(ضأن) کا اطلاق صرف دنبہ پر ہوتا ہے یا بھیڑ و دنبہ دونوں پر؟ اور قربانی اس بھیڑ کی جو کہ ایک سال سے کم ہو، مگر چھ مہینہ سے زیادہ کا ہو، جائز ہے یا نہیں؟
دنبہ و بھیڑ ایک جنس ہے اور اطلاق ( ضأن) کا دنبہ و بھیڑ دونوں پر صحیح ہے۔
قال في لسان العرب: ( ضأن من الغنم ذوالصوب) انتھی (لسان العرب ، ۳۱؍۲۵۷)ضان اون والی بھیڑ میں سے ہے۔ ختم شد
وفي مصباح المنیر : (الضأن ذوات الصوف من الغنم) انتھی (المصابح المنیر ، ۲؍ ۳۶۵)ضان اون والی بھیڑ میں سے ہے۔ ختم شد
پس ذوصوف ہونے میں دونوں مشترک ہیں، دونوں سے اشیاء پشمینہ تیار ہوتی ہے اور جس طرح سے دنبہ چھ ماہ کے بعد جوان ہو جاتا ہے قابل جفت کھانے کے، ویسا ہی بھیڑ بھی چھ ماہ کے بعد جوان ہو جاتا ہے۔ ہم نے خود بھیڑ والوں سے دریافت کیا ہے کہ بھیڑ کتنی مدت میں جوان ہو جاتا ہے تو معلوم ہوا کہ چھ ماہ کے بعد جوان ہو جاتا ہے۔ پس اس امر میں بھی دونوں مشترک ہیں۔ پس بھیڑ کو جنس دنبہ سے الگ مان کر بھیڑ کو ضأن میں داخل نہیں کرنا اور دنبہ کو داخل کرنا خلاف تفسیر اہل لغت ہے۔ اور مؤلف منح الغفار کا یہ لکھنا کہ پس ضأن وہی ہے کہ ( مالہ إلیۃ ) (جس کا کولہا ہے) یعنی دنبہ ہی ضأن النقایہ میں اور طحاوی اور شامی نے حاشیہ درالمختار میں، اور صاحب مجالس الابرار نے تبعاً لمؤلف منح الغفار لکھ دیا، یہ قابل حجت نہیں ہے، جب تک لغت یا شرع سے اس کا ثبوت نہ دیں۔ اس لیے یہ قید ‘‘ مالہ إلیۃ ’’ محض بے دلیل ہے۔ بلکہ دنبہ و بھیڑ ایک ہی جنس ہے اور دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ واللہ اعلم۔
اور قربانی دنبہ یا بھیڑ کی جو کہ ایک سال سے کم کا ہو، مگر چھ مہینہ سے زیادہ کا ہو اور جوان ہو کر مادہ پر جفت کھانے کے لیے صلاحیت رکھتا ہو، جائز و درست ہے۔
صحیح مسلم و سنن ابی داود و نسائی وابن ماجہ میں ہے:
‘‘ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسنہ سے کم کو ذبح نہ کرو الا یہ کہ تمہارے لیے دشواری پیش آرہی ہو تو ضان یعنی بھیڑ یا دنبہ میں سے ایک جذعہ کو ذبح کرسکتے ہو۔’’
اور مسند احمد و ترمذی میں ہے:
‘‘ عَنْ أبِيْ ھُرَیْرَۃَ قال : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ یَقُولُ : نِعْمَ أَوْ نِعْمَتِ الْأُضْحِیَّة الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ ’’ ( مسند أحمد (۲/ ۴۴۴) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۴۹۹) اس کی سند ضعیف ہے۔
‘‘ ابو ہریرہ کے واسطے سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کہتے ہوئے سنا: کیا ہی اچھی قربانی ضان (بھیڑ یا دنبہ) میں سے چھوٹے بچے کی ہے۔’’
اور مسند احمد و ابن ماجہ میں ہے:
‘‘ عَنْ أُمِّ بِلَالٍ بِنْتِ ھِلَالٍ عَنْ أَبِیھَا أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ: یَجُوزُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ أُضْحِیَّة ’’ ( مسند أحمد (۶ / ۳۶۸) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث ۳۱۳۹)
‘‘ ام بلال بنت ہلال کے واسطے سے جو اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ضان (بھیڑ یا دنبہ) میں سے جذع کی قربانی جائز ہے۔’’
اور ابوداود و ابن ماجہ میں ہے:
‘‘ مجاشع سے روایت ہے کہ نبیﷺ فرمایا کرتے تھے: جذع کافی ہے، جیسا کہ دو دانتا کافی ہے۔’’
اور نسائی میں ہے:
‘‘ عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ضان کے جذع کی قربانی کی۔’’
اور کشاف القناع (صفحہ ۶۳۵) جو بڑی معتمد کتاب فقہ الحنابلۃ میں ہے، اس میں مرقوم ہے:
‘‘ ولا یجزیٔ في الأضحیة وکذا دم تمتع نحوہ إلا الجذع من الضأن، وھو ماله ستة أشھر، ویدل لإجزائه ما روت أم بلال بنت ھلال عن أبیھا أن رسول اللہﷺ قال : تجزیٔ الجذع من الضأن أضحیة، رواہ ابن ماجه، والھدي مثله، والفرق بین جذع الضأن والمعز أن جذع الضأن ینزو فیلقح بخلاف الجذع من المعز، قاله إبراھیم الحربي ، ویعرف کونه أجزع بنوم الصوف علی ظھرہ، قال الخرقي : سمعت أبي یقول : سألت بعض أھل البادیة : کیف یعرفون الضأن إذا أجذع؟ قالوا: لا تزال الصوفة قائمة علی ظھرہ ما دام حملا، فإذا نامت الصوفة علی ظھرہ علم أنه أجذع’’ ( کشاف القناع للبھوتي: ۲/ ۵۳۱)‘‘ اور قربانی میں جائز نہیں ہے اور اسی طرح تمتع کے دم میں سوائے ضان کے جذع کے اور یہ وہ ہے جو چھے ماہ کا ہو۔ اس کے جواز کی دلیل ام بلال بنت ہلال کی وہ روایت ہے جو وہ اپنے والد سے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ضان کے جذع کی قربانی جائز ہے۔ اس کی روایت ابن ماجہ نے کی ہے۔ اور ہدی بھی اسی کے مثل ہے۔ ضان کے جذع اور معز میں فرق یہ ہے کہ ضان کا جذع جفتی کرتا ہے اور حاملہ بناتا ہے، بخلاف معزکے جذع کے۔ یہ قول ابراہیم حربی کا ہے۔ اس بچے کی بلوغت کی پہچان اس کی پیٹھ پر اون کے بیٹھ جانے سے ہوگی۔ خرقی نے کہا ہے: میں نے اپنے والد کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اہل بادیہ میں سے کسی سے پوچھا: ضان یعنی بھیڑ یا دنبے کے بارے میں کیسے پتا لگاتے ہو کہ وہ بالغ ہوگیا ہے؟ ان لوگوں نے کہا کہ جب تک اون اس کی پیٹھ پر رہتا ہے، پھر جب یہی اون اس کی پیٹھ پر بیٹھ جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ جذع ہوگیا۔’’
اور کتاب منتہی الارادات (صفحہ ۷۰۹) میں ہے:
‘‘ ( ولا یجزِیٔ) في ھدیٍ واجِبٍ ولا اُضحیة (دُونَ جَذَعِ ضَأْنٍ) وَھُوَ (مَا لَه سِتَّة أَشْھُرٍ) کَوَامِلَ ، لِحَدِیثِ : یُجْزِیُٔ الْجَذَعُ مِنْ الضَّأْنِ أُضْحِیَّة ، رَوَاہُ ابْنُ مَاجَه ، وَالْھَدْيُ مِثْلُھَا ، وَیُعْرَفُ بِنَوْمِ الصُّوفِ عَلَی ظَھْرِہِ ، قَالَه الْخِرَقِيِّ عَنْ أَبِیه عَنْ أَھْلِ الْبَادِیَة’’ (شرح منتھی الإرادات : ۱ / ۶۰۲) ‘‘ واجب ہدی اور قربانی میں ضان کے جذع سے کم جانور کفایت نہیں کرتا، جو پورے چھے ماہ کا ہو، کیونکہ حدیث میں ہے: ضان کا جذعہ قربانی میں کافی ہے۔ ہدی بھی اسی طرح ہے۔ جذع کی پہچان اس کی پیٹھ پر اون کے بیٹھ جانے سے ہوتی ہے، جسے خرقی نے اپنے والد کے واسطے سے دیہات والوں سے ذکر کیا ہے۔