کیا میت کی طرف سے قربانی جائز ہے اور اسے اس کا ثواب پہنچتا ہے؟
میت کی طرف سے قربانی سنت ہے اور اس کا ثواب اسے بلاشبہ پہنچتا ہے۔ اس موضوع سے متعلق جو حدیثیں مروی ہیں، ان پر ایک نظر ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے۔ ان میں مذکور ہے کہ نبیﷺ اپنے گھر والوں اور اپنی امت کے ہر اس شخص کی طرف سے قربانی کرتے تھے جو توحید و رسالت کی شہادت دے۔ ظاہر ہے امت محمدیہ میں بہت سے حضورﷺ کے زمانے میں موجود تھے اور کچھ آپﷺ کی زندگی ہی میں وفات پاچکے تھے۔ امت کی طرف سے قربانی میں بلا تفریق زندہ اور وفات یافتہ دونوں طرح کے لوگ داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ حدیث بہت سے محدثین نے متعدد سندوں سے نقل کی ہے۔
اس کی روایت کرنے والے صحابی ہیں: حضرت جابر، ابو طلحہ انصاری، انس بن مالک، عائشہ، ابوہریرہ، حذیفہ بن اسید، ابو رافع اور علی رضی اللہ عنہم۔ اس حدیث کی بعض سندیں صحیح، بعض حسن اور قوی اور بعض ضعیف ہیں، مگر ان کے ضعف سے اصل حدیث کی صحت پر اثر نہیں پڑتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث جو مسند احمد، صحیح مسلم اور سنن ابی داود میں مروی ہے، میت کی طرف سے قربانی کے استحباب پر دلالت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کی تائید باقی دوسرے صحابہ کی حدیثوں سے ہوتی ہے۔ ان سب سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ اگر آدمی اپنی طرف سے، اپنے اہل و عیال، گھر والوں اور میت کی طرف سے قربانی کرے اور ان سب کو ثواب میں شریک کرنا چاہے تو جائز ہے۔ ( مولانا عظیم آبادی نے ان صحابہ کرام کی تمام حدیثیں مع حوالہ نقل کی ہیں اور ان کی سندوں پر تفصیلی کلام کیا ہے۔ اہل علم اصل رسالے کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ یہاں عام قارئین کے لیے سب کا ترجمہ زیادہ مفید معلوم نہیں ہوتا)۔ [ع،ش]
(صحیح مسلم (۶ / ۷۸) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۷۹۲) مسند أحمد (۶ / ۷۸)
‘‘ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ’’ میں ہے کہ شیخ عبداللطیف بن عبدالعزیز الشہیر بن الملک فرماتے ہیں: یہ حدیث میت کی طرف سے قربانی کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح ، ۲/ ۲۶۵)
امام نووی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:
‘‘ اس حدیث سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو قربانی اور اس کے ثواب میں اپنے علاوہ دوسروں کو بھی شریک کرنے کے قائل ہیں۔ یہی ہمارا اور جمہور کا مذہب ہے۔ امام ثوری اور امام ابوحنیفہ اور ان کے مقلدین اسے مکروہ قرار دیتے ہیں۔’’ ( شرح صحیح مسلم للنووي، ۱۳/ ۱۲۲)
لیکن میں کہتا ہوں کہ مذکورہ بالا حدیثوں سے ان کی تردید ہوتی ہے۔
امام ترمذی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
‘‘ بعض علما میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز بتاتے ہیں اور کچھ لوگ اس کے قائل نہیں۔ امام ابن المبارک فرماتے ہیں: میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرے، قربانی نہ کرے۔ اگر قربانی کی تو اس میں سے خود کچھ نہ کھائے، بلکہ سب صدقہ کردے۔’’ (سنن الترمذي، ۴/ ۸۴)
شرح السنہ میں امام بغوی نے بھی اسی طرح علما کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ میرے نزدیک جو لوگ جواز کے قائل ہیں، ان کا قول دلیل کے مطابق ہے۔ مانعین کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ لہٰذا ان کی رائے اس وقت تک قبول نہیں کی جائے گی، جب تک اس سے زیادہ کوئی قوی دلیل نہ پیش ہو اور ایسی کوئی دلیل موجود نہیں۔ رسول اللہﷺ سے کہیں یہ منقول نہیں کہ انھوں نے جو قربانی اپنی اور اپنے گھر والوں اور زندہ اور وفات یافتہ امتیوں کی طرف سے کی تھی، وہ سب یا میت کے حصے کے برابر صدقہ کردیا تھا، بلکہ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے مسکینوں کو بھی کھلاتے، خود بھی کھاتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی کھلاتے تھے۔ دوسروں کو بھی اسی طرح قربانی کا گوشت کھانے کھانے کا حکم دیتے تھے، جیسا کہ متعدد احادیث میں وارد ہے۔ حضورﷺ سے اس کے خلاف کوئی بابت ثابت نہیں۔ آپﷺ نے جیسا کیا ہمیں بھی بلا کسی اختلاف کے اسی طرح کرنا چاہیے، جب تک کہ اس کی خصوصیت حضورﷺ کے ساتھ ثابت نہ ہو۔ ( شرح السنۃ ، ۴ / ۳۵۸)
اگر ہم چاہیں تو ایک، دو یا تین جانوروں کی قربانی اپنی، اپنے گھر والوں اور میت کی طرف سے کرسکتے ہیں۔ یہ ان سب کی طرف سے کافی ہوگی، اس کا ثواب بھی انھیں ان شاء اللہ ضرور پہنچے گا۔ ہمیں اس کا اختیار ہے کہ گوشت خود کھائیں، دوسروں کو کھلائیں یا صدقہ کریں۔ ہاں اگر قربانی صرف میت کی طرف سے کی جا رہی ہو اور اس میں زندہ لوگ شریک نہ ہوں تو یہ فقرا و مساکین کا حق ہے، جیسا کہ امام ابن المبارک نے فرمایا ہے۔