کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کے منہ کو ہندہ اپنے پستان سے پکڑوا کر فی الفور زید کے منہ کو چھوڑوا دی۔ اس عرصہ میں زید کو دودھ چوسنے کی نوبت ایک دفعہ یا دو دفعہ شاید ہی ملی ہو۔ آیا اس قدر دودھ کے چوسنے سے ہندہ زید کی دودھ ماں اور اس کی لڑکی زید کی دودھ بہن ہوسکتی ہے یا نہیں؟ جو حکم شرع کا ہے بیان فرما دیں۔
’’ اے اللہ! تیری ذات پاک ہے، ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے۔‘‘
صورت مسئول عنہا میں صحیح مذہب کے اعتبار سے ہندہ زید کی دودھ ماں شرعی طور پر نہیں ہوسکتی ہے اور نہ اس کی لڑکی زید کے حق میں دودھ بہن ہوسکتی ہے۔
چنانچہ تفسیر فتح البیان میں ہے:
’’ وأمھات الرضاعة مطلق مقید بما ورد في السنة من کون الرضاعة في الحولین إلا في مثل قصة إرضاع سالم مولی أبي حذیفة ، وظاھر القرآن أنه یثبت حکم الرضاع بما یصدق علیه مسمی الرضاع لغة وشرعا، ولکنه قد ورد تقییده بخمس رضعات في أحادیث صحیحة عن جماعة من الصحابة۔‘‘ ( فتح البیان ، ۳ / ۷۰)’’ رضاعی مائیں مقید ہیں جیسا کہ سنت میں وارد ہوا ہے کہ رضاعت دو سال (کی عمر) کے اندر ہونی چاہیے، سوائے ابو حذیفہ کے غلام سالم کی رضاعت کے واقعے کے مثل۔ قرآن کا ظاہر رضاعت کا حکم ثابت کرتا ہے اس چیز پر جس سے لغوی اور شرعی اعتبار سے دودھ پینے کا اطلاق ہوسکے۔ لیکن اس کی تقیید صحیح احادیث میں جو صحابہ کی ایک جماعت کے واسطے سے وارد ہوئی ہیں، پانچ بار دودھ پینا ہے۔‘‘
اور بلوغ المرام میں ہے:
’’ انھی سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ قرآن میں دس معلوم رضعات نازل ہوئی تھیں (جن سے رضاعت ثابت ہوتی تھی) اور حرمت ثابت ہوجاتی تھی، پھر پانچ معلوم رضعات کے ذریعے (وہ دس رضعات) منسوخ ہوگئیں۔ پھر رسول اللہﷺ وفات پاگئے اور قرآن میں وہی باقی رہی جو پڑھی جاتی ہے۔ اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔‘‘
اور سنن ابی داود میں ہے سالم رضی اللہ عنہ کے قصے میں:
’’ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس کو دودھ پلاؤ، تو اس نے اس کو پانچ رضعات پلائیں اور وہ رضاعت کی بنا پر اس کے لڑکے کی منزلت میں ہوگیا۔ اس بنا پر عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھائیوں اور بہنوں کی بیٹیوں کو حکم دیتی تھیں کہ وہ ان کو دودھ پانچ رضعات پلائین جن کو عائشہ رضی اللہ عنہا دیکھنا پسند کرتی تھیں اور اس بات کو پسند کرتی تھیں کہ وہ ان کے گھر میں داخل ہوں، اگرچہ وہ بڑے ہوں۔ پھر وہ ان کے یہاں داخل ہوسکتے تھے۔‘‘
اور سبل السلام میں تحت میں حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہے:
’’ والعمل بحدیث الباب ھذا لا عذر عنه ، ولذلک اخترنا العمل به فیما سلف۔‘‘ (سبل السلام ۳ / ۲۱۷)’’ عمل اس باب کی حدیث پر ہے جس میں کوئی عذر نہیں ہے۔ اسی لیے ہم نے اس پر عمل کرنا اختیار کیا، جیسا کہ گزرا۔‘‘
اور ’’ کشاف القناع ‘‘ معتبر کتاب فقہ حنبلیہ میں ہے:
’’ أن یرتضع خمس رضعات فصاعداً ، وھو قول عائشة رضی اللہ عنھا وابن مسعود وابن الزبیر وغیرھم لما روت۔ عائشة رضی اللہ عنھا قالت: کان فیما نزل من القرآن عشر رضعات معلومات یحرمن، ثم نسخن بخمس رضعات معلومات، فتوفي رسول اللہﷺ والأمر علی ذلک، رواہ مسلم، وروی مالک عن الزھري عن عروة عن عائشة عن سھلة بنت سھیل : أرضعي سالما خمس رضعات۔‘‘ انتھی قوله ( کشاف القناع ۵ / ۴۴۵)’’ وہ پانچ چسکیاں یا اس سے زیادہ دودھ پیے۔ یہ قول عائشہ رضی اللہ عنہا، ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہم کا ہے، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن میں دس معلوم چسکیوں کی آیت نازل ہوئی تھی، جن سے حرمت واقع ہو جاتی ہے، پھر پانچ معلوم چسکیوں والی آیت کے ذریعے وہ آیت منسوخ کردی گئی۔ پھر رسول اللہﷺ وفات پاگئے اور معاملہ ویسے ہی رہا۔ اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔ امام مالک نے زہری کے واسطے سے روایت کی، زہری نے عروہ کے واسطے سے، عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطے سے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے سہلہ بنت سہیل کے واسطے سے کہ سالم کو پانچ چسکیاں دودھ پلاؤ۔ ان کا قول ختم ہوا۔‘‘
یقول کاتب الحروف عفی عنه : وقع في الموطأ من نسخۃ المصمودی: ’’أرضعیه خمس رضعات فیحرم‘‘ وفي مسند الشافعي رحمه اللہ: (موطأ الإمام مالک ۲ / ۶۰۵)’’ مصمودی کے نسخے کے موطا میں آیا ہے کہ اس کو پانچ چسکیاں دودھ پلاؤ تو حرمت ثابت ہوجائے گی۔ شافعی کی مسند میں ہے: انھوں نے ہمیں بتایا ابن شہاب کے واسطے سے اور ابن شہاب نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے کہ نبیﷺ نے سہلہ بنت سہیل کو حکم دیا کہ وہ سالم کو پانچ چسکیاں دودھ پلائیں تو وہ چسکیاں حرمت ثابت کردیں گی۔‘‘
اور فتح الباری میں ہے:
’’ وحدیث الخمس جاء من طرق صحیحۃ۔‘‘ (فتح الباري ۹ / ۱۴۷)
’’ پانچ والی حدیث صحیح سندوں سے ثابت ہے۔‘‘
اور ’’ روضۃ الندیۃ شرح الدرر البھیۃ‘‘ میں ہے:
’’ رضاعت کا بیان۔ اس کا حکم پانچ چسکیوں سے ثابت ہوتا ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی بنیاد پر جس کی روایت مسلم وغیرہ نے کی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہے کہ قرآن میں دس معلوم چسکیوں والی آیت نازل کی گئی تھی، جن سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے، پھر پانچ چسکیوں والی آیت نازل ہوئی، پھر رسول اللہﷺ وفات پاگئے اور (وہ پانچ چسکیوں والی آیت قرآن میں باقی رہ گئی) جس کی قرآن میں تلاوت کی جاتی ہے۔ صحیح میں حدیث کے متعدد طرق ثابت ہیں اور ان کی مخالفت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث نہیں کرتی ہے جس میں نبیﷺ نے فرمایا کہ ایک چسکی اور دو چسکی سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اس کی تخریج احمد، مسلم اور اہل سنن نے کی ہے۔ اسی طرح ام فضل کی حدیث مسلم وغیرہ کے نزدیک کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ایک کلا یا دو کلا اور ایک چسکی اور دو چسکی سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ ایک لفظ ہے کہ املاجہ اور دواملاجہ سے بھی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اور اسی طرح کی تخریج احمد، نسائی ، ترمذی نے عبداللہ بن زبیر کی حدیث سے کی ہے۔ کیونکہ ان تمام احادیث کا مقصود، ایک چسکی، دو چسکی ایک کلہ دو کلہ، ایک املاجہ اور دو املاجہ حرمت ثابت نہیں کرتیں۔ ان احادیث کا منطقی معنی یہی ہے اور یہ احادیث پانچ رضعات والی حدیث کی مخالفت نہیں کرتیں، کیونکہ اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ پانچ سے کم میں حرمت ثابت نہیں ہوتی اور ان احادیث کا مفہوم کے اعتبار سے معنی یہ ہے کہ ایک یا دو کلے سے زیادہ رضاعت سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ پانچ والی حدیث محکم ہے اور یہ زیادہ پر مشتمل ہے۔ اس لیے اس کا قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ خاص طور سے اس قول کی بنا پر کہ تنکیر پر فعل کی بنیاد تخصیص کا فائدہ دیتی ہے۔‘‘
اور صحیح مسلم کی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے تحت میں ’’ مسک الختام‘‘ میں ہے:
’’ ودرنیل الاوطار نیز ترجیح مفاد حدیث باب کردہ، وازایراد مخالفین اجوبہ شافیہ گفتہ، و محرر سطور تمام ایں بحث در رسالہ ’’ إفادۃ الشیوخ بمقدار الناسخ والمنسوخ‘‘ نوشتہ۔‘‘ فلیراجع۔ (مسک الختام ۱ / ۲۵۸)
’’ نیل الاوطار میں ترجیح معنی حدیث ایک باب میں ذکر کی ہے اور مخالفین کے اعتراضات کا شافی جواب دیا ہے۔ اور راقم سطور نے بھی ان ساری بحثوں کو ایک رسالہ ’’ إفادۃ الشیوخ بمقدار الناسخ والمنسوخ‘‘ میں تحریر کیا ہے۔ پس اس کا مراجعہ کریں۔‘‘
اس مقام پر بعض بعض اشخاص کا اعتراض بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بالا پر اس طرح ہے کہ اس میں اس قسم کے الفاظ ہیں:
’’ فیما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات یحرمن، ثم نسخن بخمس معلومات فتوفي رسول اللہﷺ وھو فیما یقرأ۔‘‘
’’ قرآن میں دس معلوم رضعات (والی آیت) نازل کی گئی تھی، جن سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے، پھر وہ دس رضعات منسوخ کردی گئیں پانچ معلوم (رضعات) سے۔ پھر رسول اللہﷺ وفات پاگئے اور وہ علی حالہ باقی رہا جیسا کہ پڑھا جاتا ہے۔‘‘
حالانکہ قرآن مجید میں اس قسم کے الفاظ نہیں پائے جاتے ہیں۔ سو جواب اس اعتراض کا یہ ہے:
’’ والنسخ ثلاثۃ أنواع : أحدھا ما نسخ حکمہ وتلاوتہ ، والثاني ما نسخت تلاوتہ دون حکمہ، کخمس رضعات، وکالشیخ والشیخۃ إذا زنیا فارجموھما … الخ ‘‘ ھکذا في شرح صحیح مسلم للنواوي رحمہ اللہ، وعون المعبود شرح سنن أبي داود للعلامۃ الفھامۃ شیخنا عظیم آبادي دام فیضہ۔ ‘‘ (شرح صحیح مسلم، رقم الحدیث ۱۰۲۹، عون المعبود ۶ / ۴۷)
’’ نسخ کی تین قسمیں ہیں، ایک یہ ہے کہ اس کا حکم اور تلاوت منسوخ ہوگئے اور دوسرا جس کی تلاوت منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہا جیسے خمس رضعات یعنی پانچ رضعات، اور جیسے ’’ الشیخ والشیخۃ إذا زنیا فارجموھما ‘‘ یعنی بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کریں تو دونوں کو رجم کردو۔ ایسا ہی نووی کی صحیح مسلم کی شرح میں ہے اور سنن ابوداود کی شرح عون المعبود میں ہے جو علامہ فہامہ شیخنا عظیم آبادی دام فیضہ کی تصنیف ہے۔‘‘
وفي سبل السلام شرح بلوغ المرام : ’’ وھذا من نسخ التلاوۃ دون الحکم الخ‘‘ ( سبل السلام ۳ / ۲۱۶)
’’ اور ’’ بلوغ المرام‘‘ کی شرح ’’سبل السلام‘‘ میں ہے: یہ تلاوت کا نسخ ہے نہ کہ حکم کا۔ الخ‘‘
وفي الروضۃ الندیۃ شرح الدرر البھیۃ للعلامۃ البوفالي المرحوم: ’’ویجوز بقاء الحکم مع نسخ التلاوۃ کالرجم في الزنا، حکمۃ باق مع ارتفاع التلاوۃ في القرآن‘‘ (الروضۃ الندیۃ ۲/ ۸۵)
’’ (الروضۃ الندیۃ) میں ہے: تلاوت کے نسخ کے باوجود حکم کا باقی رہنا جائز ہے، جیسے زنا کے سلسلے میں آیت رجم، جس کا حکم تو باقی ہے، لیکن قرآن میں اس کی تلاوت مرتفع ہوگئی ہے۔‘‘
وفي زاد المعاد للعلامۃ ابن القیم: ’’ وغایۃ الأمر أنہ قرآن نسخ لفظہ، وبقي حکمہ فیکون لہ حکم قولہ : ’’ الشیخ والشیخۃ إذَا زنیا فارجموھما‘‘ مما اکتفی بنقلہ آحاد، وحکمہ ثابت، وھذا مما لا جواب عنہ۔‘‘ ( زاد المعاد ۵ / ۵۷۴)
’’ علامہ ابن القیم کی ’’ زاد المعاد‘‘ میں ہے کہ غایت الامر یہ ہے کہ وہ قرآن ہی کا حصہ ہے، جس کا لفظ تو منسوخ ہے لیکن حکم باقی ہے۔ جیسا کہ یہ قول ہے کہ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کا ارتکاب کریں تو ان دونوں کو سنگسار کردو۔ اس سلسلے میں خبر آحاد پر اکتفا کیا جائے گا اور اس کا حکم ثابت ہے اور یہ وہ حکم ہے جس کا کوئی جواب نہیں۔‘‘
وفي حصول المأمول من علم الأصول للعلامۃ البوفالي المرحوم : ’’الرابع : ما نسخ حکمہ ورسمہ ، ونسخ رسم الناسخ، وبقي حکمہ، کما ثبت في الصحیح عن عائشۃ رضی اللہ عنھا أنھا قالت: کان فیما أنزل عشر رضعات متتابعات یحرمن فنسخ بخمس رضعات فتوفي رسول اللہﷺ وھن فیما یتلی من القرآن، قال البیھقي : فالعشر مما نسخ رسمہ، وحکمہ، والخمس نسخ رسمہ، وبقي حکمہ بدلیل أن الصحابۃ حین جمعوا القرآن لم یثبتوھا رسما، وحکمھا باق عندھم‘‘ الخ ( حصول المأمول من علم الأصول ، ص: ۱۲۶)
’’ علامہ بھوپالی مرحوم کی ’’ حصول المأمول من علم الأصول ‘‘ میں ہے: چوتھی قسم وہ ہے جس کا حکم اور رسم منسوخ ہو اور ناسخ کے رسوم منسوخ ہوں اور اس کا حکم باقی ہو، جیسا کہ صحیح حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطے سے ثابت ہے کہ انھوں نے کہا کہ (قرآن میں یہ آیت) بھی نازل ہوئی تھی کہ پے در پے دس رضعات یعنی دودھ کی چسکیوں سے حرمت ثابت ہو جائے گی، تو یہ حکم خمس رضعات یعنی پانچ چسکیوں سے منسوخ ہوگیا۔ رسول اللہﷺ کی وفات ہوگئی اور یہ وہی ہے جس کی تلاوت قرآن میں کی جاتی تھی۔ بیہقی نے کہا: دس (چسکیاں) جن کا رسم اور حکم منسوخ ہیں اور پانچ (چسکیاں) جن کا رسم تو منسوخ ہے لیکن حکم باقی ہے، اس دلیل کی بنا پر کہ صحابہ نے جب قرآن جمع کیا تو اس کا اندراج رسماً یعنی خط میں نہیں کیا اور اس کا حکم ان کے نزدیک باقی رہا۔ الخ‘‘
خلاصہ ان سب عبارتوں کا یہ ہے کہ شرعاً رضاعت نہیں ثابت ہوتی ہے بدون خمس رضعات معلومہ کے۔ اب جاننا چاہیے رضعات جمع رضعہ کی ہے اور محدث لوگ رضعہ سے کون سے معنی مراد لیتے ہیں؟ ’’ روضۃ الندیۃ ‘‘ میں ہے:
’’ والرضعۃ ھي أن یأخذ الصبي الثدي فیمتص منہ، ثم یستمر علی ذلک حتی یترکہ باختیارہ لغیر عارض۔‘‘ (الروضۃ الندیۃ ۲ / ۸۵)
’’ ایک رضعہ یہ ہے کہ بچہ چھاتی کو پکڑے اور اس میں سے چوسے، پھر وہ چوستا رہے، یہاں تک کہ اپنی مرضی سے بغیر ہٹائے چوسنا چھوڑ دے۔‘‘
اور ’’ نیل الأوطار‘‘ میں ہے:
’’ قولہ : الرضعۃ۔ ھي المرۃ من الرضاع، کضربۃ وجلسۃ وأکلۃ ، فمتی التقم الصبي الثدي فامتص ثم ترکہ باختیار لغیر عارض کان ذلک رضعۃ‘‘ ( نیل الأوطار ۷ / ۶۹)
’’ جب بچہ چھاتی سے چمٹ گیا اور چوس لیا، پھر اس سے اپنی مرضی سے بغیر عارض کے الگ ہوگیا تو یہ ایک رضعہ ہوا۔‘‘
اور ’’ کشاف القناع ‘‘ میں ہے:
’’ لأن الشرع ورد بھا مطلقاً ، ولم یحدھا بزمن ولا مقدار، فدل علی أنہ ردھم إلی العرف ، فإذا ارتضع، ثم قطع باختیارہ أو قطع علیہ فھي رضعۃ ‘‘ (وأیضاً فیہ) و ’’ إن حلب في إناء خمس حلبات في خمسۃ أوقات ، ثم سقي للطفل دفعۃ واحدۃ کانت الرضعۃ واحدۃ اعتباراً لشربہ لہ فإن سقاہ جرعۃ بعد أخری متتابعۃ فرضعۃ في ظاھر قول الخرقي لأن المعتبر في الرضعۃ العرف، وھم لا یعدون ھذا رضعات‘‘ (کشاف القناع ۵ / ۴۴۶)
’’ کیونکہ شرع اس بارے میں مطلق وارد ہوئی ہے۔ اس نے زمانہ اور مقدار کی تحدید نہیں کی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نے یہ عرف عام پر چھوڑ دیا ہے، پس جب بچے نے دودھ پیا پھر اپنی مرضی سے یہ سلسلہ منقطع کردیا یا اس کو الگ کردیا گیا تو وہ ایک ’’رضعۃ‘‘ ہے۔ اگر کسی برتن میں پانچ اوقات میں پانچ بار دودھ دوہا گیا، پھر بچے کو ایک ہی دفعہ میں پلا دیا گیا تو یہ اس کے پینے کا اعتبار کرکے ایک رضعۃ ہے اور اگر اس کو گھونٹ گھونٹ کرکے یکے بعد دیگرے پلایا تو خرقی کے ظاہر قول کے مطابق اس کی ایک رضاعت ثابت ہوگی، کیونکہ رضاعت میں عرف معتبر ہے اور وہ لوگ اسے متعدد رضعات شمار نہیں کرتے۔‘‘
اور قریب قریب اسی کے ’’ شرح المنتھی‘‘ فقہ حنبلیہ میں ہے۔ ( شرح منتھی الإرادات ۳ / ۲۱۵)
وفي زاد المعاد لھدي خیر العباد للإمام ابن القیم رحمہ اللہ : ’’الرضعۃ فعلۃ من الرضاع، فھي مرۃ بلاشک کضربۃ وجلسۃ وأکلۃ، فمتی التقم الثدي فامتص منہ، ثم ترکہ باختیارہ من غیر عارض، کان ذلک رضعۃ، لأن الشرع ورد بذلک مطلقا فحمل علی العرف، والعرف ھذا، والقطع العارض لتنفس أو استراحۃ یسیرۃ أو لشيء یلھیہ ، ثم یعود عن قریب لا یخرجہ عن کونہ رضعۃ واحدۃ، کما أن الأکل إذا قطع أکلتہ بذلک ثم عاد عن قریب لم یکن ذلک أکلتین بل واحدۃ۔ ھذا مذھب الشافعی رحمہ اللہ‘‘ (زاد المعاد ۵ / ۵۷۵)
’’ امام ابن قیم کی ’’ زاد المعاد لھدي خیر العباد‘‘ میں ہے: بلاشک رضاعت دودھ پینے کا کام ایک بار کرنا ہے، جیسے ضربتہ (ایک مار) جلسۃ (ایک بار بیٹھنا) اکلۃ (ایک بار کھانا)، پس جب وہ بچہ چھاتی سے چمٹ گیا اور اس سے دودھ چوس لیا، پھر اس نے بغیر عارض کے اپنی مرضی سے چھوڑ دیا تو یہ ایک رضعہ ہے، کیونکہ شریعت اس بارے میں مطلق وارد ہوئی ہے اور اسے عرف پر محمول کیا ہے اور عرف یہی ہے۔ قطع عارض (یعنی کسی وجہ سے دودھ چوسنے کا سلسلہ منقطع کرنا) سانس لینا یا تھوڑا سستانا، آرام کرنا یا کسی ایسی چیز کے لیے ہٹنا جو اسے متوجہ کرلے، پھر فوراً ہی چھاتی کی طرف پلٹ پڑے تو یہ ایک ہی رضعہ ہوگا۔ جس طرح کہ کھانا کھاتے وقت کسی وجہ سے کھانا منقطع ہو جائے پھر فوراً ہی پلٹ کرکے کھانا شروع کردے تو یہ دوبار کھانا نہیں ہوگا، بلکہ ایک ہی ہوگا۔ یہ شافعی کا مذہب ہے۔‘‘
وأیضاً فیہ : ’’ وأما مذھب الإمام فقال صاحب المغني : إذا قطع قطعا بینا باختیارہ کان ذلک رضعۃ فإن عاد کان رضعۃ أخری‘‘ ( زاد المعاد ۵ / ۵۷۶)
’’ نیز اسی میں ہے کہ رہا امام رحمہ اللہ کا مذہب تو صاحب المغنی نے کہا: جب اس نے واضح طور سے اپنے اختیار سے منقطع کردیا تو یہ ایک رضعہ ہوا اور اگر وہ پھر لوٹ آیا تو یہ دوسرا رضعہ ہوا۔‘‘
اور ’’ سبل السلام شرح بلوغ المرام ‘‘ میں ہے:
’’ فمتی التقم الصبي الثدي، وامتص منه، ثم ترک ذلک باختیارہ من غیر عارض، کان ذلک رضعة، والقطع العارض کتنفس واستراحة یسیرة ولشيء یلھیه ، ثم یعود من قریب کان ذلک رضعة واحدة، وھذا مذھب الشافعي ، وفي تحقیق الرضعة بواحدة وھو موافق للغة فإذا حصلت خمس رضعات علی ھذہ الصفةحرمت۔‘‘ (سبل السلام ۳ / ۲۱۳)’’ پس جب بچہ چھاتی سے چمٹ گیا اور اس سے اس نے چوس لیا، پھر چھوڑ دیا اپنی مرضی سے بغیر کسی عارض کے تو وہ ایک رضعہ ہے۔ قطع عارض جیسے سانس لینا، تھوڑا آرام کرنا اور لہو و لعب وغیرہ ہے، پھر وہ فوراً ہی واپس پلٹا، تو وہ ایک ہی رضعہ ہوگا۔ یہ شافعی کا مذہب ہے۔ رضعہ کے ایک ہونے کی تحقیق لغت کے موافق ہے۔ پس جب اسی طریقے سے پانچ رضعات ہو جائیں تو حرمت ثابت ہو جائے گی۔‘‘
اور ’’ مسک الختام شرح بلوغ المرام‘‘ میں ہے:
’’ حقیقت رضعۃ یک بار نوشیدن است مشتق از رضاع، ہمچو ضربۃ از ضرب وجلسۃ از جلس۔ پس چوں کودک پستان را در دہن گرفتہ و شیر میکدہ باختیار خود بے عارض بگذاشت ایں یک رضعہ باشد وقطع بعارض مثل تنفس یا استراحت یسیر یا غفلت بچیزے، وعود عنقریب خارج نمی کند او را از بودن رضعۃ واحدہ چنانکہ آکل اگر اکل را بایں چیز ہاقطع کردہ باز خوردن گیرد ایں یک اکلہ باشدو ایں مذہب شافعی رحمہ اللہ است در تحقیق رضعہ واحدہ۔ وایں موافق لغت است۔ وچوں پنج رضعہ بریں صفت حاصل شوند حرام گردانند رضیع را۔‘‘ (مسک الختام ۱ / ۲۵۶)
’’ رضاعت کا ثبوت ایک بار پینے سے ہے۔ رضعہ رضاع سے نکلا ہے، جیسے ضربۃ ضرب سے اور جلسۃ جلس سے۔ اس کے بعد جیسا کہ شیر خوار بچہ پستان کو اپنی مرضی سے منہ میں لیا ہو اور چوسا ہو، بغیر کوئی رکاوٹ چھوڑا ہو، یہ ایک رضعہ ہوتا ہے۔ آنے والے رکاوٹوں سے ہٹ کر، جیسے سانس لینا یا تھوڑا آرام کرنا یا کسی چیز سے مشغول ہونا۔ کچھ وقفے کے بعد دوبارہ پستان کو لینے سے ایک بار دودھ پینے کو نکالے، جیسا کھانے والا ان چیزوں سے وقفہ کرکے پھر کھائے تو ایک بار شمار ہوگا۔ ایک بار دودھ پینے کی تحقیق میں یہ امام شافعی کا مذہب ہے اور یہ لغت کے موافق ہے۔ اس قسم کا پانچ بار دودھ پینا ثابت ہو جائے تو دودھ پلائے ہوا بچے کو یہ پانچ رضاعتیں حرام بنائیں گی۔‘‘
خلاصہ ان عبارتوں کا یہ ہے کہ رضعت کے جو معنی محدث لوگ نے بیان کیے ہیں، اسی طرح سے جب تک پانچ دفعہ رضعات ثابت نہ ہوں گی، اس وقت تک زید کی ہندہ دودھ ماں نہ ہوگی اور نہ ہندہ کی لڑکی زید کے لیے حرام ہوگی بلکہ نکاح درست ہے۔
الراقم آثم محمد عین الدین غفرله اللہ المتین المٹیا برجی الکلکتاوي۔ الجواب صحیح والرأي نجیح۔ ’’ یہ جواب صحیح ہے اور رائے درست ہے۔‘‘