تعزیہ داری کرنا جس طرح کہ اس ملک ہندوستان میں مروج ہے، گناہ کبیرہ ہے یا نہیں؟ اور جو آدمی بعد توبہ کرنے اس فعل کے، پھر مرتکب اس کا ہوا، اس کا شرع شریف میں کیا حکم ہے؟ اور جو لوگ مسلمان اہل سنت حنفی ہو کر تعزیہ داروں کے ساتھ اتحاد و محبت رکھتے ہیں اور رنج و راحت میں ان کے شریک رہتے ہیں اور ان کے ان افعال شنیعہ پر مانع نہیں ہوتے ہیں، ان کا حکم کیا ہے؟
﴿ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ﴾ (یوسف: ۴۰)
‘‘ فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔’’
﴿سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ﴾ (البقرۃ: ۳۲)
‘‘ اے اللہ! تیری ذات پاک ہے، ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے، جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے۔’’
اربابِ فطانت پر واضح ہو کہ تعزیہ پرستی کرنا، جس طرح پر کہ ملک ہندوستان وغیرہ میں شائع و ذائع ہے، سراسر شرک و ضلالت ہے، کیونکہ تعزیہ پرست لوگ اپنے فہم ناقص و خیال باطل میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی تصویر بناتے ہیں، اس طور پر کہ پانچویں تاریخ محرم کو تھوڑی مٹی کسی جگہ سے لاتے ہیں اور اس کو نعش حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ قرار دے کر کے نہایت عزت و احترام کے ساتھ ایک چیز بلند پر مثل چبوترہ وغیرہ کے اس کو رکھ کرکے ہر روز اس پر شربت و مٹھائی و مالیدہ وپھول وغیرہ اپنے زعم فاسد میں فاتحہ و نیاز دیتے ہیں اور کسی شخص کو اس چبوترہ پر جوتہ پہنے ہوئے نہیں جانے دیتے۔
اور اس مٹی کے سامنے، جس کو نعش قرار دیا ہے، سجدہ کرتے ہیں اور ترقی مال و دولت و اولاد کی اس مٹی سے طلب کرتے ہیں۔ کوئی منت مانگتا ہے کہ یا امام حسین رضی اللہ عنہ میرا فلانا مریض اچھا ہو جائے، کوئی کہتا ہے کہ میری فلانی مراد برآوے۔ اسی طرح کوئی اولاد مانگتا ہے، کوئی اپنے اور مشکلات کے حل چاہتا ہے، الغرض جو معاملہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ چاہیے، وہ سب معاملہ اس مٹی کے سامنے، جس کو نعش قرار دیا ہے، کرتے ہیں اور پھر اس نعش کی دستار بندی کرکے اور سہرہ و مقنع باندھ کے خوب ڈھول باجہ کے ساتھ تمام گشت کراتے ہیں اور نعرہ یا حسین یا حسین کا مارتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس اسی قسم کے اور بہت سے افعال شنیعہ و منکرہ کرتے ہیں۔ پس جب حقیقت تعزیہ پرستی کی یہ ہے تو اس کے شرک ہونے میں کیا شک و شبہ باقی رہا؟ ان تعزیہ پرستوں نے اپنی پرستش کے لیے ایک نشانی ٹھہرا لیا ہے، اب یہ تعزیہ بھی ایک فرد انصاب (آستانے) کا ہے اور پوجنا نصب (آستانوں کا) حرام ہے۔ پس تعزیہ بنانا اور پوجنا اس کو بھی حرام ہوا۔
فرمایا حق سبحانہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ میں:
﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ (المائدۃ: ۹۰)
‘‘ اے جو لوگ ایمان لائے ہو سوائے اس کے نہیں کہ شراب اور جوا اور انصاب اور تیر فال کی ناپاک ہیں کام شیطان کے سے، پس بچو اس سے تو کہ تم فلاح پاؤ۔’’
اور معنی انصاب کے صحاح جوہری میں یوں لکھا ہے:
‘‘ النصب: ما نصب فعبد من دون اللہ’’ انتھی (الصحاح للجوھري ، ۲/ ۲۴۶)
‘‘ یعنی جو چیز گاڑی جاوے اور اس کی پرستش کی جاوے سوائے اللہ تعالیٰ کے۔’’
اور ‘‘ المصباح المنیر’’ میں ہے:
‘‘ النصب۔ بضمتین۔ حجر، نُصِبَ وَعُبِدَ من دون اللہ، وجمعہ أنصاب۔’’ انتھی ( المصباح المنیر للفیومي، ص: ۳۱۲)
‘‘ یعنی جو پتھر کہ گاڑا جائے، اور اس کی عبادت کی جائے سوائے اللہ تعالیٰ کے۔’’
اور ‘‘ مجالس الأبرار ومسالک الأخیار’’ میں ہے:
‘‘ فالأنصاب جمع نصب، بضمتین، أو جمع نصب، بالفتح والسکون، وھو کل ما نصب، وعبد من دون اللہ تعالیٰ من شجر، أو حجر، أو قبر، وغیر ذلک، والواجب ھدم ذلک’’ انتھی (مجالس الأبرار ومسالک الأخیار، المجلس السابع عشر، ص: ۱۲۸)
‘‘ یعنی نصب وہ چیز ہے جو گاڑی جاوے اور اس کی عبادت کی جاوے سوائے اللہ تعالیٰ کے، جیسے درخت اور پتھر یا قبر، اور جو چیز سوائے اس کے ہے (اس کی عبادت کی جاوے) اور واجب ہے توڑ دینا اور ڈھا دینا ان سب چیزوں کا۔ تمام ہوا ترجمہ اس کا۔ ’’
اور حافظ ابن القیم نے ‘‘ إغاثۃ اللھفان ’’ میں لکھا ہے:
‘‘ ومن الأنصاب ما قد نصب للمشرکین من شجر، أو عود، أو وثن، أو قبر، أو خشیۃ، ونحو ذلک، والواجب ھدم ذلک ومحو أثرہ۔’’ ( إغاثۃ اللھفان لابن القیم، ۱/ ۲۰۹)
‘‘ نصب وہ ہے جو گاڑا جائے مشرکین کے لیے، خواہ درخت ہو، بانس ہو، بت کدہ ہو یا قبر یا کوئی لکڑی ہو اور اس طرح کی اور کوئی چیز۔ ان سب کا ڈھا دینا اور ان کے نشانات کا مٹا دینا بھی ضروری ہے۔’’
پس دیکھو کہ حافظ ابن قیم اور صاحب مجالس الابرابر نے صاف لکھ دیا کہ جو چیز پوجی جاوے اللہ تعالیٰ کے سوائے، خواہ کوئی درخت ہو، یا پتھر ہو، یا قبر ہو کسی کی، یا لکڑی ہو، یا جو چیز مثل اس کے ہو، سب نصب میں داخل ہے، اس کا توڑ دینا واجب ہے۔
اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے برائی شراب اور انصاب اور جُوا تینوں کی ایک ہی جگہ بیان فرمایا اور تینوں کو نجس و کام شیطان کا قرار دیا۔ اور تعزیہ کا بھی انصاب میں داخل ہونا یقینی ہے، کیونکہ پوجا جانا تعزیہ کایعنی اس کو سجدہ کرنا اور اس سے انواع و اقسام کی مدد چاہنا اظہر من الشمس ہے۔ پس ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کو توڑ دیں اور خاک سیاہ کردیں۔ دیکھو جب جناب رسول اللہﷺ سال فتح مکہ میں مکہ معظمہ کو تشریف لے گئے، آپ اندر بیت اللہ داخل نہ ہوئے بسبب اس کے کہ بیت اللہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ تصویریں رکھی تھیں کہ جن میں تصویر حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی بھی تھی۔ آپ نے حکم دیا کہ وہ سب تصویریں نکالی جائیں اور توڑ دی جائیں، چنانچہ وہ تصویریں نکالی گئیں، آپ ان تصویروں کو لکڑی سے مارتے تھے اور کسی تصویر کے آنکھ میں ٹھوکر لگاتے تھے، پس سب بت گرتے جاتے تھے اور جو جو تصویریں کہ دیواروں پر منقش تھیں، ان کو پانی سے دھو دینے کا حکم دیا۔ ( دیکھیں: سورۃ المائدۃ: ۹۰)
جیسا کہ صحیح بخاری و صحٰیح مسلم میں ہے:
‘‘ عن عبداللہ قال : دخل النبيﷺ مکۃ یوم الفتح، وحول البیت ستون وثلاث مائۃ نصب، فجعل یطعنھا بعود في یدہ، ویقول: جاء الحق وزھق الباطل، جاء الحق وما یبدئ الباطل وما یعید۔’’ (صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۰۴۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۱۷۸۱)
‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ داخل ہوئے رسول اللہﷺ مکہ معظمہ میں دن فتح کے اور چاروں طرف بیت اللہ کے تین سو ساٹھ تصویریں تھیں، پس آپ ٹھوکر لگانے لگے ان تصویروں کو ایک لکڑی سے، جو آپ کے ہاتھ میں تھی اور فرماتے تھے کہ آیا حق اور گم ہوا باطل اور پھر نہ لوٹے گا باطل۔’’
اور بھی صحیح بخاری میں ہے:
‘‘ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ أن رسول اللہﷺ لما قدم مکۃ، أبیٰ أن یدخل البیت، وفیہ الآلھۃ، فأمر بھا فأخرجت فأخرج صورۃ إبراھیم وإسماعیل، في أیدیھما من الأزلام، فقال النبيﷺ : قاتلھم اللہ …’’ الحدیث ( صحیح البخاري، رقم الحدیث: ۴۰۳۷)
‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ جب مکہ میں تشریف لائے تو اندر خانہ کعبہ کے داخل ہونے سے انکار فرمایا، اس حالت میں کہ اس میں مشرکین کی معبودیں ہوں، پس حکم ان کے نکالنے کا دیا، پس وہ سب معبودیں (جو کہ تصویریں تھیں) نکالے گئے، پس انھی تصویروں میں حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کی بھی تصویر تھی اور ان دونوں کے ہاتھوں میں تیر فال کی تھی، پس آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت مشرکوں پر۔’’
اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
‘‘ قال : وفي ید رسول اللہ ﷺ قوس، وھو آخذ بسیۃ القوس، فلما أتی علی الصنم جعل یطعن في عینہ، ویقول : جاء الحق وزھق الباطل۔’’ (صحیح مسلم، رقم الحدیث:۱۷۸۰)
‘‘ کہا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے: اور ہاتھ میں رسول اللہﷺ کے کمان تھی اور آپ پکڑے ہوئے تھے سرے کو کمان کے، پس جبکہ آتے تھے بت کے پاس اس کی آنکھ میں کمان سے ٹھوکر لگاتے تھے اور فرماتے کہ آیا حق اور گم ہوا باطل۔’’
اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اسی واقعہ میں مروی ہے:
‘‘ فیسقط الصنم ولا یمسہ ’’ ( صحیح ابن حبان (۱۴/ ۴۵۲) المعجم الأوسط للطبراني (۸/ ۵۱) اس کی سند میں ‘‘ عاصم بن عمر العمری’’ راوی ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: السلسلۃ الضعیفۃ، رقم الحدیث: ۶۳۹۷)
یعنی ٹھوکر لگانے سے بت گر جاتا تھا اور آپﷺ اس کو دست مبارک سے چھوتے نہیں۔
اور طبرانی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
‘‘ فلم یبق وثن إلا سقط علی قفاہ، مع أنھا کانت ثابتۃ بالأرض ، قد شد لھم إبلیس أقدامھا بالرصاص۔’’ (المعجم الکبیر (۱۰/ ۲۷۹) والمعجم الصغیر (۲/ ۲۷۲) ان مصادر میں روایت کے الفاظ مختلف ہیں، کیونکہ مولف رحمہ اللہ کے نقل کردہ الفاظ فتح الباری لابن حجر (۸/ ۷۱) سے ماخوذ ہیں۔ امام ہیثمی رحمہ اللہ یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ‘‘ رواہ الطبراني في الصغیر، وفیہ ابن إسحاق ، وھو مدلس ثقۃ، وبقیۃ رجالہ ثقات’’ (مجمع الزوائد: ۱۱۱۴۸)
‘‘ یعنی پس نہیں باقی رہا کوئی بت مگر یہ کہ کٹ کر گر گیا باوجود اس کے کہ وہ بت سب زمین میں گڑے ہوئے تھے اور شیطان نے ان کے پیروں کو رانگا سے جکڑ دیا تھا۔’’
اور ابوداود نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
‘‘ إن النبيﷺ أمر عمر بن الخطاب، وھو بالبطحاء، أن یأتي الکعبۃ فیمحو کل صورۃ فیھا، فلم یدخلھا حتی محیت کل صورۃ، وکان عمر ھو الذي أخرجھا۔’’ ( سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۱۵۶) مسند أحمد (۳/ ۳۸۳) نیز دیکھیں: فتح الباري ، ۸/ ۱۷)
‘‘ رسول اللہﷺ نے حکم دیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اور وہ بطحاء میں تھے، کہ جائیں کعبہ میں اور مٹا دیں تصویروں کو جو وہاں ہوں، پس نہ داخل ہوئے رسول اللہ کعبہ میں یہاں تک کہ صورتیں مٹا دی گئیں اور جو صورتیں ذی جسم تھیں ان کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باہر نکالا۔’’
کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں:
‘‘ والذي یظھر أنہ محا ما کان من الصور مدھونا مثلا، وأخرج ما کان مخروطاً۔’’ (فتح الباري، ۸/ ۱۷)
‘‘ سب روایتوں کو ملانے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جو صورتیں منقش کی ہوئی تھیں ان کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مٹا دیا اور جو تراش کے بنائی گئی تھیں، یعنی ذی جسم تھی، اس کو باہر نکال دیا۔’’
‘‘ وأخرج أبو داود الطیالسي عن أسامۃ بن زید قال : دخلت علی رسول اللہ ﷺ في الکعبۃ فرأی صورا فدعا بدلو من ماء فأتیتہ بہ، فضرب بہ الصور، وسندہ جید۔’’ ( مسند الطیالسي (ص:۸۷) مؤلف رحمہ اللہ کی نقل کردہ عبارت فتح الباری لابن حجر (۳ / ۴۶۸) سے ماخوذ ہے)
‘‘ کہا اسامہ نے: گئے ہم رسول اللہﷺ کے پاس کعبہ میں، پس دیکھا آپﷺ نے بہت سی صورتیں، پس ایک ڈول پانی مانگا، ہم نے لا دیا، پس پانی چھینٹا آپ نے ان صورتوں پر۔ اس کی سند جید ہے۔’’
پس جب وہ تصویریں جن میں تصویر حضرت ابراہیم واسماعیل علیہم السلام کی بھی تھی، رسول اللہﷺ نے باقی نہیں رکھیں، بلکہ تصویریں ذی جسم کو توڑ دیا اور ذی نقش کو پانی سے دھو دیا، پس اب تعزیہ کے توڑ دینے میں کسی قسم کا تردد و شک و شبہ باقی نہیں رہا، کیونکہ ان تصویروں کی پرستش ہوتی تھی، اسی لیے رسول اللہﷺ نے ان کو توڑا اور مٹا دیا۔ وہی وجہ بعینہ تعزیہ میں بھی موجود ہے، اور قطع نظر پرستش کے، جس گھر میں تصویر ذی روح کی رہتی ہے، وہاں فرشتے رحمت کے نہیں آتے ہیں، جیسا کہ تمام کتب احادیث اس سے مالا مال ہیں۔ (دیکھیں: صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۰۵۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۲۱۰۶)
اور فتح الباری میں ہے:
‘‘ وکانت تماثیل في صور شتیٰ، فامتنع النبيﷺ من دخول البیت، وھي فیہ، لأنہ لا یقر علی باطل، ولأنہ لا یحب فراق الملائکۃ، وھي لا تدخل ما فیہ صورۃ۔’’ انتھی (فتح الباري: ۳/ ۴۶۹)
یعنی تھیں وہ تصویریں مختلف صورتوں کی۔ پس باز آئے رسول اللہﷺ بیت اللہ کے داخل ہونے سے درحالیکہ وہ تصویریں بیت اللہ میں رہیں، کیونکہ رسول اللہﷺ امر باطل پر سکوت نہیں فرماتے اور اس سبب سے کہ آپ نہیں دوست رکھتے فرشتوں کی جدائی کو، اور فرشتے نہیں داخل ہوتے اس جگہ جہاں تصویر ہو۔
پس جس جگہ تعزیہ وغیرہ صورت ذی جان کی ہو، وہاں فرشتے نہیں آتے ہیں۔ تمامی ممالک ہند وغیرہ میں جہاں جہاں تعزیہ داری ہوتی ہے، ہزاروں در ہزار آدمی شرک میں گرفتار رہتے ہیں، کوئی اس کو سجدہ کرتا ہے، کوئی اولاد اس سے چاہتا ہے، کوئی ترقی مال و دولت، کوئی صحت مریض، کوئی کچھ اور، کوئی کچھ اور۔ ایسی عظمت و تعظیم جو خاص واسطے باری تعالیٰ کے لائق ہے، کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ذرا سا بے ادبی کرنے میں قہر و بلا نازل ہونے لگے گی۔ اب اے غافل لوگ تم سب متنبہ اور ہوشیار ہو جاؤ کہ تم لوگ کیسے گناہ عظیم میں مبتلا ہو، ہوشیار ہو جاؤ۔ دیکھو اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ﴾ (الفاتحۃ: ۵)
‘‘ یعنی تجھ ہی کو پوجتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔’’
حصر ہے ایاک نعبد نستعین استعانت غیر سے لائق نہیں
اور فرمایا:
﴿ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾ (البقرۃ: ۲۲)
‘‘ پس نہ ٹھہراؤ اللہ کے ساجھی اور تم جانتے ہو کہ اللہ کے برابر کوئی نہیں ہے۔’’
اور فرمایا:
﴿ وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا ﴾ (النساء: ۳۶)
‘‘ اور عبادت کرو اللہ کی اور مت ٹھہراؤ اس کے ساتھ شریک۔’’
اور فرمایا:
﴿ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا ﴾ (المائدۃ: ۷۶)
‘‘ تم لوگ ایسی چیز کو پوجتے ہو اللہ کو چھوڑ کر جو مالک نہیں تمہارے ضرر اور نفع کا۔’’
اور فرمایا:
﴿ وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗ اِلَّا ھُوَ وَاِنْ یَّمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾ (الأنعام: ۱۷)
‘‘ اور اگر پہنچا دے اللہ تجھ کو کچھ مصیبت، نہیں دور کرنے والا اس کو سوائے اللہ کے اور اگر پہنچائے اللہ بھلائی، پس وہ ہر چیز پر قادر ہے۔’’
اور فرمایا:
﴿ وَمَآ اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اِلٰھًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ﴾ (التوبۃ: ۳۱)
‘‘ اور حکم یہی ہوا تھا کہ بندگی کریں ایک اللہ کی نہیں کوئی قابل عبادت کے مگر وہی۔’’
اور فرمایا:
﴿ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّآ اِیَّاہُ ﴾ (یوسف: ۴۰)
‘‘ حکم کیا اللہ پاک نے کہ نہ عبادت کرو مگر اسی کی۔’’
اور فرمایا:
﴿ اَفَمَنْ یَّخْلُقُ کَمَنْ لَّا یَخْلُقُ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ ﴾ (النحل:۱۷)
‘‘بھلا جو پیدا کرے برابر ہے اس کے جو کچھ نہ پیدا کرے۔ تم لوگ کچھ نہیں سوچتے ہو۔’’
اور فرمایا:
﴿ وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا یَمْلِکُ لَھُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ شَیْئًا وَّلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ﴾ (النحل: ۷۳)
‘‘ اور پوجتے ہیں اللہ کے سوا ایسوں کو جو مختار نہیں ان کی روزی کے آسمان اور زمین میں سے کچھ اور نہ مقدور رکھتے ہیں۔’’
اور فرمایا:
﴿ ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ ﴾ (فاطر:۳)
‘‘ کوئی ہے بنانے والا اللہ کے سوا، روزی دیتا تم کو آسمان اور زمین سے، کوئی حاکم نہیں مگر وہ، پھر کہاں الٹے جاتے ہیں۔’’
اور فرمایا:
﴿ لاَ تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلاَ لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلَّہِ الَّذِیْ خَلَقَہُنَّ اِِنْ کُنْتُمْ اِِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ ﴾(حم السجدۃ: ۳۷)
‘‘ مت سجدہ کرو آفتاب کو اور نہ چاند کو، اور سجدہ کرو اللہ کو، جس نے آفتاب اور چاند کو بنایا، اگر ہو تم اللہ کو پوجتے۔’’
اور فرمایا:
﴿ وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَۃً لاَّ یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلاَ یَمْلِکُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلاَ نَفْعًا وَّلاَ یَمْلِکُوْنَ مَوْتًا وَّلاَ حَیٰوۃً وَّلاَ نُشُورًا﴾ (الفرقان:۳)
‘‘ پکڑا لوگوں نے سوائے اس کے معبودوں کو جو نہیں بناتے کچھ چیز اور خود بنائے گئے ہیں اور نہیں مالک اپنی جان کے نقصان و نفع کے اور نہیں مالک مرنے کے نہ جینے کے اور نہ جی اٹھنے کے۔’’
اور فرمایا:
﴿ لَہٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَقْدِرُاِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ﴾ (الشوریٰ: ۱۲)
‘‘ اسی کے پاس ہیں کنجیاں آسمانوں کی اور زمین کی، کشادہ کرتا ہے رزق جس کے واسطے چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔’’
اور فرمایا:
﴿ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ ﴾(فاطر: ۱۳)
‘‘ اور جن کو تم پکارتے ہو سوائے اللہ کے مالک نہیں ایک چھلکے کے۔’’
اور فرمایا:
﴿ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّکُوْرَ ۔ اَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَّاِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًا اِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ ﴾(الشوریٰ: ۴۹،۵۰)
‘‘ اللہ ہی کو ہے بادشاہت آسمانوں اور زمین کی، پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، دیتا ہے جس کو چاہے بیٹیاں، اور دیتا ہے جس کو چاہے بیٹے، یا نہیں دیتا ہے ان کو بیٹے اور بیٹیاں، اور کردیتا ہے جس کو چاہتا ہے بانجھ، بے شک وہی ہے جاننے والا اور قدرت والا۔’’
اور فرمایا:
﴿ وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ (یونس: ۱۰۶)
‘‘ اور مت پکار اللہ کے سوا ایسے کو کہ نہ نفع پہنچا سکے تجھ کو اور نہ ضرر پہنچا سکے، پھر اگر تو نے یہ کیا تو تو بھی ظالموں میں ہے۔’’
اور فرمایا:
﴿قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ﴾(النمل: ۶۵)
‘‘ تو کہہ غیب نہیں جانتا آسمانوں اور زمین کا کوئی رہنے والا سوائے اللہ کے۔’’
اور فرمایا:
﴿ وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ قُلْ اَفَرَءَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ اَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ھَلْ ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖٓ اَوْ اَرَادَنِیْ بِرَحْمَۃٍ ھَلْ ھُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہٖ قُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ﴾ (الزمر:۳۸)
‘‘ اور جو تو ان سے پوچھے کس نے بنائے آسمان اور زمین، تو کہیں اللہ نے، تو کہہ بھلا دیکھو تو جن کو پوجتے ہو اللہ کے سوا، اگر چاہے اللہ مجھ پر کچھ تکلیف کیا وہ ہیں کہ کھول دیں تکلیف اس کی یا وہ چاہے مجھ پر مہر وہ ہیں کہ روک دیں اس کی مہر کو، کہو مجھ کو بس ہے اللہ اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں بھروسہ رکھنے والے۔’’
اور فرمایا:
﴿ اِنَّ اللہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ ﴾ (الذاریات:۵۸)
‘‘ اللہ ہی ہے روزی دینے والا زور آور مضبوط۔’’
اور فرمایا:
﴿ وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ ﴾ (الأنعام:۵۹)
‘‘ اسی کے پاس کنجیاں ہیں غیب کی، اس کو کوئی نہیں جانتا اس کے سوا۔’’
اور اسی مضامین کی اور ہزاروں آیتیں ہیں جن سے یہ بات ثابت ہے کہ شدائد اور مصیبتوں کے وقت اللہ تعالیٰ ہی کو پکارنا چاہیے اور اسی سے استعانت و مدد و طلب روزی و اولاد و صحتِ امراض کرنا چاہیے اور اس کے سوائے کسی کو خواہ انبیاء و اولیا و قطب ہوں، علم غیب حاصل نہیں کہ شدائد کے وقت جب وہ پکارے جائیں تو وہ سنیں اور مدد کریں اور ان کو ذرا بھی اختیار حاصل نہیں کہ کسی کو کچھ نفع نقصان پہنچائیں۔ تعزیہ پرستوں و قبر پرستوں نے خالق و مخلوق کو برابر کردیا، بلکہ مخلوق سے زیادہ ڈرنے لگے اور اللہ تعالیٰ کی کچھ قدر نہیں پہچانتے:
﴿ وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ ﴾ (الأنعام: ۹۱)
‘‘ اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدر کرنا واجب تھی، ویسی قدر نہ کی۔’’
ان لوگوں سے اور مشرکینِ مکہ سے کچھ فرق نہیں۔ مشرکینِ مکہ بھی اللہ تعالیٰ کو ایک جانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اولاد و رزق وہی دیتا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی وہ لوگ اپنے بتوں کی عظمت و تعظیم مثل تعظیم خدائے تعالیٰ کی کرتے تھے اور ان سے مدد و استعانت چاہتے تھے اور ان کو پوجتے اور کہتے کہ واسطے حصول تقرب الٰہی ان کو پوجتے ہیں، جیسا کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللہِ زُلْفٰی ﴾ (الزمر: ۳)
نہیں عبادت کرتے ہم ان کو، مگر تو کہ نزدیک کریں ہم کو طرف اللہ کے نزدیک کرنے کو۔ وہی حال قبر پرستوں اور تعزیہ پرستوں کا ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کو خالق و رازق جانتے ہیں اور بزرگوں سے بھی مدد و استعانت چاہتے ہیں اور ان کی قبروں پر سجدہ اور طواف کرتے ہیں۔ اور اوپر آیات قرآنیہ سے ثابت ہوچکا کہ عبادت غیر اللہ کی حرام و شرک ہے۔
اب جاننا چاہیے کہ طلبِ اعانت و مدد و دعا بھی ایک فرد عبادت ہے۔
جیسا کہ تفسیر نیشاپوری میں ہے:
‘‘ قال جمھور العلماء : ان الدعاء من أعظم مقامات العبودیۃ’’ (تفسیر النیسابوري، ۱/ ۴۳۸)
‘‘ کہا سارے علماء نے کہ تحقیق دعا مانگنا بہت بڑی عبادتوں میں ہے۔’’
اور تفسیر معالم التنزیل میں ہے:
‘‘ الاستعانۃ نوع تعبد۔’’ ( تفسیر معالم التنزیل للبغوي، ۱/ ۵۴)
‘‘ مدد طلب کرنا ایک قسم کی عبادت ہے۔’’
اور بھی تفسیر نیشاپوری میں ہے:
‘‘ حقیقۃ الدعاء: استدعاء العبد ربہ جل جلالہ، والاستمداد، والمعونۃ منہ۔’’ انتھی ( تفسیر النیسابوري، ۱/ ۴۳۸)
‘‘ اصل معنی دعا کے یہ ہے کہ حاجت اور مدد اور اعانت اللہ تعالیٰ سے طلب کرنا۔’’
اور نصاب الاحتساب میں ہے:
‘‘ إذا سجد لغیر اللہ یکفر، لأن وضع الجبھۃ علی الأرض لا یجوز إلا اللہ تعالی ۔’’ (نصاب الاحتساب، ص: ۳۱۸)
‘‘ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو سجدہ کرنے سے کافر ہو جاتا ہے، اس واسطے کہ رکھنا پیشانی کا زمین پر جائز نہیں مگر اللہ تعالیٰ کے واسطے۔’’
اور ایسا ہی تفسیر کبیر میں بذیل آیہ کریمہ ﴿ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ…﴾ کے ہے۔ (التفسیر الکبیر لفخر الدین الرازي، ۱۶/ ۳۰)
اور ایسا ہی ہے شرح مرقاۃ ملا علی قاری میں بشرح حدیث (( لعن اللہ الیھود والنصاری)) ( مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ، ۲/ ۶۰۰)
اب یہ سب بیان ماسبق سے تعزیہ پرستی کا شرک ہونا ثابت ہوا۔ اور مشرکین کے حق میں یہ وعید نازل ہوئی ہے:
﴿اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ﴾(النساء: ۴۸)
’’ تحقیق اللہ نہیں بخشتا ہے اس کو جو کہ شریک اس کا پکڑے اور بخشتا ہے شرک کے سوا جس کو چاہے۔‘‘
﴿اِنَّہٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَيْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُ وَمَا لِلظّٰلِــمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ﴾ ( المائدۃ: ۷۲)
’’ مقرر جس نے شرک کیا اللہ کا سو حرام کی اللہ نے اس پر جنت اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کوئی نہیں ظالموں کا مدد کرنے والا۔‘‘
اور فرضاً اگر کوئی شخص تعزیہ وغیرہ بہ نیت پرستش و عبادت و تعظیم لغیر اللہ کے نہ بنائے، بلکہ اپنے زعم فاسد میں ماتم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ قرار دے، یا صرف بنا بر رسم و رواج و طمع دنیاوی کے بناوے، تب بھی گناہ کبیرہ ہونے سے خالی نہیں۔ اس لیے کہ اگرچہ وہ اس کی پرستش نہیں کرتا، مگر وسیلہ پرستش تو ہے۔ دوسرے جہال اس کی پرستش کریں گے اور خود وہ شخص بدعتیوں میں داخل ہوا، کیونکہ اس طرح پرتمثال و صورت قائم کرکے ماتم کرنا حرام و بدعت ہے، نہ تو رسول اللہﷺ کے زمانےمیں ہوا، نہ صحابہ کے زمانوں میں پایا جاتا۔
صحیح بخاری وغیرہ میں ہے:
’’ قال رسول اللہﷺ : من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھورد۔‘‘ ( صحیح البخاري ، رقم الحدیث (۲۵۵۰)
’’ فرمایا جناب رسول اللہﷺ نے: جس نے میرے اس دین میں نکالا، وہ چیز جو کہ دین میں نہیں ہے، پس وہ چیز مردود ہے۔‘‘
’’ وعن ابن عباس رضي اللہ عنھما قال : قال رسول اللہﷺ : أبٰی اللہ أن یقبل عمل صاحب بدعۃ حتٰی یدع بدعتہ‘‘ رواہ ابن مجاہ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۵۰) امام بوصیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’رجال إسناد ھذا الحدیث کلھم مجھولون‘‘ نیز امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ ھذا حدیث لا یصح عن رسول اللہ صلی اللہ عیہ وسلم، وفیہ مجاھیل ‘‘ (العلل المتناھیۃ: ۱ ؍۱۴۵)
’’ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بدعتیوں کا عمل قبول نہیں فرماتا جب تک وہ اپنی بدعت سے توبہ نہ کریں۔
’’ وعن أنس بن مالک قال قال رسول اللہ ﷺ : إن اللہ حجب التوبۃ عن کل صاحب بدعۃ حتی یدع بدعتہ ‘‘ (رواہ الطبراني بإسناد حسن) ، (المجعم الأوسط ۴ ؍۲۸۱) امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ رواہ الطبراني في الأوسط، ورجالہ رجال الصحیح غیر ھارون بن موسیٰ الفروي، وھو ثقۃ ‘‘ (مجمع الزوائد : ۱۰ ؍۳۰۷)
’’ اللہ تعالیٰ بدعتیوں کی توبہ کو قبول نہیں فرماتا جب تک وہ اپنی بدعت سے توبہ نہ کریں۔‘‘
’’ وعن إبراھیم بن میسرۃ قال : قال رسول اللہﷺ : من وقر صاحب بدعۃ فقد أعان علی ھدم الإسلام‘‘ (رواہ البیھقي في شعب الإیمان) ، ( شعب الإیمان ۷ ؍۶۱، یہ سند ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن یہی حدیث ایک دوسری حسن سند سے بھی مروی ہے، دیکھیں: الشریعہ للآجري (ص:۹۶۲) رقم الحدیث (۲۰۴۰) اس کی سند میں واقع راوی ’’ عباس بن یوسف الشکلي ‘‘ کوامام ذہبی اور صفدی نے ’’ مقبول الروایۃ‘‘ اور حافظ خطیب بغدادی اور امام ابن جوزی نے ’’وکان صالحا متنسکا‘کہاہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ حضرو (شمارہ: ۶۰، ص: ۵)
’’ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے عظمت و توقیر بدعتیوں کی کیا، اس نے اسلام ڈھانے پر اعانت کیا۔‘‘
اور برتقدیر صورت ثانیہ کے یعنی بنا بر رسم و رواج کے تعزیہ بنانا یہ بھی معصیت میں داخل ہے، کیونکہ یہ فعل اس کا معین علی الشرک ہے اور پابندی رسم و رواج کی درباب امور شرکیہ کے خود شرک ہے، اور وہ داخل ہے اس آیہ کریمہ ہے:
﴿ وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاءَنَا﴾( البقرۃ: ۱۷۰)
’’ اور جب کہا جاتا ہے واسطے ان کے پیرو کرو اس چیز کی کہ اتارا اللہ نے، کہتے ہیں بلکہ پیروی کریں ہم اس چیز کی کہ پایا ہم نے اوپر اس کے باپوں اپنے کو۔‘‘
پس ہر تعزیہ پرستوں کو لازم و واجب ہے کہ تعزیہ بنانے اور تعزیہ کی پرستش سے توبہ کریں اور عذابِ آخرت اپنی گردن میں نہ لیں، اور جو آدمی بعد توبہ کرنے کے تعزیہ پرستی سے پھر مرتکب اس کا ہوا اور تعزیہ پرستی شروع کیا، اس شخص کا وہی حکم ہے جو کہ صریحاً اوپر بیان ہوا اور وہ انھیں صورتوں میں داخل ہوا۔ العیاذ باللہ
اور جو لوگ اپنے کو سنی کہتے ہیں، ان کو تعزیہ پرستوں کے ساتھ اتحاد و محبت رکھنا گناہ ہے اور جائز نہیں کہ ان کے جلسے میں شریک ہوں اور نہ ان کی دعوت کریں، بلکہ ان کی اس فعل شنیع پر مزاحمت کریں، ورنہ انھیں تعزیہ پرستوں کے ساتھ یہ بھی قیامت میں اٹھائے جائیں گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾(آل عمران: ۱۰۴)
’’ اور چاہیے کہ ہو تم میں سے ایک جماعت کہ بلاویں طرف بھلائی کے، اور حکم کریں ساتھ اچھی چیز کے، اور منع کریں بری بات سے، اور یہ لوگ چھٹکارا پانے والے ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ﴾ (آل عمران: ۱۱۰)
’’ ہو تم بہتر امت، جو نکالے گئے ہو واسطے لوگوں کے، حکم کرتے ہو ساتھ اچھی باتوں کے، اور منع کرتے ہو برائی سے۔‘‘
’’ وعن أبي سعید الخدري عن النبيﷺ قال : لا تصاحب إلا مؤمناً ولا یأکل طعامک إلا تقي ‘‘ رواہ أبوداود وابن حبان (سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۸۳۲) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۳۹۵) صحیح ابن حبان ، ۲ ؍۳۱۴، ۳۲۰)
’’ ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: مت ساتھ کر کسی کا سوائے مومن کے اور مت کھلا اپنا کھانا مگر پرہیز گار کو۔‘‘
یعنی مکاروں کی دعوت نہ کرے اور ان کی صحبت میں نہ بیٹھے، نہ ان کے ساتھ خلط ملط رکھے، ورنہ ان کی عادتیں اس میں بھی اثر کریں گی۔‘‘
قال الخطابي : ’’ ھذا في طعام الدعوۃ دعون طعام الحاجۃ … وإنما حذر من صحبۃ من لیس بتقي ، وزجر عن مخالطتہ ومؤاکلتہ، لأن المطاعمۃ توقع الألفۃ والمودۃ في القلوب، یقول : لا تؤالف من لیس من أھل التقوی والورع ، ولا تتخذہ جلیسا تطاعمہ وتنادمہ ‘‘ انتھی (معالم السنن للخطابي ۲ ؍۴۷۷)
حاصل ترجمہ علامہ خطابی کا یہ ہے کہ بدکاروں کی دعوت نہ کرے، کیونکہ رسول اللہﷺ نے بدکاروں کے ساتھ رہنے کو اور میل جول رکھنے کو اور ان کے ساتھ کھانے پینے کو اس واسطے منع فرمایا کہ ان لوگوں سے دوستی و محبت نہ ہو جائے۔
’’ وعن أبي ھریرۃ أن النبيﷺ قال : الرجل علی دین خلیلہ ، فلینظر أحدکم من یخالل ‘‘ رواہ أبو داود والترمذي، وحسنہ، وصححہ الحاکم ( سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۸۳۳) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۳۷۸) وقال : ’’ ھذا حدیث حسن غریب‘‘ مسند أحمد ( ۲ ؍۳۳۴) المستدرک علی الصحیحین للحاکم (۴ ؍۱۸۹)
’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوگا تو دیکھ لے کس سے دوستی کرتا ہے۔‘‘
یعنی سمجھ بوجھ کر دوستی کرے، ایسا نہ ہو کہ مشرک یا بدعتی سے دوستی کرے، پھر اس کے ساتھ آپ بھی جہنم میں جائے۔
’’ وعن علي قال : قال رسول اللہﷺ : لا یحب رجل قوماً إلا حشر معھم ‘‘ رواہ الطبراني في الصغیر والأوسط بإسناد جید ( المعجم الأوسط (۶ ؍۲۹۳) المعجم الصغیر ۲ ؍۱۱۴)
’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو آدمی کسی قوم کو دوست رکھتا ہے، وہ اس کے ساتھ قیامت میں اٹھایا جاوے گا۔‘‘
’’ وعن جریر قال : سمعت النبيﷺ یقول : ما من رجل یکون في قوم یعمل فیھم بالمعاصي، یقدرون علی أن یغیروا علیہ فلا یغیروا إلا أصابھم اللہ بعقاب من قبل أن یموتوا‘‘( سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۳۳۹) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۰۰۹) مسند أحمد ۴ ؍۳۶۴)
’’ جریر سے روایت ہے کہ کہا رسول اللہﷺ سے میں نے سنا ہے، آپ فرماتے تھے: جو شخص کسی قوم میں برے کام کیا کرتا ہو اور قوم والے باوجود قدرت کے اس کو اور اس کے کام نہ بگاڑیں تو اللہ اپنا عذاب ان پر ان کی موت سے پہلے ہی پہنچاتا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے چھوڑ دینے کے سبب سے دنیا میں بھی عذاب اترتا ہے اور آخرت کا عذاب بھی باقی رہتا ہے۔
’’ وعن عبداللہ بن مسعود قال : قال رسول اللہﷺ : إن أول ما دخل النقص علی بني إسرائیل کان الرجل یلقی الرجل فیقول : یا ھذا اتق اللہ، ودع ما تصنع ، فإنہ لا یحل لک ، ثم یلقاہ من الغد فلا یمنعہ ذلک أن یکون أکیل وشربیہ وقعیدہ، فلما فعلوا ذلک ضرب اللہ قلوب بعضھم علی بعض، ثم قال : لعن الذین کفروا من بني إسرائیل علی لسان داود وعیس بن مریم … إلی قولہ : فاسقون‘‘ رواہ أبوداود ( سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۳۳۶) یہ حدیث سند میں انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں : السلسلۃ الضعیفۃ، رقم الحدیث ۱۱۰۵)
’’ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پہلی خرابی جو بنی اسرائیل میں پڑی، یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا اور اس سے کہتا خدا سے ڈر اور اپنی حرکات سے باز آ، کیونکہ یہ درست نہیں ہے۔ پھر جب دوسرے دن اس سے ملتا تو منع نہیں کرتا ان باتوں سے، اس لیے کہ شریک ہو جاتا اس کے کھانے اور پینے اور بیٹھنے میں۔ یعنی جب صحبت ہوتی اور کھانے پینے کا مزہ ملتا تو امر بالمعروف چھوڑ دیتے۔ پھر جب ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی بعضوں کے دل کو بعضوں کے دل کے ساتھ ملا دیا۔‘‘
’’ وعن حذیفۃ عن النبيﷺ قال : والذي نفسي بیدہ لتأمرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر أو لیوشکن اللہ أن یبعث علیکم عقابا منہ ثم تدعونہ فلا یستجیب لکم ‘‘ رواہ الترمذي ، وقال : ’’حسن غریب‘‘ ( سنن الترمذي ، رقم الحدیث (۲۱۶۹) مسند أحمد ۵ ؍۳۸۸)
’’ فرمایا رسول اللہﷺ نے : قسم ہے اس ذات پاک کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، البتہ تم لوگ حکم اچھے کام کا کہو اور بری بات سے روکو، یا یہ کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ بھیجے گا تم لوگوں پر عذاب اپنے طرف سے، پھر تم لوگ پکارو گے اس کو، پس نہیں قبول کرے گا تمہاری دعا کو۔‘‘
حاصل کلام یہ ہے کہ ان احادیث مذکورہ بالا و آیات قرانیہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بدعتیوں اور بدکاروں کے ساتھ محبت و دوستی و کھانا پینا نہ رکھے اور نہ ان کے برے کاموں اور بدعتوں پر راضی ہو اور نہ ان کی شرکت دے، ورنہ عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگا۔ واللہ أعلم بالصواب
حررہ أبو الطیب محمد المدعو بشمس الحق عظیم آبادی عفي عنہ وعن والدیہ وعن مشایخہ
ابو طیب محمد شمس الحق
۱۲۹۵ھ
فی الواقع تعزیہ پرستی شرک ہے، اس سے توبہ کرنا فرض ہے اور مشرکوں سے خلط ملط رکھنا بھی معصیت ہے۔
حررہ
محمد اشرف عفی عنہ عظیم آبادی
تعزیہ داری شرک و کفر ہونے کے علاوہ خاص بے عزتی و بے حرمتی و توہین حضرت امام کی ہے، کوئی آدمی اپنے آباء کی نقل بنانے کو پسند نہیں کرتا ہے، تو امام صاحب کی نقل بنانا کس طرح پسند ہوسکتی ہے؟
نور احمد عفی عنہ عظیم آبادی
بیشک تعزیہ بنانا یا اس میں مدد اور کوشش کرنا شرک و بدعت ہے۔ ہر مسلمان کو لازم ہے کہ اس سے بچے اور توبہ کرے اور اس کے مٹانے میں جان و مال سے کوشش کرے۔
حضرت شیخ قطب سید محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ اپنی کتاب ’’ غنیۃ الطالبین‘‘ میں بدعتی کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ وأن لا یکاثر أھل البدع، ولا یدانیھم، ولا یسلم علیھم لأن الإمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ قال : من سلم علی صاحب بدعۃ فقد أحبہ ، لقول النبيﷺ : أفشوا السلام بینکم تحابوا، ولا یجالسھم، ولا یقرب منھم ، ولا یھئنھم في الأعیاد وأوقات السرور، ولا یصلي علیھم إذا ماتوا، ولا یترحم علیھم إذا ذکروا، بل یباینھم ویعادیھم في اللہ عز وجل، معتقدا بطلان مذھب أھل البدعۃ محتسبا بذلک الثواب الجزیل والأجر الکثیر، وروي عن النبيﷺ أنہ قال : من نظر إلی صاحب بدعۃ بغضا لہ في اللہ ملأ اللہ قلبہ أمناً وإیماناً ، ومن انتھر صاحب بدعۃ بغضاًلہ في اللہ آمنہ اللہ یوم القیامۃ، ومن استحقر صاحب بدعۃ رفعہ اللہ تعالیٰ في الجنۃ مائۃ درجۃ، ومن لقیہ بالبشر أو بما یسرہ فقد استخف بما أنزل اللہ تعالیٰ علی محمد ﷺ ، وعن أبي المغیرۃ عن ابن عباس رضي اللہ عنھما أنہ قال : قال رسول اللہﷺ : أبی اللہ عزوجل أن یقبل عمل صاحب بدعۃ حتی یدع بدعتہ، وقال فضیل بن عیاض: من أحب صاحب بدعۃ أحبط اللہ عملہ، وأخرج نور الإیمان من قلبہ، وإذا علم اللہ عزوجل من رجل أنہ مبغض لصاحب بدعۃ رجوت اللہ تعالی أن یغفر ذنوبہ، وإن قل عملہ، وإذا رأیت مبتدعاً في طریق فخذ طریقاً آخر، وقال فضیل بن عیاض رحمہ اللہ : سمعت سفیان بن عیینۃ رحمہ اللہ یقول : من تبع جنازۃ مبتدع لم یزل في سخط اللہ تعالی حتی یرجع، وقد لعن النبيﷺ المبتدع فقال ﷺ : من أحدث حدثاً أو آویٰ محدثاً فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس أجمعین، ولا یقبل اللہ منہ الصرف والعدل، یعني بالصرف : الفریضۃ، وبالعدل: النافلۃ، وعن أبي أیوب السختیاني رحمہ اللہ أنہ قال : إذا حدثت الرجل بالسنۃ فقال : دعنا من ھذا، وحدثنا بما في القرآن فاعلم أنہ ضال۔‘‘ ( المسدرک علی الصحیحین للحاکم ۴ ؍۲۸۵) ، (مختلف الفاظ سے یہ روایت حلیۃ الأولیا، ۸ ؍۲۰۰) اور مسند الشھاب ( ۱ ؍۳۱۸) میں مروی ہے۔ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ أخرجہ أبو نعیم في الحلیۃ، والھروي في ذم الکلام، من حدیث ابن عمر بسند ضعیف‘‘ (تخریج أحادیث الإحیاء: ۲ ؍۱۲۹) نیز دیکھیں: الفوائد المجموعۃ للشوکاني ص: ۵۰۴) ، ( سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۵۰) امام بوصیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ رجال إسناد ھذا الحدیث کلھم مجھولون ‘‘ نیز امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ ھذا حدیث لا یصح عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وفیہ مجاھیل‘‘ (العلل المتناھیۃ: ۱ ؍۱۴۵) ، (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۳۰۰۸) ، ( غنیۃ الطالبین ۱ ؍ ۱۹۸) طبعہ لاہور۔
’’ بدعتیوں سے دوستی اور مصاحبت نہ رکھے اور نہ ان کے طریقے پر چلے اور نہ ان لوگوں کو سلام کرے اس واسطے کہ ہمارے سردار احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس نے سلام کیا بدعتی کو تحقیق اس نے دوست رکھا اس کو (کیونکہ سلام و کلام موجب زیادتی محبت ہے) موافق قول نبیﷺ کے کہ ظاہر کرو سلام کو آپس میں تو کہ محبت ہو تم لوگوں میں۔ اور بدعتیوں کے ساتھ نہ بیٹھے اور نہ ان لوگوں سے نزدیک ہووے اور نہ ان لوگوں کی خوشی میں مبارک بادی دے اور جب وہ لوگ مر جائیں ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی جاوے اور جب ان لوگوں کا ذکر ہو تو رحم نہ کیا جاوے ان پر بلکہ دور کیا جاوے رحمت سے، اور عداوت رکھے ان سے اللہ جل شانہ کے واسطے۔ یہ برتاؤ ان کے ساتھ اس واسطے کرے کہ ان کے مذہب کا بطلان اس کے اعتقاد میں آجاوے اور بہت بڑے ثواب اور بڑی مزدوری کا امیدوار ہے۔ اور نبیﷺ سے روایت ہے کہ فرمایا کہ جس نے بدعتی کواللہ کےو اسطے بغض سے دیکھا تو اللہ جل شانہ اس کے دل کو ایمان اور امن سے بھر دیتا ہے اور جس نے بدعتی کو اللہ کے واسطے جھڑکا قیامت کے دن اللہ جل شانہ اس کو امن میں رکھے گا اور جس نے بدعتی کی حقارت کی اللہ تعالیٰ اس کے واسطے جنت میں سو درجہ بلند کرے گا اور جس نے بدعتی سے خوشی سے ملا، تحقیق ہلکا جانا اس چیز کو کہ اتارا اللہ جل شانہ نے محمد ﷺ پر۔ ابو مغیرہ وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے انکار کیا اللہ عزوجل نے کہ بدعتی کا عمل قبول کرے یہاں تک کہ بدعت کو چھوڑ دے، اور کہا فضیل بن عیاض نے جس نے محبت رکھا بدعتی سے اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو نیست کردے گا اور نورِ ایمان کو اس کے دل سے نکال لے گا اور جب جان لیا اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کو کہ بغض رکھنے والا ہے بدعتی سے، امید کرتا ہوں اللہ سے کہ اس کے گناہ کو معاف کرے اگرچہ عمل اس کا کم ہو اور جب دیکھے تو بدعتی کو ایک راستے پر چلتے ہوئے تو دوسرے راستے سے جا۔ اور کہا فضیل بن عیاض نے سنا میں نے سفیان بن عینیہ سے کہ فرماتے تھے کہ جو بدعتی کے جنازے میں گیا، ہمیشہ اللہ کے عذاب میں رہتا ہے، یہاں تک کہ لوٹ آئے اور تحقیق لعنت کی نبیﷺ نے بدعتی پر، نبیﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی بدعت نکالی یا بدعتی کو جگہ دی، اس پر اللہ جل شانہ اور اس کے فرشتے اور سب لوگوں کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ فرض اور نفل عبادت اس کی قبول نہیں کرتا، اور ابو ایوب سختیانی سے روایت ہے کہ کہا جب کسی آدمی سے بیان کرے تو سنت، پس وہ جواب یوں دے کہ چھوڑ میرے پاس حدیث کا بیان کرنا اور بیان کر وہ چیز جو کہ قرآن میں ہے پس جان کہ وہ شخص گمراہ ہے۔ اس لیے کہ حدیث رسول اللہﷺ کو قرآن شریف کے مخالف سمجھتا ہے۔ پورا ہوا ترجمہ غنیۃ الطالبین کا۔‘‘
کتبۃ العاجز
ابو ظفر محمد عمر، صانہ اللہ عن کل شر و ضرر یوم البعث والنشر۔
ابو ظفر محمد عمر ۱۲۹۶ھ
بے شک تعزیہ داری شرک ہے اور تعزیہ پرست مشرک ہیں اور مشرک ہیں اور مشرکین مکہ سے بدرجہا بڑھ کر، اس لیے کہ وہ لوگ مصیبت و اضطرار کے وقت خاص اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے تھے اور اپنے معبودوں کو نہیں پکارتے تھے اور یہ لوگ یعنی تعزیہ پرستان و گور پرستان وغیرہم مصیبت و اضطرار کے وقت بھی اپنے رب کی طرف رجوع نہیں کرتے، بلکہ ان کا شرک اس وقت اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ اللہ توفیقِ توبہ نصیب کرے آمین۔
ابو الفیض عبدالرحمن البہاری العظیم آبادی، عفا اللہ عنہ۔
المجیب مصیب۔ حررہ غلام رسول الفنجابی۔
اس میں شک نہیں کہ یہ تعزیہ داری شرک جلی و کفر ہے، فوراً اس سے توبہ کرے، ورنہ مشرکین کے لیے ہرگز بخشش نہیں ہے، کیونکہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے صاف فرمایا:
﴿اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَا ﴾(النساء: ۴۸)
’’ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔‘‘
کتبہ
محمد حاذق
قال اللہ تعالیٰ : ﴿لَا تُشْرِكْ بِاللہِ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾(لقمان: ۱۳)
’’ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔‘‘
وقال النبيﷺ : ’’ لا تشرک باللہ وإن قتلت أو حرقت‘‘ (الأدب المفرد ، ص: ۲۰)
’’ مت شرک کرو اللہ کے ساتھ، اگرچہ قتل کردیے جاؤ یا جلا دیے جاؤ۔‘‘
واقعی دیار ہند میں تعزیہ پرستی جلی ہے۔ جمیع اہل اسلام موحدین سنیین پر تعزیہ پرستوں سے ترک سلام کلام اور ترک معاملات و ترک مناکحت لازم واجب ہے۔ کیونکہ یہ لوگ مسلمان نہیں، جب تک توبہ نصوح اس کفر سے نہ کریں۔
حررہ
محمد حسین الدھلوی عفا اللہ عنہ۔
فقیر محمد حسین ۱۲۸۵
جواب صحیح ہے۔ قادر علی، مدرس مدرسہ حسین بخش پنجابی
بیشک تعزیہ داری گمراہی ہے۔ مصطفےٰ قادر علی
چنانچہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب قدس سرہ العزیز نے تفسیر عزیزی میں بایں عبارت کہ
’’ ملائکہ و ارواح انبیاء و اولیاء اور پردۂ صور وتماثیل و قبور و تعزیہا معبود سازند‘‘
’’اس لیے طرح کہ فرشتے اور ارواح انبیاء و اولیاء کو تصویر، مورت، قبر اور تعزیہ کی صورت میں معبود بناتے ہیں۔‘‘ کو بیان فرمایا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
حررہ الفقیر
محمد عبدالغفار، عفی اللہ عنہ، البنارسی
محمد عبدالغفار
’’ إن ھذالجواب قرین بالحق والصواب‘‘
حررہ الراجی عفو رب الَاناسي
ابو منصور محمد عبدالغفور بنارسی۔
محمد عبدالغفور
واقعی امر یہ ہے کہ تعزیہ داری بت پرستی سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ بت پرست بتوں سے مرادیں مانگتے ہیں، ان پر شیرینی پھول چڑھاتے ہیں۔ تعزیہ پرست تعزیہ پر پھول، شیرینی ، شربت، مالیدہ چڑھاتے ہیں۔ بھلا غور کرنے کا مقام ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ہوگا، حالانکہ جا بجا قرآن میں بھی حکم ہے کہ سوائے اللہ کے کسی دوسرے کو مت پوجو۔ ماسوائے اس کے دوسرے سے مدد مت مانگو۔ اے تعزیہ پرستو! توبہ کرو۔ طریقہ اسلام جس کی تعلیم اللہ و رسول نے کی ہے، سیکھو۔ وما علینا إلا البلاغ۔
حررہ محمد سعید عفی عنہ
محمد سعید بفضل اللہ ۔محمد عبدالرحمن ۱۲۸۲ھ ۔محمد عبدالمجید ۱۲۰۷ھ
نعمت اللہ محمد ابو عبداللہ ۔ابو محمد سلیم الدین ۱۲۰۷ھ ۔یقال لہ ابراہیم ۱۲۰۷
حافظ محمد ابو البرکات المعتصم بحبل اللہ الأحد ۱۲۹۲ھ سید محمد نذیر حسین ۱۲۸۱ھ
سید محمد عبدالسلام غفرلہ ۱۲۹۹ھ ۔ سید محمد ابو الحسن ۱۲۷۵ھ
خادم شریعت رسول الثقلین محمد تلطف حسین ۱۲۹۰ھ۔
محمد سلیم الدین مبین۔ خادم شریعت عفی عنہ
محمد عبدالقادر۔ امیدوار شفاعت ۱۲۹۸ھ
محمد عبدالحمید ۱۲۹۳ھ ۔ ابو محمد ثابت علی ۱۳۰۶ھ