سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(47)بیوی کا دودھ چوسنے کا مسئلہ

  • 15304
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1497

سوال

(47)بیوی کا دودھ چوسنے کا مسئلہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے بوجہ بیماری کے اپنی بیوی کا دودھ چوس کر پیا۔ اب اس دودھ پینے سے وہ عورت اس مرد کی بی بی سابق دستور رہے گی یا حرام ہو جائے گی یا کفارہ لازم آئے گا؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

﴿ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ﴾ ( یوسف: ۴۰)  ’’ فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔‘‘

دودھ پینا جس سے رضاعت و حرمت ثابت ہوتی ہے، وہ دو برس کی سن تک ہے۔ قرآن شریف میں ہے:

﴿وَالوٰلِدٰتُ يُرضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ ۖ لِمَن أَرادَ أَن يُتِمَّ الرَّضاعَةَ ...﴿٢٣٣﴾...البقرة

’’ اور مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں، جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو۔‘‘

اور حنفی مذہب میں ڈھائی برس تک ہے۔ پس صورت مذکورہ بالا میں وہ عورت اپنے شوہر پر حرام نہیں ہوئی بلکہ بدستور سابق حلال ہے۔ اور اس قسم کے واقعات صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بھی ہوئے ہیں۔

’’ أخرج مالک في الموطأ عن عبداللہ بن دینار أنه قال : جاء رجل إلی عبداللہ بن عمر ، وأنا معہ عند دار القضاء، یسأله عن رضاعة الکبیر، فقال عبداللہ بن عمر : جاء رجل إلی عمر بن الخطاب فقال: إني کانت لي ولیدة ، وکنت أطأھا فعمدت امرأتی إلیھا فأرضعتھا فدخلت علیھا ، فقال : دونک ! فقد واللہ أرضعتھا ، فقال عمر : أوجعھا، وأت جاریتک فإنما الرضاعة رضاعة الصغیر۔‘‘ رواہ مالک (موطأ الإمام مالک ۲ / ۶۰۶)

’’ یعنی ایک شخص عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بڑی عمر میں رضاعت کے متعلق پوچھنے آیا تو انھوں نے کہا کہ ایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میری ایک لونڈی تھی، اس سے ہم صحبت کرتے تھے۔ میری بی بی نے قصداً اس کو دودھ پلا دیا۔ جب ہم اس لونڈی کے پاس جانے لگے تو میری بی بی نے کہا: سن لے اللہ تعالیٰ کی قسم ہم نے اس کو دودھ پلا دیا۔ جب ہم  اس لونڈی کے پاس جانے لگے تو میری بی بی نے کہا: سن لے اللہ تعالیٰ کی قسم ہم نے اس کو دودھ پلا دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنی بی بی کو سزا دو اور اپنی لونڈی سے صحبت کرو۔ کیونکہ رضاعت چھوٹے پن میں ہوتی ہے نہ کہ جوانی میں۔ ‘‘

اور بھی موطا امام مالک میں ہے:

 عن یحیی  بن سعید أن رجلا سأل أبا موسی الأشعري فقال: إني مصصت عن امرأتي ثدیھا لبنا، فذھب في بطني، فقال أبو موسی الأشعري : لا أراھا إلا قد حرمت علیک، فقال عبداللہ بن مسعود: انظر ما تفتي به الرجل؟ فقال أبو موسیٰ : فما تقول أنت ؟ فقال عبداللہ بن مسعود : لا رضاعة إلا ما کان في الحولین ۔ فقال أبو موسی : لا تسألوني من شيء ما کان ھذا الحبر بین أظھرکم  (رواہ مالک)۔( موطأ الإمام مالک ۲ / ۶۰۷)

یعنی ایک شخص نے ابو موسیٰ اشعری سے کہا: میں اپنی عورت کا دودھ چھاتی سے چوس رہا تھا، وہ دودھ میرے پیٹ میں چلا گیا۔ ابو موسیٰ اشعری نے کہا: میرے نزدیک وہ عورت تجھ پر حرام ہوگئی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: دیکھو اس کو کیا مسئلہ بتاتے ہو؟ ابو موسیٰ اشعری نے کہا: اچھا آپ کیا کہتے ہیں؟ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رضاعت وہ ہے جو دو برس کے اندر ہو۔ تب ابو موسیٰ نے کہا کہ ہم سے کچھ مت پوچھا کرو، جب تک یہ عالم تم میں موجود ہے۔

پس اس مرد بیمار پر کسی قسم کا کفارہ لازم نہیں ہے اور بی بی اس کی حلال مثل سابق کے ہے۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 260

محدث فتویٰ

تبصرے