کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بنگالہ ملک کے اکثر اضلاع میں پاٹ، جس کا دوسرا نام کشٹا ہے، کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔ اردو زبان میں اس کو پٹوا [پٹ سن] کہتے ہیں۔ عموماً سوداگر لوگ دور دور سے کلکتہ میں روانہ کرتے ہیں، لیکن بوقت وانکی بعض سوداگر تقریباً فی من پانچ سیر پانی سے اس کل من بھر پاٹ کو تر کرکے بستہ باندھ کر روانہ کرتے ہیں اور بعض بعض ایسا نہیں کرتے ہیں، لیکن جو لوگ ایسا کرتے ہیں، ان کے چند فائدے ہوتے ہیں، من جملہ ان فوائد کے ایک تو وزن میں زیادہ ہوتا ہے، دوسرا بستہ اس حالت میں خوب کس جانے کے سبب سے روانگی وغیرہ میں کفایت ہوتی ہے اور انگریز لوگ (جوٹ کے) اس قسم کے بستہ کو دیکھ کر بہت پسند کرتے ہیں اور زیادہ قیمت سے خریدتے ہیں اور آڑھت میں بہت دنوں تک یہ مال ٹھہرتا نہیں۔ اور جو لوگ پانی نہیں دیتے ہیں، وہ لوگ اس قسم کے فوائد سے محروم رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے مثلاً ایک من پاٹ میں اگر کوئی شخص مثلاً پانچ سیر پانی اس کل پاٹ میں اس طرح سے ملا دے کہ اس کل پاٹ کے تمام اجزا میں پانی برابر پہنچے تو یہ درست ہوگا یا غش میں داخل ہو کر ناجائز ہوگا؟
اگر سوداگروں کے نزدیک پاٹ میں اس قدر پانی ملانا داخل عیب نہیں ہے یا داخل عیب ہے مگر خریدار کو اس کا علم ہے اور باوجود اس کے خریدتا ہے تو یہ درست ہے اور غش میں داخل نہیں ہوگا۔ ورنہ غش میں داخل ہوگا اور ناجائز ہوگا