شب براء ت کی فضیلت
بے شک ماہِ شعبان کی فضیلت احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور اس کی فضیلت کا خیال کرکے اس میں اپنے دستور سے زیادہ روزہ رکھنا بھی رسول اللہﷺ سے ثابت ہے۔
صحیحین میں مروی ہے:
’’ عن عائشۃ قالت : ما رأیت رسول اللہﷺ استکمل صیام شھر قط إلا شھر رمضان، وما رأیتہ في شھر أکثر صیاماً منہ في شعبان‘‘ (صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۸۶۸) صحیح مسلم، رقم الحدیث ، ۱۱۵۶)
’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو رمضان کے روزوں کے علاوہ پورے مہینے کا روزہ رکھتے نہیں دیکھا اور شعبان کے مہینے میں دوسرے مہینوں کے مقابلے میں زیادہ روزے رکھتے تھے۔‘‘
اور سنن نسائی میں بسند حسن مروی ہے :
’’ عن أسامۃ بن زید قال : قلت : یا رسول اللہ لم أرک تصوم شھراً من الشھور ما تصوم من شعبان ؟ قال : ذلک شھر یغفل الناس عنہ بین رجب و رمضان ، وھو شھر ترفع فیہ الأعمال إلی رب العالمین، فأحب أن یرفع عملي وأنا صائم‘‘ ( سنن النسائي ، رقم الحدیث (۲۳۵۷)، مسند أحمد ۵ ؍۲۰۱)
’’ اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں نے آپﷺ کو شعبان کے مہینے کے علاوہ کسی اور مہینے میں اتنے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ وہ مہینا ہے جس کے بارے میں لوگ غفلت برتتے ہیں، جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے۔ یہ وہ مہینا ہے جس میں اللہ رب العالمین کے آگے اعمال اٹھائے جاتے ہیں، مجھے یہ چیز محبوب ہے کہ میرا عمل اللہ کے پاس لے جایا جائے تو میں روزے سے ہوں۔‘‘
اور سنن ترمذی میں ہے:
’’ عن أنس قال : سئل النبيﷺ أي الصوم أفضل بعد رمضان؟ قال : شعبان لتعظیم رمضان‘‘ (سنن الترمذي، رقم الحدیث (۶۶۳) وقال الترمذي : ’’ ھذا حدیث غریب، وصدقۃ بن موسیٰ لیس عندھم بذاک القوي‘‘
’’ انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مروی ہے کہ نبیﷺ سے پوچھا گیا کہ رمضان کے بعد کون سا روزہ افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ شعبان کا، رمضان کی تعظیم کی بنا پر۔‘‘
ان تین روایتوں کے علاوہ بھی بہت روایتیں اس باب میں وارد ہیں۔ اکثر روایات ان میں سے حافظ منذری کی کتاب الترغیب میں موجود ہیں۔ ( الترغیب والترھیب للمنذري ۲ ؍۷۱)
ان حدیثوں سے اتنا ضرور معلوم ہوا کہ شعبان کا مہینہ بزرگ مہینہ ہے اور اس میں روزوں کی کثرت مسنون ہے، اور رسول اللہﷺ اس مہینے میں زیادہ روزے رکھتے تھے، البتہ اس مہینہ میں روزے کے لیے کسی تاریخ یا روز کی تخصیص کسی ایسی روایت سے ثابت نہیں ہے جو قابل احتجاج ہو، اس لیے بالقصد خاص کرکے روزے کے لیے کسی تاریخ کو معین کرلینا نہیں ہے۔
باقی رہا نصف شعبان کی شب کو قرآن شریف تلاوت کرنا، ادعیہ ماثورہ و اذکار صحیحہ پڑھنا، صلوۃ نافلہ اول شب کو بغیر جماعت اور بغیر ہیئت مخصوصہ کے یا آخر شب کو بجماعت لیکن بغیر ہیئت مخصوصہ کے ادا کرنا اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہنا، رحمت کی خواستگاری کرنا اور اپنے لیے دعائیں مانگنا اور دعا میں گریہ و زاری کرنا بھی بدعت نہیں ہے، بلکہ موجب اجر جزیل و ثواب عظیم ہے اور اس باب میں بھی روایات متعددہ وارد ہیں۔
منھا ما أخرجہ الطبراني في الأوسط، وابن حبان في صحیحہ، والبیھقي عن معاذ بن جبل، عن النبيﷺ قال : یطلع اللہ إلی جمیع خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ إلا لمشرک أو مشاحن، ورواہ ابن ماجہ نھوہ من حدیث أبي موسی الأشعري، والبزار والبیھقي من حدیث أبي بکر الصدیق بنحوہ، بإسناد لا بأس بہ ، قالہ المنذري في الترغیب۔ (المجعم الأوسط ۷ ؍۳۶) صحیح ابن حبان ۱۲ ؍۴۸۱) شعب الإیمان للبیھقي ۳ ؍۳۸۲) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۳۹۰) مسند البزار ۱ ؍۱۵۷) الترغیب للمنذري ۳ ؍۳۰۷)
’’ ان میں سے ایک یہ ہے جس کی تخریج طبرانی نے ’’ الاوسط‘‘ میں اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور بیہقی نے معاذ بن جبل کے واسطے سے کی ہے، انھوں نے نبیﷺ سے بیان کیا کہ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی تمام مخلوق کی طرف جھانکتا ہے اور اپنی تمام مخلوقات کی مغفرت فرماتا ہے سوائے مشرک اور کینہ پرور کے۔ اس کی روایت ابن ماجہ نے اسی طرح سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث سے کی ہے اور بزاز اور بیہقی نے اس طرح ابوبکر صدیق کی حدیث سے کی ہے، ایسی سند کے ساتھ جس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ بات منذری نے ’’الترغیب‘‘ میں کہی ہے۔‘‘
ومنھا ما أخرجہ البیھقي عن مکحول عن کثیر بن مرۃ عن النبيﷺ في لیلۃ النصف من شعبان : یغفر اللہ عزوجل لأھل الأرض إلا لمشرک أو مشاحن ، وقال البیھقي : ھذا مرسل جید۔ (شعب الإیمان للبیھقي ۳ ؍۳۸۱)
’’ بیہقی نے مکحول کے واسطے سے ، انھوں نے کثیر بن مرہ کے واسطے سے اور انھوں نے نبیﷺ کے واسطے سے روایت کی ہے کہ شعبان کی نصف رات کو اللہ تعالیٰ تمام زمین والوں کے گناہوں کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ پرور کے۔ بیہقی نے کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل جید ہے۔‘‘
’’ ومنھا ما أخرجہ الطبراني والبیھقي عن مکحول عن أبي ثعلبۃ أن النبيﷺ قال : یطلع اللہ إلی عبادہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر للمؤمنین، ویمھل الکافرین، ویدع أھل الحقد بحقدھم حتی یدعوہ، قال البیھقي: وھو أیضاً بین مکحول وأبي ثعلبۃ مرسل جید۔‘‘ (المعجم الکبیر ۳ ؍۳۴، الترغیب للمنذري ۳ ؍۲۸۳)
’’ طبرانی اور بیہقی نے مکحول کے طریق اور انھوں نے ابو ثعلبہ کے واسطے سے روایت کی کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنے تمام بندوں کی طرف جھانکتا ہے، تمام مومنین کی مغفرت فرماتا ہے اور کافرین اور کینہ پروروں کو بھی چھوڑ دیتا ہے ان کے کینے کی بنا پر حتیٰ کہ وہ اسے چھوڑ دیں۔ بیہقی نے کہا ہے کہ یہ مکحول اور ابو ثعلبہ کے درمیان مرسل جید ہے۔‘‘
ومنھا ما أخرجہ البیھقي عن العلاء بن الحارث أن عائشۃ رضي اللہ عنھا قالت : قام رسول اللہﷺ من اللیل فصلی … إلی أن قال : فقال أتدرین أي لیلۃ ھذہ ؟ قلت : اللہ ورسولہ أعلم، قال : ھذہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر للمستغفرین، ویرحم المسترحمین، ویؤخر أھل الحقد کما ھم، قال البیھقي : ھذا مرسل جید، وقال المنذري : یحتمل أن یکون العلاء أخذہ من مکحول۔ انتھی ( شعب الإیمان ۳ ؍۳۸۲، مذکورہ بالا آخری الفاظ ’’ یحتمل أن یکون …‘‘ حافظ منذری رحمہ اللہ کے نہیں، بلکہ امام بیہقی رحمہ اللہ کے ہیں۔ )
’’ بیہقی نے علاء بن حارث کے واسطے سے روایت کی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبیﷺ رات کو کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی اور فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج کون سی رات ہے؟ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ شعبان کی نصف رات ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رات مغفرت چاہنے والوں کو بخش دیتا ہے، رحم کے خواستگاروں پر رحم کرتا ہے اور کینہ پروروں کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ بیہقی نے کہا کہ یہ حدیث مرسل جید ہے اور منذری نے کہا کہ احتمال ہے کہ علاء نے مکحول سے اخذ کیا ہو۔‘‘
ومنھا ما أخرجہ الإمام أحمد بن حنبل عن عبداللہ بن عمرو أن رسول اللہ ﷺ قال : یطلع اللہ عزوجل إلی خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر اللہ لعبادہ إلا لاثنین : مشاحن و قاتل نفس۔ انتھی، قال المنذری : ’’ رواہ أحمد بإسناد لین ‘‘ انتھی (مسند أحمد ۲ ؍۱۷۶، الترغیب والترھیب ۳ ؍۳۰۸)
’’ امام احمد بن حنبل نے عبداللہ بن عمرو کے واسطے سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل نصف شعبان کی رات کو اپنی مخلوق کی طرف جھانکتا ہے اور اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے سوائے دو طرح کے افراد کے، ایک کینہ پرور اور دوسرا کسی کا قاتل۔ منذری نے کہا ہے: اس کی روایت احمد نے کمزور سند کے ساتھ کی ہے۔‘‘
ان روایات کے سوا اور بھی اخبار و آثار اس باب میں مروی ہیں، بخوف طوالت قدر مذکور پر اکتفا کیا گیا۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ ماہ شعبان میں شب پندرہ بالخصوص بہت بزرگ ہے۔ اس میں نماز پڑھنا، دعائیں مانگنا ثواب ہے۔ یہ روایتیں اگرچہ علیحدہ علیحدہ بہت قوی درجے کی نہیں ہیں، مگر چونکہ متعدد طرق سے مروی ہیں، اس لیے ایک کو دوسرے سے قوت حاصل ہے اور قابل احتجاج و عمل ہے، کیونکہ اس سے زیادہ صحیح حدیث اس کی مخالف نہیں وارد ہے۔
اسی بنا پر شیخ ابو شامہ نے کتاب ’’ الباعث في إنکار البدع والحوادث‘‘ میں چند روایتیں بیہقی کی کتاب الدعوات الکبیر وغیرہ سے نقل کرنے کے بعد یہ لکھا ہے:
’’ قال البیھقي : في ھذا الإسناد بعض من یجھل ، وکذلک فیما قبلہ، وإذا انضم أحدھما إلی الآخر أخذ بعض القوۃ‘‘ انتھی ( الباعث علی إنکار البدع والحوادث ، ص: ۳۸)
’’ بیہقی نے کہا ہے کہ اس سند میں بعض مجہول لوگ ہیں اور اسی طرح کی بات اس سے قبل کی حدیث میں ہے، لیکن یہ جب ایک دوسرے سے مل جائیں تو اس میں قوت آجاتی ہے۔ ختم شد۔‘‘
الحاصل ماہ شعبان کا تمام مہینہ بزرگ ہے اور اس میں روزے رکھنا مسنون ہے، مگر روزے کے لیے کوئی تاریخ معین و مقرر کرنا اور بالتخصیص صرف پندرہویں تاریخ میں روزہ رکھنا احادیث سے ثابت نہیں ہے، بلکہ تیرہ، چودہ ، پندرہ تاریخوں میں جن کو ایام بیض کہتے ہیں، ان میں روزے رکھے اور چاہے تو اس پر بھی زیادتی کرے، کیونکہ اس مہینہ میں کثرتِ صیام ثابت ہے اور اس مہینہ میں شب پندرہ بالخصوص زیادہ بزرگ ہے۔ اس میں قیامِ لیل بغیر کسی ہیئت خاص کے بھی مسنون و موجبِ اجر و ثواب ہے، البتہ کسی خاص ہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا یعنی ایک سو رکعت نماز پڑھنا اور ہر رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے دس بارہ سورہ ’’ قل ھو اللہ ‘‘ پڑھنا وغیر ذلک کہیں اخبار و آثار سے ثابت نہیں ہے، بلکہ محدث فی الدین ہے اور عامل اس کا بدعتی ہے، اور ایسا ہی تمام شب چراغوں کو روشن کرنا اور سارے مکان میں زیادہ روشنی کردینا، یہ سب فعل منکر ونامشروع ہے۔ اور ایسا ہی چودہ شعبان کو یوم عید قرار دے کر اس میں حلوہ پکانا اور اس کو ثواب سمجھنا یہ سب بدعت و ضلالت ہے اور تفصیل اس کی صراط مستقیم للامام ابن تیمیہ میں ہے۔ وھکذا في الباعث في إنکار البدع والحوادث لأبي شامۃ، وکتاب المدخل للشیخ ابن الحاج وغیر ذلک من الکتب المعتبرۃ۔ (الباعث لأبي شامۃ ( ص: ۳۸) اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیۃ، ص: ۱۳۸ )
اور فرمایا علامہ مناوی نے فتح القدیر شرح کبیر جامع صغیر میں بشرح حدیث: (( إن اللہ تعالی ینزل لیلۃ النصف من شعبان … الخ ))
’’ قال المجد ابن تیمیۃ: لیلۃ النصف من شعبان روي في فضلھا من الأخبار والآثار ما یقتضی أنھا مفضلۃ، ومن السلف من خصھا بالصلاۃ فیھا، وصوم شعبان جاء ت فیہ أخبار صحیحۃ، أما صوم یوم نصفہ مفردا فلا أصل لہ، بل یکرہ، وکذا اتخاذہ موسما تصنع فیہ الحلوی والأطعمۃ ، وتظھر فیہ الزینۃ، وھو من المواسم المحدثۃ المبتدعۃ التي لا أصل لھا ‘‘ انتھی، واللہ أعلم ( فیض القدیر للمناوي ۲ ؍۳۱۶)
’’ مجدالدین ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ نصف شعبان کی شب کے بارے میں جو اخبار و آثار بیان کیے جاتے ہیں، وہ اس بات کے مقتضی ہیں کہ اس رات کی فضیلت ہے۔ سلف میں سے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اس شب کو عبادت کے لیے مخصوص کیا ہے اور شعبان کے روزے کے بارے میں صحیح احادیث آئی ہے، البتہ صرف پندرہ شعبان کا روزہ رکھنے کی کوئی بنیاد نہیں، بلکہ مکروہ ہے۔ اسی طرح اس دن کو رسم کے طورپر اختیار کرنا، جس میں حلوا پکایا اور اچھے کھانے پکائے جاتے ہیں اور زیب و زینت کا اظہار کیا جاتا ہے، یہ سب نئے اور بدعتی رسوم ہیں، ان کی کوئی بنیاد نہیں۔ ختم شد۔ اللہ ہی بہتر جاننے والے ہیں۔‘‘
’’ حررہ العبد الضعیف أبو الطیب محمد شمس الحق العظیم آبادی عفی عنہ وعن آبائہ وغن مشائخہ آمین۔
میں نے رسالہ مولوی عبدالغفور صاحب کو دیکھا اور اس کی صحت کی۔ فضائل شعبان وغیرہ میں مولوی صاحب نے خوب لکھا ہے۔ واقعی فضائل شعبان میں بہت احادیث صحیحہ آئی ہیں۔ صوم نصف شعبان میں کوئی حدیث صحیح نہیں۔ تخصیص اس کی ٹھیک نہیں، جیسا کہ مولانا شمس الحق صاحب نے لکھا ہے، میں بھی ان کا ہم قال ہوں۔
حررہ
محمد سعید بنارسی عفی عنہ