طلاق ثلاثہ کے متعلق رکانہ والی حدیث
طلاق ثلاثہ کے متعلق رکانہ والی حدیث:
( یہ خط جو چند سوالات اور ان کے جواب پر مشتمل ہے، مجموعہ فتاویٰ (قلمی، زیر رقم ۲۶۸) خدا بخش لائبریری پٹنہ، ( ورق ۱۸ /۱ ۔ ۱۹/ب) سے ماخوذ ہے)۔ [ع، ش]
الحمد للہ وکفی، وسلام علی عباده الذین اصطفی۔ أما بعد:از فقیر حقیر محمد شمس الحق۔ عفی عنہ۔ بخدمت شریف مولوی انوار الحق صاحب مدرس مدرسہ انوار العلوم ڈاکخانہ نوانگر ضلع بلیا۔ بعد سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ واضح ہو آپ نے تحریر فرمایا ہے:
آپ نے حاشیہ دارقطنی میں ایک مضمون تحریر فرمایا ہے، اس کی تحقیق مطلوب ہے۔ براہ نوازش جواب مدلل روانہ فرمائیے۔ کتاب ’’ التعلیق المغني‘‘ صفحہ (۴۴۹) میں بعد نقل روایت ابوداود جس میں ابو رکانہ کا قصہ ہے، آپ نے لکھا ہے: ’’ وھذا حدیث جید الإسناد ‘‘ ( اس حدیث کی سند جید ہے)۔
اس کے بعد یہ بھی لکھا ہے: ’’ والقصۃ معروفۃ ومحفوظۃ، وقد تابعہ علیھا داؤد بن الحصین، وھذا یدل علی أنہ حفظھا ‘‘ (یہ قصہ معروف و محفوظ ہے اور اس کو داود بن الحصین نے بھی نقل کیا ہے۔ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس نے اس قصے کو حفظ کیا ہے۔‘‘
اس کے متعلق یہ امور جواب طلب ہیں:
نمبر۱۔ طالق ابو رکانہ ہیں یا رکانہ؟
نمبر۲۔ ابو رکانہ کا صحیح ترجمہ کیا ہے اور یہ کس سَن (سال) میں اسلام لائے؟
نمبر ۳۔ داود بن الحصین نے کس روایت میں متابعت کی ہے؟
نمبر ۴۔ باوجود اس کے کہ اس حدیث میں بعض راوی مجہول واقع ہیں، جیسا کہ خود آپ نے اسی صفحہ مذکورہ میں لکھا ہے، وہ روایت جید الاسناد کس اصول سے قرار دی گئی ہے؟
پس جواب سوال اول یہ ہے کہ میرے علم و تحقیق میں طالق رکانہ ہے، نہ ابو رکانہ۔ اگرچہ سنن ابی داود میں جو روایت في ’’ باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث، من طریق عبد الرزاق عن ابن جریج عن بعض بني أبي رافع عن عکرمۃ ‘‘ مذکور ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طالق ابو رکانہ ہے، مگر یہ بعض رواۃ کا وہم ہے اور صحیح یہ ہے کہ طالق رکانہ ہے، نہ ابو رکانہ۔ چنانچہ اسی حدیث کے تحت میں ابوداود کی یہ عبارت ہے:
’’ قال أبوداود : وحدیث نافع بن عجیر وعبداللہ بن علي بن یزید بن رکانۃ عن أبیہ عن جدہ ’’ أن رکانۃ طلق امرأتہ البتۃ ، فردھا النبيﷺ ‘‘ أصح لأنھم ولد الرجل، وأھلہ أعلم بہ أن رکانۃ إنما طلق امرأتہ ‘‘ انتھی کلامہ ( سنن أبي داود، رقم الحدیث: ۲۱۹۶)
’’ ابوداود نے کہا: نافع بن عجیر اور عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ کی حدیث اپنے باپ کے واسطے سے اور وہ اپنے دادا کے واسطے سے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی، پس نبیﷺ نے اس عورت کو لوٹا دیا، صحیح تر ہے، کیونکہ وہ اسی آدمی کی اولاد ہے اور اس کے گھر والے اس بات کو زیادہ جانتے تھے کہ رکانہ نے اپنی عورت کو طلاق دے دی ہے۔‘‘
اور پھر سنن ابی داود باب في البتۃ کی ، جو من طریق الشافعی ہے، یہ عبارت ہے:
’’ حدثنا محمد بن إدریس الشافعي حدثني عمي محمد بن علي بن شافع عن عبید اللہ بن علي بن السائب عن نافع بن عجیر بن عبد یزید ابن رکانۃ أن رکانۃ بن عبد یزید طلق امرأتہ … الحدیث‘‘ انتھی ( سنن أبي داود، رقم الحدیث: ۲۲۰۶)
’’ محمد بن ادریس شافعی نے ہمیں بتایا، انھوں نے کہا کہ مجھے میرے چچا محمد بن علی بن شافع نے عبید اللہ بن علی بن سائب کے واسطے سے بتایا، انھوں نے نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ کے واسطے سے کہ رکانہ بن عبید یزید نے اپنی بیوی کو طلاق دی۔ الحدیث۔ ختم شد‘‘
’’ ومن طریق الزبیر بن سعید عن عبداللہ بن علي بن یزید بن رکانۃ عن أبیہ عن جدہ أنہ طلق امرأتہ … الحدیث‘‘ انتھی (سنن أبي داود، رقم الحدیث: ۲۲۰۸)
’’ اور زبیر بن سعید کے طریق سے انھوں نے عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ کے واسطے سے، انھوں نے اپنے باپ سے اور انھوں نے ان کے دادا کے واسطے سے روایت کی کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی … الحدیث۔ ختم شد‘‘
’’ وفي سنن الترمذي من طریق الزبیر بن سعید عن عبداللہ بن یزید بن رکانۃ عن أبیہ عن جدہ قال : قلت : یا رسول اللہ إني طلقت امرأتي البتۃ، فقال : ما أردت بھا ؟ قال : واحدۃ ، فذکر الحدیث‘‘ (سنن الترمذي، رقم الحدیث : ۱۱۱۷)
’’ اور سنن ترمذی میں زبیر بن سعید کے طریق سے، عبداللہ بن بزید بن رکانہ کے واسطے سے، انھوں نے اپنے باپ سے اور انھوں نے ان کے دادا کے واسطے سے بیان کیا کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: اس سے تمہاری کیا مراد ہے؟ انھوں نے کہا کہ ایک۔ پھر پوری حدیث ذکر کی۔‘‘
اور امام احمد بن حنبل و ابو یعلی الموصلی نے من طریق محمد بن اسحاق عن داود بن الحصین عن عکرمہ عن ابن عباس روایت کیا ہے، اس میں بھی رکانہ ہے۔ وھکذا عبارتہ:
’’ عن ابن عباس قال : طلق رکانۃ بن عبد یزید، أخوبني عبدالمطلب، امرأتہ ‘‘ انتھی ( مسند أحمد ۱ /۲۶۵ ، مسند أبي یعلی ۴ /۲۷۹)
’’ اور اس کی عبارت اس طرح ہے: ابن عباس کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا: رکانہ بن عبد یزید، جو بنو مطلب کے بھائی بند تھے، نے اپنی بیوی کو طلاق دی۔ ختم شد‘‘
اور ہم نے ’’ عون المعبود شرح سنن أبي داود ‘‘ ( ۴/ ۵۵۱) میں یوں لکھا ہے:
’’ ثم لیعلم أن في حدیث ابن جریج ذکر تطلیق أبي رکانۃ لا تطلیق رکانۃ، لکن عندي أنہ وقع الوھم فیہ من بعض الرواۃ، والصحیح ما في روایۃ عبداللہ بن علي بن یزید من أن المطلق إنما ھو رکانۃ، ونحن نظن أن أبا داود لأجل ھذا قال : وھذا أصح من حدیث ابن جریج أن رکانۃ طلق امرأتہ ، فقال : إن رکانۃ طلق، ولم یقل : إن أبا رکانۃ طلق، مع أن الحدیث الذي رواہ أبو داود من طریق ابن جریج وقع فیہ لفظ ’’ أبي رکانۃ‘‘ وقد أخرج الإمام أحمد ھذا الحدیث في مسندہ، ولیس فیہ ذکر أبي رکانۃ، بل فیہ ذکر رکانۃ، وإلیہ نسب التطلیق، فحدیث أحمد ھذا یدل دلالۃ واضحۃ علی أنہ قد وقع الوھم في حدیث أبي داود من بعض الرواۃ‘‘ واللہ أعلم
’’ پھر یہ بات جان لینا چاہیے کہ ابن جریج کی حدیث میں ابو رکانہ کی طلاق کا ذکر ہے، نہ کے رکانہ کے طلاق دینے کا۔ لیکن میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اس سلسلے میں بعض راویوں کو وہم واقع ہوا ہے۔ صحیح روایت وہ ہے جو عبداللہ بن علی بن یزید کی روایت میں ہے کہ طلاق دینے والے رکانہ ہی تھے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ابوداود نے اس بنا پر کہا ہے کہ ابن جریج کی حدیث کے مقابلے میں یہ حدیث زیادہ درست ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق دی۔ پس انھوں نے کہا کہ رکانہ نے طلاق دی تھی اور یہ نہیں کہا کہ ابو رکانہ نے طلاق دی تھی، باوجود اس کے کہ وہ حدیث جس کی روایت ابوداود نے کی ہے، ابن جریج کے طریق سے اس میں لفظ ’’ ابو رکانہ‘‘ آیا ہے۔ اس حدیث کی تخریج امام احمد نے اپنی مسند میں کی ہے اور اس میں ابو رکانہ کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس میں رکانہ کا ذکر ہے اور انھی کی جانب طلاق دینے کی نسبت ہے، احمد کی یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ ابوداود کی حدیث میں بعض راویوں کوہم ہوا ہے۔ ‘‘
جواب سوال دوم یہ ہے کہ ابو رکانہ چونکہ وہم راوی ہے، اس لیے اس کا وجود نہیں ہے اور کتاب ’’ (الاستیعاب) للحافظ ابن عبدالبر، و ’’ أسد الغابۃ‘‘ للحافظ ابن الأثیر، و ’’ تجرید أسماء الصحابۃ ‘‘ للحافظ الذھبي و ’’الإصابۃ‘‘ للحافظ ابن حجر رحمہ اللہ ‘‘ میں ترجمہ موجود ہے۔ (الإستیعاب ۱/ ۱۵۰ ، أسد الغابۃ ۱ / ۳۷۱)
قال الحافظ في الإصابۃ : ’’ رکانۃ بن عبد یزید بن ھاشم المطلبي۔ أسلم رکانۃ في الفتح ، وفي الترمذي من طریق الزبیر بن سعید عن عبداللہ بن یزید بن رکانۃ عن أبیہ عن جدہ قال : قلت : یا رسول اللہ إني طلقت امرأتي البتۃ ، فقال : ما أردت بھا ؟ قال : واحدۃ ۔ وفي إسنادہ اختلاف، وروی عنہ نافع بن عجیر، وابن ابنہ علي بن یزید بن رکانۃ۔ مات بالمدینۃ في خلافۃ معاویۃ، وقیل في خلافۃ عثمان‘‘ انتھی مختصرا ( الإصابۃ لابن حجر ۲ / ۴۹۷)
’’ حافظ نے ’’الاصابہ‘‘ میں کہا ہے کہ رکانہ بن عبد یزید بن ہاشم بن مطلبی نے فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیا۔ ترمذی میں زبیر بن سعید کے طریق سے، عبداللہ بن یزید بن رکانہ کے واسطے سے وہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ! میں نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی ہے۔ آپﷺ نے پوچھا: طلاق بتہ سے تمہاری کیا مراد ہے؟ انھوں نے کہا کہ ’’ ایک طلاق‘‘۔ اس کی اسناد میں اختلاف ہے اور ان سے روایت کی ہے نافع بن عجیر اور ان کے پوتے علی بن یزید بن رکانہ نے۔ ان کی موت معاویہ کے زمانہ خلافت میں مدینہ میں ہوئی اور ایک قول کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں۔‘‘
جواب سوال سوم یہ ہے کہ روایت داود بن الحصین کی مسند امام احمد میں ہے۔ وھذا لفظہ:
’’ حدثنا سعد بن إبراھیم حدثنا أبي عن محمد بن إسحاق قال : حدثني داود بن الحصین عن عکرمۃ مولی ابن عباس عن ابن عباس قال : طلق رکانۃ عبد یزید أخو المطلب امرأتہ ثلاثا في مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا، فسألہ رسول اللہ ﷺ : کیف طلقتھا؟ فقال : طلقتھا ثلاثا في مجلس واحد، قال : فإنما تلک واحدۃ، فارجعھا إن شئت ، قال : فراجعھا ، قال : وکان ابن عباس یری أن الطلاق عند کل طھر‘‘ ( مسند أحمد ۱/۲۶۵)
’’ ہمیں بتایا سعد بن ابراہیم نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں بتایا میرے باپ نے محمد بن اسحاق کے واسطے سے، انھوں نے کہا کہ مجھ سے داود بن حصین نے بیان کیا ابن عباس کے غلام عکرمہ کے واسطے سے، انھوں نے ابن عباس کے واسطے سے کہ رکانہ بن عبد یزید مطلب کے بھائی نے اپنی عورت کو ایک مجلس میں تین طلاق دی۔ پھر اپنی اس حرکت پر وہ بہت زیادہ غمگین ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے دریافت فرمایا: تم نے اپنی بیوی کو کیسے طلاق دی؟ تو انھوں نے کہا کہ میں نے ایک مجلس میں تین طلاق دی۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ ایک ہی ہے، اگر چاہو تو رجوع کرلو۔ (راوی نے) کہا کہ انھوں نے رجوع کرلیا۔ انھوں نے کہا کہ ابن عباس کی رائے یہ ہے کہ طلاق ہر طہر میں ہے۔‘‘
قال الحافظ ابن القیم : ’’ ورواہ الحافظ أبو عبداللہ محمد بن عبدالواحد المقدسي في مختاراتہ التي ھي أصح من صحیح الحاکم، فإن قیل : حدیث ابن جریج فیہ مجھول ، وھو بعض بني رافع، والمجھول لا تقوم بہ الحجۃ فالجواب من ثلاثۃ أوجہ :
’’ أحدھما : أن الإمام أحمد أخرج من طریق محمد بن إسحاق حدثني داود بن الحصین عن عکرمۃ عن ابن عباس قال : طلق رکانۃ امرأتہ فذکر الحدیث۔
’’ والثاني : أن ھذا المجھول ھو من التابعین من أبناء مولی النبيﷺ ، ولم یکن الکذب مشھورا فیھم، والقصۃ معروفۃ محفوظۃ، وقد تابعہ علیھا داود بن الحصین۔ وھذا یدل علی أنہ حفظھا۔
’’ الثالث: أن روایتہ لم یعتمد علیھا وحدھا، فقد ذکرنا روایۃ داود بن الحصین وحدیث أبي الصھباء الذي عند مسلم وغیرہ، فھب أن وجود روایتہ وعدمھا سواء ففي حدیث۔ داود کفایۃ، وقد زالت تھمۃ تدلیس ابن إسحاق بقولہ : حدثني ‘‘ انتھی کلامہ مختصرا (إغاثۃ اللھفان ۱ / ۲۸۶)
’’ حافظ ابن قیم نے کہا ہے: اس کی روایت حافظ ابو عبداللہ محمد بن عبدالواحد مقدسی نے اپنی مختارات، جو صحیح حاکم سے زیادہ صحیح ہے، میں کی ہے۔ پس اگر کہا جائے کہ ابن جریج کی حدیث میں مجہول راوی ہیں اور وہ بنو رافع کا کوئی شخص ہے اور مجہول راوی کی روایت سے حجت نہیں قائم کی جاسکتی تو اس کا جواب تین صورتوں میں ہے:
’’ پہلی صورت: امام احمد نے تخریج کی محمد بن اسحاق کے طریق سے، انھوں نے کہا کہ مجھے داود بن حصین نے عکرمہ کے واسطے سے بیان کیا اور عکرمہ نے ابن عباس کے واسطے سے، انھوں نے کہا کہ رکانہ نے اپنی عورت کو طلاق دی۔ پھر پوری حدیث کو ذکر کیا۔
’’ دوسری صورت: یہ مجہول (راوی) تابعین میں سے ہے، جو نبیﷺ کے غلاموں کی اولاد میں سے ہے اور یہ لوگ کذب گوئی میں شہرت نہیں رکھتے اور یہ قصہ معروف و محفوظ ہے، جس کی متابعت داود بن حصین نے کی ہے۔ یہ اس بات پر دال ہے کہ انھوں نے اس کو یاد کیا ہے۔
’’ تیسری صورت: اس روایت پر صرف ایک شخص نے اعتماد نہیں کیا ہے بلکہ ہم نے داود بن حصین کی روایت بیان کردی ہے اور ابو صہبا کی حدیث جو مسلم وغیرہ میں ہے۔ لہٰذا یہ بات واضح ہوئی کہ ان کی روایت کا وجود اور عدم وجود برابر ہے۔ پس داود کی حدیث کافی ہے اور اس طریقے سے ابن اسحاق کی تدلیس کی تہمت اس قول ’’حدثني‘‘ کی بنیاد پر زائل ہو جاتی ہے۔‘‘
پس حدیث داود بن الحصین کی متابع ہے حدیث ابن جریج کی۔ کیونکہ قصہ رکانہ جس میں طلاق ثلاثہ واقع ہے، روایت کیا ہے ابن جریج نے : ’’ عن عکرمۃ عن ابن عباس ‘‘ کما أخرجہ أبوداود۔ (سنن أبي دادد، رقم الحدیث: ۲۱۹۶)
اور روایت کیا ہے داود بن الحسین نے: ’’ عن عکرمۃ عن ابن عباس‘‘ کما أخرجہ أحمد بن حنبل وغیرہ۔ اور متابعت تامہ اور متابعت قاصرہ دونوں معتبر ہیں اصول حدیث میں۔ ( مسند أحمد : ۲۶۵)
جواب سوال رابع کا یہ ہے کہ سنن ابی داود میں حدیث ابن عباس جو بایں اسناد مروی ہے:
’’ حدثنا أحمد بن صالح نا عبدالرزاق نا ابن جریج أخبرني بعض بني أبي رافع مولی النبيﷺ عن عکرمۃ عن ابن عباس۔‘‘ (سنن أبي داود، رقم الحدیث: ۲۱۹۶)
’’ روایت کیا ہمارے لیے احمد بن صالح نے عبدالرزاق سے اور انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے بیان کیا ابن جریج نے اور انھوں نے کہا کہ بیان کیا ہمارے لیے بنی ابی رافع نے جو نبیﷺ کا مولیٰ ہے اور انھوں نے عکرمہ سے اور انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔‘‘
اس کے کل رواۃ ثقہ ہیں اور معروفین سے ہیں۔ سوائے شیخ ابن جریج کے کہ وہ مجہول ہے۔ پس تعلیق مغنی میں استثناء موجود ہے۔ عبارت اس کی یہ ہے:
’’ وھذا حدیث جید الإسناد ، غیر أن بعض بني أبي رافع لم یعرف‘‘ انتھی
’’ یہ حدیث عمدہ اسناد والی ہے۔ البتہ اس میں ’’ بعض بني أبي رافع ‘‘ غیر معروف ہیں۔ ختم شد۔‘‘
ہاں ’’ بني أبي رافع‘‘ سے نفی صدورِ کذب کی گئی ہے، مگر اس سے جہالتِ راوی رفع نہیں ہوسکتی۔