق نے روایت کی ہے۔ کہا گیا ہے کہ ان سے بیس ہزار لوگوں نے روایت کی ہے۔ ابن المبارک نے کہا ہے کہ میں نے سفیان سے افضل کسی سے نہیں لکھا۔ امام عجلی نے کہا: وہ جو کچھ سنتے تھے، یاد کرلیتے تھے۔ خطیب نے کہا: ثوری مسلمانوں کے ائمہ میں سے ایک امام ہیں اور دین کے اعلام میں سے ایک علم، ان کی امامت، ضبط، حفظ، معرفت، زہد اور ورع پر اجماع ہے۔ ختم شد‘‘
تیسرے سلمہ بن کہیل، چوتھے حجر ابوالعنبس، پانچویں وائل بن حجر صحابی، اور ترجمہ ان تینوں کا بیان حدیث اول میں گزرا۔ اور ترمذی نے سفیان کی حدیث کو حسن کہا ہے۔ عبارت ان کی یہ ہے:
’’ قال أبو عیسیٰ : حدیث وائل بن حجر ، حدیث حسن‘‘ (سنن الترمذي ۲ ؍ ۲۷)
’’ ابو عیسیٰ نے کہا کہ وائل بن حجر کی حدیث حسن ہے۔‘‘
اور تصحیح کی حدیث سفیان کی امام بخاری اور ابو زرعہ نے۔ کہا ترمذی نے جامع میں:
’’ قال أبو عیسیٰ : سمعت محمدا یقول : حدیث سفیان أصح من حدیث شعبۃ، وسألت أبا زرعۃ عن ھذا الحدیث فقال : حدیث سفیان في ھذا أصح من حدیث شعبۃ ‘‘ انتھی ( سنن الترمذي ۲ ؍۷۲)
’’ ابو عیسیٰ نے کہا کہ میں نے محمد کو کہتے ہوئے سنا: سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور میں نے ابو زرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: سفیان کی حدیث اس سلسلے میں شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۔ ختم شد‘‘
اور علامہ امام ابن سید الناس نے بھی اس کی تصحیح کی ہے۔ جیسا کہ ہے نیل الاوطار میں:
’’ وقد رجحت روایۃ سفیان بمتابعۃ اثنین بخلاف شعبۃ فلذلک جزم النقاد بأن روایتہ أصح کما روي ذلک عن البخاري ، [وأبي زرعۃ] وقد حسن الحدیث الترمذي ۔ قال ابن سید الناس : ینبغي أن یکون صحیحا‘‘ انتھی ( نیل الأوطار ۲ ؍۲۴۷)
’’ شعبہ کی روایت کے برخلاف سفیان کی روایت زیادہ درست ہے، کیونکہ اس کی دو نے متابعت کی ہے، اسی لیے ائمہ نقد نے تصریح کی ہے کہ سفیان کی روایت ہی زیادہ صحیح ہے، جیسا کہ اس کی روایت بخاری اور ابو زرعہ کے واسطے سے کی گئی ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اور ابن سید الناس نے کہا ہے کہ چاہیے کہ وہ صحیح ہو۔ ختم شد‘‘
اور امام دارقطنی نے بھی حدیثِ سفیان کو صحیح کہا ہے اور بیان اس کا بجواب اعتراض حدیث پنجم آئے گا۔ اور حافظ ابن حجر نے ’’ تلخیص الحبیر‘‘ میں لکھا ہے:
’’ وفي روایۃ أبي داود : ورفع [بھا] صوتہ، وسندہ صحیح، صححہ الدارقطني ‘‘ انتھی (التلخیص الحبیر ۱ ؍۲۳۶)
’’ اور ابوداود کی روایت میں ہے: انھوں نے اس کے ساتھ آواز بلند کی۔ اس کی سند صحیح ہے، اس کو دارقطنی نے صحیح قرار دیا ہے۔ ختم شد‘‘
اور امام ابن القیم نے ’’ اعلام الموقعین‘‘ میں لکھا ہے:
’’ رواہ الترمذي وغیرہ، وإسنادہ صحیح‘ انتھی ( إعلام الموقعین ۲ ؍۳۹۶)
’’ اس کی روایت ترمذی وغیرہ نے کی ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔‘‘
اگر معترض تقلیداً لمحمد شاہ پنجابی یہ شبہ پیش کرے کہ سفیان ثوری مدلس ہیں، حدیث ان کی بغیر تصریح سماع مقبول نہ ہوگی تو جواب اس کا بچند وجوہ ہے:
اول یہ کہ عموماً یہ قول کہ عنعنہ مدلسین بلا تصریح سماع کے مقبول نہیں، غیر مسلم ہے۔
امام حافظ مبارک بن محمد بن محمد بن عبدالکریم الشہیر بابن الاثیر الجزری نے مقدمہ ’’جامع الأصول من أحادیث الرسول‘‘ میں تدلیس کی چھ قسمیں لکھی ہیں:
’’ النوع الرابع، وھو الثاني من المختلف فیہ : روایۃ المدلسین إذا لم یذکروا سماعھم في الروایۃ ، فیقولون : قال فلان، ممن ھو معاصرھم، رأوہ أو لم یروہ، ولا یکون لھم عنھم سماع ولا إجازۃ ولا طریق من طریق الروایۃ فیوھمون بقولھم : ’’ قال فلان ‘‘ أنھم قد سمعوا منہ ، أو أجازہ لھم أو غیر ذلک، فیکونون في قولھم : ’’قال فلان‘‘ صادقین، لأنھم یکونون قد سمعوہ من واحد أو أکثر منہ عنہ، وھذا یسمونہ بینھم تدلیسا لإیھام حصل فیہ، وقد جعلہ قوم صحیحا محتجا بہ ، منھم : أبو حنیفۃ ، وإبراھیم، وحماد بن أبي سلیمان، وأبو یوسف، ومحمد بن الحسن، ومن تابعھم من أئمۃ الکوفۃ، وجعلہ قوم غیر صحیح، ولا محتج بہ، منھم : الشافعي وابن المسیب، والزھري ، والأوزاعي وأحمد بن حنبل، ومن تابعھم من أئمۃ الحجاز وأھل الحدیث ، لا یعدونہ صحیحا ولا محتجابہ، وھو علی ستۃ أصناف‘‘ انتھی (جامع الأصول ۱ ؍۱۶۸)
’’ چوتھی قسم جو دوسری مختلف فیہ قسم ہے، مدلسین کی روایت جبکہ ان لوگوں نے اپنی سماعت کا ذکر روایت میں نہیں کیا ہے۔ وہ لوگ کہتے ہیں: فلاں نے کہا، ان سے جو ان کے معاصر ہیں۔ چاہے اس نے انھیں دیکھا یا نہ دیکھا ہو۔ نہ ان کے واسطے سے سماع ثابت ہو اور نہ اجازت اور نہ طریق روایت میں سے کوئی طریق۔ تو وہ لوگ ان کے اس قول سے واہمے میں پڑ جاتے ہیں کہ ان لوگوں نے اس سے سنایا اس نے ان لوگوں کو اجازت دی ہے۔ وہ لوگ اپنے قول : ’’ قال فلان‘‘ میں صادقین ہیں، کیونکہ ان لوگوں نے کسی ایک ہی سے سن رکھا ہوتا ہے یا اس کے واسطے سے ایک سے زیادہ سے۔ اس کو وہ لوگ تدلیس کا نام دیتے ہیں اس میں ابہام کے پائے جانے کی بنا پر۔ کچھ لوگوں نے اس کو صحیح اور قابل حجت قرار ہے۔ ان میں سے ابوحنیفہ، ابراہیم، حماد بن ابی سلیمان، ابو یوسف، محمد بن حسن اور کوفہ کے ائمہ متبعین ہیں، اور کچھ لوگوں نے اسے غیر صحیح اور ناقابل حجت مانا ہے، ان میں شافعی، اوزاعی، احمد بن حنبل اور حجاز کے ان ائمہ کے متبعین اور اہل حدیث، یہ لوگ اسے صحیح جانتے ہیں اور نہ قابل صحت، اور یہ چھے قسمیں ہیں۔ ختم شد‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ امام ہمام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ، اور صاحبین، اور ایک جماعت ائمہ کوفہ کے نزدیک عنعنہ مدلس کا مقبول ہے، تو اب معترض اس سے سرتابی نہیں کرسکتا ہے۔
دوم یہ کہ ائمہ محققین نے اس امر کو تسلیم کرلیا ہے کہ عنعنہ مدلس جو صحیحین میں واقع ہے، وہ حمل کیا جاوے گا اوپر ثبوت سماع کے، اگرچہ ہم کو اس کا علم نہ ہو۔
دیکھو! فرمایا حافظ امام ابو عمرو عثمان بن عبدالرحمن المعروف بابن الصلاح نے مقدمہ میں:
’’ إنہ محمول علی ثبوت السماع من جھۃ أخری، ولو لم نطلع علیہ تحسینا للظن لصاحب الصحیح ‘‘ انتھی مختصرا (فتح المغیث ۱ ؍۱۸۷)
’’ بے شک وہ سماع کے ثبوت پر محمول کیا جائے گا اس کی دوسری سند سے، خواہ ہم اس پر واقف نہ ہوں، حسن ظن کے طور پر صاحب صحیح سے۔‘‘
اور کہا امام محی الدین ابو زکریا نووی نے منہاج شرح مسلم بن الحجاج میں:
’’ واعلم أن ما في الصحیحین عن المدلس بعن ونحوھا فمحمول علی ثبوت السماع من جھۃ أخری ‘‘ انتھی( شرح صحیح مسلم للنووي ۱ ؍۳۳)
’’ جان لو کہ صحیحین میں مدلس کے واسطے سے ’’ عن‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ سے جو کچھ مروی ہے تو وہ دوسری سند کی وجہ سے ثبوتِ سماع پر محمول کیا جائے گا۔ ختم شد‘‘
اسی طور پر جب امیر المومنین فی الحدیث امام الجرح والتعدیل محمد بن اسماعیل البخاری اور ابو زرعہ و ترمذی و دارقطنی رضی اللہ عنہم نے حدیثِ سفیان کی تصحیح و تحسین کی تو یہ عنعنہ اب حمل کیا جائے گا اس بات پر کہ ان ائمہ نقادین کے نزدیک سماع ثابت ہوگیا ہے۔
سوم یہ کہ سفیان ثوری اس روایت میں سلمہ بن کہیل سے متفرد نہیں، بلکہ متابعت کی ہے ان کی علی بن صالح الہمدانی اور علاء بن صالح التیمی اوالاسدی الکوفی اور محمد بن سلمہ بن کہیل نے۔ روایت علی بن صالح کی بیان حدیث اول میں گزری اور روایت علاء بن صالح کی ترمذی میں ہے:
’’ ثنا أبوبکر محمد بن أبان نا عبداللہ بن نمیر عن العلاء بن صالح الأسدي عن سلمۃ بن کھیل نحو روایۃ سفیان‘‘ انتھی ( سنن الترمذي ۲ ؍۲۷)
’’ ہمیں بتایا ابوبکر محمد بن ابان نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں بتایا عبداللہ بن نمیر نے علاء بن صالح اسدی کے واسطے سے اور وہ سلمہ بن کہیل کے واسطے سے، سفیان کی روایت کی طرح ۔ ختم شد‘‘
اور دارقطنی نے سنن میں لکھا ہے:
’’ قال شعبۃ : ’’ وأخفی بھا صوتہ ‘‘ ، ویقال : إنہ وھم فیہ، لأن سفیان الثوري ومحمد بن سلمۃ بن کھیل وغیرھما روہ عن سلمۃ فقالوا: ’’ ورفع صوتہ بآمین‘‘، وھو الصواب‘‘ انتھی (سنن الدارقطني ۱ ؍۳۳۴)
’’ شعبہ نے کہا: ’’ اور انھوں نے (آمین کہتے ہوئے) اپنی آواز کو مخفی رکھا۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ اس میں انھیں وہم ہوا ہے، کیونکہ سفیان ثوری اور محمد بن سلمہ بن کہیل وغیرہ نے سلمہ کے واسطے سےر وایت کی ہے کہ آپﷺ نے آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کیا ہے، اور یہی درست ہے۔ ختم شد‘‘
اور کہا علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں:
’’ وقد رجحت روایۃ سفیان بمتابعۃ اثنین‘‘ انتھی ( نیل الأوطار ۲ ؍۲۴۷)
’’ سفیان کی روایت دو راویوں کی متابعت کے ساتھ راجح ہے۔ ختم شد‘‘
علاوہ اس کے شعبہ سے بھی حدیث جہر کی روایت کی گئی ہے۔
فرمایا حافظ جمال الدین زیلعی نے ’’ نصب الرایۃ في تخریج أحادیث الھدایۃ‘‘میں:
’’ أخرج البیھقي في سننہ عن أبي الولید الطیالسي ثنا شعبۃ عن سلمۃ ابن کھیل سمعت حجرا أبا عنبس یحدث عن وائل الحضرمي أنہ صلی خلف النبيﷺ فلما قال : ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾قال : آمین ، رافعا بھا صوتہ۔ قال : فھذہ الزیادۃ توافق روایۃ سفیان، وقال البیھقي في المعرفۃ: إسناد ھذہ الروایۃ صحیح ‘‘ انتھی ( نصب الرایۃ للزیلعي ۱ ؍۲۷۱)
’’ بیہقی نے اپنی سنن میں ابو الولید طیالسی کے واسطے سے تخریج کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے سلمہ بن کہیل کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے حجر ابو عنبس کو وائل حضرمی کے واسطے سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ انھوں نے نبیﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، پس جب آپﷺ نے ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾ کہا تو آمین بلند آواز سےکہا۔ انھوں نے کہا کہ یہ زیادتی سفیان کی روایت کی موافقت میں ہے اور بیہقی نے ’’ المعرفہ‘‘ میں کہا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ختم شد‘‘
پس جب اتنے لوگوں نے سفیان ثوری کی متابعت کی تو اب حدیث ان کی از روئے اسناد کے حسن لغیرہ سے تو کم نہ ہوگی۔
کہا حافظ ابن حجر نے ’’ شرح نخبۃ الفکر‘‘ میں:
’’ ومتی توبع السيء الحفظ بمعتبر کأن یکون فوقہ أو مثلہ، لا دونہ، وکذا المختلط الذي لا یتمیز، والمستور، والإسناد المرسل، وکذا المدلس، إذا لم یعرف المحذوف منہ،صار حدیثھم حسنا، لا لذاتہ، بل وصفہ بذلک باعتبار المجموع من المتابع والمتابع‘‘ انتھی (نزھۃ النظر في توضیح نخبۃ الفکر ، ص: ۱۳۰)
’’ جب سییٔ الحفظ کی متابعت کی جائے گی کسی معتبر کے ذریعے جو اس سے اوپر ہو یا اس کے مثل، لیکن اس سے کم تر نہ ہو، اور ایسا ہی مختلط کے بارے میں ہے جو تمیز نہیں کرسکتا، اور مستور کے بارے میں اور اسناد مرسل کے بارے میں ہے اور ایسا ہی مدلس کے بارے میں ہے جس میں محذوف کی معرفت حاصل نہ ہو تو ان کی حدیث حسن ہوگی۔ حسن لذاتہ نہیں بلکہ متابع اور متابَع میں سے مجموعی صفت کا اعتبار کرکے۔ ختم شد‘‘
اور ایسا ہی ہے شرح الفیہ عراقی اور مقدمہ شیخ عبدالحق دہلوی وغیرہ میں۔ ( فتح المغیث ۱ ؍۶۸، مقدمۃ في أصول الحدیث للدھلوي ، ص: ۸۸)
حاصل یہ کہ حدیث سفیان کی از روئے متن کے بہت صحیح ہے اور کسی متقدمین یا متاخرین کی جرح حدیثِ سفیان میں نظر سے نہیں گزری، بلکہ بڑے بڑے نقادین جو رکن علم حدیث کے ہیں، جیسے بخاری، و ابو زرعہ، و ترمذی، و دارقطنی وغیرہ ان کا اتفاق اس کی صحت پر ثابت ہوا اور امام ابن القیم ، وعلامہ ابن سید الناس، وحافظ ابن حجر، وقاضی شوکانی نے اس کی صحت کو تسلیم کیا۔
قولہ: حدیث چہارم نسائی:
’’ أخبرنا محمد بن عبداللہ بن الحکم عن شعیب، حدثنا اللیث، حدثنا خالد، عن أبي ھلال، عن نعیم، قال : صلیت وراء أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ فقرأ بسم اللہ الرحمن الرحیم، ثم قرأ بأم القرآن، حتی إذا بلغ : ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾قال : آمین، فقال الناس : آمین، ویقول کلما سجد : اللہ أکبر، وإذا قام من الجلوس في الاثنین قال : اللہ أکبر، ثم إذا سلم قال : والذي نفسي بیدہ إني لأشبھکم صلاۃ برسول اللہﷺ ‘‘ انتھی (سنن النسائي ، رقم الحدیث ۹۰۵)
’’ ہمیں بتایا محمد بن عبداللہ بن حکم نے شعیب کے واسطے سے، انھوں نے کہا کہ ہمیں بتایا لیث نے، ان کو خالد نے ابو ہلال کے واسطے سے، وہ نعیم کے واسطے سے کہ نعیم نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی۔ انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی، پھر ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ پڑھی، یہاں تک کہ جب وہ ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾پر پہنچے تو آمین کہا، تو لوگوں نے بھی آمین کہا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب بھی سجدہ کیا، اللہ اکبر کہا اور جب دوسرے قعدے سے کھڑے ہوئے تو اللہ اکبر کہا، پھر جب سلام پھیرا تو کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں تم لوگوں میں رسول اللہﷺ کی نماز سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں۔ ختم شد‘‘
’’روایت کیا نسائی نے قراءۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں، یہ باب جہر آمین میں نہیں ہے۔
اول: تو اس حدیث میں جہر و عدم جہر کا کچھ ذکر نہیں ہے، صرف ’’ قال آمین‘‘ ہے اور قول سے جہر ثابت نہیں ہوتا ہے، ورنہ ’’ قولوا التحیات‘‘ سے التحیات کو بھی پکار کر پڑھنا چاہیے۔
دوم: اس کے سلسلہ میں ابو ہلال ہے، جس کو تقریب وغیرہ میں ’’ لین الحدیث‘‘ لکھا ہے، یعنی ضعیف۔
سوم: اس حدیث میں جو بسم اللہ کا ذکر ہے، جس کو اتفاق کرکے بہت سے محدثین نے رد کیا ہے۔ حدیث صحیحین اس کے لیے شاہد عدل ہیں۔‘‘
أقول: نسائی جو اس حدیث کو باب قراءۃ بسم اللہ میں لائے تو کیا اب یہ مختص ہوگئی قراءۃ بسم اللہ میں؟ اور کسی مسئلہ کا حکم اس سے مستخرج نہیں ہوسکتا ہے؟ یہ ایک امر عجیب و غریب قابل مضحکہ کے ہے۔ اجی معترض صاحب! خواب غفلت سے بیدار ہوئیے! آنکھیں کھولیے! آپ کو ابھی تک اس کی بھی خبر نہیں کہ ایک ایک حدیث سے کتنے کتنے مسائل مستخرج ہوتے ہیں؟
اور یہ کہنا کہ اس میں جہر و عدم جہر کا ذکر نہیں، صرف ’’ قال آمین‘‘ ہے، اول دلیل ہے اوپر غباوت و سوء فہمی آپ کی، کیونکہ نعیم کہتا ہے کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، پس پڑھا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم، پھر پڑھا سورہ فاتحہ، یہاں تک کہ جب پہنچے ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾تک، کہا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آمین، پس کہا مقتدیوں نے آمین۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور مقتدیوں نے آمین کو بآواز بلند کہا، ورنہ نعیم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے آمین کو اور پھر مقتدیوں کے آمین کو کیونکر سنا؟ اگر یہ بات خیال شریف میں نہ آئے تو اپنی عقل و دانش پر روئیے!
اور نعیم مجمر سے ابو ہلال روایت نہیں کرتا ہے، بلکہ سعید بن ابی ہلال روایت کرتا ہے اور جو بعض نسخ نسائی میں ’’ ابو ہلال‘‘ لکھا ہے، وہ سہو کاتب ہے، مگر معترض ان تحقیقات سے بے بہرہ ہے۔
دیکھو! حافظ جمال الدین زیلعی نے ’’ نصب الرایۃ‘‘ میں لکھا ہے:
’’ رواہ النسائي في سننہ فقال : أخبرنا محمد بن عبداللہ بن الحکم، ثنا شعیب، ثنا اللیث بن سعد عن خالد بن یزید عن سعید بن أبي ھلال عن نعیم المجمر ‘‘ انتھی (نصب الرایۃ ۱ ؍۲۶۰)
’’ اس کی روایت نسائی نے اپنی سنن میں کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن عبداللہ بن حکم نے بتایا، ان کو شعیب نے، ان کو لیث بن سعد نے، خالد بن یزید کے واسطے سے، وہ سعید بن ابو ہلال کے واسطے سے اور وہ نعیم المجمر کے واسطے سے۔ ختم شد‘‘
اور سنن دارقطنی میں ہے:
’’ حدثنا أبوبکر النیسابوري ثنا محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم قال : حدثنا أبي وشعیب بن اللیث قالا أخبرنا اللیث بن سعد عن خالد بن یزید عن سعید بن أبي ھلال عن نعیم المجمر أنہ قال : صلیت وراء أبي ھریرۃ … أخر الحدیث‘‘ ( سنن الدارقطني ۱ ؍۳۰۵)
’’ انھوں نے کہا کہ ہمیں ابوبکر نیشاپوری نے بتایا، ان کو محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں میرے والد اور شعیب بن لیث نے بتایا۔ ان دونوں نے کہا کہ ہمیں لیث بن سعد نے خالد بن یزید کے واسطے سے، وہ سعید بن ابو ہلال کے واسطے سے اور وہ نعیم الجمر کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ کے پیچھے نماز پڑھی۔ آخر حدیث تک ذکر کیا۔‘‘
اور بعد روایت اس حدیث کے کہا:
’’ ھذا حدیث صحیح، ورواتہ کلھم ثقات‘‘
’’ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے تمام راوی معتبر ہیں۔‘‘
اور شرح معانی الآثار امام ابو جعفر طحاوی میں ہے:
’’ حدثنا صالح بن عبدالرحمن قال : ثنا سعید بن أبي مریم قال : أنا اللیث بن سعد قال : أخبرني خالد بن یزید عن سعید بن أبي ھلال عن نعیم بن المجمر قال : صلیت وراء أبي ھریرۃ … الحدیث‘‘ (شرح معاني الآثار ۱ ؍۱۹۹)
’’ ہمیں صالح بن عبدالرحمن نے بتایا، ان کو سعید بن ابو مریم نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں لیث بن سعد نے بتایا، انھوں نے کہا کہ مجھے خالد بن یزید نے، سعید بن ابو ہلال کے واسطے سے اور وہ نعیم بن المجمر کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی۔ الحدیث‘‘
اور ایک نسخہ صحیحہ عتیقہ سنن نسائی کا جو ہمارے الشیخ الاجل محددث الہند قدوۃ العارفین امام الہدی والیقین مولانا السید محمد نذیر حسین الدہلوی کے پاس ہے، اس کی طرف میں نے مراجعت کی، اس میں بھی یہی عبارت پائی۔ یعنی
’’ حدثنا خالد عن ابن أبي ھلال ‘‘
’’ یہ حدیث ہمیں خالد نے ابن ابی ہلال کے واسطے سے بیان کی ہے۔‘‘
پس معلوم ہوا کہ لفظ ’’ ابن‘‘ کا کاتب نسخہ مطبوعہ نسائی سے سہواً رہ گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اور یہ سعید بن ابی ہلال جو راوی نعیم مجمر سے ہے، اس کی محدثین نے توثیق کی ہے۔
فرمایا حافظ شمس الدین ذہبی نے میزان الاعتدال میں:
’’ سعید بن أبي ھلال : ثقۃ معروف ، [حدیثہ] في الکتب الستۃ ، یروي عن نافع و نعیم المجمر، وعنہ سعید المقبري أحد شیوخہ۔ قال ابن حزم و حدہ : لیس بالقوي‘‘ انتھی (میزان الاعتدال ۲ ؍۱۶۲)
’’ سعید بن ابو ہلال: معروف ثقہ، کتب ستہ میں ان کی حدیث ہے، نافع اور نعیم المجمر کے واسطے سے روایت کرتے ہیں اور ان کے واسطے سے سعید مقبری جو ان کے شیوخ میں سے ایک ہیں، روایت کرتے ہیں۔ صرف ابن حزم نے تنہا کہا ہے: وہ قوی نہیں ہیں۔ ختم شد‘‘
اور کہا علامہ صفی الدین نے خلاصہ میں:
’’ سعید بن أبي ھلال اللیثي مولا ھم أبو العلاء المصري، أحد المکثرین عن جابر مرسلا، وعن نافع، ونعیم المجمر، وزید بن أسلم، وعنہ سعید المصري ویحیيٰ بن أیوب واللیث، موثق‘‘ انتھی ( الخلاصۃ للخزرجي ، ص: ۱۴۳)
’’ سعید بن ابو ہلال لیثی ابو العلاء مصری ہیں، جابر کے واسطے سے مرسلاً زیادہ روایت کرنے والوں میں سے ایک ہیں، اور نافع اور نعیم المجمر اور زید بن اسلم سے، اور ان سے سعید مصری اور یحییٰ بن ایوب اور لیث روایت کرتے ہیں۔ ان کی توثیق کی گئی ہے۔ ختم شد‘‘
اور کہا حافظ امام ابن حجر نے ’’ ھدي الساري مقدمہ فتح الباري‘‘ میں:
’’ سعید بن أبي ھلال اللیثي أبو العلاء المصري، أصلہ من المدینۃ، ونشأ بھا، ثم سکن مصر، وثقہ ابن سعد والعجلي وأبو حاتم وابن خزیمۃ، والدارقطني وابن حبان وآخرون، وشذ الساجي فذکرہ في الضعفاء ، ونقل عن أحمد بن حنبل أنہ قال : ما أدري أي شيء حدیثہ؟ یخلط في الأحادیث، وتبع أبو محمد ابن حزم الساجي فضعف سعید بن أبي ھلال مطلقا، ولم یصب في ذلک ، واللہ أعلم، احتج بہ الجماعۃ ‘‘ انتھی ( ھدي الساري ، ص: ۴۰۶)
’’ سعید بن ابو ہلال لیثی ابو العلاء مصری ، ان کی اصل مدینے سے ہے، وہیں پرورش پائی۔ پھر مصر میں سکونت اختیار کی۔ ابن سعد، عجلی، ابو حاتم، ابن خزیمہ، دارقطنی، ابن حبان اور دوسروں نے ان کی توثیق کی ہے اور ساجی نے اکیلے ہی ان کو ضعفا میں ذکر کیا ہے۔ احمد بن حنبل سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ ان کی حدیث کیسی ہے؟ وہ احادیث میں گڑ بڑ کردیتے ہیں۔ ابو محمد ابن حزم نے ساجی کی متابعت کی ہے اور سعید بن ابوہلال کو مطلقاً ضعیف قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے درست نہیں کیا اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک جماعت نے ان سے حجت پکڑی ہے۔ ختم شد‘‘
پس ثابت ہوا کہ راوی نعیم سے سعید بن ابی ہلال ہے اور جمہور محدثین نے مثل ابن سعد وعجلی و ابو حاتم و ابن خزیمہ و دارقطنی و ابن حبان و بیہقی غیرہم نے اس کی توثیق کی ہے اور بڑی اول دلیل اس کی ثقاہت پر یہ ہے کہ بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب الوضوء میں روایت کیا ہے:
’’ حدثنا یحییٰ بن بکیر قال : ثنا اللیث عن خالد عن سعید بن أبي ھلال عن نعیم المجمر الحدیث‘‘ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۱۳۶)
’’ ہمیں یحییٰ بن بکیر نے بتایا انھوں نے کہا کہ ہمیں لیث نے خالد کے واسطے سے وہ سعید بن ابو ہلال کے واسطے سے اور وہ نعیم المجمر کے واسطے سے۔ الحدیث‘‘
اور زیلعی نے بعد نقل روایت نسائی کے لکھا ہے:
’’ ورواہ ابن خزیمۃ في صحیحہ، والحاکم في مستدرکہ، وقال : إنہ علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ، والدارقطني في سننہ، وقال : حدیث صحیح ورواتہ کلھم ثقات، والبیھقي في سننہ وقال : إسنادہ صحیح، ولہ شواھد ، وقال في الخلافیات: رواتہ کلھم ثقات مجمع علی عدالتھم، محتج بھم في الصحیح ‘‘ انتھی ( نصب الرایۃ للزیلعي ۱ ؍۲۶۰ )
’’ اس کی روایت ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں کی ہے اور حاکم نے اپنی مستدرک میں اور کہا ہے کہ وہ شیخین کی شرط پر ہے، شرط پر ہے، اگرچہ ان دونوں نے اس کی تخریج نہیں کی ہے، اور دارقطنی نے اپنی سنن میں کہا ہے کہ حدیث صحیح ہے اور اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں، اور بیہقی نے اپنی سنن میں کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہیں اور اس کے شواہد ہیں، اور ’’ الخلاقیات‘‘ میں کہا ہے کہ اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں، ان کی عدالت پر اجماع ہے، ان سب سے صحیح میں حجت پکڑی گئی ہے۔ ختم شد‘‘
اور ابو ہلال جس کے حق میں حافظ ابن حجر نے تقریب میں ’’ صدوق فیہ لین‘‘ کہا ہے، وہ محمد بن سلیم ابو ہلال الراسبی البصری ہے، وہ بھی متفق علی ضعفہ نہیں۔ ابوداود نے ثقہ کہا اور ابن معین وغیرہ نے صدوق کہا، جیسا کہ میزان میں مذکور ہے، اور حافظ نے بھی فقط لفظ ’’ لین الحدیث‘‘ جیسا کہ معترض نے نقل کیا ہے، نہیں لکھا ہے، بلکہ لفظ ’’ صدوق فیہ لین‘‘ لکھا ہے۔ (تقریب التہذیب ، ص: ۴۸۱) ، (میزان الاعتدال ۳ ؍۵۷۴)
اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے جہر سے مطلقاً انکار نہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ جہر بسم اللہ میں احادیث بہت وارد ہیں، اگرچہ اکثر ان میں ضعیف ہیں، مگر تین چار حدیثیں ان میں صحیح وقوی ہیں اور منجملہ ان کے ایک حدیث یہی ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ اکثر معمول رسول اللہﷺ کا یہی تھا کہ بسم اللہ کو سرّاً پڑھتے تھے، مگر بعض اوقات اس کے ساتھ جہر بھی کرتے تھے اور یہی مذہب ہے علمائے محققین کا۔
قولہ: ’’ حدیث پنجم دارقطنی: اس حدیث کی نسبت ہم بتصریح عنوان میں لکھ چکے ہیں، فانظر۔ اور یہ کہنا ’’ حسنہ الحاکم وصححہ ‘‘ کافی نہیں۔ حاکم کی تصحیح معلوم ہے۔‘‘
أقول: آپ نے عنوان میں یہ تحریر کیا ہے کہ کتاب دارقطنی باوجود تلاش کے اس شہر میں بہم نہ پہنچی، اگر مستدل صاحب کتاب دارقطنی دکھلا دیں گے یا حدیث کے راویوں کا نام بتا دیں گے تو ان کی بھی کیفیت حال سن کر اپنے دعویٰ سے باز آویں گے؟ واہ حضرت واہ! کیوں نہیں؟ شاباش! یوں ہی چاہیے۔ ابھی تک آپ کو سنن دارقطنی دیکھنے کی نوبت تو آئی نہیں اور آپ نے رجماً بالغیب، اس پر حکم ضعف کا بھی لگا دیا۔ خیر اگر آپ اس کے مطالعے سے محروم ہیں اور تحسین حاکم پر اکتفا نہیں کرتے ہیں تو میں پوری سند اس کی پیش کرتا ہوں اور اقوال علمائے ثقات صحت پر اس حدیث کی ہدیہ گزرانتا ہوں۔
دیکھئے! روایت کیا امام حافظ ابو الحسن علی بن عمر الدارقطنی نے سنن میں:
’’ ثنا محمد بن إسماعیل الفارسي ثنا یحییٰ بن عثمان بن صالح ثنا إسحاق بن إبراھیم حدثني عمرو بن الحارث حدثني عبداللہ بن سالم عن الزبیدي حدثني الزھري عن أبي سلمۃ وسعید عن أبی ھریرۃ قال : کان النبيﷺ إذا فرغ من قراءۃ أم القرآن رفع صوتہ، وقال : آمین۔ ھذا إسناد حسن ‘‘ انتھی (سنن الدارقطني ۱ ؍۳۳۵)
’’ محمد بن اسماعیل فارسی نے بتایا ان کو یحییٰ بن صالح نے، ان کو اسحاق بن ابراہیم نے، انھوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے، ان کو عبداللہ بن سالم نے زبیدی کے واسطے سے، انھوں نے کہا کہ مجھے زہری نے بتایا ابو سلمہ اور سعید کے واسطے سے، اور وہ ابوہریرہ کے واسطے سے کہ انھوں نے فرمایا کہ نبیﷺ جب سورۃ الفاتحہ کی قراءت سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔ اس کی سند حسن ہے۔ ختم شد‘‘
اور کہا حافظ ابن حجر نے ’’ درایۃ في تخریج أحادیث الھدایۃ‘‘ میں:
’’ وأخرجہ ابن حبان بلفظ : إذا فرغ من قراءۃ أم القرآن، رفع صوتہ، وقال : آمین، وصححہ الحاکم وحسنہ الدارقطني ۔‘‘ انتھی ( الدرایۃ لابن حجر ۱ ؍۱۳۹)
’’ اور اس کی تخریج ابن حبان نے اس لفظ سے کی ہے کہ جب آپﷺ اُم القرآن کی قراءت سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز کو بلند کرتے اور آمین کہتے۔ حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور دارقطنی نے اس کو حسن کہا ہے۔ ختم شد‘‘
اور بھی کہا حافظ نے ’’ تلخیص الحبیر في تخریج أحادیث رافعي الکبیر‘‘ میں:
’’ کأنہ یشیر إلی ما رواہ الدارقطني والحاکم من طریق الزبیدي عن الزھري عن سعید وأبي سلمۃ عن أبي ھریرۃ قال : کان رسول اللہﷺ إذا فرغ من قراءۃ أم القرآن رفع صوتہ وقال آمین، قال الدارقطني : إسنادہ حسن، وقال الحاکم: صحیح علی شرطھما، والبیھقي : حسن صحیح‘ انتھی ( التلخیص الحبیر ۱ ؍۲۳۶)
’’ گویا وہ اس حدیث کی جانب اشارہ کر رہے ہیں جس کی روایت دارقطنی اور حاکم نے زبیدی کے طریق سے کی ہے، وہ زہری کے واسطے سے اور وہ سعید اور ابو سلمہ کے واسطے سے اور وہ ابوہریرہ کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ جب ام القرآن کی قراءت سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند کرتے اور آمین کہتے۔ دارقطنی نے کہا کہ اس کی اسناد حسن ہے اور حاکم نے کہا کہ صحیح ہے ان دونوں کی شرطوں پر اور بیہقی نے حسن صحیح کہا ہے۔ ختم شد‘‘
دیکھو! تصحیح کی اس حدیث کی دارقطنی و بیہقی و حاکم سبھوں نے اور اقرار کیا اوپر صحت اس کی حافظ ابن حجر اور بھی علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں۔ ( نیل الأوطار ۲ ؍۲۴۶)
اور دوسری روایت دارقطنی کی یہ ہے:
’’ حدثنا عبداللہ بن أبي داود السجستاني حدثنا عبداللہ بن سعید الکندي ثنا وکیع المحاربي قالا ثنا سفیان عن سلمۃ بن کھیل عن حجر أبي العنبس، وھو ابن عنبس، عن وائل بن حجر قال : سمعت النبيﷺ إذا قال : ﴿ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین ﴾ قال : آمین، یمدبھا صوتہ۔ رواہ الدارقطني وقال : ھذا صحیح ‘‘ ( سنن الدارقطني ۱ ؍۳۳۳)
’’ ہمیں عبداللہ بن ابوداود سجستانی نے حدیث بیان کی، ان کو عبداللہ بن سعید کندی، ان کو وکیع اور محاربی نے، ان دونوں نے کہا کہ ہمیں سفیان نے سلمہ بن کہیل کے واسطے سے بیان کی اور وہ حجر ابو العنبس کے واسطے سے اور وہ ابن عنبس ہیں جو وائل بن حجر کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو سنا کہ جب آپﷺ نے ﴿ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾ کہا تو آمین کہا اور اپنی آواز کو کھینچا۔ اس کی روایت دارقطنی نے کی ہے اور کہا کہ یہ صحیح ہے۔‘‘
اور کہا حافظ ابن حجر نے تلخیص میں:
’’ وفي روایۃ أبي داود : ’’ رفع بھا صوتہ ‘‘ وسندہ صحیح، وصححہ الدارقنطي ‘‘ ( التلخیص الحبیر ۱ ؍۲۳۶)
’’ اور ابوداود کی روایت میں ہے کہ آپﷺ نے اپنی آواز کو بلند کیا۔ اس کی سند صحیح ہے اور دارقطنی نے اس کو صحیح کہا ہے۔‘‘
اور ایسا ہی ہے نیل الاوطار میں۔ ( نیل الأوطار ۲ ؍۲۴۶)
اور تیسری روایت یہ ہے:
’’ حدثني یحییٰ بن محمد بن صاعد حدثنا ابن زنجویہ حدثنا الفریابي ثنا سفیان عن سلمۃ بن کھیل عن حجر عن وائل بن حجر سمع النبيﷺ یرفع صوتہ بآمین إذا قال : ﴿ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین ﴾ ‘‘ (سنن الدارقطني ۱ ؍۳۳۴)
’’ مجھ سے یحییٰ بن محمد بن صاعد نے حدیث بیان کی، ان کو ابن زنجویہ نے، ان کو فریابی نے، ان کو سفیان نے سلمہ بن کہیل کے واسطے سے، وہ حجر بن وائل کے واسطے سے اور وہ ابن حجر کے واسطے سے کہ انھوں نے نبیﷺ کو بآواز بلند آمین کہتے ہوئے سنا، اس وقت جب کہ آپﷺ نے ﴿ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾کہا۔‘‘
اور اس حدیث کے بھی سب رواۃ ثقات ہیں۔ اور سوائے ان تین طرق کے اور چند طرق سے دارقطنی نے روایت کیا ہے، جس کو شوق ہو، اس کے مطالعہ سے مشرف ہو۔
قولہ: حدیث ششم ابن ماجہ:
’’ حدثنا عثمان بن أبي شیبۃ ثنا حمید بن عبدالرحمن ثنا ابن أبي لیلی عن سلمۃ بن کھیل عن حجیۃ بن عدي عن علي رضي اللہ عنہ قال : سمعت رسول اللہ ﷺ إذا قال : ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾قال : آمین‘‘ انتھی ( سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث، ۸۵۴)
’’ ہم سے عثمان بن ابوشیبہ نے حدیث بیان کی، ان کو حمید بن عبدالرحمان نے، ان کو ابن ابی لیلیٰ نے سلمۃ بن کہیل کے واسطے سے، وہ حجیہ بن عدی کے واسطے سے اور وہ علی رضی اللہ عنہ کے واسطے سے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو سنا کہ جب آپﷺ نے ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾کہا تو آمین کہا۔‘‘
’’ حمید بن عبدالرحمن کو میزان الاعتدال میں مجہول اور حجیۃ بن عدی کو بھی کتاب مذکور میں مجہول لکھا ہے۔ لہٰذا بوجہ مجروح ہونے راویان کے حدیث ضعیف ثابت ہوئی۔ ہرگز قابل استدلال نہیں ہے۔‘‘
أقول: حمید بن عبدالرحمن، جو شیخ ہے عثمان بن ابی شیبہ کا، وہ حمید بن عبدالرحمن بن حمید الرؤاسی الکوفی ہے اور وہ راوی ہے صحاح ستہ کا۔ اس کی ثقاہت میں کچھ شک نہیں۔
کہا خلاصہ میں:
’’ حمید بن عبدالرحمن بن حمید الرؤاسي ، بضم الراء وفتح الھمزۃ، أبو علي الکوفي ، عن الأعمش وھشام بن عروۃ وطائفۃ، وعنہ أحمد وقتیبۃ وأبوبکر وعثمان ابنا أبي شیبۃ، وثقہ ابن معین‘‘ انتھی (الخلاصۃ للخزرجي ، ص: ۹۴)
’’ حمید بن عبدالرحمان الرؤاسی ’’ ر‘‘ کے ضمے کے ساتھ اور ہمزہ کے فتحے کے ساتھ، ابو علی کوفی۔ اعمش، ہشام بن عروہ اور کچھ لوگوں کے واسطے سے روایت کرتے ہیں اور ان سے احمد، قتیبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، اور عثمان بن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں۔ ان کو ابن معین نے ثقہ کہا ہے۔‘‘
اور تقریب میں ہے:
’’ حمید بن عبدالرحمن بن حمید بن عبدالرحمن الرؤاسي الکوفي ثقۃ ‘‘ انتھی ( تقریب التھذیب ، ص: ۱۸۲)
’’ حمید بن عبدالرحمان بن حمید بن عبدالرحمان الرؤاسی کوفی ثقہ ہیں۔ ختم شد‘‘
اور وہ حمید جس کو معترض نے میزان الاعتدال سے نقل کیا ہے، وہ حمید دوسرا ہے کہ جس کو مجہول لکھا ہے۔ دیکھو! عبارت میزان الاعتدال کی یہ ہے:
’’ حمید بن عبدالرحمن عن أبیہ عن جدہ۔ قال أبوبکر الخطیب : مجھول‘‘ انتھی ( میزان الاعتدال ۱ ؍۶۱۳)
’’ حمید بن عبدالرحمن اپنے باپ کے واسطے سے اور وہ ان کے دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں۔ ابوبکر خطیب نے مجہول کہا ہے۔‘‘
معترض بالکل نا آشنا ہے علم حدیث سے۔ اس کو اتنی بھی تمیز نہ ہوئی کہ یہاں پر کون حمید بن عبدالرحمن ہے؟ اس نے اپنی نصرت کے لیے جس حمید کو ضعیف پایا اس کو راوی ابن ابی لیلی قرار دیا۔ نعوذ باللہ من ھذا الجھل!
باقی رہا ’’ حجیۃ بن علی ‘‘ وہ بھی ثقہ ہے۔ دیکھو! میزان الاعتدال کی پوری عبارت یہ ہے:
’’ حجیۃ بن عدي الکندي عن علي ۔ قال أبو حاتم : شبہ مجھول ، لا یحتج بہ، قلت : روی عنہ الحکم وسلمۃ بن کھیل وأبو إسحاق، وھو صدوق إن شاء اللہ تعالی ، قد قال فیہ العجلي : ثقۃ ‘‘ انتھی (میزان الاعتدال ۱ ؍۴۶۶)
’’ حجیہ بن عدی الکندی، علی کے واسطے سے روایت کرتے ہیں۔ ابو حاتم نے کہا کہ یہ مجہول کے مشابہ ہیں، وہ قابل حجت نہیں۔ میں نے کہا کہ ان کے واسطے سے حکم، سلمہ بن کہیل اور ابو اسحاق نے روایت کی ہے اور وہ ان شاء اللہ صدوق ہیں۔ ان کے بارے میں العجلی نے کہا ہے کہ وہ ثقہ ہیں۔ ختم شد‘‘
معترض کی چالاکی دیکھو کہ فقط لفظ مجہول کو اس نے نقل کردیا اور ذہبی نے جو اس کا جواب دیا ہے، اس سے بالکل سکوت کر گیا۔ پس ثابت ہوا کہ حجیہ بن عدی ثقہ ہے اور جہالت بھی اس کی مرتفع ہوگئی، کیونکہ تین شخصوں نے یعنی حکم اور سلمہ اور ابو اسحق نے اس سے روایت کیا ہے اور جس سے دو یا تین ثقہ روایت کریں، اس کی جہالت مرتفع ہو جاتی ہے۔
فرمایا امام حافظ ابو عمر ابن عبدالبر نے ’’ الاستذکار لمذاھب علماء الأمصار فیما تضمنہ الموطأ من معاني الرأي والآثار ‘‘ میں:
’’ فمن روی عنہ ثلاثۃ ، وقیل : اثنان، لیس بمجھول ‘‘ انتھی (الاستذکار ۱ ؍۱۸۰)
’’ جس سے تین شخص اور ایک قول کے مطابق دو شخص روایت کریں تو وہ مجہول نہیں ہے۔‘ ‘
اور فرمایا امام زیلعی نے ’’ نصب الرایۃ‘‘ کے ’’ باب الربا‘‘ میں:
’’ قال المنذري في مختصرہ : وقد حکي عن بعضھم أنہ قال : زید أبو عیاش مجھول، وکیف یکون مجھولا وقد روی عنہ اثنان ثقتان: عبد اللہ بن یزید مولی الأسود بن سفیان و عمران بن أبي أنس‘‘ انتھی ( نصب الرایۃ ، ۴ ؍۵۱)
’’ منذری نے اپنی مختصر میں کہا ہے: کسی کے واسطے سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ زید ابو عیاش مجہول ہیں۔ حالانکہ وہ کیسے مجہول ہوسکتے ہیں جبکہ ان سے دو ثقہ لوگوں نے روایت کی ہے جو عبداللہ بن یزید جو اسود بن سفیان کے مولیٰ ہیں اور عمران بن ابو انس ہیں۔ ختم شد‘‘
اور کہا حافظ ابن حجر نے ’’ ھدي الساري مقدمہ فتح الباري‘‘ میں:
’’ الحکم بن عبداللہ أبو النعمان البصري۔ قال ابن أبي حاتم عن أبیہ : مجھول ۔ قلت : لیس بمجھول من روی عنہ أربع ثقات، ووثقہ الذھلي ‘‘ انتھی ملخصا (ھدي الساري ، ص: ۳۹۸)
’’ حکم بن عبداللہ ابو نعمان بصری۔ ابن ابی حاتم نے اپنے والد کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ وہ مجہول ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ مجہول نہیں ہیں، کیونکہ ان سے چار ثقہ لوگوں نے روایت کیا ہے اور ذہلی نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ ختم شد‘‘
اور کہا علامہ شمس الدین سخاوی نے ’’ شرح الفیہ عراقی‘‘ میں:
’’ قال الدارقطني : من روی عنہ ثقتان فقد ارتفعت جھالتہ، وتثبت عدالتہ ‘‘ انتھی ( فتح المغیث ۱ ؍۳۲۲)
’’ دارقطنی نے کہا کہ جس سے دو ثقہ لوگوں نے روایت کیا ہو، اس کی جہالت مرتفع ہو جاتی ہے اور اس کی عدالت ثابت ہو جاتی ہے۔‘‘
باقی رہے اس میں تین راوی: اول عثمان بن محمد بن ابی شیبہ، دوم محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی، سوم سلمۃ بن کہیل۔ پس عثمان بن ابی شیبہ رجال سے بخاری و مسلم و ابوداود و نسائی وابن ماجہ کے ہیں اور اخراج شیخین کا اس کی ثقاہت کے لیے کافی ہے۔ اور کہا ابن معین نے ’’ ثقۃ أمین ‘‘ اور کہا ابو حاتم نے ’’ صدوق‘‘ کہا خلاصہ میں:
’’ عثمان بن محمد بن أبي شیبۃ إبراھیم بن عثمان العبسي أبو الحسن الکوفي الحافظ ، عن شریک وابن المبارک وابن عیینۃ، وعنہ خ م د س ق و أبو زرعۃ و زکریا بن یحیيٰ وخلق، قال ابن معین: ثقۃ أمین، وقال أبو حاتم : صدوق، وأنکر علیہ أحمد أحادیث‘‘ انتھی مختصراً ( الخلاصۃ للخزرجي ، ص: ۲۶۲)
اور کہا تقریب میں:
’’ عثمان بن محمد أبو الحسن بن أبي شیبۃ ثقۃ حافظ شھیر، ولہ أوھام ، وقیل : کان لا یحفظ القرآن ‘‘ انتھی ، مختصرا ( تقریب التھذیب ، ص: ۳۸۶)
’’ عثمان بن محمد ابو الحسن بن ابی شیبہ ثقہ اور مشہور حافظ ہیں اور ان کے لیے کچھ اوہام ہیں، اور کہا گیا ہے کہ ان کو قرآن حفظ نہیں تھا۔ ختم شد‘‘
اور محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی بھی صدوق ہے، اگرچہ ضعف اس میں من قبل حفظ ہے۔
کہا امام ابو عیسی ترمذی نے آخر سنن میں:
’’ ھکذا من تکلم في ابن أبي لیلی إنما تکلم فیہ من قبل حفظہ۔ قال علي : قال یحییٰ بن سعید : روی شعبۃ عن ابن أبی لیلی عن أخیہ عیسی عن عبدالرحمن ابن أبي لیلی عن أبي أیوب عن النبيﷺ قال یحییٰ : ثم لقیت ابن أبي لیلی فحدثنا عن أخیہ عیسیٰ عن عبدالرحمن بن أبي لیلی عن علي عن النبيﷺ : قال أبو عیسیٰ : ویروی عن ابن أبي لیلی نحو ھذا غیر شيء ، کان روی الشيء مرۃ ھکذا ومرۃ بکذا یغیر الإسناد ، وإنما جاء ھذا من قبل حفظہ لأن أکثر من مضی من أھل العلم کانوا [لا] یکتبون، ومن کتب منھم إنما کان یکتب لھم بعد السماع، وسمعت أحمد بن الحسن یقول : سمعت أحمد بن حنبل یقول : ابن أبي لیلی لا یحتج بہ، وکذلک من تکلم من أھل العلم في جالد ابن سعید وعبداللہ بن لھیعۃ وغیرھما إنما تکلموا فیھم من قبل حفظھم وکثرۃ خطئھم ، وقد روی عنھم غیر واحد من الأئمۃ ، فإذا تفرد أحد من ھؤلاء بحدیث ولم یتابع علیہ لم یحتج بہ، کما قال أحمد بن حنبل : ابن أبي لیلی لا یحتج بہ۔ إنما عنی إذا تفرد بالشئ ‘‘ انتھی ( العلل الصغیر مع سنن الترمذي ۵ ؍۷۴۴)
’’ ابن ابی لیلی کے بارے میں جس نے کلام کیا ہے، وہ ان کے حافظے کی بنا پر کیا ہے۔ علی نے کہا کہ یحییٰ بن سعید نے کہا ہے: شعبہ نے ابن ابی لیلیٰ کے واسطے سے روایت کیا، انھوں نے اپنے بھائی عیسیٰ سے، وہ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے واسطے سے۔ وہ ابو ایوب کے واسطے سے اور وہ نبیﷺ کے واسطے سے۔ یحییٰ نے کہا کہ پھر میں ابن الی لیلیٰ سے ملا تو انھوں نے ہمیں حدیث بیان کی اپنے بھائی عیسیٰ کے واسطے سے، وہ عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ کے واسطے سے کہ علی رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن ابی لیلیٰ سے اس طرح کی کئی غلطیاں مروی ہیں، کبھی وہ ایک حدیث کو کسی طرح بیان کرتے اور کبھی دوسرے طریقے سے، ایسا صرف ان کے حافظ کی بنا پر تھا، کیونکہ ماضی کے اکثر اہل علم نہیں لکھتے تھے اور جن لوگوں نے لکھا تو سماع کے بعد ہی لکھا۔ میں نے احمد بن حسن کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن حنبل کو کہتے ہوئے سنا کہ ابن ابی لیلیٰ سے حجت نہیں قائم کی جائے گی۔ اسی طرح جن لوگوں نے مجالد بن سعید اور عبداللہ بن لہیعہ وغیرہ کے بارے میں کلام کیا ہے، انھوں نے ان کے حافظے کی بنا پر اور کثرتِ خطا کی بنا پر کلام کیا ہے۔ ایسے اشخاص کے واسطے سے ایک سے زائد ائمہ نے روایت کیا ہے۔ پس جب ان میں سے کوئی ایک کسی ایک حدیث کی روایت میں اکیلا پڑ جائے اور اس پر متابعت نہ کی گئی ہو تو وہ قابل حجت نہیں، جیسا کہ احمد بن حنبل نے ابن ابی لیلیٰ کے بارے میں کہا کہ وہ قابل حجت نہیں۔ ان کی مراد یہ ہے کہ جب وہ کسی روایت میں منفرد ہوں۔ ختم شد‘‘
اور کہا تقریب میں:
’’ محمد بن عبدالرحمن بن أبي لیلی الأنصاري الکوفي القاضي أبو عبدالرحمن صدوق سيء الحفظ جدا‘‘ انتھی (تقریب التھذیب، ص: ۴۹۳)
’’ محمد بن عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ انصاری کوفی قاضی ابو عبدالرحمان۔ صدوق ہیں، البتہ حافظے کے انتہائی برے ہیں۔ ختم شد‘‘
اور خلاصہ میں:
’’ محمد بن عبدالرحمن بن أبي لیلی الأنصاري ، قاضي الکوفۃ وأحد الأعلام، عن أخیہ عیسی والشعبي وعطاء و نافع، وعنہ شعبۃ وسفیانان و وکیع وأبو نعیم، قال أبو حاتم: محلہ صدق، شغل بالقضاء فساء حفظہ، وقال النسائي : لیس بالقوي ، وقال العجلي : کان فقیھا صاحب سنۃ جائز الحدیث‘‘ انتھی (الخلاصۃ للخزرجي، ص:۳۴۸)
’’ محمد بن عبدالرحمان بن ابی لیلی انصاری، کوفہ کے قاضی، یگانہ روزگار عالم، اپنے بھائی عیسیٰ، شعبی، عطا اور نافع سے روایت کرتے ہیں اور ان کے واسطے سے شعبہ، سفیانان، وکیع اور ابو نعیم روایت کرتے ہیں۔ ابو حاتم نے کہا کہ وہ سچے ہیں اور قضا میں مشغول ہوئے تو ان کا حافظہ برا ہوگیا۔ نسائی نے کہا وہ قوی نہیں ہے اور عجلی نے کہا: وہ فقیہ تھے، صاحب سنت اور ان کی حدیث صحیح ہے۔ ختم شد‘‘
پس معلوم ہوا کہ ضعف ابن ابی لیلیٰ کا من قبل حفظ ہے اور ظاہر ہے کہ ابن ابی لیلیٰ سلمہ بن کہیل سے روایت کرنے میں متفرد نہیں ہے، بلکہ علاء بن صالح اسدی وعلی بن صالح الہمدانی و محمد بن سلمہ بن کہیل وسفیان ثوری نے وشعبہ نے مطابق روایت سنن بیہقی کے اس کی متابعت کی ہے۔ اب یہ حدیث حسن لغیرہ ہوگئی اور قابل حجت کے ٹھہری اور بیان اس کا اتم بجواب اعتراض حدیث دوسری کے ہوچکا ہے۔ ( سنن البیھقي ۲ ؍۵۷)
اور دیکھو ! کہا امام نووی نے شرح مسلم میں:
’’ فصل في معرفۃ الاعتبار و المتابعۃ والشاھد والأفراد ، فإذا روی حماد مثلاً حدثنا عن أیوب عن ابن سیرین عن أبي ھریرۃ رضي اللہ تعالیٰ عنہ عن النبيﷺ ۔ ینظر ھل رواہ ثقہ غیر حماد عن أیوب، أو عن ابن سیرین غیر أیوب أو عن أبي ھریرۃ غیر ابن سیرین، أو عن النبيﷺ غیر أبي ھریرۃ ، فأي ذلک وجد علم أن لہ أصلا یرجع إلیہ، فھذا النظر والتفتیش یسمی اعتباراً ، وأما المتابعۃ فأن یرویہ عن أیوب غیر حماد، أو عن ابن سیرین غیر أیوب، أو عن أبي ھریرۃ غیر ابن سیرین، أو عن النبيﷺ غیر أبي ھریرۃ ، فکل واحد من ھذہ الأقسام یسمی متابعۃ، وأعلاھا الأولی ، وھي متابعۃ حماد في الروایۃ عن أیوب، ثم ما بعدھا علی الترتیب، وأما الشاھد فأن یروی حدیث آخر بمعناہ، وتسمی المتابعۃ شاھدا، ولا یسمی الشاھد متابعۃ، فإذا قالوا في نحو ھذا : تفرد بہ أبو ھریرۃ، أو ابن سیرین، أو أیوب أو حماد، کان مشعرا بانتفاء وجود المتابعات کلھا‘‘ انتھی (شرح صحیح مسلم للنووي ، ۱ ؍۳۴)
’’ اعتبار، متابعت، شاہد اور افراد کی معرفت کے بارے میں ایک فصل۔ پس جب حماد روایت کرے، مثلاً وہ کہیں: ہمیں بتایا ایوب کے واسطے سے، وہ ابن سیرین کے واسطے سے اور وہ ابوہریرہ کے واسطے سے اور وہ نبیﷺ کے واسطے ہے۔ تو دیکھا جائے گا کہ کیا اس کی روایت کسی اور ثقہ نے حماد کے علاوہ ایوب کے واسطے سے کی ہے یا ابن سیرین کے واسطے سے کی ہے ایوب کے علاوہ کسی اور نے، یا ابوہریرہ کے واسطے سے ابن سیرین کے علاوہ کسی اور نے کی ہے، یا نبی ﷺ سے کی ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور نے، تو اگر کوئی چیز پائی گئی تو اس سے معلوم ہوگا کہ اس کی اصل ہے جس کی طرف یہ لوٹتی ہے۔ اس بحث و تفتیش کا نام اعتبار ہے۔ متابعت یہ ہے کہ ایوب سے حماد کے علاوہ یا ابن سیرین کے واسطے سے ایوب کے علاوہ یا ابوہریرہ کے واسطے سے ابن سیرین کے علاوہ یا نبی ﷺ کے واسطے سے ابوہریرہ کے علاوہ حدیث مروی ہو تو ان اقسام میں سے ہر ایک کو متابعت کا نام دیا جائے گا۔ اس کی اعلیٰ قسم پہلی ہے اور وہ ہے حماد کی متابعت روایت میں ایوب کے واسطے سے، پھر اس کے بعد اسی ترتیب کے ساتھ۔ رہا شاہد تو اگر روایت کی جاتی ہے کوئی دوسری حدیث اسی معنی کی تو اس کو شاہد کہتے ہیں۔ متابعت کو بھی شاہد کا نام دیا جاتا ہے اور شاہد کو متابعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ پس جب اس طرح کی روایت میں یہ کہا جائے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ متفرد ہوگئے یا ابن سیرین یا ایوب یا حماد تو یہ تمام متابعات کے وجود کے انتفا کی دلیل ہوگا۔‘‘
قولہ: حدیث ہفتم ترمذی و ابوداود:
’’ حدثنا بندار نا یحییٰ بن سعید وعبدالرحمن بن مھدي قال نا سفیان عن سلمۃ بن کھیل عن حجر بن العنبس عن وائل بن حجر قال : سمعت النبيﷺ قرأ ﴿ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾ قال : آمین، ومدبھا صوتہ ‘‘ انتھی (سنن الترمذي ، رقم الحدیث، ۲۴۸)
’’ ہم سے بیان کیا بندار نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے بیان کیا یحییٰ بن سعید اور عبدالرحمن بن مہدی نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں سفیان نے سلمہ بن کہیل کے واسطے سے وہ حجر بن عنبس کے واسطے سے اور وہ وائل بن حجر کے واسطے سے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو سنا کہ انھوں نے ﴿ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾ کی قراءت کی اور آمین کہا اور اپنی آواز کو کھینچا۔ ختم شد‘‘
’’ صفحہ (۱۴۲) میزان الاعتدال میں بندار کو کذاب لکھا ہے۔ یہ حدیث غلط و ضعیف ثابت ہوئی۔‘‘
أقول: سچ ہے:
تا مرد سخن نگفتہ باشد عیب و ہنرش نہفتہ باشد
( جب تک آدمی بات نہ کرے، اس کے عیب اور خوبیاں مخفی رہتی ہیں)
سبحان اللہ ! آپ کی قابلیت ظاہر ہوئی اور مبلغ علم معلوم ہوا۔ آپ کو یہ بھی اب تک خبر نہیں کہ بندار کس کا لقب ہے اور اس کا اصل نام کیا ہے؟ دیکھئے! وہ بندار جس کو آپ نے میزان سے نقل کیا ہے، وہ بندار بن عمرو الرویانی شیخ الفقیہ المقدسی ہے، جس کے حق میں ذہبی نے کہا ہے: ’’ قال النجشي : کذاب‘‘ اور یہ بندار بن عمرو الرویانی راوی صحاح ستہ کا نہیں ہے۔ صحاح ستہ میں کہیں اس سے روایت نہیں۔ بلکہ وہ بندار جو راوی صحاح ستہ کا ہے، وہ محمد بن بشار بندار ہے۔ ائمہ ستہ نے اس سے روایت کیا ہے، اس کی ثقاہت و عدالت مجمع علیہا ہے اور بعض محدثین نے جو اس پر بلا سبب جرح کیا ہے، اس کو نقادین نے تسلیم نہیں کیا۔
دیکھو! کہا حافظ شمس الدین ذہبی نے میزان میں:
’’ محمد بن بشار البصري الحافظ بندار ثقۃ صدوق، کذبہ الفلاس، فما أصغی أحد إلی تکذیبہ لتیقنھم أن بندارا صادق أمین، وقال عبداللہ ابن الدورقي : کنا عند یحییٰ بن معین فجری ذکر بندار فرأیت یحییٰ لا یعبأ بہ ویستضعفہ ، وقال ابن سیار: وھو ثقۃ ، وقال أبوداود : وکتبت عن بندار نحواً من خمسین ألف حدیث، ولولا سلامۃ فیہ لترکت حدیثہ، وقال أبو حاتم وغیرہ : صدوق، قلت: کان من أوعیۃ العلم، روی عنہ الأئمۃ الستۃ وابن خزیمۃ وابن ساعد والناس ، قال العجلي : کثیر الحدیث، وقال ابن خزیمۃ في کتاب التوحید : حدثنا إمام أھل زمانہ في العلم والأخبار : محمد بن بشار بندار ‘‘ انتھی مختصرا ( میزان الاعتدال ۳ ؍۴۹۰)
’’ محمد بن بشار بصری حافظ بندار ثقہ اور صدوق ہیں، فلاس نے ان کی تکذیب کی ہے لیکن کوئی ان کی تکذیب کی طرف مائل نہیں ہوا ہے کیونکہ ان کو یقین ہے کہ بندار صادق امین ہیں۔ عبداللہ بن دورقی نے کہا ہے کہ ہم یحییٰ بن معین کے پاس تھے تو وہاں بندار کا ذکر آیا تو میں نے دیکھا کہ یحییٰ ان پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں اور ان کو ضعیف کہہ رہے ہیں۔ ابن سیار نے کہا: وہ ثقہ ہیں۔ ابوداود نے کہا ہے کہ میں نے بندار کے واسطے سے تقریباً پچاس ہزار حدیث لکھی ہے۔ اگر ان میں سلامتی نہ ہوتی تو میں ان کی حدیث چھوڑ دیتا۔ ابو حاتم وغیرہ نے کہا کہ وہ صدوق ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ علم کے حفاظ میں سے تھے۔ ان کے واسطے سے ائمہ ستہ، ابن خزیمہ اور دیگر لوگوں نے بھی نے روایت کی ہے۔ عجلی نے کہا کہ وہ کثیر الحدیث ہیں۔ ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں کہا ہے کہ ہم سے علم اور اخبار میں اپنے زمانے کے امام محمد بن بشار بندار نے بیان کیا۔ ختم شد‘‘
اور کہا حافظ ابن حجر نے ’’ مقدمہ فتح الباری‘‘ میں:
’’ محمد بن بشار البصري المعروف ببندار، أحد الثقات المشھورین، روی عنہ الأئمۃ الستۃ ، وثقہ العجلي والنسائي وابن خزیمۃ ، وسماہ إمام أھل زمانہ ، والفرھیاني والذھلي ومسلمۃ وأبو حاتم الرازي وآخرون، وضعفہ عمرو بن علي الفلاس، ولم یذکر سبب ذلک فما عرجوا علی تجریحہ، وقال القواریري : کان یحییٰ بن معین یستضعفہ ‘‘ انتھی (ھدي الساري ، ص: ۴۳۷)
’’ محمد بن بشار بصری، جو بندار کے نام سے معروف ہیں، مشہور ثقات میں سے ایک ہیں، ائمہ ستہ نے ان سے روایت کیا ہے، عجلی نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ نسائی اور ابن خزیمہ نے ان کو ثقہ کہا ہے اور ابن خزیمہ نے ان کو اپنے زمانے کے امام کے نام سے موسوم کیا ہے۔ فرہیانی ، ذہلی، مسلمہ، ابو حاتم رازی اور دوسروں نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ عمرو بن علی فلاس نے ان کو ضعیف کہا ہے اور اس کے سبب کا ذکر نہیں کیا ہے، جس کی بنا پر محدثین نے ان کی جرح قبول نہیں کی ہے، قواریری نے کہا ہے کہ یحییٰ بن معین ان کے ضعف کے قائل تھے۔ ختم شد‘‘
اور کہا حافظ نے تقریب میں:
’’ محمد بن بشار بن عثمان العبدي البصري أبوبکر بندارثقۃ‘‘ انتھی ( تقریب التھذیب ، ص: ۴۶۹)
’’ محمد بن بشار بن عثمان عبدی بصری ابوبکر بندار ثقہ ہیں۔ ختم شد‘‘
اور کہا علامہ صفی الدین نے خلاصہ میں:
’’ محمد بن بشار بن عثمان العبدي أبوبکر البصري الحافظ بندار، أحد أوعیۃ السنۃ، قال الخطیب : کان یحفظ حدیثہ ، وقال ابن خزیمۃ: حدثنا الإمام محمد بن بشار، وقال العجلي : بندار ثقۃ کثیر الحدیث، وقال أبو حاتم : صدوق ، وقال النسائي : لا بأس بہ ، قال الذھبي : انعقد الإجماع بعد علی الاحتجاج ببندار‘‘ انتھی (الخلاصۃ للخزرجي ، ص: ۳۲۸)
’’ محمد بن بشار بن عثمان عبدی ابوبکر بصری حافظ بندار سنت کے حفاظ میں سےا یک تھے۔ خطیب نے کہا کہ انھیں اپنی حدیث حفظ تھی۔ ابن خزیمہ نے کہا کہ ہم سے امام محمد بن بشار نے حدیث بیان کی اور عجلی نے کہا: بندار ثقہ اور کثیر الحدیث ہیں۔ ابو حاتم نے کہا: صدوق ہیں۔ نسائی نے کہا: کوئی حرج نہیں اور ذہبی نے کہا کہ اس بات پر اجماع ہے کہ بندار حجت ہیں۔ ختم شد‘‘
اور امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے:
’’ قال أبو عیسی : حدیث وائل بن حجر حدیث حسن‘‘ انتھی (سنن الترمذي ، رقم الحدیث ، ۲۴۸)
’’ ابو عیسیٰ نے کہا کہ وائل بن حجر کی حدیث حسن ہے۔ ختم شد‘‘
اور بھی ترمذی نے بہت جگہوں میں اس کی حدیث کو صحیح و حسن کہا ہے۔ چنانچہ کہا:
’’ باب ماجاء في کراھیۃ أن یبادر الإمام في الرکوع والسجود۔ حدثنا محمد بن بشار ثنا عبدالرحمن بن مھدي نا سفیان عن أبي إسحاق عن عبداللہ بن یزید قال : ثنا البراء … إلی آخر الحدیث‘‘ ( سنن الترمذي ، رقم الحدیث ، ۲۸۱)
اور پھر کہا:
’’ وقال أبو عیسی : حدیث البراء حسن صحیح ‘‘ انتھی
’’ ابو عیسیٰ نے البراء کی حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔ ختم شد‘‘
پس ثابت ہوا کہ محمد بن بشار بندار ثقہ و صدوق بلاشک و شبہ ہے۔ ابن خزیمہ و ابن سیار فرہیانی و ترمذی و ابوداود وابو حاتم و نسائی و عجلی و ذہلی و مسلمہ و خطیب اور ایک جماعت محدثین نے اس کی توثیق کی ہے اور شیخین نے اپنی صحیحین میں اس سے روایت کی ہے، یہاں تک کہ کہا ذہبی نے کہ اجماع منعقد ہوگیا ہے اوپر احتجاج حدیث محمد بن بشار کے۔ اور یہی حق صریح ہے۔ فماذا بعد الحق إلا الضلال! اگر مطلق جرح معتبر ہو اور جارح اس کا کیسا ہی ہو تو اس صورت میں سب راوی مجروح ہو جاویں گے، کوئی جرح سے خالی نہیں رہے گا اور بھلا کوئی ذی عقل و شعور اس کو پسند کرے گا؟!
فرمایا علامہ زیلعی نے ’’ نصب الرایہ‘‘ میں بیچ بیان جہر بہ بسم اللہ کے:
’’مجرد الکلام في الرجل لا یسقط حدیثہ، ولو اعتبرنا ذلک لذھب معظم السنۃ إذ لم یسلم من کلام الناس إلا من عصمہ اللہ‘‘ انتھی ( نصب الرایۃ ۱ ؍۱۱)
’’ کسی آدمی کے بارے میں مجرد کلام اس کی حدیث کو ساقط نہیں کرتا ہے۔ اگر ہم اس کا اعتبار کرلیں تو سنت کا بیشتر حصہ ختم ہو جائے گا، کیونکہ لوگوں کے کلام سے صرف وہی محفوظ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا ہے۔‘‘
اب باقی رہ گئے اس حدیث میں چھ راوی:
اول: یحییٰ بن سعید۔ پس سنو کہ کہا حافظ ابن حجر نے تقریب میں:
’’ یحییٰ بن سعید بن فروخ التمیمي أبو سعید القطان البصري، ثقۃ متقن حافظ إمام قدوۃ من کبار التاسعۃ ‘‘ انتھی مختصرا (تقریب التھذیب ، ص: ۵۹۱)
’’ یحییٰ بن سعید بن فروخ تمیمی ابو سعید قطان مصری، ثقہ ہیں، متقن ہیں، حافظ ہیں، امام ہیں اور قدوہ ہیں، نویں درجے کے سرتاج ہیں۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا خلاصہ میں:
’’ یحییٰ بن سعید بن فروخ التمیمي أبو سعید الأحول القطان البصري الحافظ الحجۃ، أحد أئمۃ الجرح والتعدیل، عن إسماعیل بن أبي خالد وھشام بن عروۃ وبھز بن حکیم و خلق، وعنہ شعبۃ وابن مھدي وأحمد وإسحاق وابن المدیني وابن بشار وخلق، قال أحمد : ما رأت عیناي مثلہ، وقال ابن معین : یحییٰ أثبت من ابن مھدي، وقال محمد ابن بشار : حدثنا یحیيٰ بن سعید إمام أھل زمانہ ‘‘ انتھی ( الخلاصۃ للخزرجي ، ص: ۴۲۳)
’’ یحییٰ بن سعید بن فروخ تمیمی ابو سعید الاحول قطان بصری حافظ حجت، ائمہ جرح و تعدیل میں سے ایک ہیں۔ اسماعیل بن ابی خالد، ہشام بن عروہ، بہز بن حکیم اور دیگر لوگوں کے واسطے سے روایت کرتے ہیں اور ان کے واسطے سے شعبہ، ابن مہدی، احمد، اسحاق، ابن المدینی، ابن بشار اور خلق نے روایت کی ہے۔ احمد نے کہا کہ میری دونوں آنکھوں نے ان کے مثل آدمی نہیں دیکھا اور ابن معین نے کہا کہ یحییٰ زیادہ ثبت ہیں ابن مہدی سے، اور محمد بن بشار نے کہا کہ ہمیں اپنے زمانے کے امام یحییٰ بن سعید نے حدیث بیان کی۔‘‘
دوم : عبدالرحمن بن مہدی۔ پس کہا حافظ نے تقریب میں:
’’ عبدالرحمن بن مھدي بن حسان العنبري مولاھم أبو سعید البصري ، ثقۃ ثبت حافظ عارف بالرجال والحدیث، قال ابن المدیني : ما رأیت أعلم منہ ‘‘ (تقریب التھذیب ، ص: ۳۵۱)
’’ عبدالرحمن بن مہدی بن حسان عنبری ان کے مولیٰ ابو سعید بصری ثقہ ہیں، حافظ ہیں، علم رجال وحدیث کے جاننے والے ہیں۔ ابن المدینی نے کہا کہ میں ان سے بڑا عالم نہیں جانتا۔‘‘
اور کہا خلاصہ میں:
’’ عبدالرحمن بن مھدي بن حسان العنبري مولاھم أبو سعید البصري اللؤلؤي الحافظ الإمام العلم، عن عمر بن ذر و عکرمۃ بن عمار وشعبۃ والثوري و مالک و خلق، وعنہ ابن المبارک وابن وھب وأحمد وابن معین و عمر بن علي، قال ابن المدیني : أعلم الناس بالحدیث ابن مھدي ، وقال أبو حاتم : إمام ثقۃ أثبت من القطان وأتقن من وکیع، وقال أحمد : إذا حدث ابن مھدي عن رجل فھو حجۃ، وقال القواریري : أملیٰ علینا ابن مھدي عسرین ألفا من حفظہ‘‘ انتھی مختصرا ( الخلاصۃ للخزرجي ، ص : ۲۳۵)
’’ عبدالرحمان بن مہدی بن حسان عنبری ابو سعید بصری اللولوی، حافظ امام۔ عمر بن ذر، عکرمہ بن عمار، شعبہ، ثوری، مالک اور خلق کے واسطے سے روایت کرتے ہیں اور ان کے واسطے سے ابن المبارک، ابن وہب، احمد، ابن معین، عمرو بن علی روایت کرتے ہیں۔ ابن المدینی نے کہا کہ ابن مہدی حدیث کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں اور ابو حاتم نے کہا: امام ہیں، ثقہ ہیں اور قطان سے زیادہ ثبت ہیں اور وکیع سے زیادہ متقن ہیں۔ احمد نے کہا کہ ابن مہدی کسی کے واسطے سے روایت کریں تو وہ قابل حجت ہے، اور قواریری نے کہا کہ ابن مہدی نے ہمیں اپنے حافظے سے بیس ہزار حدیث املا کرائیں۔ ختم شد‘‘
باقی ترجمہ چار راویوں کا پس اوپر گزرا۔
قولہ: حدیث ہشتم ابوداود:
’’ حدثنا إسحاق بن إبراھیم بن راھویہ نا وکیع عن سفیان عن عاصم عن أبي عثمان عن بلال رضی اللہ عنہ قال : یا رسول اللہﷺ: لا تسبقني بآمین‘‘ انتھی (سنن أبي داود، رقم الحدیث ، ۹۴۷)
’’ ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بیان کیا، ان کو وکیع نے سفیان کے واسطے سے، وہ عاصم کے واسطے سے، وہ ابو عثمان کے واسطے سے اور وہ بلال رضی اللہ عنہ کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! مجھ سے پہلے آمین نہ کہیے۔ ختم شد‘‘
’’ اسحاق راوی کو صفحہ (۲۷) کتاب تقریب میں تغیر قبل موت اور میزان الاعتدال کے صفحہ (۷۳) میں ’’ اختلط في آخر عمرہ ‘‘لکھا ہے، پس اس حدیث کا راوی مجروح۔ یہ بھی ضعیف ہوئی اور کوئی لفظ جہر وغیرہ بھی نہیں ہے اور قیاس مفید نہیں۔‘‘
أقول: معترض نے تو قیامت برپا کردیا۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ بھلا اگر اسحٰق بن ابراہیم بن راہویہ کی حدیث ضعیف ٹھہرے گی تو پھر کس کی حدیث قابل حجت کے ٹھہرے گی؟ ابن راہویہ وہ شخص ہے جس کی شان میں نقاد بن نے ’’ أحد الأئمۃ الأعلام مجتھد حافظ ثقۃ حجۃ مأمون إمام من أئمۃ المسلمین‘‘ کہا ہے اور یہ سب اعلیٰ درجے کی تعدیل ہے۔
کہا حافظ ذہبی نے مقدمہ میزان الاعتدال میں:
’’ فأعلی العبارات في الرواۃ المقبولین : ثبت حجۃ ، وثبت حافظ، وثقۃ متقن ، ثم ثقۃ ، ثم صدوق ‘‘ انتھی ( میزان الاعتدال ۱ ؍۴)
’’ مقبول روات کے متعلق اعلیٰ عبارتیں: ثبت، حجت اور ثبت حافظ، اور ثقہ متقن، پھر ثقہ، پھر صدوق ہیں۔ ختم شد‘‘
ہاں البتہ پانچ مہینے قبل از وفات ان کے حافظے میں کچھ تغیر ہوگیا تھا، مگر یہ مفید مطلب معترض نہیں، اس واسطے کہ ائمہ خمسہ یعنی بخاری و مسلم و ابوداود و ترمذی و نسائی کی کتابوں میں جتنی احادیث ان سے ہیں، وہ سب قبل اختلاط کے ہیں۔ دیکھو! ابوداود نے خود کہا ہے کہ اسحاق بن راہویہ سے جو روایت ہم نے حالتِ اختلاط میں کیا ہے، اس کو پھینک دیا ہے۔ جیسا کہ میزان الاعتدال میں ہے:
’’ قال أبو عبید الآجري : سمعت أبا داود یقول : إسحاق بن راھویہ تغیر قبل أن یموت بخمسۃ أشھر ، وسمعت منہ في تلک الأیام فرمیت بہ ‘‘ انتھی ( میزان الاعتدال ۱ ؍۱۸۳)
’’ ابو عبید آجری نے کہا کہ میں نے ابوداود کو کہتے ہوئے سنا کہ اسحاق بن راہویہ اپنی موت سے پانچ ماہ قبل بدل گئے تھے اور جو میں نے ان سے اس زمانے میں سماعت کی تو اسے میں نے پھینک دیا۔ ختم شد‘‘
اس سے صاف ظاہر ہوا کہ سنن ابی داود میں جتنی روایتیں اسحاق بن راہویہ سے ہیں، وہ سب قبل اختلاط کے ہیں، کیونکہ اسحاق کے حالتِ اختلاط کی جو روایتیں ابوداود کے پاس تھیں، اس کو انھوں نے پھینک دیا۔ اب سنیے ترجمہ اسحاق بن ابراہیم کا۔
فرمایا حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں:
’’ إسحاق بن إبراھیم بن مخلد الحافظ أبو یعقوب الحنظلي ، ابن راھویہ، أحد الأئمۃ الأعلام، ثقۃ حجۃ ، عن معتمر بن سلیمان و عبد العزیز، وعنہ الجماعۃ سوی ابن ماجہ۔ قال : سمعت أبا عبداللہ یقول : وسئل عن إسحاق ، فقال ، مثل إسحق یسئل عنہ ؟ إسحاق عندنا إمام من أئمۃ المسلمین ، وقال النسائي : ثقۃ مأمومن، قال أحمد بن سلمۃ : سمعت أبا حاتم یقول : ذکرت لأبي زرعۃ إسحاق بن راھویہ وحفظہ للأسانید والمتون فقال أبو زرعۃ : ما رأی [الناس] أحفظ من إسحاق‘‘ انتھی ( میزان الاعتدال ۱ ؍۱۸۳)
’’ اسحاق بن ابراہیم بن مخلد حافظ ابو یعقوب حنظلی بن راہویہ، چوٹی کے ائمہ میں سے ہیں، ثقہ ہیں، حجت ہیں۔ معتمر بن سلیمان اور عبدالعزیز کے واسطے سے روایت کرتے ہیں اور ان کے واسطے سے ابن ماجہ کے علاوہ ایک جماعت نے روایت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے ابوعبداللہ کو کہتے ہوئے سنا جب ان اسحاق کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ اسحاق کے متعلق بھی پوچھا جاتا ہے؟ اسحاق تو ہمارے نزدیک مسلمانوں کے ائمہ میں سے ایک امام ہیں۔ نسائی نے کہا: ثقہ مامون ہیں۔ احمد بن سلمہ نے کہا کہ میں نے ابو حاتم کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے ابو زرعہ سے اسحاق بن راہویہ کا ذکر کیا اور ان کے اسانید اور متون کے حفظ کے بارے میں ذکر کیا تو ابو زرعہ نے کہا: اسحاق سے زیادہ قوتِ حافظہ والا لوگوں نے نہیں دیکھا۔ ختم شد‘‘
اور کہا حافظ نے تقریب میں:
’’ إسحاق بن إبراھیم بن راھویہ ، ثقۃ حافظ مجتھد، قرین أحمد بن حنبل، ذکر أبوداود أنہ تغیر قبل موتہ بیسیر‘‘ انتھی مختصرا (تقریب التھذیب، ص ۹۹)
’’ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ۔ ثقہ، حافظ، مجتہد اور احمد بن حنبل کے ساتھی ہیں۔ ابوداود نے ذکر کیا ہے کہ اپنی موت سے تھوڑا عرصہ قبل وہ تبدیل ہوگئے تھے۔ ختم شد‘‘
اور خلاصہ میں ہے:
’’ إسحاق بن إبراھیم بن مخلد الحنظلي ، ابن راھویہ، الإمام الفقیہ الحافظ العلم، عن معتمر بن سلیمان وابن عیینۃ وخلق، وعنہ البخاري ومسلم و أبوداود والترمذي والنسائي ، وقال : ثقۃ مأمون أحد الأئمۃ ، قال أحمد: لا أعلم لإسحاق نظیرا، إسحاق عندنا من أئمۃ المسلمین ، وإذا حدثک أبو یعقوب أمیر المؤمنین فتمسک بہ، وقال الخفاف: أملیٰ علینا إسحاق أحد عشر ألف حدیث من حفظہ ، ثم قرأھا یعني في کتابہ ، فما زاد ولا نقص، وقال إبراھیم بن أبي طالب : أملی إسحاق المسند کلہ من حفظہ ‘‘ انتھی مختصراً ( الخلاصۃ للخزرجي ، ص: ۲۷)
’’ اسحاق بن ابراہیم بن مخلد حنظلی بن راہویہ، الامام الفقیہ الحافظ العلم۔ معتمر بن سلیمان، ابن عیینہ اور ایک خلق سے روایت کرتے ہیں اور ان سے بخاری، مسلم، ابوداود، ترمذی، نسائی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ ثقہ مامون اور ائمہ میں سے ایک ہیں۔ احمد نے کہا کہ اسحاق کے مثل میں کسی کو نہیں جانتا۔ اسحاق ہمارے نزدیک مسلمانوں کے ائمہ میں سے ہیں اور جب ابو یعقوب امیر المومنین تم سے کوئی حدیث بیان کریں تو اسے مضبوطی سے تھام لو۔ خفاف نے کہا کہ اسحاق نے اپنے حافظے سے ہمیں دس ہزار احادیث املا کرائیں، پھر ان کو پڑھا اپنی کتاب میں تو اس میں نہ زیادتی کی اور نہ نقص ابراہیم بن ابو طالب نے کہا کہ اسحاق نے اپنی پوری مسند اپنے حفظ سے املا کروائی۔ ختم شد‘‘
اور معنی ’’ لا تسبقني بآمین‘‘ کے یہ ہیں کہ کہا بلال رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے: اے رسول اللہ کے! آپ سبقت نہ کیجیے مجھ پر آمین کہنے میں۔ یعنی مثلاً اگر ایسا واقعہ ہو کہ میں کسی کام میں جیسے تسویہ صفوف وغیرہ میں مشغول رہوں اور یہاں تک مجھ کو توقف ہو جاوے کہ آپ سورہ فاتحہ پڑھ کر آمین کہہ لیویں، ایسا نہ کیجیے، کیونکہ اس صورت میں میری آمین امام کی آمین کے ساتھ فوت ہو جاوے گی اور انھوں نے اس امر کی استدعاء رسول اللہﷺ سے اس واسطے کی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’ إن رسول اللہ ﷺ قال : إذا أمّن الأمام فأمنوا ، فإنہ من وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ‘‘ رواہ مالک وغیرہ ( صحیح البخاري ، رقم الحدیث ۷۴۷، صحیح مسلم، رقم الحدیث، ۴۰۱)
یعنی فرمایا رسول اللہﷺ نے جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین مل جاوے گی فرشتوں کی آمین سے بخشے جائیں گے اگلے گناہ اس کے۔
تو بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی آمین کو رسول اللہﷺ کی آمین کے ساتھ فوت ہو جانے کو نہ چاہا، کیونکہ اس میں محرومی خیر کثیر سے ہے۔ پس لفظ ’’ لا تسبقني بآمین ‘‘ سے ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ آمین کو پکار کر کہتے تھے، ورنہ آپ کا آمین کہنا بلال رضی اللہ عنہ کو کیونکر معلوم ہوا کہ انھوں نے استدعا عدم سبقت کی ؟ وباللہ التوفیق۔
باقی رہ گئے اس حدیث میں پانچ راوی:
اول : وکیع بن الجراح۔ پس کہا حافظ نے تقریب میں:
’’ وکیع بن الجراح أبو سفیان الکوفي ثقۃ حافظ عابد من کبار التاسعۃ‘‘ انتھی ( تقریب التھذیب ، ص: ۵۸۱)
’’ وکیع بن جراح ابو سفیان کو فی ثقہ ہیں، عابد ہیں اور نویں درجے کے کبار میں سے ہیں۔ ختم شد‘‘
اور کہا خلاصہ میں:
’’ وکیع بن الجراح بن ملیح الرؤاسي أبو سفیان الکوفي الحافظ أحد الأئمۃ الأعلام۔ قال أحمد : ما رأیت أوعی منہ ولا أحفظ، وکان أحفظ من ابن مھدي کثیرا کثیرا، ما رأیت مثلہ في العلم والحفظ والإتقان مع خشوع و ورع، ما رأت عینای مثلہ قط، یحفظ الحدیث ویذاکر بالفقہ مع ورع واجتھاد، وکان إمام المسلمین في وقتہ‘‘ انتھی (الخلاصۃ للخزرجي، ص: ۴۱۵)
’’ وکیع بن جراح بن ملیح رؤاسی ابوسفیان کو فی حافظ، چوٹی کے ائمہ میں سے ایک ہیں۔ احمد نے کہا کہ میں نے ان سے زیادہ حافظے والا نہیں دیکھا۔ وہ ابن مہدی کے بالمقابل کہیں زیادہ حافظ تھے۔ علم، حفظ اور اتقان میں خشوع اور زہد کے ساتھ ان کے مثل میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ میری آنکھوں نے کبھی ان کے مثل نہیں دیکھا، جو حدیث کو یاد کرتا ہو اور فقہ میں مذاکرہ کرتا ہو ورع اور اجتہاد کے ساتھ، وہ اپنے وقت کے امام المسلمین تھے۔ ختم شد‘‘
دوسرے سفیان ثوری اور ترجمہ ان کا اوپر گزرا۔
تیسرے عاصم بن سلیمان التمیمی ابو عبدالرحمن بصری۔ اس سے ائمہ ستہ نے روایت کیا ہے اور یہی امر اس کی ثقاہت کے لیے کافی ہے۔ اور کہا سفیان ثوری و احمد بن حنبل نے: ثقہ حافظ، اور ثقہ کہا ان کو ابن معین و عجلی و علی بن المدینی وابن عمار و بزار نے۔
کہا حافظ ابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں:
’’ عاصم بن سلیمان الأحول أبو عبدالرحمن البصري، من صغار التابعین، قدمہ شعبۃ في أبي عثمان النھدي علی قتادۃ ، وعدہ سفیان الثوري رابع أربعۃ من الحفاظ أدرکھم ، ووصفہ بالثقۃ والحفظ أحمد ابن حنبل، فقیل لہ : إن یحییٰ القطان یتکلم فیہ فعجب، ووثقہ ابن معین والعجلي وابن المدیني وابن عمار والبزار‘‘ انتھی ( ھدي الساري ، ص: ۴۱۱)
’’ عاصم بن سلیمان الاحول ابو عبدالرحمان بصری صغار تابعین میں سے تھے۔ شعبہ نے ابو عثمان نہدی کی حدیث میں ان کو قتادہ پر مقدم کیا ہے اور سفیان ثوری نے ان کو ان چار حفاظ میں سے چوتھا شمار کیا ہے جن کو انھوں نے پایا تھا، اور ان کو ثقہ اور حفظ سے متصف کیا ہے احمد بن حنبل نے۔ ان سے کہا گیا کہ یحییٰ القطان ان کے بارے میں کلام کرتے ہیں تو انھیں تعجب ہوا، اور ان کو ابن معین، عجلی، ابن المدینی، ابن عمار اور بزار نے ثقہ کہا ہے۔ ختم شد‘‘
اور کہا خلاصہ میں:
’’ عاصم بن سلیمان التمیمي مولاھم، أبو عبدالرحمن البصري الأحول، عن أنس وعبداللہ بن سرجس والشعبي وأبي عثمان النھدي وخلق، وعنہ قتادۃ وحماد بن زید وزائدۃ وشریک، قال ابن المدیني : لہ نحو مائۃ وخمسین حدیثا ، ووثقہ ابن معین وأبو زرعۃ، قال أحمد : ثقۃ من الحفاظ ‘‘ انتھی (الخلاصۃ للخزرجي ، ص: ۱۸۲)
’’ عاصم بن سلیمان تمیمی ابو عبدالرحمان بصری الاحول۔ انس اور عبداللہ بن سرجس اور شعبی اور ابو عثمان نہدی اور خلق کے واسطے سے روایت کرتے ہیں اور ان کے واسطے سے قتادہ، حماد بن زید، زائدہ اور شریک روایت کرتے ہیں۔ ابن المدینی نے کہا کہ ان کی تقریباً ایک سو پچاس حدیثیں ہیں، اور ابن معین اور ابو زرعہ نے ان کو ثقہ کہا ہے اور احمد نے کہا کہ وہ حفاظ میں سے ثقہ ہیں۔ ختم شد‘‘
چوتھے عبدالرحمن بن مل ابو عثمان النہدی الکوفی۔ اور کہا حافظ نے تقریب میں:
’’ عبدالرحمن بن مل أبو عثمان النھدي ، بفتح النون وسکون الھاء، مشھور بکنیتہ ، مخضرم من کبار الثانیۃ ثقۃ ثبت عابد‘‘ انتھی ( تقریب التھذیب ، ص: ۳۵۱)
’’ عبدالرحمن بن مل ابو عثمان نہدی، نون کے فتحہ کے ساتھ اور ہا کے سکون کے ساتھ۔ مشہور ہیں اپنی کنیت سے، مخضرم ہیں اور دوسرے طبقے کے کبار میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ثقہ ثبت عابد ہیں۔ ختم شد‘‘
اور کہا خلاصہ میں:
’’ عبدالرحمن بن مل، بضم أولہ وکسر اللام، ابن عمرو بن عدي النھدي أبو عثمان الکوفي ، أسلم وصدق، ولم یر النبيﷺ ، عن عمر وعلي وأبي ذر، وعنہ قتادۃ و أیوب و أبو التیاح والجریري وخلق، وثقہ ابن المدیني وأبو حاتم والنسائي‘‘ انتھی (الخلاصۃ للخزرجي، ص:۲۳۵)
’’ عبدالرحمان بن مل، پہلا ضمہ اور لام پر کسرہ کے ساتھ، بن عمرو بن عدی نہدی ابوعثمان الکوفی۔ اسلام لائے اور تصدیق کی اور نبیﷺ کو نہیں دیکھا۔ عمر، علی اور ابوذر کے واسطے سے روایت کرتے ہیں اور ان کے واسطے سے قتادہ، ایوب، ابوالتیاح، الجیریری اور دیگر لوگوں نے روایت کی ہے۔ ابن المدینی، ابو حاتم اور نسائی نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ ختم شد اور ائمہ ستہ نے ان سے روایت کیا ہے۔‘‘
پانچویں بلال بن رباح مؤذن صحابی رضی اللہ عنہ۔ پس اس حدیث کی صحت میں اب کسی طرح کا کلام باقی نہ رہا۔
قولہ: حدیث نہم ابن ماجہ:
’’ حدثنا إسحاق بن منصور أخبرنا عبدالصمد بن عبدالوارث ثنا حماد ابن سلمۃ ثنا سھیل بن أبي صالح عن أبیہ عن عائشۃ رضي اللہ عنھا عن رسول اللہ ﷺ قال : ما حسدتکم الیھود عی شيء ما حسدتکم علی السلام والتأمین‘‘ ( سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث ، ۸۵۶)
’’ ہمیں بتایا اسحاق بن منصور نے، ان کو عبدالصمد بن عبدالوارث نے ، ان کو حماد بن سلمہ نے، ان کو سہیل بن ابی صالح نے اپنے باپ کے واسطے سے اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطے اور وہ نبیﷺ کے واسطے سے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ یہود تم لوگوں سے سب سے زیادہ اس بنا پر حسد رکھتے ہیں کہ تم لوگ سلام کرتے ہو اور آمین کہتے ہو۔‘‘
حدیث دہم ابن ماجہ:
’’ حدثنا العباس بن الولید الخلال الدمشقي ثنا مروان بن محمد وأبو مھر ثنا خالد بن یزید بن صبیح ثنا طلحۃ بن عمرو عن عطاء عن ابن عباس رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہﷺ : ما حسدتکم الیھود علی شئ ما حسدتکم علی آمین فأکثروا من قول آمین۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث ، ۸۵۷)
’’ ہمیں بتایا عباس بن الولید الخلال الدمشقی نے ان کو مروان بن محمد اور ابو مسہر نے، ان کو خالد بن یزید بن صبیح نے، ان کو طلحہ بن عمرو نے عطا کے واسطے سے اور وہ ابن عباس کے واسطے سے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ یہود تم سے کسی اور بات پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا وہ حسد کرتے ہیں آمین پر، تم آمین خوب کہا کرو‘‘
’’ اس حدیث کے راوی طلحہ بن عمرو کو تقریب میں بلفظ متروک لکھا ہے، لہٰذا ضعیف ثابت ہوئی۔ علاوہ بریں حدیث نہم و دہم میں کوئی لفظ جہر و رفع صوت نہیں، جس سے مخالف کا مدعا ثابت ہو۔ اس حدیث اور اگلی حدیث کو دعوے سے کچھ بھی لگاؤ نہیں۔ ایسی احادیث کو پیش کرنا غیر مقلدوں کی کج فہمی کی دلیل صریح ہے اور لفظ ’’ باب الجھر بالتأمین ‘‘ جزو حدیث نہیں، بلکہ از طرف ابن ماجہ ہے۔‘‘
أقول: حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح ہے۔
فرمایا حافظ عبدالعظیم منذری نے کتاب ’’ الترغیب والترہیب‘‘ میں:
’’ عن عائشۃ عن النبيﷺ : ما حسدتکم الیھود علی شيء ما حسدتکم علی السلام والتأمین، رواہ ابن ماجہ بإسناد صحیح، وابن خزیمۃ في صحیحہ وأحمد ‘‘ ( الترغیب والترھیب ۱ ؍۱۹۴)
’’ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے واسطے سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: یہود تم لوگوں سے کسی اور چیز پر اتنا زیادہ حسد نہیں کرتے جتنا وہ تم سے حسد رکھتے ہیں سلام اور آمین کہنے پر۔ اس کی روایت ابن ماجہ نے صحیح سند سے کی ہے اور ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اور احمد نے۔‘‘
اور یہ کہنا کہ ’’ حدیث نہم و دہم میں کوئی لفظ جہر و رفع صوت نہیں ہے‘‘ جہل مرکب و غباوت ہے۔ یہ ظاہر اور مطابق عقل سلیم کے ہے کہ جب مسلمان لوگ آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرتے تھے تو یہود لوگ اس سلام اور اتحاد و محبت پر ان کے حسد کرتے تھے۔ آیا کوئی عاقل یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ لوگ سلام آہستہ کہتے تھے؟ اسی طرح جب لوگ نماز میں آمین پکار کر کہتے تھے تو یہود اس آمین کی آواز پر، جو جماعت کثیرہ کی زبان سے نکلتی تھی، حسد کرتے تھے اور یہ آواز ان کے کان میں مثل کانٹے کے چبھتی تھی۔ اور کوئی عاقل یہ نہیں سمجھے گا کہ ان کے آہستہ آمین کہنے پر یہود حسد کرتے تھے۔ کیونکہ ان کو کیا خبر کہ مسلمانوں نے آمین کہی یا نہ کہی؟ اور علاوہ اس کے بہت چیزیں نماز میں آہستہ پڑھی جاتی ہیں، پھر اس پر کیوں نہیں حسد کرتے تھے؟ تو اس سے صاف معلوم ہوا کہ اشخاص متعددہ کی زبان سے جب آواز آمین سنتے تھے تو یہ آواز ان کو بری معلوم ہوتی تھی اور وہ غصہ میں آجاتے اور حسد کرتے۔ وھذا ظاھر علی من لہ أدنی فطانۃ!
اسی واسطے ابن ماجہ نے اس حدیث کو ’’ باب الجھر بالتأمین ‘‘ میں استدلالاً ذکر کیا ہے، اگر آپ کی فہم ناقص میں یہ بات نہ آئے تو اپنی فہم پر روئیے۔
وکم من عائب قولا صحیحا
وآفتہ من الفھم السقیم
( کتنے لوگ صحیح بات کی عیب جوئی کرنے والے ہوتے ہیں، حالانکہ ان کی اصل مصیبت کمزور عقل ہوتی ہے۔)
اور اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوائے ابن ماجہ کے اور محدثین نے بھی روایت کیا ہے۔ فرمایا حافظ عبدالعظیم نے کتاب الترغیب میں:
’’ رواہ ابن ماجہ بإسناد صحیح، وابن خزیمۃ في صحیحہ، وأحمد، ولفظہ : أن رسول اللہﷺ ذکرت عندہ الیھود فقال : إنھم لم یحسدونا علی شيء کما حسدونا علی الجمعۃ التي ھدانا اللہ وضلوا عنھا، وعلی القبلۃ التي ھدانا اللہ لھا وضلوا عنھا، وعلی قولنا خلف الإمام : آمین۔ ورواہ الطبراني في الأوسط بإسناد حسن، ولفظہ : قال: إن الیھود قد سئموا دینھم، وھم قوم حسد، ولم یحسدوا المسلمین علی أفضل من ثلاث: ردالسلام وإقامۃ الصفوف وقولھم خلف إمامھم : آمین ‘‘ انتھی ( الترغیب والترھیب ۱ ؍۱۹۴)
’’ اسے ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اور احمد نے، اور اس کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس یہود کا ذکر کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: انھوں نے ہم سے کسی اور بات پر زیادہ حسد نہیں کیا، جتنا انھوں نے ہم سے حسد رکھا اس جمعہ پر جس کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت کی اور وہ لوگ اس سے گمراہ ہوئے اور امام کے پیچھے ہمارے آمین کہنے پر انھوں نے حسد کیا۔ اس کی روایت طبرانی نے الاوسط میں حسن سند سے کی ہے اور اس کے الفاظ ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: یہود اپنے دین سے نا امید ہوگئے، یہ حسد کرنے والے لوگ ہیں اور ان لوگوں نے مسلمانوں سے زیادہ حسد نہیں کیا مگر تین فضیلتوں کی بنا پر: سلام کا جواب دینا، صفوں کی درستی اور امام کے پیچھے آمین کہنا۔ ختم شد‘‘
اور حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بروایت طلحہ بن عمرو اگرچہ ضعیف ہے، مگر یہ آپ کی مفید مدعا نہیں، کیونکہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا جو صحیح ہے، اس سے اس کو تقویت حاصل ہو جاوے گی۔
قولہ: حدیث یا زدہم ابن ماجہ
’’عن بشر بن رافع عن أبي عبداللہ بن عم أبي ھریرۃ [ عن أبي ھریرۃ ] رضی اللہ عنہ : ترک الناس التأمین ، وکان رسول اللہ ﷺ إذا قال ﴿ غَیْرِ الْمغضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾ قال آمین ، حتی سمعھا أھل الصف الأول فیرتج بھا المسجد ‘‘ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث ، ۸۵۳)
’’ بشر بن رافع کے واسطے سے روایت ہے وہ ابو عبداللہ وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں، لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیا ہے، حالانکہ رسول اللہﷺ جب ﴿ غَیْرِ الْمغضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾ کہتے تو آمین کہتے، یہاں تک کہ پہلی صف کے لوگ سنتے اور مسجد میں گونج پیدا ہوتی۔‘‘
’’ اس حدیث کا راوی بشر بن رافع ضعیف الحدیث تقریب کے صفحہ (۵۱) میں، اور ابی عبداللہ سے حدیث بیان کرتے ہوئے کسی دوسرے نے نہیں سنا۔ لہٰذا یہ حدیث ضعیف ثابت ہوئی، ہرگز قابل استدلال نہ رہی۔‘‘
أقول : عبارت جس طرح کی خبط ہے وہ ظاہر ہے۔ خیر! بہرحال بشر بن رافع کی اگرچہ بعض محدثین نے تضعیف کی ہے، مگر بعض نے توثیق بھی کی ہے، جیسا کہ بیان اس کا دوسری حدیث کی بحث میں گزرا۔
باقی رہا عبداللہ بن عم ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ اس کے حق میں بعضوں نے لفظ ’’ لا یعرف ‘‘ کا لکھا ہے، مگر ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے۔ کہا حافظ ابن حجر نے تلخیص الحبیر میں:
’’ وابن عم أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ قیل : لا یعرف، وقد وثقہ ابن حبان‘‘ ( التلحیص الحبیر ۱ ؍۲۳۸) نیز دیکھیں: الثقات لابن حبان ۵ ؍۹۷)
’’ ابن عم ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ غیر معروف ہیں۔ ابن حبان نے ان کو ثقہ کہا ہے۔‘‘
اور کہا حافظ نے تقریب التہذیب میں:
’’ أبو عبداللہ الدوسي ، ابن عم أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ، مقبول من الثالثۃ ‘‘ انتھی ( تقریب التھذیب ، ص: ۶۵۴)
’’ ابو عبداللہ الدوسی ابن عم ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ تیسرے طبقے کے مقبول ہیں۔ ختم شد‘‘
اور کہا خلاصہ میں:
’’ عبدالرحمن بن الصامت عن ابن عمہ أبي ھریرۃ ، وعنہ أبو الزببیر، وثقہ ابن حبان‘‘ ( الخلاصۃ للخزرجي ، ص: ۲۲۹)
’’ عبدالرحمان بن الصامت روایت کرتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے اور ان سے ابو زبیر۔ ابن حبان نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ ختم شد‘‘
قولہ: علاوہ اس کے حضرت کی مسجد کی چھت کھجور کے پتوں سے پٹی تھی، اس کا ارتجاج یعنی گونجنا چہ معنی دارد؟ ابو عبداللہ یا بشر راوی کی گھڑت ہے۔
أقول: الفاظ بیہودہ زبان پر نہ لائیے۔
زکس گر تنرسی بترس از خدا ( اگر کسی اور کا ڈر نہیں ہے تو خدا سے تو ڈرو!)
بشر بن رافع کو کسی محدث نے وضاعین یا کذابین میں سے شمار نہیں کیا ہے، بلکہ ابن معین و ابن عدی نے اس کی توثیق کی ہے اور امام احمد و امام بخاری نے بھی کاذب و واضع الحدیث نہیں کہا ہے، بلکہ صرف لفظ ضعیف کا۔ اور ابو عبداللہ کی ابن حبان نے توثیق کی ہے اور حافظ نے مقبول کہا ہے، اور کسی نے آج تک اس کو وضاعین میں شمار نہیں کیا ہے۔ اس قدر قلتِ حیا و ادب معترض کو سزاوار نہیں۔
اور ارتجاج کے معنی معترض نے جو گونجنے کے سمجھا ہے، وہ اس کی جہالت و سوء فہمی ہے، لغت میں کہیں گونجنے کے معنی نہیں لکھا ہے، بلکہ اصل معنی ارتجاج کے اضطراب و تحرک کے ہیں، یعنی مسجد ہل جاتی تھی بسبب آواز آمین کے اور یہ حقیقت پر محمول نہیں بلکہ بطور مبالغہ کے کہا گیا ہے اور مراد اس سے اجتماع رفعِ اصوات ہے اور اس طرح کا محاورہ عرب میں بہت شائع ہے۔
دیکھو! صحیح بخاری کتاب العیدین میں:
’’ باب التکبیر أیام منٰی ، وإذا غدا إلی عرفۃ ، وکان عمر رضي اللہ عنہ یکبر في قبتہ بمنی ، ویکبر أھل المسجد، ویکبر أھل السوق حتی ترتج منیٰ تکبیرا ‘‘ انتھی (صحیح البخاري ۱ ؍۳۲۹، اسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے موصولاً بیان کیا ہے۔ دیکھیں: سنن البیھقي ۳ ؍۳۱۲، تغلیق التعلیق ۲ ؍۳۷۹)
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ تکبیر کہتے تھے خیمہ کے اندر منیٰ میں، پس سنتے تھے اس تکبیر کو مسجد کےلوگ، پس وہ لوگ تکبیر کہتے تھے اور تکبیر کہتے تھے سارے بازاری لوگ، یہاں تک کہ منیٰ تکبیر کہنے سے ہل جاتا تھا۔
اور مراد ہل جانے سے یہ نہیں کہ منیٰ حقیقتاً دہل جاتا تھا، بلکہ مراد اس سے اجتماع رفعِ اصوات ہے۔ کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں:
’’ قولہ : ترتج ۔ بتثقیل الجیم أي تضطرب وتتحرک، وھي مبالغۃ في اجتماع رفع الصوت ‘‘ انتھی ( فتح الباري ۲ ؍۴۶۲)
’’ (ترتج)یعنی مضطرب اور متحرک ہو جانا۔ یہ مبالغہ بلند آواز کے اجتماع کی صورت میں مبالغے کے لیے ہے۔ ختم شد‘‘
اور کہا علامہ قسطلانی نے شرح صحیح بخاری میں:
’’ ویکبر أھل الأسواق بتکبیرہ حتی ترتج منٰی : بتشدید الجیم أي تضطرب وتتحرک مبالغۃ في اجتماع رفع الأصوات‘‘ انتھی (إرشاد الساري للقسطلانی ۲ ؍۲۱۷)
’’ اور اہل بازار تکبیر کہتے ہیں ان کی تکبیر سے حتیٰ کہ منیٰ دہل جاتا تھا، یعنی مضطرب اور متحرک ہو جاتا، بطور مبالغہ بلند آوازوں کے اجتماع کی صورت میں۔ ختم شد‘‘
اور ایسا ہی کہا جلال الدین سیوطی نے توشیخ حاشیہ بخاری میں۔
اور کہا علامہ محمد طاہر فتنی نے مجمع بحار الانوار میں:
’’ ارتج أي اضطرب افعل من الرج، وھو الحرکۃ الشدیدۃ، ومنہ نفخ الصور فترتج الأرض بأرضھا أي تضطرب ‘‘ انتھی
’’ (ارتج) کا مطلب مضطرب ہونا ہے، یہ رج سے باب افتعال سے ہے جس کا معنی حرکت شدیدہ ہے، اور اسی سے نفخ صور ہے جس کی وجہ سے زمین لرز اٹھے گی یعنی مضطرب ہو جائے گی۔ ختم شد‘‘
اور کہا ’’ منتھی الأرب في لغات العرب‘‘ میں:
’’ ارتجاج : لرزیدن وموج زدن دریا، ومنہ الحدیث : من رکب البحر حین یرتج فلا ذمۃ لہ أي إذا اضطربت أمواجہ ‘‘ انتتھی ( نیز دیکھیں: السلسلۃ الصحیحۃ ۲ ۴۷۹)
’’ ارتجاج کا معنی ہے لرزنا اور دریا میں موج کا آنا۔ اسی سے حدیث ہے کہ جب سمندر میں طغیانی ہو اور اس صورت میں کوئی سمندر کا سفر کرے تو اس کی کوئی ذمے داری نہیں ہے، یعنی جب اس کی موجیں لرز ہی ہوں۔ ختم شد‘‘
پس جبکہ منی جو ایک میدان تھا اور اس میں چھت وغیرہ کچھ نہ تھی، اس میں ارتجاج ممکن ہوا تو ارتجاج مسجد رسول اللہ جس پر چھت کھجور کے پتے کی تھی، کیا مستبعد ہے؟
قولہ: اور واضح رہے کہ ترمذی میں ایک حدیث وائل بن حجر کی ہے، اس کی اصل عبارت لکھی جاتی ہے:
’’ أخرج عن شعبۃ عن سلمۃ بن کھیل عن حجر أبي العنبس عن علقمۃ بن وائل عن أبیہ بن حجر أنہ صلی مع رسول اللہ ﷺ فلما بلغ ﴿ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾قال آمین، وأخفی بھا صوتہ‘‘ (سنن الترمذي ۲ ؍۲۷)
’’ شعبہ کے واسطے سے تخریج کی ہے، وہ سلمہ بن کہیل کے واسطے سے روایت کرتے ہیں، وہ حجر ابو العنبس کے واسطے سے، وہ علقمہ بن وائل کے واسطے سے اور وہ اپنے والد وائل بن حجر کے واسطے سے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، پس جب آپﷺ ﴿ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾ پر پہنچے تو آمین کہی اور اپنی آواز کو پست رکھا۔‘‘
’’ اور اعتراض عدم سماع علقمہ کو خود ترمذی نے کتاب الحدود میں بایں عبارت: ’’ عقلمۃ بن وائل بن حجر سمع من أبیہ ، وھو أکبر من عبدالجبار بن وائل، وعبدالجبار لم یسمع عن أبیہ ‘‘ رفع کردیا ہے۔‘‘
أقول: علقمہ کی سماعت وائل بن حجر سے مختلف فیہا ہے۔ بعض ائمہ حدیث کہتے ہیں کہ سماعت ثابت ہے اور بعض کہتے ہیں کہ سماعت ثابت نہیں۔ اور امام ترمذی کے کلام میں تعارض واقع ہے۔
کیونکہ سنن ترمذی کے کتاب الحدود میں لکھا ہے:
’’وعلقمۃ بن وائل بن حجر سمع من أبیہ ، وھو أکبر من عبدالجبار بن وائل ، وعبدالجبار لم یسمع من أبیہ‘‘ ( سنن الترمذي ۴ ؍۵۶)
’’ اور علقمہ بن وائل بن حجر نے اپنے والد سے سماعت کی اور وہ عبدالجبار بن وائل سے بڑے ہیں، اور عبدالجبار نے اپنے باپ سے سماعت نہیں کی۔‘‘
وعلل کبیر میں اس کے خلاف لکھا ہے، جیسا کہ امام جمال الدین زیلعی نے ’’نصب الرایہ‘‘ میں کہا:
’’ واعلم أن في الحدیث علۃ أخری، ذکرھا الترمذي في عللہ الکبیر، فقال : سألت محمد بن إسماعیل : ھل سمع علقمۃ من أبیہ ؟ فقال: إنہ ولد بعد موت أبیہ بستۃ أشھر ‘‘ انتھی ( نصب الرایۃ ۱ ؍۲۷۱، نیز دیکھیں: العلل الکبیر للترمذي ۱ ؍۷۴)
’’ جان لو کہ اس حدیث میں دوسری علت ہے، جس کا ذکر ترمذی نے اپنی علل کبیر میں کیا ہے اور کہا ہے کہ میں نے محمد بن اسماعیل سے پوچھا: کیا علقمہ نے اپنے والد سے سماعت کی ہے؟ تو انھوں نے کہا: ان کی پیدائش ان کے باپ کی موت کے چھے ماہ کے بعد ہوئی ہے۔‘‘
اور حافظ ابن حجر ’’ تقریب التھذیب‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ علقمۃ بن وائل بن حجر، بضم المھملۃ وسکون الجیم، الحضرمي الکوفي ، صدوق إلا أنہ لم یسمع من أبیہ۔‘‘ انتھی (تقریب التھذیب ص:۳۹۷(
’’ علقمہ بن وائل بن حجر حضرمی کوفی صدوق ہیں، البتہ انھوں نے اپنے باپ سے سماعت نہیں کی ہے۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا شیخ کمال الدین ابن الہمام نے ’’ فتح القدیر شرح ہدایہ‘‘ میں:
’’ وفیہ علۃ أخری، ذکرھا الترمذي في عللہ الکبیر، أنہ سأل البخاری: ھل سمع علقمۃ عن أبیہ؟ فقال: إنہ ولد بعد موت أبیہ بستۃ أشھر‘‘ انتھی ( فتح القدیر لابن الھمام ۱؍۲۹۵(
’’ اس میں دوسری علت ہے جس کا ذکر ترمذی نے علل کبیر میں کیا ہے کہ انھوں نے بخاری سے پوچھا: کیا علقمہ نے اپنے باپ سے سماعت کی ہے؟ تو انھوں نے کہا: ان کی پیدائش اپنے باپ کی وفات کے چھے ماہ بعد ہوئی تھی۔ ختم شد۔‘‘
خیر! قطع نظر اس کے کہ علقمہ کو سماع ثابت ہو یا نہ ہو، یہ حدیث شعبہ کی قابل حجت کے نہیں ہے، کیونکہ اتفاق کیا ہے حفاظ حدیث نے مثل بخاری وغیرہ کے کہ شعبہ سے اس حدیث میں چند وہم ہوگئے ہیں:
اول: یہ کہ کہا شعبہ نے حجر ابو العنبس۔ وحال یہ کہ وہ حجر بن العنبس ہے اور کنیت اس کی ابو السکن۔
دوم: یہ کہ زیادہ کیا شعبہ نے سند میں علقمہ بن وائل کو، وحال یہ کہ اس سند میں علقمہ واقع نہیں ہے، بلکہ حجر ابن العنبس روایت کرتا ہے وائل بن حجر سے۔
تیسرے یہ کہ بجائے لفظ ’’ مدبھا صوتہ‘‘ کے ’’ خفض بھا صوتہ‘‘ کہہ دیا۔ اور خود شعبہ نے سفیان کو احفظ کہا ہے اور کہا یحییٰ بن سعید القطان اور یحییٰ بن معین نے کہ جس وقت اختلاف واقع ہو درمیان شعبہ و سفیان کے تو قول سفیان کا مرجح ہوگا اوپر قول شعبہ کے، خصوص ایسے حالات میں کہ علی بن صالح اور علاء بن صالح اور محمد بن سلمہ بن کہیل یہ سب سلمہ بن کہیل سے مثل سفیان ثوری کے روایت کرتے ہیں، تو اب اس قوت میں روایت شعبہ کی مخالف پڑی روایت اتنے حفاظ کے۔
اور علاوہ اس کے ابو الولید الطیالسی نے شعبہ سے بھی مثل حدیث سفیان کے روایت کی ہے۔ پس اب یہی روایت ان کی قابل قبول ہوگی، کیونکہ یہ روایت مطابق پڑتی ہے روایت اور حفاظ کے اور وہ روایت ’’ خفض بھا صوتہ ‘‘ کی مخالف ہے روایت جمیع حفاظ کے۔
کہا امام ترمذی نے سنن میں:
’’ قال أبو عیسی : سمعت محمدا یقول : حدیث سفیان أصح من حدیث شعبۃ في ھذا، وأخطأ شعبۃ في مواضع من ھذا الحدیث، فقال : عن حجر أبي العنبس، وإنما ھو حجر ابن العنبس ویکنی أبا السکن، وزاد فیہ: عن علقمۃ بن وائل، ولیس فیہ عن علقمۃ، وإنما ھو حجر بن عنبس عن وائل بن حجر، وقال: وخفض [بھا صوتہ] وإنما ھو: مدبھا صوتہ۔ قال أبو عیسی: وسألت أبا زرعۃ عن ھذا الحدیث فقال : حدیث سفیان في ھذا أصح، قال : روی العلاء بن صالح الأسدي عن سلمۃ بن کھیل نحو روایۃ سفیان۔‘‘ انتھی (دیکھیں: سنن الترمذي ۲؍۲۷(
’’ ابو عیسیٰ نے کہا کہ میں نے محمد کو کہتے ہوئے سنا: اس معاملے میں سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے اور اس حدیث میں شعبہ نے کئی جگہوں میں غلطی کی ہے۔ (۱) شعبہ نے کہا ہے: حجر ابی العنبس کے واسطے سے، جبکہ وہ حجر بن العنبس ہے جن کی کنیت ابو السکن ہے۔ (۲)اس میں زیادتی کی ہے: علقمہ بن وائل کے واسطے سے، جبکہ اس میں عن علقمہ ہے ہی نہیں، وہاں تو حجر بن عبنس، وائل بن حجر کے واسطے سے ہے۔ (۳) شعبہ نے کہا ہے کہ آپﷺ نے آواز پست رکھی جبکہ وہاں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی آواز کو کھینچا۔ ابو عیسیٰ نے کہا: میں نے اس حدیث کے بارے میں ابو زرعہ سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ سفیان کی حدیث اس سلسلے میں زیادہ صحیح ہے۔ انھوں نے کہا کہ علاء بن صالح اسدی نے سلمہ بن کہیل کے واسطے سے سفیان کی روایت کی طرح روایت کی۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا امام دارقطنی نے سنن میں:
’’ ثنا یحیی بن محمد بن صاعد ثنا أبو الأشعث ثنا یزید بن زریع ثنا شعبۃ عن سلمۃ بن کھیل عن حجر أبي العنبس عن علقمۃ ثنا وائل أو عن وائل بن حجر قال: صلیت مع رسول اللہ ﷺ فسمعتہ حین قال : ( غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ) قال: آمین، وأخفی بھا صوتہ، ووضع یدہ الیمنی علی الیسری، وسلم عن یمینہ وعن شمالہ۔ کذا قال شعبۃ: وأخفی بھا صوتہ، ویقال: إنہ وھم فیہ لأن سفیان الثوري ومحمد بن سلمۃ بن کھیل وغیرھما رووہ عن سلمۃ فقالوا: ورفع صوتہ بآمین، وھو الصواب۔‘‘ انتھی (سنن الدارقطني ۱؍۳۳۴(
’’ ہم سے یحییٰ بن محمد بن صاعد نے بیان کیا، ان سے ابو الاشعث نے، ان سے یزید بن زریع نے، ان کو شعبہ نے سلمہ بن کہیل کے واسطے سے، وہ حجر ابو العنبس کے واسطے سے اور وہ علقمہ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ ہمیں وائل نے بیان کیا یا وائل بن حجر کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو جب آپﷺ نے ( غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ)کہا تو میں نے آپ کو آمین کہتے ہوئے سنا اور آمین کہتے ہوئے آپﷺ نے اپنی آواز چھپائی، اور اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور دائیں اور بائیں سلام پھیرا۔ اس طرح سے شعبہ نے کہا ہے: ’’ آپﷺ نے اپنی آواز کو چھپایا۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ ان کو اس سلسلے میں وہم ہوگیا ہے، کیونکہ سفیان ثوری اور محمد بن سلمہ بن کہیل وغیرہ نے سلمہ کے واسطے سے روایت کی ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ آپﷺ نے آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کیا اور یہی درست ہے۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا جمال الدین زیلعی نے ’’ نصب الرایۃ‘‘ میں:
’’ قال الدارقطني: ھکذا قال شعبۃ : وأخفی بھا صوتہ، ویقال: إنہ وھم فیہ، لأن سفیان الثوري ومحمد بن سلمۃ بن کھیل وغیرھما رووہ عن سلمۃ فقالوا: ورفع بھا صوتہ، وھو الصواب۔ انتھی، وطعن صاحب التنقیح في حدیث شعبۃ ھذا بأنہ قد روي عنہ خلافہ کما أخرجہ البیھقي في سننہ عن أبي الولید الطیالسي ثنا شعبۃ عن سلمۃ بن کھیل سمعت حجراً أبا عنبس یحدث عن وائل الحضرمي أنہ صلی خلف النبي ﷺ فلما قال: (وَلَا الضَّآلِیْنَ) قال: آمین، رافعا بھا صوتہ، قال: فھذہ الراویۃ توافق روایۃ سفیان، وقال البیھقي في المعرفۃ: إسناد ھذہ الروایۃ صحیح، وکان شعبۃ یقول: سفیان أحفظ ، وقال یحییٰ القطان ویحییٰ بن معین: إذا خالف شعبۃ سفیان فالقول قول سفیان، قال: وقد أجمع الحفاظ: البخاري وغیرہ علی أن شعبۃ أخطأ فقد روي من أوجہ: فجھر بھا۔‘‘ انتھی (نصب الراویۃ ۱؍۲۷۱(
’’ دارقطنی نے اس طرح کہا ہے کہ شعبہ نے کہا ہے: آپﷺ نے آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو چھپایا۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں اس سلسلے میں وہم ہوا ہے، کیونکہ سفیان ثوری اور محمد بن سلمہ بن کہیل وغیرہ نے سلمہ کے واسطے سے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ آپﷺ نے آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کیا اور یہی بات درست ہے۔ صاحب ’’ التنقیح‘‘ نے شعبہ کی اس حدیث میں طعن کیا ہے، کیونکہ انھی سے مروی روایت اس کے خلاف ہے، جیسا کہ بیہقی نے اپنی سنن میں ابو الولید طیالسی کے واسطے سے تخریج کی ہے، انھوں نے کہا ہے کہ ہم سے شعبہ نے سلمہ بن کہیل کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے حجر ابو عنبس کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا وائل حضرمی کے واسطے سے کہ انھوں نے نبیﷺ کے پیچھے نماز پڑھی اور جب ( وَلَا الضَّآلِیْنَ ) کہا تو آمین کہا اپنی آواز کو بلند کرتے ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ یہ روایت سفیان کی روایت کے موافق ہے اور بیہقی نے ’’المعرفہ‘‘ میں کہا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے اور شعبہ کہا کرتے تھے کہ سفیان کا حافظہ زیادہ قوی ہے اور یحییٰ قطان اور یحییٰ بن معین نے کہا کہ جب شعبہ، سفیان کی مخالفت کریں تو سفیان کا قول ہی معتبر ہے، انھوں نے کہا کہ بخاری وغیرہ حفاظ کا اجماع ہے کہ شعبہ نے خطا کی ہے، کیونکہ کئی صورتوں سے مروی ہے کہ آپ نے آمین بالجہر کہا ہے۔ ختم شد۔‘‘
اور امام ابن القیم نے حدیثِ سفیان کو حدیثِ شعبہ پر چھ وجہوں سے ترجیح دیا ہے۔ جیسا کہ کہا ’’ إعلام الموقعین عن رب العالمین‘‘ میں:
’’ المثال التاسع والخمسون: ترک السنۃ المحکمۃ الصحیحۃ في الجھر بآمین في الصلاۃ کقولہ في الصحیحین : إذا أمّن الإمام فأمنوا فإنہ من وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ ولولا جھرہ بالتامین لما أمکن المأموم أن یؤمن معہ، ویوافقہ في التأمین، وأصرح من ھذا حدیث سفیان الثوري عن سلمۃ بن کھیل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر قال : کان رسول اللہ ﷺ إذا قال : ( ولا الضالین) قال: آمین، ورفع بھا صوتہ، وفي لفظ: وطوّل بھا۔ رواہ الترمذي وغیرہ، واسنادہ صحیح، وقد خالف شعبۃ سفیان في ھذا الحدیث فقال: وخفض بھا صوتہ۔ وحکم أئمۃ الحدیث وحفاظہ في ھذا لسفیان، فقال الترمذي: سمعت محمد بن إسماعیل یقول: حدیث سفیان الثوري عن سلمۃ بن کھیل في ھذا الباب أصح من حدیث شعبۃ، وأخطأ شعبۃ في ھذا الحدیث في مواضع، فقال: عن حجر أبي العنبس، وإنما کنیتہ أبو السکن، وزاد فیہ: علقمۃ بن وائل، وإنما ھو حجر بن عنبس عن وائل بن حجر، لیس فیہ علقمۃ، وقال: خفض بھا صوتہ، والصحیح أنہ جھر بھا صوتہ، قال الترمذي: سألت أبا زرعۃ عن حدیث سفیان وشعبۃ ھذا، فقال: حدیث سفیان أصح من حدیث شعبۃ، وقد رویٰ العلاء بن صالح عن سلمۃ بن کھیل نحو روایۃ سفیان، وقال الدارقطني: کذا قال شعبۃ: وأخفی بھا صوتہ، ویقال: إنہ وھم فیہ، لأن سفیان الثوري ومحمد بن سلمۃ بن کھیل وغیرھما رووہ عن سلمۃ فقالوا: ورفع صوتہ بآمین وھو الصواب، وقال البیھقي: لا أعلم اختلافاً بین أھل العلم بالحدیث أن سفیان وشعبۃ إذا اختلفا فالقول قول سفیان، وقال یحییٰ بن سعید: لیس أحد أحب إلي من شعبۃ، ولا یعدلہ عندي أحد، وإذا خالفہ سفیان أخذت بقول سفیان، وقال شعبۃ: سفیان أحفظ مني۔ فھذا ترجیح لروایۃ سفیان، وترجیح ثان وھو متابعۃ العلاء بن صالح و محمد بن سلمۃ بن کھیل لہ، وترجیح ثالث وھو أن أبا الولید الطیالسي، وحسبک بہ، رواہ عن شعبۃ بوفاق الثوري في متنہ، فقد اختلف علی شعبۃ کما تری، قال البیھقي: فیحتمل أن یکون تنبہ لذلک فعاد إلی الصواب في متنہ، وترک ذکر علقمۃ في إسنادہ، وترجیح رابع، وھو أن الروایتین لو تقادمتا لکانت روایۃ الرافع متضمنۃ لزیادۃ، وکانت أولی بالقبول، وترجیح خامس، وھو موافقتھا وتفسیرھا لحدیث أبي ھریرۃ: إذا أمن الإمام فأمنوا فإن الإمام یقول آمین، والملائکۃ تقول آمین، فمن وافقت تأمینہ تأمین الملائکۃ غفرلہ، وترجیح سادس، وھو ما رواہ الحاکم بِإسناد صحیح عن أبي ھریرۃ قال : کان رسول اللہ ﷺ إذا فرغ من قراءۃ أم القرآن رفع صوتہ بآمین، ولأبي داود بمعناہ، وزاد بیانا فقال: قال : آمین، حتی یسمع من یلیہ من الصف الأول، وفي روایۃ عنہ: کان النبي ﷺ إذا قال غیر المغضوب علیھم ولا الضالین، وعندہ أیضا عنہ عن النبيﷺ: إذا قرأ ولا الضالین رفع صوتہ بآمین، وعند أبي داود عن بلال أنہ قال للنبيﷺ : لا تسبقني باامین۔ قال الربیع: سئل الشافعي عن الإمام: ھل یرفع صوتہ بآمین؟ قال: نعم، ویرفع بھا من خلفہ أصواتھم، فقلت: وما الحجۃ؟ قال: أنا مالک، وذکر حدیث أبي ھریرۃ المتفق علی صحتہ، ثم قال: ففي قول رسول اللہﷺ : إذا أمن الإمام فأمنوا۔ دلالۃ علی أنہ أمر الإمام أن یجھر بآمین، لأن من خلفہ لا یعرفون وقت تأمینہ إلا بأن یسمع تأمینہ، ثم بینہ ابن شھاب فقال: وکان رسول اللہﷺ یقول آمین۔ فقلت للشافعي: فإنا نکرہ للإمام أن یرفع صوتہ بآمین، فقال: ھذا خلاف ما روی صاحبنا وصاحبکم عن رسول اللہﷺ و لو لم یکن عندنا وعندھم علم إلا ھذا الحدیث الذي ذکرناہ عن مالک فینبغي أن یستدل أن النبيﷺ کان یجھر بآمین، وإنہ أمر الإمام أن یجھر بھا، فکیف ولم یزل أھل العلم علیہ؟ وروی وائل بن حجر أن النبيﷺ کان یقول آمین یرفع بھا صوتہ، ویحکي مدّہ إیاھا، وکان أبو ھریرۃ یقول للإمام: لا تسبقنی بآمین، وکان یؤذن لہ۔ أنبأنا مسلم بن خالد عن ابن جریج عن عطاء : کنت أسمع الأئمۃ ابن الزبیر ومن بعدہ یقولون آمین، ومن خفلھم آمین حتی أن للمسجد للجۃ، وقولہ: کان أبوھریرۃ یقول للإمام : لا تسبقني بآمین۔ یرید ما ذکرہ البیھقي بإسنادہ عن أبي رافع أن أبا ھریرۃ کان یؤذن لمروان بن الحکم فاشترط أن لا یسبقہ بالضالین حتی یعلم أن قد وصل الصف فکان مروان إذا قال : ولا الضالین۔ قال أبوھریرۃ: آمین، یمد بھا صوتہ، وقال: إذا وافق تأمین أھل الأرض تأمین أھل السماء غفرلھم، وقال عطاء : أدرکت مائتین من أصحاب رسول اللہ ﷺ في ھذا المسجد، إذا قال الإمام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین، سمعت لھم رجۃ بآمین۔‘‘ (إعلام الموقعین لابن القیم ۲؍ ۳۹۶(
’’ انسٹھویں مثال: سنت محکمہ صحیحہ کو چھوڑ دینا نماز میں آمین بالجہر کہنے میں، جیسا کہ صحیحین میں منقول ہے کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس نے آمین کہنے میں ملائکہ کی موافقت کی، اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ اگر آمین امام نے زور سے نہیں کہا تو مقتدیوں کے لیے ممکن نہیں کہ وہ امام کے ساتھ آمین کہہ سکیں اور آمین کہتے ہوئے اس کی موافقت کرسکیں۔ اس سے زیادہ صراحت والی حدیث سفیان ثوری کی ہے جو سلمہ بن کہیل کے واسطے سے روایت کرتے ہیں، وہ حجر بن عنبس کے واسطے سے، وہ وائل بن حجر کے واسطے سے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ جب (وَلَا الضَّآلِیْنَ)کہتے تو آمین کہتے اور اپنی آواز بلند کرتے۔ دوسرے لفظ میں ہے کہ آپﷺ نے بھی آمین کہا۔ اس کی روایت ترمذی وغیرہ نے کی ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ اس حدیث میں شعبہ نے مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ آپ نے اپنی آواز آمین کہتے ہوئے پست رکھی۔ ائمہ حدیث اور حفاظ نے اس حدیث میں سفیان کے حق میں حکم لگایا ہے۔ ترمذی نے کہا ہے کہ میں نے محمد بن اسماعیل کو کہتے ہوئے سنا: سفیان ثوری کی حدیث سلمہ بن کہیل کے واسطے سے اس باب میں شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، شعبہ نے اس حدیث میں کئی جگہوں پر غلطی کی ہے۔ (۱) انھوں نے بواسطہ حجر ابوالعنبس کہا ہے، حالانکہ ان کی کنیت ابو السکن ہے۔ (۲) اس میں علقمہ بن وائل کی زیادتی کردی ہے، جبکہ وہ حجر بن عنبس بواسطہ وائل بن حجر ہیں، اس میں علقمہ نہیں ہیں۔ (۳) یہ کہا ہے کہ آپﷺ نے اپنی آواز کو پست رکھا۔ جبکہ صحیح یہ ہے کہ آپﷺ نے بآواز بلند کہا۔ ترمذی نے کہا ہے کہ میں نے ابو زرعہ سے سفیان اور شعبہ کی اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور علابن صالح نے روایت کی ہے سلمہ بن کہیل کے واسطے سے سفیان کی روایت کی طرح، اور دارقطنی نے کہا ہے کہ شعبہ نے کہا: آپﷺ نے اپنی آواز کو مخفی رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ شعبہ کو اس سلسلے میں وہم ہوا ہے، کیونکہ سفیان اور محمد بن سلمہ بن کہیل وغیرہ نے سلمہ کے واسطے سے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ آپ نے آمین زور سے کہا اور یہی درست ہے۔ بیہقی نے کہا ہے کہ اہل علم کے درمیان حدیث کے سلسلے میں کسی اختلاف سے واقف نہیں کہ سفیان اور شعبہ میں جب اختلاف ہو جائے تو سفیان کا قول ہی معتبر ہے۔ یحییٰ بن سعید نے کہا ہے کہ مجھے شعبہ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں ہے اور میرے نزدیک کوئی ان کے برابر نہیں ہے، لیکن جب سفیان اس کی مخالفت کرتے ہیں تو میں ان کے قول کو ترجیح دیتا ہوں۔ شعبہ نے خود کہا ہے کہ سفیان مجھ سے زیادہ یاد رکھنے والے ہیں، پس یہ سفیان کی روایت کی ترجیح ہے۔ دوسری ترجیح علاء بن صالح اور محمد بن سلمہ بن کہیل کی ان کے لیے متابعت ہے۔ تیسری ترجیح یہ ہے کہ ابو الولید الطیالسی، اور یہی کافی ہے، نے شعبہ کے واسطے سے روایت کی ہے جس کے متن میں ثوری کی مطابقت ہے۔ پس شعبہ پر اس حدیث میں اختلاف ہوگیا ہے، جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ بیہقی نے کہا ہے کہ اس بات کا احتمال ہے کہ وہ اس غلطی پر خبردار ہوگئے ہوں اور وہ اس کے متن میں صواب اور درستی کی طرف لوٹ آئے ہوں اور اپنی سند میں علقمہ کا ذکر ترک کردیا ہو۔ چوتھی ترجیح یہ ہے کہ جب دو روایتیں باہم متصادم ہوں تو رافع کی روایت زیادتی کو متضمن ہوگی اور قبولت کے لیے زیادہ مناسب ہوگی۔ پانچویں ترجیح یہ ہے کہ وہ ابوہریرہ کی حدیث کے موافق ہے کہ ’’ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جب امام آمین کہتا ہے تو فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، پس جس نے آمین کہنے میں ملائکہ کی تامین کی موافقت کی تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔‘‘ چھٹی ترجیح وہ روایت ہے جو حاکم نے صحیح سند کے ساتھ ابوہریرہ کے واسطے سے بیان کی ہے کہ رسول اللہﷺ جب ام القرآن کی قراءت سے فارغ ہوتے تو با آواز بلند آمین کہتے۔ ابوداود کی روایت بھی اسی معنی میں ہے۔ البتہ اس میں اتنی زیادتی ہے کہ آپﷺ نے آمین اتنی زور سے کہا کہ آپﷺ کے اردگرد پہلی صف کے لوگوں نے سنا۔ انھی کے واسطے سے ایک روایت میں ہے کہ نبی ﷺ جب ﴿ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ کہتے تو آمین کہتے ہوئے آواز بلند کرتے اور اسی کا حکم دیتے۔ بیہقی نے علی کے واسطے سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو آمین کہتے ہوئے سنا، جبکہ انھوں نے ﴿ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ کی قراءت کی۔ انھی کے واسطے سے ان کے ہاں ایک اور روایت ہے کہ نبی ﷺ جب ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ کی قراءت کرتے تو آمین کہتے ہوئے اپنی آواز بلند کرتے۔ ابوداود کے نزدیک بلال کے واسطے سے روایت ہے کہ بلال نے آپﷺ سے کہا کہ آپ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کریں۔ ربیع نے کہا کہ امام شافعی سے امام کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ آمین کہتے ہوئے اپنی آواز بلند کرے گا؟ تو انھوں نے کہا کہ ہاں، اور اس کے مقتدی زور سے آمین کہیں گے۔ پھر میں نے پوچھا: دلیل کیا ہے؟ انھوں نے کہا: مجھے مالک نے بتایا اور پھر ابوہریرہ کی متفق علیہ صحیح حدیث بیان کی۔ پھر کہا کہ رسول اللہﷺ کے فرمان میں ہے کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، یہ اس بات پر دال ہے کہ امام کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ آمین الجہر کہے، کیونکہ اس کے پیچھے جو لوگ ہیں وہ آمین کہنے کا وقت نہیں جانتے الا یہ کہ وہ امام کی آمین سن لیں۔ پھر اس کی وضاحت ابن شہاب نے کی اور کہا کہ رسول اللہﷺ آمین کہتے تھے۔ میں نے شافعی سے کہا کہ میں امام کے لیے ناپسند کرتا ہوں کہ وہ آمین زور سے کہے۔ تو انھوں نے جواب دیا: ہمارے اور تمھارے اصحاب کی اس روایت کے خلاف ہے، جو انھوں نے رسول اللہﷺ کے واسطے سے روایت کی ہے۔ اگر ہمارے پاس اور ان کے پاس اس حدیث کے علاوہ اور کوئی علم نہ ہوتا جس کا ذکر ہم نے مالک کے واسطے سے کیا ہے تو چاہیے کہ استدلال کیا جائے کہ نبیﷺ آمین بالجہر کہتے تھے اور آپﷺ نے امام کو حکم دیا ہے کہ وہ آمین بالجہر کہے۔ تو کیسے ممکن ہے جبکہ اہل علم اسی پر قائم ہیں اور وائل بن حجر نے روایت کی ہے کہ نبیﷺ آمین کہتے ہوئے اپنی آواز بلند کرتے تھے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آپﷺ نے اس کو لمبا کیا تھا اور ابوہریرہ امام سے کہا کرتے تھے کہ آمین کہنے میں مجھ سے سبقت نہ کرو اور وہ ان کے لیے اذان دیا کرتے تھے۔ ہمیں بتایا مسلم بن خالد نے ابن خریج کے واسطے سے اور وہ عطا کے واسطے سے کہ میں ابن زبیر اور ان کے بعد کے ائمہ سے سنتا آیا ہوں وہ لوگ آمین کہتے ہیں اور ان کے مقتدی بھی آمین کہتے ہیں، یہاں تک کہ مسجد میں ایک گونج پیدا ہوجاتی ہے اور ابوہریرہ امام کو کہا کرتے تھے کہ آمین کہتے ہوئے مجھ پر سبقت نہ کرو اس سے مراد بیہقی کی وہ روایت ہے جو صحیح سند کے ساتھ ابو رافع کے واسطے سے مروی ہے کہ ابوہریرہ مروان بن حکم کے لیے اذان دیتے تھے تو انھوں نے شرط لگائی کہ ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ پر وہ سبقت نہیں کریں گے، یہاں تک کہ وہ جان لیں کہ وہ صف میں شامل ہوگئے ہیں تو مروان جب کہتا: ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ تو ابوہریرہ آمین کہتے اور اپنی آواز کھینچتے اور کہا کہ جب اہل زمین کی آمین کہنا اہل سما کی آمین سے موافقت کرتی ہے تو ان کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ عطاء نے کہا ہے کہ میں نے اس مسجد میں دو سو صحابہ کرام کو پایا ہے، جب امام ﴿ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾کہتا تو میں ان کی آمین کی گونج سنتا۔‘‘
اور کہا حافظ ابن حجر نے ’’ درایہ في تخریج أحادیث الھدایۃ‘‘ میں:
’’ وفي الباب عن علقمۃ بن وائل عن أبیہ أنہ صلی مع النبيﷺ فلما بلغ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین قال: آمین، وأخفی بھا صوتہ۔ أخرجہ أحمد والدارقطني والحاکم وأبویعلی والطبراني والطیالسي، قال الدارقطني: یقال : إن شعبۃ وھم فہ، فإن الثوري رواہ عن شیخ شعبۃ، فیہ : فقال: ورفع بھا صوتہ، وقد روی أبوداود الطیالسي عن شعبۃ مثل روایۃ الثوري فعلی ھذا فقد اختلف فیہ علی شعبۃ، وروایۃ أبي الولید عند البیھقي، وروایۃ الثوري عند أبي داود والترمذي، ونقل من البخاري وأبي زرعۃ أن روایۃ الثوري أصح من روایۃ شعبۃ، ثم أخرجہ من وجہ آخر موافق لروایۃ الثوري بلفظ : أنہ صلی فجھر بآمین‘‘ انتھی (الدرایۃ ۱؍۱۳۹(
’’ اس باب میں علقمہ بن وائل کے واسطے سے روایت ہے، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے نبیﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، جب ﴿ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ پر پہنچے تو آمین کہا اور اپنی آواز کو چھپایا۔ اس کی تخریج احمد، دارقطنی، حاکم، ابو یعلی اور طبرانی نے کی ہے۔ دارقطنی نے کہا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ شعبہ کو اس میں وہم ہوا ہے، کیونکہ ثوری نے اسی کی روایت شعبہ کے شیخ کے واسطے سے کی ہے، جس میں یہ ہے کہ آپﷺ نے اپنی آواز کو بلند کیا۔ ابو داود طیالسی نے یہی روایت شعبہ سے ثوری کے موافق بیان کی ہے۔ پس اس بنیاد پر شعبہ کے سلسلے میں اختلاف واقع ہوا۔ بیہقی کے ہاں ابو الولید کی روایت اور ابوداود اور ترمذی کے ہاں ثوری کی روایت ہے۔ بخاری اور ابوزرعہ کے واسطے سے نقل کیا گیا ہے کہ ثوری کی روایت شعبہ کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ پھر اس کی تخریج دوسری طرح سے جو ثوری کی روایت کے موافق ہے، اس لفظ کے ساتھ کی ہے کہ آپﷺ نے آمین بالجہر کہا۔ ختم شد۔‘‘
حاصل کلام یہ ہوا کہ روایت شعبہ کی جس میں ’’ خفض بھا صوتہ‘‘ ہے، وہ مرجوح اور شاذ ہے اور وہ روایت شعبہ کی جس میں ’’ رفع بھا صوتہ‘‘ ہے، وہ راجح ہے، کیونکہ اس روایت میں شعبہ نے اور حفاظوں کی موافقت کی ہے۔ پس یہی روایت احری بالقبول ہوگی۔
قولہ: ’’ حاصل کلام یہ ہے کہ اس حدیث وائل بن حجر سے حدیث نمبر اول و سوم و نمبر ہفتم کا معارضہ ہوا۔ پس بحکم قاعدہ مسلمہ ’’ إذا تعارضا تساقطا‘‘ بوجہ تعارض حدیث نمبر اول و نمبر سوم و نمبر ہفتم ساقط الاعتبار ہوگئیں، ان سے استدلال کرنا درست نہیں رہا۔‘‘
أقول: حدیث وائل بن حجر کی جس کو شعبہ نے بلفظ ’’ أخفی بھا صوتہ‘‘ روایت کیا ہے، اس کو صلاحیت معارضہ کی ساتھ ان احادیث صحیحہ کے جن میں لفظ ’’ رفع بھا صوتہ‘‘ کا آیا ہے، نہیں ہے۔ کیونکہ معارضہ کے لیے مساوات شرط ہے اور اوپر ثابت ہوچکا کہ حدیث شعبہ بلفظ ’’ أخفی بھا صوتہ‘‘ مرجوح اور شاذ ہے۔ پس حدیث مرجوح اور شاذ حدیث راجح کی کیوں کر معارض پڑے گی؟ اس لیے کہ مخالفتِ حدیث ضعیف، حدیث صحیح میں مؤثر نہیں ہوتی۔
اور برتقدیر تسلیم صحتِ حدیث اسرار آمین کے توفیق بین الاحادیث اس طور پر دی جاوے گی کہ بسا اوقات آپ نے جہر کیا اور بسا اوقات اسرار کیا اور یہ برتقدیر ثبوت احادیث سریہ کے ہے، اور حال یہ ہے کہ مرفوعاً بسند صحیح ثابت نہیں، پس وہی جہر متعین رہا۔
اور قاعدہ مسلمہ ’’ إذا تعارضا تساقطا‘‘ کو اپنے گھر میں رکھ چھوڑیے۔ ادلہ شرعیہ میں یہ قاعدہ جاری نہیں ہوسکتا، بلکہ اطلاق تساقط کا ادلہ شرعیہ پر دریدہ دہنی اور بیہودہ گوئی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں کارخانہ دین کا درہم برہم ہو جائے گا۔ اسی واسطے ائمہ محدثین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کے لیے قواعد و اصول مقرر کردیے ہیں۔ خلاصہ ان کے قواعد مقررہ کا یہ ہے کہ حدیث مقبول جو ایک قسم ہے حدیث کی اگر سالم ہے معارضہ سے، یعنی کوئی حدیث اس کی مخالف نہ ہو تو اس کو محکم کہتے ہیں اور اگر کوئی اس کا معارض ہو تو اتنی صورتوں سے خالی نہیں، یا معارض اس کا مقبول ہوگا مثل اس کے، یا معارض اس کا مردود ہوگا، برتقدیر ثانی مخالفت حدیث ضعیف کی اثر نہ کرے گی حدیث صحیح میں، اور برتقدیر اول یعنی معارض اس کا مثل اس کے مقبول ہو، پس اگر توفیق و تطبیق درمیان ان کے ممکن ہو بغیر تکلف و تعسف کے تو اس کو ’’ مختلف الحدیث‘‘ کہتے ہیں۔
اور اگر توفیق ممکن نہ ہو پس دو حالتوں سے خالی نہیں:
اول: یہ کہ تاریخ معلوم ہو، یعنی ثابت ہو جائے کہ حدیث متاخر کون سی ہے اور حدیث متقدم کون؟ پس حدیث متاخر کو ناسخ اور متقدم کو منسوخ کہتے ہیں۔
دوم: یہ کہ تاریخ معلوم نہ ہو، پس اس صورت میں اگر کسی وجہ سے بھی منجملہ وجوہاتِ ترجیح جو متعلق ساتھ متن و اسناد کے ہیں ترجیح ثابت ہو تو وہ مرجح ٹھہرے گی اور اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو تو وہاں پر احد الحدیثین کے عمل سے توقف کرنا ہوگا، تاوقت ترجیح کے۔
جیسا کہ کہا حافظ ابن حجر نے ’’ شرح نخبۃ الفکر‘‘ میں:
’’ ثم المقبول إن سلم من المعارضۃ أي لم یأت خبر یضادہ فھو المحکم، وأمثلتہ کثیرۃ، وإن عورض فلا یخلو إما أن یکون معارضہ مقبولا مثلہ أو یکون مردودا، والثاني لا أثر لہ لأن لاقوي لا یؤثر فیہ مخالفۃ الضعیف، وإن کانت المعارضۃ بمثلہ فلا یخلو إما أن یمکن الجمع بین مدلولیھما بغیر تعسف أو لا، فإن أمکن الجمع فھو النوع المسمی بمختلف الحدیث، وإن لم یمکن الجمع فلا یخلو إما أن یعرف التاریخ أولا، فإن عرف وثبت المتأخر بہ أو بأصرح منہ فھو الناسخ والآخر المنسوخ، وإن لم یعرف التاریخ فلا یخلو إما أن یکون ترجیح أحدھما علی الآخر بوجہ من وجوہ الترجیح المتعلقۃ بالمتن أو بالإسناد أو لا، فإن أمکن الترجیح تعین المصیر إلیہ وإلا فلا … فالترجیح إن تعین، ثم التوقف عن العمل بأحد الحدیثین، والتعبیر بالتوقف أولی من التعبیر بالتساقط، لأن خفاء ترجیح أحدھما علی الآخر إنما ھو بالنسبۃ للمعتبر مع احتمال أن یظھر لغیرہ ما خفي علیہ۔‘‘ انتھی ملخصًا (نزھۃ النظر في توضیح نخبۃ الفکر ص:۹۷(
’’ پھر جو مقبول روایت ہے، اگر وہ معارضے سے محفوظ ہو۔ یعنی کوئی خبر اور حدیث اس کی مخالفت میں نہیں آئی، تو ایسی حدیث محکم ہے اور اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ اگر اس کی مخالفت میں کوئی دوسری بھی آگئی تو مخالفت میں آنے والی حدیث کی بھی صرف دو ہی صورتیں ہیں۔ پہلی صورت: یا تو مخالفت میں آنے والی روایت اور حدیث بھی اس کی طرح مقبول درجے ہی کی ہو۔ دوسری صورت: یا پھر مخالفت میں آنے والی روایت اور حدیث مقبول درجے کی نہ ہو، بلکہ مردود ہو۔ اگر مقبول روایت کی مخالفت میں کوئی ضعیف حدیث یا مردود روایت آگئی تو اس کے آجانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ قوی اور مقبول (مستند) روایت کے مقابلے میں ضعیف روایت کے آجانے سے صحیح روایت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر مقبول روایت کے مقابلے میں جو روایت آئی ہے وہ بھی مقبول اور صحیح ہی ہے تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ پہلی حالت: یا تو ان دونوں میں بظاہر اختلاف کا شکار روایات کے مضامین کو علمی اصولوں کی روشنی میں جمع کیا جاسکتا ہے اور بہ ظاہر نظر آنے والے اختلافات کا ازالہ بغیر تکلف کے کیا جاسکتا ہے۔ دوسری حالت: یا پھر ان دو صحیح روایات میں اختلافات ایسی نوعیت کے ہوں گے جن میں ختم کرکے کوئی ترجیح یا وضاحت نہیں پیش کی جاسکتی۔ اب اگر ان دونوں روایات کے مضامین اور ان سے حاصل شدہ معلومات کے درمیان جو تعارض اور اختلاف ہے، اگر ان کا علمی اصولوں کی مدد سے ازالہ کیا جاسکتا ہے تو اس طرح کی روایات کو اصولِ حدیث میں ’’مختلف الحدیث‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر ایسی روایات کو آپس میں جمع نہیں کیا جاسکتا اور ان میں پائے جانے والے اختلافات کا ازالہ ممکن نہ ہو تو پھر اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت: یا تو ان دونوں حدیثوں کی تاریخ معلوم ہو جائے۔ دوسری صورت: یا پھر ان دونوں حدیثوں کی تاریخ معلوم نہ ہو۔ اگر دونوں حدیثوں اور روایات کی تاریخ معلوم ہو جائے تو جو روایت تاریخی اعتبار سے بعد میں واقع ہوئی یا تاریخی اعتبار سے بھی زیادہ واضح چیز سے ثابت ہوگئی، تو اسی کو ناسخ کہا جائے گا اور دوسری روایت کو منسوخ کہا جائے گا۔ اگر ان دونوں حدیثوں کی تاریخ معلوم نہ ہوسکی کہ ان میں سے کون سی پہلے واقع ہوئی اور کون سی بعد میں واقع ہوئی ہے تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت: یا تو ان میں سے کسی ایک روایت کو دوسری روایت پر سند اور متن سے متعلق جو ترجیح کے اصول ہیں، ان اصولوں کی روشنی میں کسی ایک روایت کو راجح قرار دیا جاسکے۔ دوسری صورت: کسی ایک روایت کو دوسری روایت پر ترجیح اور فوقیت نہ دی جاسکے، پھر اگر ان دونوں روایات میں سے کسی ایک کو دوسری روایت پر ترجیح دی جاسکتی ہے، توپھر سو فی صد ضروری اور لازمی ہے کہ ہم اس راجح روایت کو لے لیں۔ اگر ہم ان دونوں روایات میں سے کسی ایک کو دوسرے پر راجح قرار نہ دے سکیں، تو ایسی صورت میں ان دونوں میں سے کسی ایک پر عمل کو موقوف کردیا جائے گا۔ پھر یہاں یہ کہنا کہ اس پر عمل کو موقوف کردیا جائے گا، یہ کہنے سے زیادہ بہتر ہے کہ ہم یوں کہیں کہ کسی ایک روایت کو ساقط کردیا جائے گا۔ کیونکہ اگر کسی شخص پر ان دو روایات میں سے کسی ایک کو دوسرے پر راجح قرار دینا مخفی اور پوشیدہ ہو تو ایسی حالت میں اس بات کی گنجایش تو ضرور موجود ہے کہ حدیث کے کسی دوسرے عالم پر ایسی بات اور ایسے علمی نکات واضح ہوجائیں، جو پچھلے عالم حدیث پر واضح نہ ہوسکے ہوں۔ یہاں تک حافظ ابن حجر کی بات مختصراً اختتام کو پہنچی۔‘‘
اور کہا علامہ علی قاری نے شرح الشرح میں:
’’ والثاني المردود لا أثر لہ أي لا تأثیر لہ في أن یکون مقابلا فضلا أن یکون معارضا ومناقضا لأن القوي أعم من أن یکون صحیحا أو حسنا لا یؤثر فیہ مخالفۃ الضعیف لعدم العمل بہ۔‘‘ انتھی (شرح شرح نخبۃ الفکر للملا علی القاري ص:۳۶۲(
’’ دوسری مردود ہے۔ جن کا کوئی اثر نہ ہو یعنی تاثیر نہ ہو اس معاملے میں کہ وہ مقابل ہوسکے، چہ جائیکہ وہ معارض اور مناقض ہو، کیونکہ قوی روایت خواہ وہ صحیح ہو یا حسن، اس میں ضعیف پر عمل نہ کرنے کی بنا پر ضعیف کی مخالفت موثر نہیں ہوتی۔ ختم شد۔‘‘
اور بھی کہا ملا علی قاری نے شرح شرح نخبۃ الفکر میں:
’’ أي علی ما اشتھر علی الألسنۃ من أن الدلیلین إذا تعارضا تساقطا أي تساقط حکمھما، وھو یوھم الاستمرار مع أن الأمر لیس کذلک لأن سقوط حکمھما إنما ھو لعدم ظھور ترجیح أحدھما حینئذ، ولا یلزم منہ استمرار التساقط مع أن إطلاق التساقط علی الأدلۃ الشرعیۃ خارج عن سنن الآداب السنیۃ۔‘‘ (مصدر سابق ص: ۳۸۷(
’’ جیسا کہ زبان زد عام ہے کہ جب دو دلیلیں باہم متعارض ہوں تو ساقط ہو جاتی ہیں، یعنی ان کا حکم ساقط ہو جاتا ہے۔ اس میں یہ وہم باقی رہتا ہے کہ یہ تساقط کا حکم ہمیشہ باقی رہے، حالانکہ کبھی معاملہ ایسا نہیں بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ اس کے حکم کا سقوط اس وقت کسی ایک کی ترجیح کے نہ ہونے کی بنا پر ہوتا ہے اور اس سے استمرار تساقط لازم نہیں آتا ہے۔ علاوہ ازیں اطلاق تساقط کا شرعی دلائل پر آداب سنیہ سے خارج ہیں۔‘‘
اور فرمایا حافظ امام زین الدین عراقی نے الفیہ کے بیان مختلف الحدیث میں:
والمتن إن نافاہ متن آخر وأمکن الجمع فلا تنافر
أولا فإن نسخ بدا فاعمل بہ أولا فرجح واعملن بالأشبہ
)ألفیۃ العراقي ص: ۴۴(
’’ متن کی نفی اگر دوسرا متن کرے اور ان کے درمیان جمع ممکن ہو تو اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اگر نسخ معلوم ہو جائے تو وہ ہی قابلِ عمل ہوگا، پھر ترجیح اور زیادہ راجح پر عمل ہوگا۔‘‘
اور کہا ’’ فتح الباقي شرح ألفیۃ العراقي‘‘ میں:
’’ و ’’ أمکن الجمع‘‘ بینھما بما یرفع المنافاۃ ’’ فلا تنافر‘‘ أي منافاۃ بینھما، بل یصار إلیہ ویعمل بھما فھو أولیٰ من إھمال أحدھما فإن الأصل في الدلائل الإعمال لا الإھمال إذا أمکن الجمع بینھما انتھی۔ ’’ أو لا‘‘ أي وإن لم یمکن الجمع بینھما۔ ’’فإن نسخ بدا‘‘ أي ظھر، ’’ فاعمل بہ‘‘ أي بمقتضاہ۔ ’’ أولا‘‘ أي أو لم یبد نسخ ’’ فرجح‘‘ أحد المتن بوجہ من وجوہ الترجیحات المتعلقۃ بالمتن أو بإسنادہ ککون أحدھما سماعا أو عرضا والآخر کتابۃ أو وجادۃ أو مناولۃ وککثرۃ الرواۃ وصفاتھم إلی غیر ذلک مما یرتقي إلی خمسین وجھا، جمعھا الإمام أبوبکر الحازمي في کتاب الناسخ والمنسوخ ، و ’’ اعملن بالأشبہ‘‘ أي بالأرجح منھما فإن لم تجد مرجحا فتوقف عن العمل بشيء منھما حتی یظھر الأرجح۔‘‘ انتھی مختصرا (فتح الباقي ۲؍۱۸۰، ۱۸۱(
’’ ان دونوں کے درمیان جمع ممکن ہو جو منافات کو رفع کردے تو کوئی منافات نہیں۔ بلکہ اسی کے مطابق عمل کیا جائے گا، کسی ایک کو مہمل قرار دینے کے مقابلے میں یہ زیادہ بہتر ہے، کیونکہ دلائل میں اصل عمل کرنا ہے نہ کہ مہمل قرار دینا، جب کہ دونوں کے درمیان جمع ممکن ہو۔ اگر ان کے درمیان جمع ممکن نہ ہو اور نسخ ظاہر ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا، یعنی اس کے مطابق عمل ہوگا یا ایسا نہ ہو اور کوئی نسخ ہی ظاہر نہ ہو تو ایک متن کو ترجیح دی جائے گی متن یا سند سے متعلق ترجیحات کی صورتوں میں سے کسی ایک صورت کی بنا پر، جیسے کہ سماعت کے اعتبار سے یا عرض کے اعتبار سے اور دوسرا کتابت کے اعتبار سے یا اجادہ یا مناولہ کے اعتبار سے ہو، نیز کثرتِ رواۃ اور ان کی صفات کے اعتبار سے۔ اس طرح کی تقریباً پچاس صورتیں ہیں جن کو امام ابوبکر حازمی نے اپنی کتاب ’’ الناسخ و المنسوخ‘‘ میں جمع کردیا ہے۔ ان دونوں میں سے زیادہ راجح پر ترجیحی طور پر عمل کیا جائے گا اور اگر کوئی قابل ترجیح چیز نہ ہو تو عمل سے توقف کیا جائے گا، یہاں تک کہ کوئی زیادہ راجح ظاہر ہو جائے۔ ختم شد۔‘‘
اور بھی ہے ’’ فتح الباقي شرح ألفیۃ العراقي‘‘ میں بیچ بیان احادیث معلل کے:
’’ وبھذا الجمع سقطت دعوی أن ھذا اضطراب لا تقوم معہ حجۃ لأن شرط ھذا الاضطراب عدم إمکان الجمع و تساوي الطرق قوۃ وضعفا، وھذا لیس کذلک لأنہ قد أمکن الجمع ولم تتساو الطرق۔‘‘ انتھی (فتح الباقي ۱؍۲۶۸(
’’ اس جمع سے یہ دعویٰ ساقط ہوگیا کہ یہ ایسا اضطراب ہے جس کے ساتھ حجت قائم نہیں ہوسکتی، کیونکہ اس اضطراب کی شرط عدم امکان جمع ہے اور یہ کہ قوت اور ضعف کے اعتبار سے طرق مساوی ہونے چاہئیں اور یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ جمع کا امکان تو ہے لیکن طرق مساوی نہیں ہیں۔ ختم شد۔‘‘
پس یہاں پر کتنی وجوہ سے مرجوح ہونا حدیث کا شعبہ کی ثابت ہوچکا، پھر تعارض واقع ہونے کے کیا معنی؟
قولہ: اب ہم کو اس موقع پر یہ تحریر کرنا ضروری ہے کہ اگر خود آپ دیکھ سکتے ہیں تو کتاب اسماء الرجال کا مقابلہ کرلیجیے، ورنہ اپنے امام المحدثین سے تصدیق کرا لیجیے، دوسرے کسی شاگرد اور نو مسلم کی قیل و قال قابل سماعت نہ ہوگی۔
أقول: سبحان اللہ! آپ نے ساری احادیث بالجہر کے رواۃ کے بیان میں ایسی ایسی تحریفیں کیں اور خلاف دیانت باتیں لکھیں کہ اگر دنیا بھر کے الفاظ مذمومہ آپ کی شان میں استعمال کیے جائیں تو بجا ہے۔ اب سب کید آپ کا کھول دیا گیا۔ ازراہ انصاف آپ اپنے اس جھوٹے دعوے پر اس قدر نازاں ہیں کہ اس کی تصدیق کرلینے کو ارشاد فرماتے ہیں۔ اجی حضرت! اگر تلامذہ حضرت شیخ امام المحدثین۔ أدام اللہ فیوضہ علی رؤس الطالبین۔ کے آپ کو ہم کلام و مخاطب اپنا کریں تو فخر سمجھیے، اور ایک ایک تلامذہ حضرت شیخ کے ایسے ایسے نقاد ہیں کہ کھرے کو کھوٹے سے پہچان لیتے ہیں، وہ ایسے ایسے خفیف امور میں حاجت استفسار کی اپنے شیخ علامہ سے نہیں سمجھتے۔
قولہ: تکملہ ہم وہ باقی دس حدیثیں کہ جو محی الدین نو مسلم نے جہر آمین کے ثبوت میں ذکر کی ہیں، بیان کرکے ان سے استدلال پکڑنا درست ثابت کرتے ہیں، تاکہ محی الدین کے مریدوں کے دلوں میں ارمان نہ رہ جائے اور ان کی زنبیل میں جو کچھ ہے وہ اگل پڑے۔
اقول: آپ کے اور آپ کے ہم مشربوں کی زنبیل میں جو شے کہ تھی وہ اگل ہی پڑی، اب اچھلنے کودنے سے کیا ہوتا ہے؟ اور ابطالِ استدلال آپ تو کیا کرسکیں گے، اگر آپ کے سارے ہم مشرب اکٹھا ہو جاویں جب بھی نہیں ہوسکتا ہے۔
قولہ : حدیث نمبر ۱:
’’ عم عطاء رضی اللہ عنہ قال: أدرکت مائتین من الصحابۃ إذا قال الإمام : ولا الضالین۔ رفعوا أصواتھم بآمین، رواہ البیھقي وابن حبان في صحیحہ۔‘‘
’’ عطا کے واسطے سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے دو سو صحابہ کو پایا ہے جو آمین بالجہر کہتے تھے اس وقت جب امام ’’ ولا الضالین‘‘ کہتا تھا۔ اس کی روایت بیہقی نے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں کی ہے۔‘‘
اس کا جواب چند وجہ سے ہے:
اول: تو یہ اسی عطاء کا قول ہے کہ جس کو خود محی الدین نے آمین کے دعا ہونے میں رد کردیا۔ قولہ صفحہ (۱۷۴): ’’ اور آمین کا دعا ہونا نہ قرآن سے ثابت اور نہ حدیث سے۔ صرف عطا تابعی کے قول سے ثابت ہے اور وہ لائق اعتبار اور قابل حجت پکڑنے کے نہیں، کیونکہ بے دلیل بات ہے۔‘‘ انتہی۔ پس ہماری طرف سے بھی یہی جواب ہے۔
دوم: احادیث صحیحہ وہ آیات قرآنیہ کے مقابلے میں عطاء کا قول کیا وقعت رکھتا ہے؟
سوم: عطاء نے باوجودیکہ بے شمار صحابہ کو دیکھا، ان میں سے صرف چند شخصوں کو آمین پکار کر کہتے دیکھنا صریح دلیل ہے اس بات پر کہ اور صحابہ آمین پکار کر نہیں کہتے تھے۔‘‘
اقول: جواب وجہ اول کا یہ ہے کہ عطاء کا یہ جملہ کہ ’’ أدرکت مائتین من الصحابہ‘‘ یہ تو صحابہ کے حال کی حکایت ہے۔ یعنی عطاء نے جس طور پر صحابہ کو آمین کہتے سنا، اس کی حکایت کی اور اجتہاد کو اس میں دخل نہیں۔ بخلاف اس قول عطا کے کہ آمین دعا ہے، اس میں اجتہاد کو دخل ہے، کیونکہ عطا کے اجتہاد میں آمین کا دعا ہونا مرجح ٹھہرا ہے۔ پس حکایتِ احوال کو امر اجتہاد پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔
پس آپ کا خصم آپ کو کہہ سکتا ہے کہ ہم اس اجتہاد کو عطاء کے بغیر دلیل نہیں مان سکتے ہیں، بخلاف امر حکایت و اخبار کے کہ اس کے قبول کرنے سے نہ مجھ کو چارہ ہے نہ آپ کو، کیونکہ اس حکایت و خبر کے قبول نہ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ مخبر اور حاکی اس کا کاذب ہے اور جب کہ اس مخبر کی صداقت تسلیم کی جاچکی ہے تو اس کی خبر کی صداقت ضرور تسلیم کرنا پڑیگی، بخلاف اجتہاد کسی صادق ثقہ کے کہ بغیر برہان حجت نہیں۔ افسوس کہ آپ کو اس قدر بھی فرق نہیں معلوم ہوا۔
بہ بین تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا۔ (ذرا دیکھو کہ اس میں کہاں سے کہاں تک فرق ہے؟! (
اور یہ عطاء وہ شخص ہے کہ جس کی شان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ میں نے نہیں ملاقات کی کسی سے کہ وہ افضل ہو عطاء سے۔ (تاریخ بغداد ۱۳؍ ۴۲۵) اور روایت کی ہے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے عطاء سے بہت سی حدیثیں، منجملہ ان کے پچیس حدیثیں مسند امام اعظم ہیں، جو بروایت حصکفی ہے، موجود ہیں۔ عبارت اس کی یہ ہے: ’’ ذکر إسنادہ عن عطاء بن أبي رباح‘‘۔
اور بعد اس کے عطاء کی پچیس حدیثیں ہیں کہ جو امام نے ان سے روایت کیں۔ نقل اس کی موجب طوالت ہے۔
اور کہا حافظ ذہبی نے میزان میں:
’’ عطاء بن أبي رباح سید التابعین علما و عملا وإتقانا في زمانہ بمکۃ، روی عن عائشۃ وأبي ھریرۃ وکان حجۃ إماما کثیر الشأن، أخذ عنہ أبوحنیفۃ، وقال : ما رأیت مثلہ‘‘ انتھی (میزان الاعتدال ۳؍۷۰(
’’ عطاء بن ابی رباح جو علم، عمل اور اتقان کے اعتبار سے اپنے زمانے میں مکہ میں سید التابعین تھے، انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت کی ہے۔ یہ قابل حجت، امام اور کثیر الشان تھے۔ ان سے ابوحنیفہ نے اخذ علم کیا ہے اور کہا ہے کہ میں نے ان کے مثل نہیں دیکھا۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا ملا علی قاری نے ’’ شرح مسند امام اعظم‘‘ میں:
’’ وعطاء ھذا ابن أبي رباح، وھو من مشایخ الإمام فقد روی الترمذي في کتاب العلل من الجامع الکبیر: حدثنا محمد بن غیلان عن جریر عن یحییٰ الحماني قال : سمعت أبا حنیفۃ یقول: ما رأیت أکذب من جابر الجعفي، ولا أفضل من عطاء بن أبي رباح۔‘‘ انتھی (شرح مسند الإمام أبي حنیفۃ ص: ۲۵(
’’ اور عطاء۔ یہ ابن ابی رباح ہیں اور وہ بزرگ ائمہ میں سے ہیں۔ ترمذی نے اپنی ’’کتاب العلل من الجامع الکبیر‘‘ میں روایت کی ہے کہ ہمیں محمد بن غیلان نے جریر کے واسطے سے بیان کیا، وہ یحییٰ الحمانی کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے ابوحنیفہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے جابر جعفی سے زیادہ دروغ گو نہیں دیکھا اور عطاء بن ابی رباح سے زیادہ صاحبِ فضیلت کسی کو نہیں دیکھا۔ ختم شد۔‘‘
اور کہا خلاصہ میں:
’’ عطاء بن أبي رباح القرشي نزیل مکۃ، وأحد الفقھاء والأئمۃ، کان ثقۃ عالما کثیر الحدیث، انتھت إلیہ الفتوی بمکۃ، وقال أبوحنیفۃ: ما لقیت أفضل من عطاء، وقال ابن عباس، وقد سئل عن شيء : یا أھل مکۃ تجتمعون علي وعندکم عطاء۔‘‘ انتھی مختصرا (الخلاصۃ للخزرجي ص: ۲۶۶(
’’ عطاء بن ابی رباح القرشی مکہ میں سکونت پذیر ہوئے، فقہا اور ائمہ میں سے ایک ہیں۔ وہ ثقہ عالم اور کثیر الحدیث تھے۔ مکہ میں فتویٰ انھیں پر ختم تھا۔ ابوحنیفہ نے کہا کہ میں عطاء سے زیادہ صاحب فضیلت آدمی سے نہیں ملا۔ ابن عباس نے کہا ہے کہ جب کہ ان سے کسی چیز کی بابت کچھ پوچھا گیا کہ اے اہل مکہ! تم میرے گرد جمع ہوتے ہو جبکہ تمھارے پاس عطاء موجود ہیں۔ ختم شد۔‘‘
باقی رہا یہ کہ لفظ آمین دعا ہے یا نہیں؟ اس کی تحقیق کما حقہ میں نے اپنے رسالہ ’’فتح المعین في الرد علی البلاغ المبین في إخفاء التأمین‘‘ میں کہ رد ہفوات محمد شاہ پنجابی میں بے نظیر لکھا ہے، جس کو شوق ہو اس کی سیر کرے۔
اور جواب وجہ دوم کا یہ ہے کہ اول یہ تو عطاء کا قول نہیں ہے، بلکہ عطاء حکایت کرتے ہیں فعل صحابہ کی، تو آپ کا گستاخی کرنا اس فعل پر دو سو صحابہ کے نہایت امر مذموم ہے۔ اور بالفرض اگر یہ صرف عطاء کا قول ہوتا، یعنی عطاء بایں عبارت کہتے ہیں کہ ’’ التامین بالجھر سنۃ‘‘ اور کسی حدیث میں آمین بالجہر کا ثبوت پایا نہیں جاتا بلکہ خلاف اس کا ثابت ہوتا، تو البتہ تسلیم کرنا قول عطاء کا محل تردد تھا۔ اور اس صورت میں عطاء پر کیا موقوف ہے، کسی اہل علم کا قول جو مخالف حدیث صحیح ہو مقبول نہیں مردود ہے اور حال یہ ہے کہ یہ قولِ عطاء مخالف قولِ رسول اللہ ﷺ نہیں بلکہ موافق احادیث صحیحہ کے ہے، جیسا کہ بیان اس کا گزرا اور مطابق آیات کے ہے۔
فرمایا اللہ تعالیٰ نے:
﴿ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ﴾ )النساء: ۸۰(
’’ اس رسول ﷺ کی جو اطاعت کرے، اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا﴾ (الحشر:۷(
’’ اور تمھیں جو کچھ رسول دے لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ﴾ (النساء: ۵۹(
’’ فرمانبرداری کرو! اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول ﷺ کی۔‘‘
وجواب وجہ سوم کا یہ ہے کہ عطاء نے چند شخصوں کو نہیں دیکھا، بلکہ دو سو صحابہ کو دیکھا کہ آمین کو بالجہر کہتے تھے۔ پس اطلاق چند شخصوں کا دو سو آدمی پر سوائے تعصب اور نفسانیت کے کس چیز پر حمل کیا جاوے؟ اجی حضرت آمین بالسر کو آپ بیس صحابہ سے بھی نہیں ثابت کرسکیں گے۔ پچیس اور پچاس اور ستر تو درکنار رہے، اگر روایات آپ کے پاس ہوں تو لائیے۔ برتقدیر صحت علی الراس والعین ہے، ورنہ شرمائیے اور پھر ایسا نام نہ لیجیے!!
قولہ: حدیث نمبر ۲:
’’ قال عطاء : آمین دعاء، وأمّن ابن الزبیر ومن وراہ حتی أن للمسجد للجۃ، وکان أبو ھریرۃ ینادي الإمام: لا تسبقني بآمین، وقال نافع: کان ابن عمر لا یدعہ ویحضھم، وسمعت في ذلک خبرا۔‘‘ رواہ البخاري (صحیح البخاري ۱؍۲۷۰) ایک روایت میں اس کے الفاظ یوں ہیں: ’’ وسمعت منہ في ذلک خیرا‘‘ یعنی میں نے ان سے آمین کہنے پر بھلائی والی بات سنی ہے۔
’’ عطاء نے کہا آمین دعا ہے۔ ابن زبیر اور ان کے پیچھے جو لوگ تھے، انھوں نے آمین کہا، یہاں تک کہ مسجد میں گونج پیدا ہوئی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے امام کو پکار کر کہا کہ آمین کہنے میں مجھ پر سبقت نہ کریں اور نافع نے کہا کہ ابن عمر اس کو چھوڑتے نہیں تھے اور ان کو ابھارتے تھے اور میں نے اس سلسلے میں ایک خبر سنی ہے۔ اس کی روایت بخاری نے کی ہے۔‘‘
حدیث نمبر ۳:
’’ عن عطاء : أدرکت مائتین من الصحابۃ في ھذا المسجد إذا قال الإمام ولا الضالین۔ سمعت لھم رجۃ بآمین۔‘‘ رواہ البیھقي ( سنن البیھقي ۲؍ ۵۹(
’’ عطاء کے واسطے سے مروی ہے کہ میں نے اس مسجد میں دو سو صحابہ کو پایا کہ جب امام ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾کہتا تو میں نے ان کو گونج کے ساتھ آمین کہتے ہوئے سنا۔ اس کی روایت بیہقی نے کی ہے۔‘‘
’’ ان دونوں کا بھی وہی جواب ہے جو پہلے قول کا تھا، یعنی یہ صرف عطاء کا قول ہے، نہ قرآن ہے نہ حدیث۔ علاوہ اس کے بیہقی کی کتاب حدیث کی کتابوں میں گھٹیل ہے۔‘‘
اقول: معترض نے نمبر (۲) میں جو عببارت تعلیقاتِ بخاری کی نقل کرکے سب کو قولِ عطا قرار دیا ہے، وہ اس کی جہالت ہے، کیونکہ وہ عبارتِ بخاری چار اثروں پر مشتمل ہے:
اثر اول: قول عطاء یعنی ’’ قال عطاء: آمین دعاء‘‘
اثر دوم: عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کی جس کو عطاء نے ابن زبیر سے روایت کیا۔
اثر سوم: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی۔
اثر چہارم: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی۔
اب میں پورے روایات ان چار اثروں کے نقل کرتا ہوں، تاکہ لوگ تلبیس ابلیس سے بچیں۔
سنو کہ اثر اول و دوم و سوم کو عبدالرزاق نے مصنف میں روایت کیا ہے، جیسا کہ کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح بخاری میں:
’’ وصلہ عبدالرزاق عن ابن جریج عن عطاء قال : قلت لہ: أکان ابن الزبیر یؤمن علی إثر أم القرآن؟ قال : نعم، ویؤمن من وراءہ حتی أن للمسجد للجۃ، ثم قال : إنما آمین دعاء، قال : وکان أبو ھریرۃ یدخل المسجد وقد قام الإمام فینادیہ فیقول: لا تسبقني بآمین۔‘‘ انتھی (فتح الباري ۲؍۲۶۲) نیز دیکھیں: تغلیق التعلیق ۲؍۳۱۸(
’’ عبدالرزاق نے ابن جریج کے واسطے سے اس کی روایت کی ہے اور وہ عطاء کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ابن زبیر ام القرآن کے بعد آمین کہتے تھے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں، اور وہ لوگ بھی آمین کہتے تھے جوان کے پیچھے ہوتے تھے، یہاں تک کہ مسجد میں ایک گونج پیدا ہوتی تھی۔ پھر فرمایا کہ آمین تو صرف ایک دعا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوتے، درآں حالیکہ امام کھڑا ہوتا تو وہ اس کو پکار کر کہتے کہ آمین کہنے میں مجھ پر سبقت نہ کرو۔ ختم شد۔‘‘
اور بھی اثر سوم ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بیہقی نے روایت کیا ہے، جیسا کہ فتح الباری میں ہے:
’’ وقد جاء عن أبي ھریرۃ من وجہ آخر أخرجہ البیھقي من طریق حماد عن ثابت عن أبي رافع أن أباھریرۃ یؤذن لمروان بن الحکم فاشترط أن لا یسبقہ بالضالین حتی یعلم أنہ دخل في الصف۔‘‘ انتھی (فتح الباري (۲؍۲۶۲) نیز دیکھیں: السنن الکبری للبیھقي ۲؍ ۵۸(
’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے دوسرے طریق سے بھی روایت آئی ہے جس کی تخریج بیہقی نے حماد کے طریق سے کی ہے، انھوں نے ثابت کے واسطے سے اور وہ ابو رافع کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروان کے لیے اذان دیتے تھے، پس انھوں نے شرط لگائی کہ ﴿ الضَّآلِیْنَ ﴾کہنے میں سبقت نہ کریں، یہاں تک کہ ان کے علم میں یہ آجائے کہ وہ صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ ختم شد۔‘‘
اور اثر چہارم ابن عمر کو عبدالرزاق نے مصنف میں نافع سے روایت کیا ہے، جیسا کہ کہا حافظ نے فتح الباری میں:
’’ وصلہ عبدالرزاق عن ابن جریج أخبرنا نافع أن ابن عمر کان إذا ختم أم القرآن قال : آمین، لا یدع أن یؤمن إذا ختمھا، ویحضھم علی قولھا، قال : وسمعت منہ في ذلک خیرا، وقولہ: خیرا۔ بسکون التحتانیۃ أي فضلا و ثوابا، وھي روایۃ الکشمیھني ، ولغیرہ خبرا۔ بفتح الموحدۃ أي حدیثا مرفوعا، ویشعر بہ ما أخرجہ البیھقي کان ابن عمر إذا أمّن الناس أمن معھم، ویری ذلک من السنۃ۔‘‘ انتھی ( فتح الباري ( ۲؍ ۲۶۳) نیز دیکھیں: تغلیق التعلیق ۲؍ ۳۱۹(
’’ عبدالرزاق نے ابن جریج کے واسطے سے اس کو موصول بیان کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں نافع نے بتایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب ام القرآن ختم کرتے تو آمین کہتے، وہ جب اس سورت کو ختم کرتے تو آمین کہنا نہیں چھوڑتے اور لوگوں کو آمین کہنے پر ابھارتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے ان سے اس سلسلے میں خیر سنی ہے۔ ان کا قول ’’خیر‘‘ کا مطلب ہے فضل اور ثواب۔ یہ روایت کشمیہنی کی ہے اور اس کے علاوہ جو دوسری روایت ہے ’’ خبر‘‘ کے لفظ کے ساتھ ، تو اس کا مطلب ہے مرفوع حدیث سنی ہے، جیسا کہ بیہقی نے اس کی تخریج کی ہے کہ ابن عمر جب لوگ آمین کہتے تو ان کے ساتھ وہ بھی آمین کہتے تھے اور اس کو وہ سنت سمجھتے تھے۔ ختم شد۔‘‘
پس ثابت ہوا کہ ان اثروں میں سے یہ قول یعنی ’’ آمین دعاء‘‘ یہ تو البتہ قول عطاء تابعی کا ہے، باقی رہا وہ جو عطاء نے ابوہریرہ و عبداللہ بن زبیر اور سارے مقتدیوں کے آمین کہنے کی حکایت کی، وہ ظاہر ہے کہ عطاء کا قول نہیں ہے، بلکہ عطاء مخبر اور حاکی ہیں عبداللہ بن الزبیر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے فعل کے اور فرق درمیان قول و حکایت کے اوپر معلوم ہوچکا۔ اب آپ کا یہ جملہ کہ ’’ یہ صرف عطاء کا قول ہے نہ قرآن ہے نہ حدیث۔‘‘ آپ ہی پر عائد ہوا، کیونکہ عطاء کا قول اس میں صرف یہی ہے: ’’آمین دعاء‘‘ اب آپ اس کو تسلیم کریں یا خلافِ قرآن و حدیث کے بتلا دیں یا جو الفاظ چاہیں کہیں، یا آپ کو اختیار ہے کہ فعلِ ابوہریرہ و عبداللہ بن الزبیر وابن عمر رضی اللہ عنہم کو بھی خلافِ قرآن و حدیث کے قرار دیویں۔ میں تو ایسے الفاظ کو زبان پر نہیں لاسکتا ہوں۔ آپ ہی گستاخی چاہیں کرلیویں۔
اور نمبر (۳) کی حدیث کو روایت کیا بیہقی نے، جیسا کہ کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں:
’’ وروی البیھقي من وجہ آخر عن عطاء قال : أدرکت مائتین من أصحاب رسول اللہ ﷺ في ھذا المسجد إذا قال الإمام ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾سمعت لھم رجۃ بآمین۔‘‘ (فتح الباري ۲؍ ۲۶۷۔ نیز دیکھیں: سنن البیھقي ۲؍ ۵۹)
’’ بیہقی نے عطاء کے واسطے سے ایک دوسرے طریق سے روایت کی ہے کہ انھوں نے یعنی عطاء نے کہا کہ میں نے اصحابِ رسولﷺ میں سے دو سو کو اس مسجد میں پایا کہ امام جب ’’ ولا الضالین‘‘کہتا تو گونج کے ساتھ آمین کہتے۔‘‘
اور یہ کہنا آپ کا کہ ’’ علاوہ اس کے بیہقی کی کتاب حدیث کی کتابوں میں گھٹیل ہے۔‘‘ یہ دریدہ دہنی ہے اور دعویٰ بلا دلیل۔ اگر بیہقی کی کتابوں میں بعض احادیث ضعیف و منکر ہوں تو اس سے ساری کتاب کا گھٹیل ہونا لازم نہیں آتا، چہ جائیکہ بیہقی کی تصنیف میں یہ خوبی ہے کہ اکثر حدیث کی صحت و سقم پر متنبہ کردیتے ہیں۔ اس کا اعتبار کرکے ان کی کتابیں مرجح ٹھہریں گی ان کتابوں پر جو کتابیں اس خوبی کے ساتھ موصوف نہ ہوں یا جن کے مصنف نے التزام اس کی صحت کا نہ کیا ہو۔ اور اگر مطلق ایراد بعض احادیث ضعیفہ سے کسی محدث کی کتاب گھٹیل شمار کی جاوے تو پھر شرح معانی الآثار اور مشکل الآثار اور جو سوائے اس کے تصانیف امام ابو جعفر طحاوی اور دوسرے ائمہ محدثین کی ہیں جن میں احادیث ہر قسم کی صحیح و ضعیف و منکر ہیں، وہ سب کتابیں قابل عمل و قبول کے نہ رہیں گی اور بھلا کوئی عاقل بھی اس کو پسند کرے گا؟
اور بیہقی کے فضائل اور ان کی کتابوں کی مدح محدثین نے بہت ساری لکھی ہیں، یہاں مختصر طور پر لکھا جاتا ہے۔ فرمایا حضرت شیخ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ نے ’’بستان المحدثین‘‘ میں احوال میں تصانیف بیہقی کے:
’’ وچوں در تصنیف کتاب معرفتہ السنن والآثار شروع کردیکے از راستان و صلحاء بخواب دید کہ امام شافعی در جائے ہستند و در دست ایشان چند جزو ازیں کتاب ہست ومی فرمایند کہ امروز از کتاب فقیہ احمد ہفت جزو نو شتیم و یاد خواندیم و فقیہے دیگر نیز امام شافعی را بخواب دید کہ در مسجد جامع برتختے نشستہ اندومی فرمایند کہ امروز از کتاب فقیہ احمد یعنی بیہقی فلاں فلاں حدیث استفادہ کردیم۔ محمد بن عبدالعزیز گفتہ کہ روزے بخواب می بینم کہ یک صندوق از زمین بآسمان پریدہ میردد و گررا گردآن صندوق نوری است نہایت درخشندہ کہ چشم را خیرہ می کند، می پرسم کہ این چہ چیز است فرشنگان می گویند کہ این صندوق تصانیف بیہقی است کہ دربارگاہ کبریا مقبول شدند۔‘‘ انتہی مختصرا (بستان المحدثین ص: ۱۳۵(
’’ جب کتاب معرفۃ السنن والآثار کی تصنیف شروع کی تو نیک لوگوں میں سے کسی نے خواب میں امام شافعی کو دیکھا کہ ایک جگہ بیٹھے ہیں اور ان کے ہاتھ میں اس کتاب کے چند اجزا ہیں اور ساتھ یہ کہتے ہیں کہ آج فقیہ امام احمد کی کتاب سے میں نے سات اجزا لکھے اور پڑھے ہیں۔ ایک اور فقیہ نے اسی طرح امام شافعی کو خواب میں دیکھا کہ وہ جامع مسجد میں ایک تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ آج احمد فقیہ کی کتاب سے فلاں فلاں حدیث سے استفادہ کیا۔ محمد بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ ایک دن خواب میں دیکھا کہ ایک صندوق زمین سے آسمان کی طرف اڑ کر جا رہا تھا اور اس کے گردا گرد ایک ایسا چمکتا ہوا نور ہے جو آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ کیا چیز ہے؟ فرشتوں نے جواب دیا کہ بیہقی کی تصنیفات کا صدوق ہے، جو اللہ کے یہاں قبول ہوا۔ ختم شد مختصرا۔‘‘
حدیث نمبر ۳:
’’ عن عطاء : أدرکت مائتین من الصحابۃ في ھذا المسجد۔‘‘
اور اس حدیث عطاء کو صرف بیہقی ہی نے روایت نہیں کیا ہے بلکہ ابن حبان نے بھی کتاب ’’ الثقات‘‘ میں روایت کیا ہے:
’’ عن خالد بن أبي أیوب عن عطاء بن أبي رباح قال : أدرکت مائتین من أصحاب النبي ﷺ في ھذا المسجد یعني المسجد الحرام إذا قال الإمام ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ ﴾رفعوا أصواتھم بآمین۔‘‘ انتھی (الثقات لابن حبان ۶؍ ۲۶۵(
’’ خالد بن ابی ایوب کے واسطے سے مروی ہے، وہ عطا بن ابی رباح کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ میں نے اصحابِ رسولﷺ میں سے دو سو کو اس مسجد میں پایا، یعنی مسجد حرام میں کہ جب امام ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾کہتا تو وہ سب اپنی آواز آمین کہتے ہوئے بلند کرتے۔ ختم شد۔‘‘
قولہ: حدیث نمبر ۴:
’’ عن عبدالجبار بن وائل عن أبیہ قال : صلیت مع النبيﷺ فلما قال : ولا الضالین۔ قال: آمین، وسمعناھا۔‘‘ رواہ ابن ماجہ ( سنن ابن ماجہ ۸۵۵(
’’ عبدالجبار بن وائل کے واسطے سے مروی ہے اور یہ اپنے والد کے واسطے سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ میں نے نبیﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، پس جب آپﷺ نے ﴿ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾کہا تو آمین کہا اور ہم نے اس کو سنا۔ اس کی روایت ابن ماجہ نے کی ہے۔‘‘
اس کے چند جواب ہیں:
)۱(اول تو وائل کے مرنے کے بعد ان کے بیٹے عبدالجبار پیدا ہوئے ہیں، جیسا کہ ائمہ حدیث کا قول ہے، پھر ان کے پیٹ میں عبدالجبار نے کیوں کر سنا؟
)۲(اسی وائل بن حجر نے خفیہ آمین کی بھی حدیث روایت کی ہے اور اس کے راوی معتبر ہیں۔
)۳(اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ آنحضرت ﷺ ہمیشہ ایسا کرتے تھے اور متنازع فیہ یہی ہے۔ ورنہ احیاناً تو ظہر کی نماز میں قراءت پکار کر تجویز ہوسکتی ہے۔
أقول: جواب وجہ اول کا یہ ہے کہ اپنے منہ میں لگام دیجیے، الفاظ بیہودہ زبان سے نہ نکالیے۔ عبدالجبار بن وائل راوی ثقہ ہے۔ اس کی شان میں ایسے الفاظ نا ملائم کہنا کمال بے ادبی ہے۔
غایۃ ما في الباب یہ حدیث اس سند خاص سے منقطع ٹھہرے گی، مگر یہ کچھ مضر مدعا نہیں۔ اس لیے کہ حدیث وائل بن حجر کی متعدد طرق سے بسند صحیح متصل مروی ہے، چنانچہ بیان بعض اسانید کا علی وجہ التفصیل اوپر گزرا۔ فلا نعید الکلام بذکرھا
اور جواب وجہ دوم کا یہ ہے کہ وائل بن حجر سے خفیہ آمین کی جو حدیث ہے وہ ضعیف ہے، قابل حجت نہیں اور تحقیق حقیق اس امر کی اوپر گزری۔ وہاں ملاحظہ کیجیے، اب حاجت تکرار نہیں۔
اور جواب وجہ سوم کا یہ ہے کہ بموجب اس قاعدہ آپ کے یہ بات لازم آتی ہے کہ جن جن جگہوں میں رسول اللہﷺ سے جہر ثابت ہے، وہ سب احیاناً اور اتفاقات پر حمل کیا جاوے گا، جب تک کہ ان احادیث میں معنی لفظ مداومت کے نہ ہوں۔ پس اس بنا پر ان احادیث اربعہ مندرجہ ذیل کو کہ جو جہر قراء ت فجر و عشاء و مغرب میں وارد ہیں، ان کو بھی اسی اتفاقات اور احیاناً پر حمل کیجیے۔
حدیث اول: ’’ عن جبیر بن مطعم قال : سمعت رسول اللہﷺ یقرأ في المغرب بالطور‘‘ متفق علیہ( صحیح البخاري، رقم الحدیث ۷۳۱، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۴۶۳(
’’ جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو مغرب میں سورت طور پڑھتے ہوئے سنا۔ متفق علیہ‘‘
حدیث دوم: ’’ عن أم الفضل قال : سمعت رسول اللہ ﷺ یقرأ في المغرب بالمرسلات عرفا‘‘ متفق علیہ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۴۱۶۶(
’’ ام الفضل سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو مغرب میں ﴿ وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا﴾پڑھتے ہوئے سنا۔‘‘
حدیث سوم: عن البراء قال : سمعت النبي ﷺ یقرأ في العشاء ﴿وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنَ﴾ متفق علیہ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۷۱۰۷(
’’ براء سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو عشاء میں ﴿والتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنَ﴾پڑھتے ہوئے سنا۔‘‘
حدیث چہارم: ’’ عن عقبۃ بن عامر أن النبيﷺأمّھم بالمعوذتین في صلاۃ الصبح، رواہ ابن حبان في صحیحہ، وأحمد في مسندہ، وابن أبي شیبۃ في مصنفہ، والطبراني في معجمہ، والحاکم في المستدرک۔‘‘ (سنن النسائي (۹۵۲) صحیح ابن حبان (۵؍۱۲۵) مصنف ابن أبي شیبۃ (۶؍۱۴۶) المعجم الکبیر للطبراني (۱۷؍۳۰۸) المستدرک (۱؍۲۴۰) سنن البیھقي ۲؍۳۹۴(
’’ عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے صبح کی نماز میں معوذتین پڑھ کر امامت کی۔ اس کی روایت ابن حبان نے اپنی صحیح میں کی ہے، احمد نے اپنی مسند میں کی ہے، ابن ابی شیبہ نے مصنف میں کی ہے، طبرانی نے اپنی معجم میں کی ہے اور حاکم نے ’’المستدرک‘‘ میں کی ہے۔‘‘
کیونکہ ان احادیث میں صرف یہ مضمون ہے کہ میں نے حضرت رسول اللہﷺ کو پڑھتے سنا، پس بنا برقاعدہ آپ کے یہ لازم نہیں آتا کہ ہمیشہ ایسا کیا کرتے تھے، بلکہ احیاناً ان اوقات میں قراءت بجہر کیا کرتے تھے اور حال یہ کہ کوئی فرد بسر امت محمدیہ۔ علی صاحبھا أفضل الصلوۃ والتحیۃ۔سے اس کا قائل نہیں۔ پس آپ یا اس کو تسلیم کیجیے یا اس باطل و مردود دعوے سے اپنے باز آئیے۔
اور ظہر کی قراءت میں جو رسول اللہﷺ نے احیاناً بعض آیت کے ساتھ جہر کیا ہے، اس جہر پر اس آمین کی جہر کو قیاس کرنا دلیل غباوت کی ہے، کیونکہ حدیث ابوقتادہ کی صاف و آشکارا اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ امر مقرر رسول اللہﷺ کا صلوٰۃ ظہر میں صرف اسرار ہی تھا۔ فقط احیاناً بعض آیت کے ساتھ جہر فرماتے، تاکہ معلوم ہو جائے مقتدیوں کو قراءت فرمانا آپ کا۔
دیکھو! پوری حدیث ابو قتادہ کی یہ ہے:
’’ عن أبي قتادۃ قال : کان النبي ﷺ یقرأ في الظھر في الأولیین بأم الکتاب و سورتین، وفي الرکعتین الآخریین بأم الکتاب، ویسمعنا الآیۃ أحیانا۔‘‘ متفق علیہ ( صحیح البخاري، رقم الحدیث ۷۴۵، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۴۵۱(
’’ ابو قتادہ کے واسطے سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ نبیﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور آخر کی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ، اور بسا اوقات ہمیں آیات سناتے تھے۔‘‘
بخلاف حدیث آمین بالجہر کے اس میں کسی راوی نے یہ نہیں کہا ہے کہ امر مقرر رسول اللہﷺ یہی اسرار تھا، صرف احیاناً آپ نے جہر کیا ہے۔ اگر ایسی بات ہوتی تو کوئی راوی بھی تصریح اس امر کی ضرورت کرتے، کیونکہ ایسی جگہوں میں تصریح کی حاجت ہے، پس معلوم ہوا کہ امر مقرر رسول اللہﷺ کا آمین میں جہر تھا نہ اسرار۔
اور بعض نافہمیدہ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حکم آمین جہری کا اوائل اسلام میں تھا، پھر حکم جہر کا منسوخ ہوگیا۔ تو یہ فہم ان کا غلط ہے، کیونکہ وائل بن حجر صحابی متاخر الاسلام ہیں اور ان کا اس حدیث کو روایت کرنا دلیل قاطع ہے اس امر پر کہ حکم منسوخ نہیں ہوا۔ کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں:
’’ وفیہ رد علی من أومأ إلی النسخ ، فقال : إنما کان ﷺ یجھر بالتأمین في ابتداء الإسلام لیعلمھم ، فإن وائل بن حجر أسلم في أواخر الأمر۔‘‘ انتھی (فتح الباري ۲؍ ۲۶۴(
’’ اس میں ان لوگوں کے خلاف رد ہے جنھوں نے نسخ کا اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ آپﷺ ابتدائے اسلام میں آمین کہتے تھے، تاکہ وہ لوگوں کو تعلیم دیں، کیونکہ وائل بن حجر آخری زمانے میں اسلام لائے۔ ختم شد۔‘‘
قولہ: حدیث نمبر ۵:
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہود کو تمھارے آمین کہنے پر حسد ہے۔ اس کا جواب یہ ہے:
)۱( تو اس سے جہر ثابت نہیں ہوتا اور حسد کے لیے علم شرط ہے نہ جہر۔
)۲(یہ روایات ضعیفہ ہیں۔ ان کے راوی اکثر ضعیف لوگ ہیں۔
أقول: جواب دونوں وجہوں کا مفصلاً و مشروحاً بجواب حدیث نہم و دہم ابن ماجہ کے گزرا، وہاں پر آپ ملاحظہ کیجیے۔ تشفی خاطر ہو جائے گی۔ اور بے شک حسد کے لیے علمِ حاسد چاہیے مگر یہ تو فرمائیے کہ امر محسود یہاں پر کیا ہے: جہر یا سر؟ اور خدا کے واسطے ذرا لفظ (( فأکثروا من قول آمین )) کو غور فرمائیے کہ رسول اکرمﷺ نے کس لیے فرمایا ہے اور اکثار سر کا حکم حاسد کے علم کو کیا فائدہ دے گا؟
قولہ: حدیث نمبر ۶ اور نمبر ۷ اور نمبر ۸:
’’ بخاری اور مسلم اور نسائی کی تین حدیث ہیں کہ جن میں اول میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جب امام ﴿وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ کہے تو تم آمین کہو۔ إذا قال الإمام: ولا الضالین فقولوا: آمین۔
اور دوسری میں یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی آمین کہتا ہے تو فرشتے بھی اسی وقت کہتے ہیں تو اس موافقت سے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ اور تیسری میں بھی یہ ہے کہ جب امام آمین کہے تم بھی کہو۔ یہ تینوں احادیث تو حضرت امام ابوحنیفہ کی دلیل ہیں، کیونکہ ان سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ امام آہستہ آمین کہتا ہے۔ ورنہ اس کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ جب امام ﴿وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾کہے تب آمین کہو۔ خدا جانے مخالف نے آنکھیں بند کرکے یہ احادیث کیوں نقل کیں؟ مگر اتنی لیاقت کہاں کہ مفید مدعا اور مفید غیر مدعا کو سمجھیں۔‘‘
أقول: وہ تین حدیثیں جن کو آپ نے نمبر ۶، ۷، ۸ میں قرار دیا ہے وہ یہ ہیں:
حدیث اول: ’’ عن أبي ھریرۃ أن رسول اللہ ﷺ قال : إذا قال الإمام ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾فقولوا: آمین، فإنہ من وافق قولہ قول الملائکۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔‘‘ رواہ البخاري (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۴۲۰۵، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۴۰۱)۔
’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب امام ﴿ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾کہے تو آمین کہو کیونکہ جس کسی نے اپنے قول سے ملائکہ کے قول کی موافقت کی تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ اس کی روایت بخاری نے کی ہے۔‘‘
وحدیث دوم: عن أبي ھریرۃ أن رسول اللہﷺ قال : إذا قال أحدکم: آمین، وقال الملائکۃ في السماء: آمین فوافقت إحداھما الأخری، غفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔‘‘ متفق علیہ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۷۴۸، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۴۱۰(
’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں کوئی آمین کہتا ہے اور ملائکہ آسمان میں آمین کہتے ہیں، پھر ایک کی دوسرے سے موافقت ہوتی ہے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘
وحدیث سوم: ’’ عن أبي ھریرۃ قال قال رسول اللہﷺ : إذا قال الإمام ﴿ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ فقولوا: آمین، فإن الملائکۃ تقول : آمین، وإن الإمام یقول : آمین، فمن وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔‘‘ رواہ النسائي (سنن النسائي، رقم الحدیث ۹۲۹(
’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب امام ﴿غَیْر الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ کہے تو آمین کہو، کیونکہ ملائکہ بھی آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے تو جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے سے موافقت کرتا ہے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ اس کی روایت نسائی نے کی ہے۔‘‘
پس یہ کہنا آپ کا کہ یہ ’’ تینوں احادیث تو امام ابوحنیفہ کی دلیل ہیں، کیونکہ ان سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ امام آہستہ آمین کہے‘‘ غلط صریح ہے۔ کیونکہ خاص امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مذہب اس باب میں یہ ہے کہ امام اصلاً آمین نہ کہے، نہ پکار کے اور نہ چپکے۔
جیسا کہ فرمایا امام حمد رحمہ اللہ نے موطا میں:
’’ قال محمد : وبھذا نأخذ ینبغي إذا فرغ الإمام من أم الکتاب أن یؤمن الإمام ویؤمن من خلفہ ولا یجھرون بذلک، فأما أبوحنیفۃ فقال : یؤمن من خلف الإمام ولا یؤمن الإمام۔‘‘ (موطأ الإمام محمد ۱؍ ۲۱۶(
’’ محمد نے کہا کہ اس کو ہم اپنائیں گے۔ چاہیے کہ امام جب ام الکتاب کی قراءت سے فارغ ہو تو امام بھی آمین کہے اور اس کے پیچھے کے لوگ بھی آمین کہیں اور اس کو بلند آواز میں نہ کہیں، پس رہے ابوحنیفہ تو انھوں نے کہا کہ مقتدی تو آمین کہیں گے، لیکن امام آمین نہیں کہے گا۔‘‘
پس اس عبارت سے موطا کے صاف ظاہر ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک امام مطلقاً آمین نہ کہے اور یہی مذہب ہے امام مالک کا، جیسا کہ فتح الباری میں ہے:
’’ وخالف مالک في إحدی الروایتین عنہ، وھي روایۃ ابن القاسم فقال: لا یؤمن الإمام في الجھریۃ، وفي روایۃ عنہ : لا یؤمن مطلقا۔‘‘ انتھی (فتح الباري ۲؍ ۲۶۳(
’’ مالک نے، ان سے مروی دو روایتوں میں سے ایک میں، مخالفت کی ہے اور وہ روایت ابن القاسم کی ہے، انھوں نے کہا کہ جہری نمازوں میں امام آمین نہیں کہے گا اور انھی سے ایک روایت میں ہے کہ مطلق آمین نہیں کہے گا۔ ختم شد۔‘‘
اورنیل الاوطار میں ہے:
’’ وقد ذھب مالک إلی أن الإمام لا یؤمن في الجھریۃ، وفي روایۃ عنہ: مطلقا، وکذا روي عن أبي حنیفۃ والکوفیین ۔‘‘ انتھی (نیل الأوطار ۲؍ ۲۴۴(
’’ اور مالک اس طرف گئے ہیں کہ امام جہریہ میں آمین نہیں کہے گا اور انھی سے ایک روایت مطلقاً کی ہے یعنی کسی نماز میں نہیں کہے گا اور اسی طرح کی روایت ابوحنیفہ اور کوفیوں کے واسطے سے بھی مروی ہے۔ ختم شد۔‘‘
اور دلیل ان دونوں اماموں کی یہی حدیث اول ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے، یعنی ’’إذا قال الإمام ﴿وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ فقولوا: آمین‘‘
یعنی جب امام ﴿وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ کہے تب تم لوگ آمین کہو۔ اس سے یہ دونوں امام استنباط کرتے ہیں کہ امام آمین نہ کہے، کیونکہ رسول اللہﷺ نے امام کے صرف ﴿وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾کہنے کو ارشاد فرمایا اور یہ نہیں فرمایا کہ جب امام ﴿وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾کہہ کر آمین کہے تب تم لوگ آمین کہو۔ معترض ایسا بے استعداد و بے لیاقت و قاصر النظر ہے کہ اس مغز سخن کو نہ پہنچا اور اس پر یہ بات آشکارا نہ ہوئی۔ خیر! فلیبک علی نفسہ!!
لیکن امر محقق و صحیح یہ ہے کہ امام بھی آمین کہے اور ماموم بھی، کیونکہ خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: (إذا أمن الإمام فأمنوا)’’ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔‘‘ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۷۴۷، صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۴۱۰(
اور ایک روایت میں یوں ہے:
)إذا أمن القاریٔ فأمنوا) ’’ جب قاری (امام) آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔‘‘ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۶۰۳۹(
بلکہ تیسری حدیث بروایت نسائی جس میں ’’ إذا قال الإمام ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ فقولوا آمین‘‘ [اور اگر امام ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ کہے تو تم سب آمین کہا کرو]ہے، اس میں یہ جملہ بھی موجود ہے، یعنی: ’’ وإن الإمام یقول آمین‘‘ ۔(سنن النسائي، رقم الحدیث ۹۲۹(
پس یہ سب پر حمل کی جاوے گی، تاکہ مطابقت درمیان سب روایتوں کے ہو جاوے اور بیان اس امر کا کہ ان احادیث سے جہر ثابت ہوتا ہے یا اسرار قریب آتا ہے۔ فانتظر!
قولہ: حدیث نمبر (۹) اور نمبر (۱۰) بھی بالکل مفید مدعا نہیں۔ کس لیے کہ نمبر (۹) میں یہ ہے کہ جب قاری آمین کہے تم بھی کہو، اور نمبر (۱۰) میں یہ ہے کہ جب امام آمین کہے تب تم بھی کہو، نہ یہاں سے پکار کر کہنا ثابت ہوتا ہے نہ آہستہ۔
أقول: وہ دو حدیث یہ ہیں:
حدیث اول: ’’ عن أبي ھریرۃ عن النبي ﷺ قال : إذا أمن القاریٔ فأمنوا فإن الملائکۃ تؤمن، فمن وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔‘‘ رواہ النسائی ( سنن النسائي ، رقم الحدیث ۹۲۵(
’’ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب قاری آمین کہے تو تم سب بھی آمین کہو کیونکہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے سے مل گیا تو ایسے شخص کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘
حدیث دوم: ’’ عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ أن النبي ﷺ قال : إذا أمن الإمام فأمنوا فإنہ من وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ قال ابن شھاب: وکان رسول اللہﷺ یقو ل: آمین‘‘ رواہ مالک و البخاري ومسلم وأبوداود والترمذي والنسائي۔ (موطأ الإمام مالک (۱؍ ۸۷) صحیح البخاري، رقم الحدیث (۷۴۷) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۴۱۰) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۹۳۶) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۵۰) سنن النسائي ۹۲۸(
’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم سب بھی آمین کہو۔ کیونکہ جس شخص کا آمین کہنا اور فرشتوں کا آمین کہنا ایک ساتھ ایک ہی وقت میں واقع ہوا تو ایسے شخص کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ ابن شہاب فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ آمین کہا کرتے تھے۔ اس حدیث کو امام مالک، امام بخاری، امام مسلم، امام ابوداود، امام ترمذی اور امام نسائی نے روایت کیا ہے۔‘‘
معنی حدیث اول کے یہ ہیں کہ جب قاری آمین کہے تو تم بھی آمین کہو اور دوسری حدیث کے یہ معنی کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ پس ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ان دونوں حدیث اور وہ تینوں حدیث ماسبق سے حکم آمین کہنے کا امام اور ماموم کے نکلا، مگر کیفیت آمین کہنے کی مجہول رہی کہ پکار کر کہنا چاہیے یا آہستہ، پس کیفیت اس کی خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث اور دیگر صحابہ مثل وائل بن حجر و علی بن ابی طالب و بلال و عائشہ و ابن عباس رضی اللہ عنہم کی حدیثوں سے جو جہر پر دال ہیں، معلوم ہوئی، کیونکہ (الأحادیث یفسر بعضھا بعضا )’’ احادیث ایک دوسری کی تشریح کرتی ہیں۔‘‘
اور یہی احادیث ماسبق ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یعنی حدیث: ’’ قولوا۔ آمین‘‘ (آمین کہو)۔
وحدیث: ( إذا أمن القاریٔ فأمنوا) ’’ جب قاری (امام) آمین کہے تو تم سب آمین کہو۔‘‘
وحدیث (إذا أمن الإمام فأمنوا) ’’ جب امام آمین کہے تو تم لوگ بھی آمین کہو۔‘‘
مطلق ہیں۔ اور یہ احادیث جن میں جہر کا ذکر ہے، وہ مقید ہیں اور مطلق کو مقید پر حمل کرنا چاہیے۔ پس بنابریں اس قاعدہ کے ان احادیث کو جو مطلق عن التقید ہیں، جہر پر حمل کرکے ان پر بھی حکم جہر کا دیا گیا اور یہ مطلق اسرار پر حمل نہیں کیا گیا، اس لیے کہ اسرار میں کوئی حدیث صحت کو نہیں پہنچی، بخلاف احادیث جہر کے کہ متعدد طرق سے مروی ہیں اور صحت کو پہنچی ہیں، اگرچہ بعض طرق میں اس کے ضعف ہے۔ وباللہ التوفیق۔
شکر ہے حق سبحانہ تعالیٰ کا کہ اس نے یہ رسالہ اوائل ربیع الاول ۱۳۰۳ھ میں انجام کو پہنچایا۔ اب اس کی بارگاہ میں یہ التجا ہے کہ اس کو قبول فرمائے اور ہم کو اور سارے بھائی مسلمانوں کو استقامت دین پر نصیب کرے اور شرک و کفر و محرمات و بدعات سے محفوظ رکھے، اور آپس میں اتفاق و اتحاد عطا کرے، اور یہ اختلاف و تحاسد و تباغض و تدابر کو ہم بھائیوں مسلمانوں سے دور کرے اور خالص سنی محمدی متبع سنت بنا دے۔ آمین یا رب العالمین۔ فقط
قطع تاریخ طبع رسالہ ’’ الکلام المبین في الجھر بالتأمین والرد علی القول المتین ‘‘
از مولوی محمد ضمیر الحق صاحب آروی
رقم زد چوں این نامہ را شمس حق
فطین و لبیب و ذکی و ادیب
شد از زیور طبع آراستہ
بتصحیح و تنقیح و حسن عجیب
ندا داد ہاتف بگو ای ضمیر
پئی سال طبعش عجیب و غریب
۱۳۰۳ھ
ایضاً اردو
از مولوی محمد ضمیر الحق صاحب آروی
چھپ گیا جب یہ نسخہ زیبا
غم سے دل منکروں کا چور ہوا
لکھے تاریخ طبع میں نے ضمیر
حق و باطل کا اب ظہور ہوا
۱۳۰۳ ھ
اطلاع:
واضح ہو کہ میں نے حق تالیف اس کتاب کا مولوی تلطف حسین صاحب کو ہبہ کردیا ہے، لہٰذا یہ کتاب بموجب قانون بھی رجسٹری گورنمنٹ داخل کرکے ارباب مطابع وغیرہ کی خدمت میں التماس ہے کہ کوئی صاحب بلا اجازت مولوی صاحب موصوفِ قصدِ طبع نہ فرمائیں۔
العبد
محمد شمس الحق عفی عنہ